٭ڈاکٹر محمد اشرف کمال
صدر شعبہ اردو،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بھکر۔
شعبہ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور سندھ اردو کانفرنسوں کے انعقاد کے حوالے سے ایک ایسا شعبہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔یہ مختلف موضوعات کے حوالے سے کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں لاتا رہتا ہے اور دنیا بھر کے اسکالرز کو جمع کرکے بحث وتمحیص اور سوالات کو آگے بڑھاتا اور مسائل کی نشاندہی کرتا اور ان کے حل کے لیے دانش وروں کی قیمتی آراء سے لوگوں کو آگاہی دیتا رہتا ہے۔
اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے نومبر کے مہینے میں شعبہ اردو نے ڈاکٹر یوسف خشک اور داکٹر صوفیہ خشک کی سربراہی میں ڈاکٹر پروین شاہ کی سرپرستی میں ایک بڑے اہم موضوع پر کانفرنس کا انعقاد کیا۔اس کا موضوع تھا: ’’ادب اور ماحولیات ‘‘(پاکستان اور عالمی تناظر میں)۔اس کانفرنس میں پاکستان بھر سے مندوبین کی شرکت کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی دانش وروں اور صاحب فکر لوگوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا موضوع نیا اور موجودہ دور کے مسائل کے حوالے سے تھا۔ ماحولیات کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں نے کرہ ارض کو درپیش مسائل نے اہل فکر اور دانائی وبینائی رکھنے والے دانش وروں کو تشویش میں مبتلا کیا ہوا ہے کہ اگر اسی طرح ماحولیات کے مسائل بڑھتے رہے تو یہ نہ ہو کہ ایک دن ہمارا یہ کرۂ ارض رہنے ہی کے قابل نہ رہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی، کٹتے ہوئے اشجار اور بڑھتی ہوئی کالونیوں کی تعمیر اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی آلدگی نے صحت مند زندگی گزارنے کے خواب کی تعبیر کے حوالے سے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔انھیں سوالات اور مسائل کا حل اور جواب تلاش کرنے کے لیے اس عالمی مسئلے کو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ ڈن فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک اور صدر شعبہ اردو ڈاکٹر صوفیہ خشک نے دنیا بھر کے ادیبوں کے سامنے رکھا اور اس حوالے سے ان کی سفارشات اور گزارشات کو جمع کیا گیا۔ تاکہ مل جل کرا س مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔
افتتاحی اجلاس:
صبح دس بجے افتتاح اجلاس کا آغاز ہوا۔ تمام مندوبین اور مہمانان گرامی ہال میں پہنچ چکے تھے۔سب اپنی اپنی نشستوں پہ بیٹے۔ اسٹیج پر مہمان خصوصی سید قائم علی شاہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ براجمان تھے۔ ان کے ساتھ، زاہدہ حنا،ستیہ پال آنند، رضا علی عابدی، ڈاکٹر ہینس ورنر،ڈاکٹر تھامس اسٹیمر براجمان تھے۔
ڈاکٹر صوفیہ یوسف خشک صدر شعبہ اردو نے نظامت کے فرائض سنبھالے۔تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوا۔ ڈاکٹر یوسف خشک ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز نے سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے اس کانفرنس کے موضوع اور ضرورت واہمیت پر روشنی ڈالی۔
جرمنی سے آئے ہوئے سکالر ڈاکٹر تھامس اسٹیمرنے ادب اور ماحولیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہافطرت اور ثقافت کے حوالے سے ادب کی ضرورت واہمیت کا احاطہ کیا۔انھوں نے کہا کہ خود ترتیب دی ہوئی فطرت اور جنت کی فطرت اور قدرت مختلف ہیں۔جنگل ، فطرت اورانسان خطرے کی زد میں ہیں ۔جنگلات کو کاٹ کر زراعت کی بنیاد رکھی گئی۔ زہریلی ادویات کا استعمال اور کھاد کی زایدتی ترقی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس طرح ترقی ایک خواب ہے اور خواب ہی رہے گی۔ جس طرح ہم دنیا کو بدل رہے ہیں اور فطرت کو، وہ ناپائیدار کام ہے۔
معروف کالم نگار زاہدہ حنا نے کہا کہ آج کل یہ رواج ہوگیا ہے کہ تمام مسائل کا حل؛ کمپیوٹر پہ تلاش کریں اور کتاب نہ پڑھیں ،یہ رجحان نوجوانوں کے کے لیے نقصان دہ ہے۔ جنگ اور ماحول کے بارے میں ناول لکھنا، کہانیاں لکھنا اور شعر کہنا ایک صحت مند عمل ہے۔ انھوں نے ایک نظم ’’مہاتما بدھ‘‘ کا ذکر کیا جس کا ترجمہ ستیہ پال آنند نے کیا تھا ۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں، کھیت اور ہریالی متاثر ہورہی ہے۔ قارئین کوادیبوں کی لکھی ہوئی جنگ مخالف تحریریں ضرور پڑھنی چاہئیں ۔
ڈاکٹر پروین شاہ (وائس چانسلر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور )نے کہا کہ اس یونیورسٹی کو بنانے میں سید قائم علی شاہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔یہی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اس یونیورسٹی کی تعمیروترقی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے انٹرنیشنل کانفرنس کے موضوع کو سراہا اور اس حوالے سے ڈاکٹر یوسف خشک اور ڈاکٹر صوفیہ خشک اور شعبہ اردو کے تمام سٹاف کی خدمات اور کاوشوں کو تحسین کی نظر سے دیکھا۔
آخر میں سید قائم علی شاہ نے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ ادب اور ماحولیات ایک اہم ٹاپک ہے جس پہ اس یونیورسٹی میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے۔میں ماحولیات کو سمجھتا ہوں ادب کے بارے میں اتنا نہیں جانتا مگر یہاں جتنے ادیب موجود ہیں وہ اس بارے میں سیرحاصل بات کریں گے۔انھوں نے کہا کہ ادب کی دو قسمیں ہیں ایک وہ ادب ہے جو لکھا جاتا ہے اور ایک ادب وہ ہے جو کہ عزت واحترام کے اظہار کے لیے کیا جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس ٹاپک پہ کانفرنس کے انعقاد کی اہم ضرورت تھی یہ کام تعریف کے لائق ہے اس حوالے سے کسی یونیورسٹی میں کوئی کانفرنس نہیں ہوئی۔ماحولیات کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ ایک طرف ہم پانی کو ترستے ہیں ۔یہاں تو خشکی ہی خشکی ہے ۔کوٹری بیراج سے پانی نہیں چھوڑتے اور سمندر ہے کہ اندر علاقے تک آگیا ہے اور زمین بنجر ہوگئی ہے یہ بھی ماحولیات ہی کا حصہ ہے جو پانی سمندر میں گرتا ہے وہ ضائع نہیں ہوتا بلکہ ڈیلٹا میں جاکر گرتا ہے اور زمینوں کو بنجر ہونے سے روکتا ہے۔
انھوں نے اپنے خوشگوار انداز گفتگو سے سے محفل کو چار چاند لگادیے۔ ماحولیات کے حوالے سے کئی واقعات اور قصے بیان کیے۔
اس کے بعد مہمانوں کے لیے پرتکلف چائے کا انتظام تھا جہاں فوٹو سیشن بھی ہوا۔
چائے کے بعد کانفرنس کا دوسرا سیشن شروع ہوا۔اس سیشن میں سید طارق حسین رابطہ کار تھے۔اس سیشن میں مندوبین نے ادب اور ماحولیات کے حوالے سے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔مقالات پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند، ڈاکٹر محمد امتیاز، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی(کھوار ادب اور ماحولیات کا موضوع)، عامر سہیل (ہندکو ادب اور ماحولیاتی تناظر)کے نام شامل تھے۔
ظہرانے کے بعد تیسرا سیشن دو جگہ شروع ہوا۔ ایک ہال میں ایران سے ڈاکٹر وفا یزدان منش(پورٹرائل آف ایکولوجیکل ایشوز)،برطانیہ سے مہ جبین غزل انصاری(ایکو کرٹسزماور اردو ادب)،حیدرآباد سے ڈاکٹر سید عتیق احمد جیلانی (ماحولیاتی مسائل اور ادیب کی ذمہ داریاں)،اسکردو سے ڈاکٹر عظمیٰ سلیم(اردو سفر نامے میں گلگت بلتستان کا ماحول)، اسلام آباد سے ڈاکٹر فرحت جبین ورک(منیر نیازی کی شاعری میں فطرتی ماحول کی ترجمانی)، خیر پور سے ڈاکٹر صوفیہ خشک(حجاب کا ناول پاگل خانہ اور ماحولیاتی تنقید)،فیصل آباد سے طیبہ نگہت(ادب اور ماحولیاتی مسائل پاکستانی ڈرامہ کے حوالے سے)نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔
دوسرے ہال میں برطانیہ سے یشب تمنا(ولیم ورڈز ورتھ کی شاعری کا ماحولیاتی مطالعہ)، ڈنمارک سے صدف مرزا(کوپن ہیگن کلائمیٹ چینج کانفرنس 2009)، فیصل آباد سے رخسانہ بلوچ(بیسویں صدی کی ابتدائی نظم نگاری میں مناظر فطرت)،ملتان سے پروفیسر ڈاکٹر قاضی عابد(ایکو کرٹسزم یا گرین کرٹسزم)،اسلام آباد سے محمد شیراز(مدر نیچر)، صابی سے ڈاکٹر نقیب احمد جان(مالا کنڈ کے شعروادب میں ماحولیاتی عناصر)،خیرپور سے محمد ابراہیم کھوکھر(شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری)،خیرپور سے سید طارق حسین (شعور فطرت اور دیوان یقین) نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے ۔ اس سیشن میں رابطہ کار سید ارتضیٰ حسن کاظمی تھے۔
اس کے بعد سب مندوبین چائے پر اکٹھے ہوئے۔
۱۳نومبر کو رات ۹ بجے ایک خوبصورت ہال میںعالمی مشاعرے کا آغاز کیا گیا ۔جس کی صدارت ستیہ پال آنند، فاطمہ حسن نے کی۔ مہمانان اعزاز میں سیما غزل، یشب تمنا، تھامس ، ریحانہ قمر، ہائزر ورنر ویسلر، ڈاکٹر عتیق جیلانی شامل تھے۔ اس مشاعرے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر شائستہ نزہت نے سرانجام دیے۔
مجلس صدارت اور مہمانان اعزا کے علاوہ مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرنے والوں میں صدف مرزا،ڈاکٹر عابد سیال،ڈاکٹر فاخرہ نورین، تھامس، ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد ، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم،ڈاکٹر مقبول گیلانی، ڈاکٹر عنبرین منیر،ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، بینا گوئندی،ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ڈاکٹر نبیلہ رحمن، ڈاکٹر محمد اشرف کمال،میجر اعظم کمال، ڈاکٹر احسان دانش، محمد ابراہیم کھوکھر، محمد حسن شیخ، سید ارتضیٰ حسن کاظمی وغیرہ شامل تھے۔
دوسرے دن ۱۴ نومبر کو پانچواں اجلاس کوجھی ہال میں ہوا ، اس اجلاس میں مقالات پڑھنے والوں میںمصر سے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم (مسری ماحول سے مستعار رموزِ تلمیحات شعری )، جرمنی سے ڈاکٹر تھامس اسٹیمر(امیجز آف نیچر۔۔)،کراچی سے ڈاکٹر فاطمہ حسن(اردو شاعری میں ماحولیات کے مضامین) ، لاہور سے ڈاکٹر نبیلہ رحمن( سرزمین پنجاب کی لوک داستانوں میں فطرتی ماحول کی عکاسی ) ،لاہور سے ڈاکٹر عنبرین منیر(جدید اردو نظم میں ماحولیاتی مسائل)،اسلام آباد سے ڈاکٹر ظفر حسین ظفر(کشمیری ادب اور ماحولیات) ، لاہور سے ڈاکٹر وحیدالرحمن(مزاح اور ماحولیات) ،خیر پور سے ڈاکٹر یوسف خشک (سندھی شاعری میں فطرت کی عکاسی) کے نام شامل تھے۔
اسی وقت کوجھی ہال نمبرIIمیں چھٹا اجلاس منعقد ہوا جس میں مصر سے ڈاکٹر ہند عبدالحلیم(اقبال اور شوقی کی شاعری میں نیچر کے عناصر ایک تقابلی مطالعہ)، مصر سے اسامہ شلبی (اردو اور عربی شاعری میں قدرت کے مناظر :مجید امجد اور محمد التھامی کی شاعری کی روشنی میں)،بہاولپور سے ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر(لٹریری ہیریٹیج اینڈ ایکولوجیکل چیلینجز) ، بھکر سے ڈاکٹر محمد اشرف کمال(اردو ناول میں تہذیب اور ماحول کی تصویر کشی)،ڈیرہ غازی خان سے ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ(بلوچی ادب اور ماحولیاتی مسائل )،اسکردو سے محمد حسن حسرت (بلتی ادب وشاعری میں جنگلی حیات اور پرندوں کے تذکرے) ،لاہور سے ڈاکٹر نورین رزاق (نیچر، انوائرمنٹ۔۔۔) اورخیر پور سے محمد حسن شیخ (اے سٹڈی آف ایکو کرٹسزم) نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔
ساتواں اجلاس بارہ بجے کے بعد شروع ہوا۔ اس اجلاس میں سویڈن سے ڈاکٹر ہائینز ورنر ویسلر(دی گارڈن۔۔)،ترکی سے ڈاکٹر آرزو سورن(یشار کمال کے ناول’ سمندر ناراض ہوگیا‘ میں ماحولیاتی مسائل)، برطانیہ سے رضا علی عابدی (ادب اور ماحولیاتی مسائل)، اسلام آباد سے ڈاکٹر عابد حسین سیال (کلاسیکی چینی شاعری میں فطرت کی عکاسی)،امریکا سے محترمہ ریحانہ قمر(مشاہیر عالم اور ماحولیاتی مسائل)،کراچی سے ڈاکٹر رؤف پاریکھ (ایکولوجیکل ٹرمینالوجیز۔۔)، ملتان سے ڈاکٹر روبینہ ترین(اردو خواتین افسانہ نگاروں کے ہاں ماحول اور فطرت کی ترجمانی:تحقیقی مطالعہ)،اسلام آباد سے ڈاکٹر عبداللہ جان(پشتو ٹپا کا ماحولیاتی مطالعہ)،راولپنڈی سے ڈاکٹر فاخرہ نورین(اکیسویں صدی کی اردو نظم نگار شاعرات کے ہاں بائیو فیلیا کا تصور)، لاہور سے ڈاکٹر نائلہ انجم (پاکستانی اردو غزل میں فطرت اور ماحول کی ترجمانی)نے مقالات پیش کیے جب کہ سید اصغر عباس نے رابطہ کار کے فرائض انجام دیے۔
اسی وقت دوسرے ہال میں آٹھواں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں امریکا سے بینا گوئندی(نیچرلسٹک اینڈ امیجینیٹوپوئیٹک امپریشن۔۔)،ملتان سے ڈاکٹر انوار احمد(بچوں کے ادب میں ماحولیاتی مسائل کی عکاسی)، اوکاڑہ سے میجر اعظم کمال(دہشت گردی کے فطری ماحول پر اثرات:اردو شاعری کے آئینے میں)،اسلام آباد سے ڈاکٹر شیر علی(برطانیہ کے اردو شاعر اور ماحولیاتی چیلنجز)،جیکب آباد سے سید طاہر حسین رضوی(اردو کریکولم پہ تبصرہ)، خیر پور سے ڈاکٹر اللہ وسایو سومرو(نیچر اینڈ نیچرل انوائرمنٹ)،خیر پور سے سید ارتضیٰ حسن کاظمی(ناصر کاظمی کی شاعری میں فطرت اور فطری ماحول کی عکاسی ) نے اپنے مقالات پیش کیے ۔ جب کہ نظامت کے فرائض سید عدنان حسین نے انجام دیے۔
نواں اجلاس دوپہر کو ظہرانے کے بعد شروع ہوا جس میں جرمنی سے ڈاکٹر تھامس اسٹیمر(امیجز آف نیچر)، لاہور سے ڈاکٹر عطیہ سید(ایکولوجیکل پرابلزم اور فکشن)، اسلام آباد سے داکٹر سعدیہ طاہر(نوآبادیاتی عہد کے ادب میں فطرت اور ماحول کی ترجمانی )، کوئٹہ سے ڈاکٹر جاوید اقبال (پورٹرائل آف انوائرمنٹ ۔۔)، ملتان سے سید مقبول گیلانی (سرائیکی ادب اور ماحولیاتی مسائل) ، کراچی سے سید عقیل احمد جعفری(اردو ادب اور ماحولیاتی مسائل)، خیر پور سے ڈاکٹر سجاد رئیسی (ماحولیاتی آلودگی روکنے کے اسلامی اصول) نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔اس اجلاس میں نظامت کے فرائض محمد ابراہیم کھوکھر نے سرانجام دیے۔
آخری اجلاس میں اسٹیج پرخادم میرانی، انوار احمد، سید وقار شاہ مہتمم بھٹ شاہ عبداللطیف ، پروین شاہ اور یوسف خشک بیٹھے ہوئے تے۔مہمانوں کو اسٹیج پر بلایا گیا اور میزبانوں نے ان سب مہمانوں کو باری باری اجرک کا تحفہ پیش کیا۔
مہمانوں کے تاثرات معلوم کرنے کے لیے انھیں باری باری اسٹیج پر بلایا گیا۔ سب سے پہلے ریحانہ قمر نے اپنے تاثرات پیش کیے انھوں نے کہا کہ یہ کانفرنس بہت کامیاب کانفرنس تھی۔ایک شعر پڑھا جس کا یہ مصرعہ خوب تھا۔
’’اس شہر میں محنت کا صلہ ملتا ہے ‘‘
سویڈن سے آئے ہوئے مہمان مقالہ نگار نے کہا کہ ہمیں ماحولیات کے لیے عملی کام کا آغاز یوں کرنا چاہئے کہ اس بار ایک ہزار درخت لگا کر ماحول کو خوشگوار بنانے کا عمل شروع کریں۔
ترکی سے آئی ہوئی مہمان ڈاکٹر آرزو نے کہا کہ اس کانفرنس سے ایک اچھی دنیا دینے کا سبق ملتا ہے ۔ ہمیں دنیا کو اچھا بنانے کا موقع ہاتھ سے نہیں گنوانا چاہئیے۔
امریکہ سے آئے ہوئی بینا گوئندی نے کہا کہ اس موضوع پر بات کرنے کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔آج ہمیں ماحولیات پر توجہ دے کر اس زمین کو تباہی سے بچانا ہوگا۔
تہران سے آئی ہوئی وفا یزداں منش نے اس کانفرنس کو شاندار کانفرنس قرار دیا جس میں نئے نے موضوعات سامنے آئے اور ماحولیات کے حوالے سے پاکستان میں ہونے ولی یہ پہلی کانفرنس ہے۔
بہاولپور سے ریڈیو سے وابستہ نصیر احمد ناصر نے اپنے تاثرات کا اظہار خوبصورت الفاظ میں کیا۔انھوں نے یہ شعر پڑھا:
بدن مہتاب جیسا قدو قامت کہکشاں جیسا
تمھارے شہر میں ایک آدمی ہے آسمان جیسا
اردو وفاقی یونیورسٹی اسلام آباد سے آئی ہوئی ڈاکٹر سعدیہ طاہر نے بھی اس کانفرنس کو سراہا اور اپنے خیالات پیش کیے۔
عبداللہ جان نے اس کانفرنس کے موضوع کو منفرد قرار دیا جس پہ کام ہونا نہایت ضروری تھا۔انھوں کلونیل لٹریچر اور پاکستانی زبانوں کے حوالے سے مارچ میں سلام آباد میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس کے انعقاد کا اعلان بھی کیا۔
انجمن ترقی اردو کے صدر ذوالقرنین جمیل(راجو جمیل )نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ کانفرنس قومی یک جہتی کے لیے ہم ہے جس میں نہ صرف چاروں صوبوں بلکہ دوسرے ملکوں کے اسکالرز اور دانش وروں نے بھی حصہ لیا۔
ڈاکٹر شائستہ نے کہا کہ کانفرنس ختم نہیں ہوئی بلکہ کانفرنس کے ذریعے سب کو یہ فریضہ تفویض کیا گیا ہے کہ اب اس پیغام کو آگے پھیلانا ہے۔
اس کے بعد اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مہمانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن میں خادم میرانی نے کہا کہ شاہ عبداللطیف کے فکر اور فلسفہ کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ان کے فلسفہ کو واضح کرکے لوگوں کی رہنمائی کی جائے اور علم کا دیا روشن کیا جائے۔
ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی طویل گفتگو میں اپنی باتوں سے حاضرین کے دل موہ لیے۔ انھوں نے کہا کہ یوسف خشک کی یہ خدمات پندرہ سال کے عرصے پر محیط ہیں۔ اور وائس چانسلر پروین شاہ اس قسم کے اجتماعات کے انعقاد میں اہم کردار کی حامل ہیں۔
وائس چانسلر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور محترمہ پروین شاہ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔کہ یہ سب رونق آپ لوگوں کے آنے کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اس کانفرنس کی تمام پروسیڈنگ کو شائع کرانے کا اہتمام کیا جائے گا۔کانفرنس کے حوالے سے انھوں نے مزید کہا کہ یہ سب کا ٹیم ورک ہے جس میں یوسف خشک اور صوفیہ خشک پیش پیش ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک ہزار درخت لگانے کے حوالے سے بات کی کہ جب آ پ لوگ آئندہ کسی کانفرنس میں خیرپور آئیں گے تو آپ کو دو ہزار نئے درخت لگے ہوئے ملیں گے۔
آخر میں سجادہ نشین سید وقار شاہ نے کہا :کہ یہ کانفرنس ایک یاد گار کانفرنس ہے جس میں شاہ عبداللطیف کے پیغام کو آگے بڑھایا گیا ہے۔
اس اجلاس کے بعد موسیقی کا پروگرام ترتیب دیا گیا تھا جس میں بچوں کی طرف ثقافتی شو بھی پیش کیا گیا جس میں خوبصورت انداز میں مہمانوں کو خوش ؔآمدید کہا گیا۔پھر لوک گلوکاروں نے صوفیاکرام کے کلام کو گا کر پیش کیا۔
دوسرے دنکانفرنس کے شرکائے کرام کو مختلف تاریخی مقام پہ لے جانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ صبح دس بجے قلعہ کوٹ ڈیجی روانہ ہوئے۔کوئی پندرہ بیس منٹ میں قلعہ کوٹ ڈی جی پہنبچ گئے ۔یہ قلعہ کئی سوسال پرانا ہے اس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور یہ سندھ کی سرزمین پر مسلمانوں کا ایک ایسا قلعہ تھا جو دفاعی حوالے سے اہمیت کا حامل رہا۔
وہاں سے نکلے تو لاڑکانہ روانہ ہوئے ۔راستے میں دونوں جانب بے تحاشا کیلے کاشت کیے گئے تھے۔
کچھ دیر کے بعد ایک بجے یہ قافلہ موہنجوڈرو پہنچ گئے۔ یہاں جو پہلی بار آئے ہیں وہ سٹوپا کی طرف چلے گئے ، جو دوسری بار آئے ہیں وہ بادشاہوںکے محلات اور مکانات دیکھنے روانہ ہوئے اور جو لوگ باقی بچ گئے انھوں نے میوزیم کا رخ کیا۔
شاہی محلات کی طرف گئے تو وہاں شروع میں کھلا گراؤنڈ تھا جس کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ یہ ان کاا سمبلی ہال تھا جہاں یہاں کے بڑے لوگ بیٹھتے ہوں گے اور فیصلے کرتے ہوں گے۔
آگے بڑھے تو کچھ دور محلات شروع ہوگئے ۔شروع ہی میں کنویں تھے اور یہ کنویں آگے جاکر بھی جگہ جگہ نظر آئے کئی کنویں سطح زمین کے ساتھ تھے اور کئی اوپر آٹھ دس فٹ اونچے تھے۔ لگا؎تا ہے کہ دوسری منزل سے پانی نکالتے ہوں گے۔ کیوںکہ کئی جگہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں مکانات دو منزلہ رہے ہوں گے۔
یہاں مکان ذرا بڑے تھے۔ بلکہ ایک اور چیز جو کہ اہمیت کی حامل تھی یہاں بڑے بڑے کمروں کی دیواریں دوہری تھیں۔ یعنی باہر پکی اینٹوں کی دیوار اور اندر کچی دیوار بنائی گئی تھی۔ کہیں ان دونوں دیواروں کے درمیان دو تین فٹ کا فاصلہ تھا اور کہیں چار پانچ فٹ کا۔ ہر کمرے میں اوپر پانچ چھ فٹ اونچا اور ڈھائی تین فٹ چوڑا شگاف چھوڑا گیا تھا تاکہ ہوا کا گزر ہو اور کمرے ہواداراور ٹھنڈے رہیں۔کمروں کے ساتھ اندر سٹور بھی بنے ہوئے تھے جن میں مختلف قسم کا سامان رکھا جاتا ہوگا۔
ان کمروں کی دیواریں پانچ فٹ تک موٹی تھیں۔آگے جاکر ایک چوڑی گلی آئی جس کے بارے میں یہ قیاس آرائی تھی کہ یہاں ان کا بازار لگتا ہوگا۔کیوں کہ یہاں سے کچھ ایسی چیزیں برآمد ہوئی جن کا تعلق تجارت سے تھا۔
اس سے آگے کی جگہ کو ابھی ایسے ہی بغیر کھدائی کے چھوڑ دیا گیا تھا ، نجانے یہاں کیا کیا تہذیبی وثقافتی خزانے دفن ہیں ۔
موہنجودڑو سے واپس آئے تو میوزیم کا پاس ہی ایک کمرے میں عشائیے کا انتظام کیا گیاتھا۔ عشائیے کے بعد سب لوگ بسوںمیں بیٹھے اور وہاں سے روانہ ہوئے۔ طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد گڑھی خدابخش سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پہ پہنچ گئے وہاں فاتحہ خوانی کے بعد سکھر کی طرف روانہ ہوئے۔ سکھر پہنچتے پہنچتے مغرب کا وقت ہوگیا اور اندھیرا پھیل چکا تھا۔یہاں چیمبر آف کامرس میں کانفرنس کے مندوبین کے لیے پر تکلف چائے کا انتظام تھا۔
یہاں سے لوگ مندوبین کواپنے اپنے علاقوں، شہروں اور ملکوں کی طرف روانہ ہونے کے لیے ائرپورٹ ، ڈائیو اڈا اور ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ کردیا گیا۔یوں یہ یادگار کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔
اس کانفرنس کے انعقاد اور اہتمام کے سلسلے میں بلاشبہ مرکزی کردار ڈاکٹر یوسف خشک صاحب کا رہا جنھوں نے اس کانفرنس کے انعقاد میں رات دن ایک کر دیے۔یوں ان کی انتھک کاوش اور شبانہ روزمحنت رنگ لائی جس کے نتیجے میں یہ کانفرنس کامیاب کانفرنس کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ْ