شاعری کا کوہِ آتش فشاں:راحت اندوری

\"\"
٭ڈاکٹر خالد مبشر
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی 110025

\"\"
وبا نے ہم سے راحت اندوری کو بھی چھین لیا۔عوام کے دلوں پر حکومت کرنے والے بے تاج بادشاہ کی دھڑکنیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں:

ہم نے ملکوں کی طرح لوگوں کے جیتے ہیں
یہ حکومت کسی تلوار کی محتاج نہیں
آج مشاعروں کی کس آواز کو چپ لگ گئی؟ وہ تو ایک بجلی کا کڑکا، ایک شیر کی دہاڑ بلکہ اسرافیل کا صور تھا۔اس کی للکار سے ایوانِ اقتدار میں زلزلے بپا ہوجاتے تھے،اس کے تیور دیکھ کر بڑے بڑے شاہانِ وقت کا پتہ پانی ہوجاتا تھا۔وہ فرقہ پرستی کے زہریلے ناگوں کو پاؤں تلے کچل دیتا تھا،اس نے ظالم وجابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آوازہء حق بلند کیا۔وہ جب مشاعرے کے مائک پر آتا تو لاکھوں کے مجمعے میں صرف اسی کا وجود ہوتا تھا،اسی کی آواز ہوتی،اسی کا جادو سر چڑھ کر بولتا۔ترنم اور رومانی فضا کافور ہوجاتی۔پھر یوں ہوتا کہ بس ایک شعلہ وشرر، ایک رعد وبرق،ایک غضب ناک آندھی،ایک ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر،ایک عصائے موسیٰ کی ضرب کاری اور ایک قیامت خیز گرج ہوتی۔
ایسے زندہ وتوانا دیو پیکر لیجنڈ کے سامنے بھلا کس کی چلتی؟ سب بونے نظر آتے۔لہٰذا فطری ہے کہ راحت اندوری سے جلنے بھننے والوں کی بھی ایک ٹولی بن گئی۔میں نے کئی بڑے عالی وقار ناقدین و شعرائے کرام کو راحت اندوری کا مذاق اڑاتے سنا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف محرومی کی نفسیات ہے۔انھیں ڈرامے باز، ایکٹر اور پرفارمر کہہ کر ان کی تحقیر و تضحیک کی گئی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہماری اردو روایت جامد و ساکت اور بت کی طرح کھڑے ہوکر مردہ و بے جان انداز سے اشعار کی قرات سے ہی عبارت ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ہماری قدیم مشرقی روایت دراصل \”زبانی روایت\” رہی ہے اور زبانی بیانیہ ہمارے یہاں ایک نہایت ممتاز فن رہا ہے۔داستان گوئی، قصیدہ خوانی اور مرثیہ خوانی وغیرہ کا تعلق دراصل اسی فن سے ہے۔اس فن کا کمال یہ تھا کہ فن کار اپنی آواز کے زیر وبم، چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات وسکنات سے رزم و بزم، حسن و عشق اور طلسم و سحر کی کیفیت اور مناظر کو آنکھوں کے سامنے زندہ ومتحرک کرنے پر قدرت رکھتا تھا۔میر انیس کو تحت اللفظ پر ایسا ملکہ حاصل تھا کہ جب ایک بار انھوں نے یہ مصرع پڑھا:
ضیغم ڈکارتا ہوا نکلا کچھار سے
تو پڑھنے کا انداز ایسا تھا کہ سامعین پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے لگے کہ کہیں واقعی شیر تو نہیں آگیا۔
میرا خیال ہے کہ راحت اندوری بلند خوانی کے احیا کار ہیں ۔انھوں نے تحت خوانی کے اس فن کی ازسرِ نو بازیافت کی ہے اور اس فن کو نئی بلندیاں عطا کی ہیں۔
عموماََ اکیڈمک دنیا میں راحت اندوری اور اس قبیل کے دیگر شعرا کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ وہ تو ایک عوامی شاعر ہیں۔ان کے کلام میں گہرائی،گیرائی،فن کاری اور فکر وفلسفہ نہیں ہے۔
یہاں یہ سوال پوری شدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ کیا عوامی شاعر ہونا عیب ہے؟کیا کسی شاعر کے معمولی اور ادنیٰ ہونے کے لیے یہ دلیل درست ہوسکتی ہے کہ وہ عوام الناس میں مقبول ہے؟ کیا ہر شاعر کا رنگ ایک سا ہونا چاہیے۔سب کے یہاں ایک سا تغزل، ترنم، دھیما پن اور لوچ ہونا چاہیے؟ کیا الگ الگ رنگ وآہنگ ہماری شاعری کا اصل حسن نہیں ؟
اگر ان سوالات کا جواب \”ہاں\” ہے تو پھر کبیر، میر اور نظیر کے عوامی دوہوں، غزلوں اور نظموں کو کس خانے میں رکھا جائے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ کسی شاعر کے اشعار کا کثرت سے عوام کے ہونٹوں پر مچلنا اس فن کار کی عظمت اور تخلیقی توانائی کی دلیل ہے۔
راحت اندوری کو یاد کرتے ہوئے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہر شاعر کا دقیق فلسفے بگھارنا، گاڑھے فکری مضامین باندھنا اور فن کاری کے نام پر دبیز ابہام، علامتیت اور پیچیدہ طرز اختیار کرنا لازمی نہیں ہے۔
راحت اندوری کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فکر کو جذبہ بنادیا ہے۔وہ الفاظ لغت سے ڈھونڈ کر نہیں لاتے بلکہ عوام کے ہونٹوں سے چھین کر شعر میں ڈھال دیتے ہیں۔ان کا اسلوب نسوانی،مدھم اور شیریں نہیں بلکہ مردانہ، قلندرانہ اور رجز آمیز ہے۔وہ میدانِ جنگ میں دشمنوں کو للکارتے ہیں اور انھیں ان کی اصل اوقات بتاتے ہیں۔
ان کی آواز مظلوں،محروموں اور اقلیتوں کے دلوں کی سچی آواز ہے۔ان کی شاعری میں کچھ بھی مستعار نہیں۔ان کا سب کچھ اپنا ہے۔وہ لفظ، خیال،مواد اور اسلوب کسی سے ادھار نہیں لیتے۔جارحانہ طنز میں اس عہد کا کوئی شاعر ان کا ثانی نہیں ہے۔
گرچہ راحت اندوری کی شاعری پر ناقدین نے بہت کم توجہ دی ہے، لیکن پھر بھی \”لمحے لمحے راحت اندوری شخص اور شاعر\” کے نام سے طارق شاہین اور عزیز عرفان نے 2002 میں ایک کتاب الف پبلی کیشنز اندور سے شائع کی جس میں راحت اندوری کی شخصیت، فن اور سوانحی کوائف کے حوالے سے علی سردار جعفری، جگن ناتھ آزاد، قمر رئیس، عبدالقوی دسنوی، ندا فاضلی، وامق جونپوری، رفعت سروش، مظفر حنفی، عتیق اللہ، زبیر رضوی، توصیف تبسم، ظفر گورکھپوری، قیصر الجعفری، عنوان چشتی، بشیر بدر، نظام صدیقی، شہپر رسول اور اسعد بدایونی وغیرہ سمیت درجنوں ادبا اور شعرا کے تاثرات اور مضامین موجود ہیں ۔
انھیں دیکھنے سے مجھ پر بہت خوش گوار اثر مرتب ہوا۔یہاں صرف نمونتاَ کچھ تراشے پیش ہیں :
اس نوجوان شاعر کا شعری رشتہ قرونِ وسطیٰ کی روایات سے ملتا ہے\”
(علی سردار جعفری)
راحت اندوری اپنے منفرد اسلوب تحت اللفظ میں شعر کی وہ تصویر کھینچتا ہے کہ اس کا کلام سامعین کے ذہن میں نشتر کی طرح اتر جاتا ہے۔\”
(وامق جونپوری )
…..ایسا لگا جیسے کسی تیز شراب کی بوتل کا کاگ اڑ گیا ہو اور شراب ابلنے لگی۔سامعین اس کے نشے میں نہاگئے۔پھر کچھ عرصے بعد ایسا محسوس ہوا کہ مشاعروں کی فضا پر راحت اندوری گھٹا کی طرح چھا گئے ہیں۔\”
(رفعت سروش)
…..مشاعرے کے رومانی ماحول اور لذتیت کے مارے ہوئے ذہنوں سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ اسٹیج پر اپنے مقام سے کلام کرتا ہے۔وہ اپنے غیر رومانی اشعار سے مشاعرہ کی رومانی فضا کو بدل دیتا ہے اور سننے والوں کو خواب آور ماحول سے نکال کر زندگی کے حقائق پیش کرتا ہے\”
(عنوان چشتی)
……ظالم نے پینترا بدل کر پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔تو مشاعرہ بارود کے ڈھیر کی طرح اڑ گیا۔مائک پر ہوتے ہیں لگتا ہے پستول کا گھوڑا چڑھا ہوا ہے. \”
(مظفر حنفی)
….. یہ زخموں کو کریدنے، احساس کی آنچ کو بڑھانے اور سوچ کو مضطرب بنانے والی شاعری ہے۔یہ ایک ایسی نئی کمان کا تیر ہے جو جدید میزائیلوں کی طرح اپنا نشانہ خود تلاش کرلیتا ہے۔\”
(قمر رئیس)
راحت کی غزل میں زندگی کی قوت، عصری حقیقتوں کا ادراک،اپنی تہذیبی یادداشت اور مذہبی روحانیت کا ایسا خوبصورت امتزاج ہے کہ موضوعات کے لحاظ سے بھی ان کی غزل وسیع کینوس کی غزل ہے۔\”
(بشیر بدر)
وہ چبھتے ہوئے، تیکھے اور طنز سے بھرپور شعر کہنے کی بڑی قدرت رکھتے ہیں۔ان کا شعر سیدھا اپنے سامع سے واسطہ رکھتا ہے۔\”
(زبیر رضوی)
راحت اندور سے نکلے اور بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک بن کر ہمارے مشاعروں کے مطلع پر چھا گئے۔\”
(ملک زادہ منظور احمد)
غزل ان کے یہاں کئی تیور رکھتی ہے۔وہ شکوہ بھی ہے، احتجاج بھی، طعن بھی ہے، تشنیع بھی، کہیں خاموشیوں سے معمور ہے تو کہیں آواز کی بلندی کو اپنی پہچان بنالیتی ہے۔\”
(عتیق اللہ)
شاعری دراصل وہی ہے جو اپنی تخلیقی انفرادیت، تازگی اور معنی خیزی کی بنیاد پر الگ سے پہچانی جاتی ہے۔راحت اندوری کی غزل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو اپنے مخصوص رنگ وآہنگ کی بنا پر اپنا جواز مہیا کرتی ہے۔\”
(شہپر رسول)
وسیم بریلوی نے بجا چور پر انھیں \”میزائیلی لہجے اور تیزابی تیور کا فن کار\”کہا ہے۔
راحت اندوری کے شعری مجموعے \”دھوپ دھوپ\”،\”میرے بعد\”،\”پانچواں درویش\”،\”رت بدل گئی\”،\”ناراض\” اور \”موجود\” شائع ہوچکے ہیں۔
راحت اندوری کی قلندری، بیباکی، تیور،مردانہ صلابت، شدید طنز،فلک شگاف آہنگ اور معاصر سیاسی و سماجی حسیت سے لبریز شاعری زبانِ خلق پر نقارہء خداوندی بن کر ازبر ہے۔اسی قبیل کے یہ چند اشعار بھی ہیں :
ہمارے جسم کے داغوں پہ تبصرہ کرنے
قمیص لوگ ہماری پہن کے آتے ہیں
مصلحت کہیے اسے یا کہ سیاست کہیے
چیل کوؤں کو بھی شاہین کہا کرتے ہیں
نئے کردار آتے جارہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
رہے خیال کہ مجذوبِ عشق ہیں ہم لوگ
اگر زمین سے پھونکیں تو آسماں اڑ جائیں
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے کا
جو میری پیاس سے الجھے تودھجیاں اڑ جائیں
رکھو یہ پیلے مفلر اور خاکی چڈیاں
ہم پرانے ہیں، ہمیں پگڑی پرانی چاہیے
ہماری سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارا خون بھی شامل ہے اس کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
اب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
اس میں کیا شک ہے کہ راحت اندوری کے ساتھ اردو شاعری اور مشاعرے کی ایک زندہ وتوانا آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی:
جنازے پر مرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جارہا ہے
میں جب مرجاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا
٭٭٭٭

Leave a Comment