شاعر اطفال۔۔حیدر بیابانی کی حمدومناجات نگاری

شہنازپروین این قاضی
ریسرچ اسکالر، آر ٹی ایم ،ناگپوریونیورسٹی، ناگپور۔

انسان کی زندگی کا کوئی عمل اور کوئی لمحہ حمد سے خالی نہیں۔ نماز، تلاوت قرآن، کھانا، پینا، سونا، جاگنا اگر سنت طریقے کے مطابق ہے تو سب ’’حمد‘‘ ہے۔ سبحان اللہ، الحمداللہ، ماشاء اللہ، اللہ اکبر اور اس طرح کے کلمات جو ہر مسلمان کی زبان پر رہتے ہیں ’’حمد‘‘ ہی ہیں۔ بندے کا کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتے وقت انشاء اللہ کہنا ’’حمد‘‘ ہے۔ بندہ اس وقت یہ اقرار کرتا ہے کہ میرے ارادہ سے کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے گا تو یہ کام ہوجائے گا۔
اللہ نے عبادات کے لئے اوقات مقرر کردئیے ہیں۔ انہی اوقات میں ان عبادات کو کیا جاسکتا ہے۔ ان کو ممنوع اوقات میں کرنا مکروہ ہے۔ لیکن حمدوثنا اور ذکر اللہ کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں کوئی پابندی نہیں، نہ وضو کی نہ پاکی کی۔ ناپاکی کی حالت میں بھی دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرکے اس کی ثنا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح ہر بندۂ مومن دن رات اللہ کی حمدوثنا میں کسی نہ کسی طرح رطب اللسان رہتا ہے۔
مناجات میں بندہ کا تعلق اللہ سے ہوتا ہے۔ مانگنا، آہ وزاری کرنا، پچھتانا اور معافی مانگنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ اللہ نے بندوں کو معافی مانگنے کے لئے کہا ہے۔ اپنے جلال اور عزت کی قسم کھاکر کہا ہے کہ تم مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا۔ مجھ سے معافی چاہو میں معاف کروں گا۔ گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائو میں ستّاری کروں گا اور گناہوں کو معاف کردوں گا بلکہ انھیں نیکیوں سے بدل دوں گا۔ اللہ نے اس بندہ کو زیادہ پسند کرتا ہے جو اپنے گناہ پر پچھتائے اور معافی مانگے۔
شاعری میں حمدومناجات کے لئے کوئی مخصوص اسلوب اور آہنگ مقرر نہیں ہے۔ غزل، نظم، مسدس، ترجیع بند، ترکیب بند کسی بھی ہیت میں کہی جاتی ہے صرف جذبہ کی ضرورت ہے۔ حمدوثنا لکھتے وقت شاعر کا دل پاک اور ذہن صاف ہو خدا کی بڑائی اور کبریائی کا اسے احساس ہو اور وہ جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو۔ نعت کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ نعت کا کہنا گویا تلوار کی دھار پر چلنے سے بھی زیادہ نازک ہے۔ حمد تو خالق کائنات کی حمدوثنا بیان کرنا ہے اس کو بیان کرنے میں یہ دھار اور تیز ہوجاتی ہے۔ اللہ سے محبت کا دعویٰ ہو اس کی حمدوثنا بھی بیان کی جارہی ہو اور ساتھ ہی اس کی نافرمانی بھی جاری ہوتو دعویٰ جھوٹا اور کسی کام کا نہیں۔ دعویٰ کے ساتھ جذبۂ اطاعت وفرمانبرداری کا ہونا ضروری ہے۔
مناجات نظم کرتے وقت عاجزی، انکساری اور خاکساری کا جذبہ کارفرما رہے۔ دل میں اللہ کی ہیبت وجلال اور اس کا خوف ہو۔ اسلوب بیان اور الفاظ سے مسکینی اور بے کسی کا اظہار ہو۔ شاعرانہ فنی خوبیوں کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ قرآن شریف میں وارد ہے کہ ’’اپنے رب کو عاجزی سے پکارو‘‘ اس بات کاخیال رہے کہ میرا رب میری بات کو سن رہا ہے۔ وہ میرے سامنے ہے۔ وہ بہت سخی ہے۔ اپنے بھکاریوں کو دھتکارتا نہیں اور نہ کسی کو محروم رکھتا ہے۔ حمدومناجات لکھتے وقت شاعر کا دل تصنع اور ظاہرداری سے پاک ہو اور اخلاص، خشوع وخضوع اور دل سوزی سے سرشار ہو۔ اللہ سے عشق ومحبت کے بے پناہ جذبات میں ڈوب کر دل کی گہرائیوں کے ساتھ حمدومناجات لکھی جائے کہ سننے اور پڑھنے والوں کا آتش شوق بھی بھڑک اٹھے۔
اردو شاعری میں قدیم وجدید شعرا کے حمدیہ ومناجاتی کلام سے چند شعرا کے منتخب اشعار یہاں درج کئے جاتے ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی سورۃ سورۂ فاتحہ جسے سورۂ الحمد بھی کہا جاتا ہے۔ اس سورۃ میں اللہ کی حمدوثنا بیان ہوئی ہے۔ کئی شعرا نے اس کے منظوم تراجم کئے ہیں ان میں ایک ترجمہ کافی معروف اور مقبول ہوا ہے۔ ایک زمانے میں سرکاری اور غیر سرکاری مدارس میں اسکول شروع ہونے سے قبل یہ ’’حمدیہ نظم‘‘ سبھی بچے خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے اس کا پہلا شعر ہے :
آغاز ہمارے کاموں کا ہے نام سے تیرے جگداتا

تو رحم وکرم کا سرچشمہ ہے فیض ترا ہی لہراتا
حیدر بیابانی کے بیشتر نظموں کی مجموعوں کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہی ہوا ہے۔ ان کی بعض حمد تو بچوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ ہم یہاں چند حمدو مناجات نقل کررہے ہیں اس سے حیدر کی قادرالکلامی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ حیدر صاحب بھی اسی بحر میں آزمائی کی ہے۔
جگ داتا

’’آغاز ہمارے کاموں کا ہے نام سے تیرے جگ داتا‘‘

ہم لوگ سویرے اُٹھ اُٹھ کر گُن تیرے خدایاگاتے ہیں
دن بھر کی کڑی دھوپوں میں سدا ہم لطف کے سائے پاتے ہیں
بادل جو کرم کے اُٹھ جاتے سیراب زمانہ ہو جاتا
’’آغاز ہمارے کاموں کا ہے نام سے تیرے جگ داتا‘‘

جو راہ دکھائی ہے تونے اس راہ پہ آقا چلنا ہے
بس تیری محبت پانا ہے بس تیری وفا میں ڈھلنا ہے
سچ بات سے اپنی ہو یاری حق بات سے اپنا ہو ناتا
’’آغاز ہمارے کاموں کا ہے نام سے تیرے جگ داتا‘‘
خلّاق ہے تو رزّاق ہے تو ستّار ہے تو غفّار ہے تو
کیا خوب بنایا دنیا کو اللہ بڑا فن کار ہے تو
ہر روز الگ ہر آن جُدا اک تو ہی کرشمے دکھلاتا
’’آغاز ہمارے کاموں کا ہے نام سے تیرے جگ داتا‘‘
(ماخوذ ’’ننھی منّی باتیں دواز دہم)
اللہ کی نعمتوں اور عنایتوں کا انسان جتنا شکر ادا کرے کم ہے۔ دیکھئے شکرکے پہلو کو حیدرصاحب نے کس خوبصورتی سے نبھایا ہے۔ وہ بچوں کو اللہ کی نعمتوں سے کس طرح روشناس کرارہے ہیں کہ وہ ذہن نشین بھی ہوجائے۔ ملاحظہ ہو ؎
اللہ نے کیا ہے
اللہ نے کیا ہے
اللہ نے کیا ہے
میلہ لگا دیا ہے ہر سمت اس زمیں پر
سب کچھ سجا دیا ہے اس نے کہیں کہیں پر
تاروں کو جگمگایا مہکا دیا گلوں کو
چمکایا ماہِ کامل چہکایا بلبلوں کو
اللہ نے کیا ہے
اللہ نے کیا ہے
پانی بھری ہوائیں ٹکرائے پربتوں سے
جھرنوں کو زندگی دی بارش کی برکتوں سے
مشرق کی وادیوں سے سورج نکال لایا
یوں دھوپ کی تمازت وہ بے مثال لایا
اللہ نے کیا ہے
اللہ نے کیا ہے
گلشن کو لالیاں دیں کھیتوں کو بالیاں دیں
بھرپور بار آور پیڑوں کو ڈالیاں دیں
کھلیان بھر دیا ہے احسان کر دیا ہے
پودوں کے بازئوں پر پھل دھر دیا ہے
اللہ نے کیا ہے
اللہ نے کیا ہے

نظم ’’اللہ بولو‘‘ میں بھی شاعر نے اللہ کی حمدوثنا ہی بیان کی ہے مگر بچوں کی زبان سے اللہ بلوادیا ہے۔ ان کا استفہامیہ لہجہ بچوں کو لبھاتا ہے۔ ملاحظہ ہو ؎
اللہ بولو

دن نکلا ہے آنکھیں کھولو اللہ بولو
جاگو جاگو بولو بولو اللہ بولو

چمکے ذرّہ ، ذرّہ ڈولے پتّہ پتّہ
سب کچھ ڈولے تم بھی ڈولو اللہ بولو

شبنم ، خوش بو ، رنگ ونور ، ہوا چہکاریں
قدرت کے سب موتی رولو اللہ بولو

رستہ دیکھیں مکتب کے سارے دروازے
جائو جاکر ان کو کھولو اللہ بولو

چلتے رہنا منزل پالینے کا ضامن
چلنے والوں کے سنگ ہولو اللہ بولو
مناجات نظم کرتے ہوئے شاعر اللہ کی کبریائی بیان کرنے کے بعد عجزوانکساری سے اللہ کے حضور دعاگو ہے۔ مزید یہ کہ شاعر نے بچوں کو اللہ کی کبریائی اور عظمت دکھانے کے لیے خود کے وجود پر غوروخوص کی دعوت دی ہے۔ جسم کے اعضاء اور ان کی خصوصیات پر غور کرکے انسان اللہ کی حقانیت اور کبریائی کا قائل ہوجائے۔ حیدر بیابانی چھوٹے چھوٹے لفظوں میں بچوں کو کس طرح ذہن نشین کراتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ؎
اللہ تری ذات

میں کہ اللہ تری ذات کے صدقے جائوں
تونے بخشے مجھے دو ہاتھ ، دئیے دو پائوں
دانت بتیس دئیے انگلیاں کتنی ساری
بات کرنے کے لیے دی ہے زباں دو دھاری
دیکھنے کے لیے دے دی ہے مجھے آنکھیں دو
بات سننے کے لیے کان کی سوغاتیں دو
کس فراغت سے بنایا گیا میرا نقشہ
سونگھنے کے لیے دو ناک کے نتھنے بخشا
خوب بازو دئیے دو دو مجھے دائیں بائیں
دونوں محنت کریں دونوں ہی کمائیں کھائیں
نرم بالوں کو اگایا ہے ہزاروں تن پر
کس قدر جال بچھایا ہے رگوں کے اندر
اتنے اعضاء دئیے دو ۔ دو کہ نہیں جن کا حساب
کارآمد ہیں سبھی ، ایک ہے دوجے کا جواب
کاش دو دو دئیے ہوتے مجھے دل اور دماغ
کتنے حکمت کے محبت کے جلاتا میں چراغ
چار جانب میں اندھیروں میں اجالا کرتا
جگ سے نفرت کا حماقت کا نکالا کرتا
دو گُنا ہوتا میں دل دار دماغی دُہرا
ساری دنیا میں مرے نام کا ہوتا شہرہ
اللہ مسلمان کہتے ہیں اور ایشور ہندو۔ دونوں کی منشا اور مدعا اللہ ہی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ہندوستانی تہذیب کے حوالے سے شاعر دیکھئے کس انداز میں بچوں کی زبان میں اللہ کی حمدوثنا بیان کرتا ہے اور نانک چشتی گوتم اور مہاویر کا ذکر کرتے ہوئے قومی یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے ؎
ایشور اللہ

’’ایشور اللہ تیرے نام‘‘
تو نانک کو سب سے پیارا
تو چشتی کا راج دلارا
تو گوتم کی من کی دھارا
تو مہاویر کی آنکھ کا تارا
چپّہ چپّہ تیرا دھام
’’ایشور اللہ تیرے نام‘‘
تونے جسم و جان دیے ہیں
سننے والے کان دیے ہیں
دیکھنے والی آنکھیں دی ہیں
چلنے والی سانسیں دی ہیں
رگ رگ میں تیرا انعام
’’ایشور اللہ تیرے نام‘‘
اُجلی اُجلی دھوپ کی دولت
چندا کے ہر روپ کی دولت
پانی کی سوغات نرالی
اور ہوا سکھ دینے والی
بخشا تونے سب بے دام
’’ایشور اللہ تیرے نام‘‘
تو نیّا کو پار لگا دے
طوفانوں کا زور گھٹا دے
ان جیسی ہر رات بنادے
توہی بگڑی بات بنادے
تو بنوا دے بگڑے کام
’’ایشور اللہ تیرے نام‘‘
اللہ کی شان اور حمدوثنا نظم میں تو خوب اچھی لگتی ہیں، غزل کے طرز پر محبوب کی تعریف تو شاعر حضرات خوب کرتے ہیں لیکن اگر کسی شاعر نے محبوب اور اپنا عزیز اللہ کو ہی بنالیا ہو تو وہ غزل میں بھی اللہ کے ہی گن گان کرے گا۔ ایسی ہی ایک غزل ملاحظہ ہو ؎
رحمتوں کے نزول کر یارب

زحمتیں سب فضول کر یارب
راہ جو بھی جدھر کو جاتی ہو

اُس کو راہِ رسولؐ کر یارب
بے اُصولوں کو با اُصول بنا

یعنی کانٹوں کو پھول کر یارب
ہر دُعا کو عطا ہو بابِ اثر

بدْدُعا مت قبول کر یارب
قوم کے مرد ہوں علی حیدرؔ

عورتوں کو بتول کر یارب
یہ غزل بھی ملاحظہ کیجئے جس میں حیدر صاحب نے ہر شعر میں مختلف مضمون باندھا ہے جس سے ان کے قادرالکلام ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس میں بچوں کے لیے درس بھی ہے اور غزل کی چاشنی بھی ہے ؎
مرے خدایا تری زمیں پر کبھی تو ایسا کمال ہوگا
محبتوں کے شجر پھیلیں گے وفا کا پھل ڈال ڈال ہوگا
عجب کرشمہ ہے حکمتوں کا جو ہوسکے نہ وہ کر دکھائے
وہاں پہ جانے کی سوچ لیں ہم جہاں پہنچنا محال ہوگا

کسی کو ناچیز مت سمجھنا ہیں کارآمد تمام چیزیں
جو ایک تنکا بھی ہم نے پھینکا وہی کبھی استعمال ہوگا

ہماری اچھائیوں کی خوش بو رہے گی مغرب رہے گی مشرق
ہماری سچّائیوں کا شہرہ جنوب ہوگا شمال ہوگا

ہمیں بھی حاضر جواب بننا ہے اپنے قول و عمل سے حیدرؔ
سُنا ہے جب امتحان آئے سوال پیچھے سوال ہوگا

درج بالا ان نظموں کو ہم کوشش کے باوجود مختصر نہ کرسکے کیونکہ ان نظموں میں جو ربط اور روانی ہے اسے پوری پوری اور مکمل پڑھنے میں ہی لطف آتا ہے۔ روانی ایسی کہ بس پڑھتے جائیے اور الفاظ ایسے کہ بس زبان سے ادا ہوتے ہی جاتے ہیں۔ زبان کا لطف بھی آتا ہے اور پاکیزہ خیالات سے ذہن بھی دمک اٹھتا ہے۔
’’اللہ اکبر‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم ہے۔ جو ۳۲ صفحات پر محیط ہے۔ یہ نظم کتابی شکل میں رحمانی پبلیکیشنز مالیگائوں نے ۲۰۰۵؁ء میں شائع کی ہے۔ سہل ممتنع میں نظم اپنی مثال آپ ہے۔ پہلا بند ملاحظہ ہو ؎
اللہ اکبر اللہ اکبر
حمدو ثنا ہم
کرتے ہیں ہردم
اپنے خدا کی
مشکل کشا کی
سارے جہاں کے
حاجت روا کی
دونوں جہاں کے
فرما روا کی
اس ابتدا کی
اس انتہا کی
جس نے ہماری
دنیا سنواری
جس کی فلک پر
نقش و نگاری
فن کار بے شک
وہ ذات باری
اس نے بنائی
ہر چیز پیاری
اللہ اکبر اللہ اکبر
اسی طرح یہ نظم ۱۵ بند پر مشتمل ہے۔ ہر بند میں اللہ کی صفات بیان کی گئی ہے۔ آخری بند ملاحظہ فرمائیے ؎
اللہ اکبر اللہ اکبر
اول وہی ہے
آخر وہی ہے
باطن وہی ہے
ظاہر وہی ہے
دنیا سرائے
ہر چیز فانی
کیا پیڑ پودے
کیا آگ پانی
رہنا کسے ہے
سب آنی جانی
بچپن بڑھاپا
دلکش کہانی
چھوڑے نہ اپنی
کوئی نشانی
دونوں جہاں کی
اتنی کہانی
اللہ باقی
من کل فانی
گونجے گا نعرہ
بس ایک حیدرؔ
اللہ اکبر اللہ اکبر
حیدر بیابانی اردو دنیا کے ایسے شاعر اطفال ہیں جنھوں نے شعری ادب کی ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے اور خوب کی ہے۔ حمدومناجات ایسی مبارک صنف ہے جس پر آسان اور سلیس لفظوں میں بات کہنا مہارت چاہتا ہے۔ اور پھر بچوں کے لیے حمدومناجات تحریر کرنا انتہائی نازک امر ہے۔ حیدر بیابانی نے اسے خوب نبھایا ہے۔ بچوں کو ان کی حمدومناجات آسانی سے یاد ہوجاتی ہے، اس کی بحریں مترنم اور لفظوں کا رکھ رکھائو دلکش ہے۔ حیدر بیابانی نے اس صنف میں بھی اپنا منفرد مقام بنالیا ہے جبکہ ان کا تخلیقی سفر جاری ہے۔ اس لئے ہم ان سے کسی شاہکار کی امید رکھ سکتے ہیں۔

Leave a Comment