شعبۂ اردوجامعہ کراچی میں’ ’بیرونِ ممالک میں اردوزبان وادب تدریس،تراجم ،مسائل اورامکانات‘‘ موضوع پر ادبی نشست کا انعقاد

ماضی کی طرح آنے والے کل میں بھی شعبۂ اردوایران اورکراچی کے روابط مزید مضبوط ہونے جارہے ہیں۔شیخ الجامعہ پروفیسرڈاکٹراجمل خان

جب میں بچوں کاادب لکھتا ہوں تو گمان ہوتا ہے عبادت کررہاہوں۔رضاعلی عابدی

یورپ اورایشیا کاسنگم آج ہمارے شعبہ میں ہے رضاعلی عابدی کی کتابیں اردوزبان وادب کی چلتی پھرتی تہذیب اورثقافت ہیں۔ڈاکٹر شاداب احسانی

جرمنی میں اردوزبان وادب کی ترویج ادبی انجمنیں کررہی ہیںاس کی پاکستانی حکومت کوبھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔عارف نقوی

پاکستان اورہندوستان کے ادیبوںکومل کر اردوزبان وادب سارک فورم اوراردوعالمی قلمکارتنظیم بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔پروفیسرڈاکٹر اسلم جمشید پوری

زبان اورثقافت ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں پاکستان اورایران کے شعبۂ اردوکومل کرمعیاری تراجم کوترجیحی بنیادپرفروغ دیناچاہیے۔ڈاکٹر وفایزداں منش

\"\"
روداد

ڈاکٹرذکیہ رانی
اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردوجامعہ کراچی۔
\"\"

۲۶نومبر۲۰۱۸ء کو شعبۂ اردوجامعہ کراچی میںممتاز مشاہیرِ اردو زبان وادب نے’’بیرونِ ممالک میں اردوزبان وادب تدریس،تراجم ،مسائل اورامکانات‘‘کے موضوع پر منعقد ادبی نشست میں اظہارخیال کرتے ہوئے جرمن یونیورسٹی کے اردو پروفیسر،شاعر،افسانہ نگارعارف نقوی صاحب نے بتایا کہ جرمنی میں اردوکے حوالے سے لوگوں کوغلط فہمیاں بہت ہیں اوروہ ہم تبھی دورکرسکتے ہیں کہ جب ہم اس کومزیداعلیٰ سطح تک لے جائیں ۔جرمن ادب خودبہت ترقی یافتہ ادب ہے۔جرمن ناول،افسانہ،شاعری اورجرمن ڈراما خاص طورسے نہایت ترقی یافتہ ڈراماہے جس کامقابلہ نہیں کیا جاسکتاہے جہاں تک اردوادب کاتعلق ہے تواس حوالے سے جرمنوں کی معلومات بہت کم تھیں جب علامہ اقبال نے وہاں سے پی ایچ۔ڈی کی سندلی توان کی دلچسپی اردوسے پیداہوئی لیکن اس وقت بھی جب وہ برصغیر کے ادب کوتصورمیںلاتے توان کے ذہنوں میں سنسکرت ادب ،کالی داس کاڈراما شکنتلاجس پر گوئٹے نے خود بھی لکھا یاویدک دورکااد ب ابھرتاتھا ۔میں برلن کی یونیورسٹی سے وابستہ رہا تواس عرصہ میں مَیں نے دیکھا کہ وہ سنسکرت کے بعدبنگالی ادب سے واقف ہوئے جس کا سبب ٹیگورکی گیتانجلی جس پراسے نوبیل پرائزملاتھا پھرہم نے اردوزبان اورادب سے متعلق ان کوبتاناشروع کیا،فیض احمدفیض،کرشن چندر،سجادظہیر،خواجہ احمدعباس جیسی معروف شخصیات جرمنی تشریف لائے اوران کاکلام پہنچاتوان کواردوادب سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی ۔جرمنی کی کئی جامعات میں شعبۂ اردوقائم ہیں۔ہائیڈل برگ میں میری شاگردڈاکٹر کرسٹینا نے اردوادب کے حوالے سے کافی کام کیا ہے جبکہ برلن میں ہماری اردوانجمن برلن ہے دیگرشہروں جیسے بون،فرینکفرٹ،کولون،ہائیڈل برگ اوردیگرشہروں میں بھی ادبی وعلمی انجمنیں اردوکے فروغ میںکوشاں ہیں عصرِ حاضرمیں بڑوں کواردوسکھانے کے لیے کتابیں کم ہیں لیکن اس پر کام جاری ہے اورمزید کام کرناچاہیے۔ریڈیوسے بھی اردونشریات کاسلسلہ جاری ہے۔میں نے اپنی ذاتی تخلیقات کے ساتھ ساتھ کرشن چندرسمیت دیگراہم ادیبوں کی تخلیقات کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا مجھے ذاتی طورپر کرشن چندرکا افسانہ ’آخری بس‘ پسندہے اسے جرمنی زبان میں بھی پذیرائی ملی۔عارف نقوی صاحب نے اپنے لیکچرکے اختتام پر اپنے شعربھی سنائے جنھیں سب نے پسندکیا اورداددی۔عارف نقوی صاحب کی دوکتابیں جرمن زبان میں انعام پاچکی ہیں جبکہ جرمنی میں نصف صدی،جرمن ادب کل اورآج اردوزبان کے پڑھنے والوں کے لیے مفیدہے۔
ڈاکٹروفایزداں منش شعبہ اردوجامعہ تہران، ایران سے وابستہ ہیں انھوں نے ایم اے اردواورپی ایچ۔ڈی اردوکی سند اورینٹل کالج لاہورپنجاب سے حاصل کی ۔ڈاکٹرتحسین فراقی کی نگرانی میں ’’اردوغزلیات میں تلمیحات اورتراکیب لسانی تحقیقی جائزہ ولی تا اقبال تحریرکیا۔انھوں نے صدرشعبہ کواپنی کتاب ’نواسرایانِ اردو دربیستم‘ تحفہ میں دی ۔اپنے لیکچرمیں انھوں نے کہا کہ تہران یونیورسٹی میں شعبہ اردوکاقیام ۱۹۹۲ء میں حکومت ِ پاکستا ن کے تعاون سے عمل میں آیا جبکہ اس سے قبل اصفہان میں بھی شعبہ اردوقائم ہوچکا تھا ابتداء میں ڈاکٹرزیب النساعلی خان نے شعبہ کو سنبھالااورپاکستان سے مہمان اساتذہ درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے تھے اب ہمارے شعبہ میں ایرانی نژاد اساتذہ جنھوں نے پاکستان سے اردوزبان وادب کی اعلیٰ تعلیم پائی ہے ان میں ڈاکٹرکیومرثی،ڈاکٹرعلی بیات،ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر علی قابوسی ،ڈاکٹرمعصومی،ڈاکٹرمیمونہ حسن شعبہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔اردوزبان کی تدریس میں مسائل کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ اردوزبان میں تراجم کی رفتارسست روی کاشکارہے اورمعیاری تراجم کی بھی کمی ہے۔شبلی شعرالعجم کا اچھاترجمہ ہوا ہے لیکن مزیدتراجم ناگزیرہیں۔ایران میں اردوریڈیو،ٹی وی پروگرام بھی ہوتے ہیں۔گذشتہ بارہ برس سے تہران یونیورسٹی میں ایم ۔اے اردوکی تعلیم کاسلسلہ جاری ہے ۔انھوں نے بتایا کہ شیخ الجامعہ ،جامعہ کراچی سے اپنے ملاقات میں مَیں نے درخواست کی ہے کہ دونوں جامعات کے شعبہ اردوکے طالب علموں کو وظیفے پر تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں جس کا انھوں نے خیر مقدم کیا ہے۔انھوں نے بتا یا کہ میری نگرانی میں جوتحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں ان میں انتظارحسین کے ناول’بستی‘ کاترجمہ بھی اہم ہے۔ڈاکٹروفایزداں اردوعلمی وادبی انجمن کی سربراہ ہیں اوراس انجمن کے تحت بی اے تا ایم ۔اے کی سطح کے طالب علموں کو اردوادب کی تخلیقی وتنقیدی سرگرمیوں میں شریک کیا جاتا ہے۔ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کی اردوانجمن بھی مشترکہ نوعیت کا کوئی لائحہ عمل طے کرے تاکہ اردوزبان وادب کی ایران میں مزید ترقی ہو۔
پروفیسرڈاکٹر اسلم خان ،اسلم جمشیدپوری،افسانہ نگاراورنقاد ہیں صدرشعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ انڈیا سے تشریف لائے ۔چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی جو میرٹھ یونیورسٹی کے نام سے قائم ہوئی ۱۹۶۵ء میں اورشعبہ اردوکاقیام ۲۰۰۲ء میںاسلم جمشیدپوری کی مساعی سے ہوا انھوں نے اپنے شعبہ کوعلمی وادبی اورانتظامی طورپر فعال بنانے میں اہم کرداراداکیاہے ان کی نگرانی میں اب تک ۳۰ پی ایچ ڈی اور۸۰ کے قریب ایم فل کے تحقیقی مقالات ہوچکے ہیں اورکئی ہورہے ہیں۔ان کے متعدد افسانوی مجموعے ، لینڈرا،افق کی مسکراہٹ، تنقیدی کتب ،اردوافسانہ تعبیروتنقید،اردوفکشن کے پانچ رنگ اورتراجم شائع ہوچکے ہیں تسنیم فاطمہ امروہوی نے اسلم جمشیدپوری فن وشخصیت جبکہ ان کے افسانوں پر گوپال متل اورڈاکٹرفرقان سنبھلی کی تصانیف شائع ہوئی ہیں۔انھوں نے پاکستانی افسانہ نگاروں کے انتخاب بھی شائع کیے ہیں ۔اسلم جمشیدپوری نے کہا کہ میں اس شہر سے ہوں جہاں اسمٰعیل میرٹھی ہواکرتے تھے۔وہ اسمٰعیل میرٹھی جنھوں نے اردوسیکھنے کاقاعدہ مرتب کیا اوراس قاعدے سے آج بھی دنیابھرمیں اردوسکیھی جارہی ہے۔وہ اسمٰعیل میرٹھی جنھوں نے اردونظم میں انقلاب برپا کیا ،قلق میرٹھی،رنج میرٹھی اوراسمٰعیل میرٹھی یہ تین ایک ہی عہد کے بڑے شعراء میرٹھ میں تھے اوران لوگوں نے نظم کی جو خدمات انجام دیں ہیں وہ اسی لیے چُھپی رہیںکچھ تو سامنے آئیں کچھ نہیں آئیں کہ ہمارے میرٹھ شہر میںکوئی بڑاناقد پیدا نہیں ہواتھاجس کی وجہ سے ادب میں بہت بڑی غلط فہمی پیدا ہوئی اوروہ غلط فہمی یہ تھی کہ انجمن پنجاب لاہورمیں جومناظمے ہواکرتے تھے اس سے نظم کا احیاء ہوا ۱۸۷۴ء میں اس سے بارہ سال قبل ہی قلق میرٹھی کی بہت ساری نظمیں تراجم اورطبع زاد ’جواہرِ منظوم‘ کے نام سے طبع ہوچکی تھیں ۱۸۶۲ء میں اوراس کے بعد اسمٰعیل میرٹھی ،رنج میرٹھی اورقلق میرٹھی ان لوگوں نے نظمیں لکھیںاوربہت بڑاکام نظموں کوازسرِ نوزندہ کرنے کے لیے کیالیکن یہ سب تاریخ میں اس لیے درج نہ ہوسکا کہ محمدحسین آزاد،مولاناالطاف حسین حالی یہ مرکز میں تھے اوریہ خود بھی تنقید لکھتے تھے اوران پر بھی بعد میں بہت کام ہوا۔اللہ کا شکر ہے یہ کام ہم نے انجام دیا میری نگرانی میں ایم ۔فل اورپی ایچ ڈی کے مقالات اسمٰعیل میرٹھی ،رنج میرٹھی اورقلق میرٹھی پر ہوئے ہیں جو جلدشائع ہوں گے۔ میں اس شہرسے ہوں جہاں سے انتظارحسین کا تعلق ہے انتظارحسین نے بلند شہر میں آنکھیں کھولیں ابتدائی تعلیم بلندشہرمیں ہوئی اورمیں بھی بلندشہر کا ہوں میرے اور انتظارحسین کے گاؤں میں تقریباً دس کلومیٹر کا فاصلہ ہے توانتظارحسین وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہاپڑ اورہاپڑ سے میرٹھ آگئے میرٹھ سے انھوں نے بی۔اے ، ایم۔اے کیا یہ ۱۹۴۳ء۔۱۹۴۲ء کی بات ہے اورحیرانی اورخوشی کی بات یہ ہے کہ انتظارحسین نے جوکچھ بھی لکھا ان کی ذات اورتخلیقات ۱۹۴۷ء کے بعدپاکستان آنے کے بعدمنظرعام پر آئیں لیکن ان تخلیقات میں سے بہت سا خام مواد،ہیولہ وہ میرٹھ سے ہی ان کوملا میرٹھ کی پوری زندگی اورجوکچھ انھوں نے دیکھا ایک نوسٹیلیجیا کے طورپر میرٹھ اوربلندشہر سے جواُن کا تعلق رہا ہے وہ ان کی کہانیوں اوران کے ناولوں میں نظرآتا ہے یہی نہیں میرٹھ نے بہت بڑے بڑے ادیب شعراء دیئے اردوادب کو خاص کر میں ابھی ذکرکرنا چاہوں گا بشیربدرکا !بشیربدرہماری شاعری اورغزل کااہم موڑہے یہ وہ شاعر ہے جس نے پہلی بار اردو،مقامی زبان اورانگریزی الفاظ کوغزل میں اس طورپر برتا کہ غزل بہت زیادہ ترقی کی جانب گامزن ہوئی۔دوایک شعرملاحظہ فرمائیں۔

کچھ توریت کی پیاس بجھاؤ جنم جنم سے پیاسی ہے
ساحل پر چلنے سے پہلے اپنے پاؤں بھگولینا
ہم نے دریا سے سیکھی ہے پانی کی پردہ داری
اوپر اوپرہنستے رہنا گہرائی میں رولینا
یہ ہیں بشیربدر اورایک شعران کا جوانھوں اپنی پہلی اہلیہ کی وفات پر کہا تھا

انھی راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا تیرا ہم سفر کہاں ہے

مجھے لگتا ہے بشیربدر وہ شاعرہیں کہ جس کے سینکڑوں اشعارعوام کو یاد ہیں اوران کی زبان پر ہوتے ہیں ۔توایساشاعربھی میرٹھ نے عوام کودیا اسی طرح حفیظ میرٹھی بھی ایک شاعرہیں۔چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے تاریخی پس منظرپرروشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پہلے یونیورسٹی کانام ’میرٹھ‘ یونیورسٹی تھا جو ۱۹۶۵ء میں قائم ہوئی اورشعبہ اردوکاقیام ۲۰۰۲ء اسلم جمشید پوری نے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے بعدکیا اوراس شعبہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ شعبۂ اردو سے ’ہماری آواز ‘ تحقیقی مجلہ ۲۰۰۳ء میں جاری کیا اورحال ہی میں عالمی پروازڈاٹ کام کااجراء آن لائن میگزین کی صورت میں کیا۔میرٹھ میں اردوزبان وادب کی صورتحال کاجائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ۱۹۴۷ء کے بعد میرٹھ سے وہ تمام اکابرادباء،شعراء ہجرت کرگئے اورتیس پینتیس سال کے عرصہ میں پرائمری تا اعلیٰ مدارج تک اردوکاعمل بھی رخصت ہوگیا اور۱۹۷۰ء کے بعد مسلمانوں کوووٹ بینک سمجھتے ہوئے چودھری چرن سنگھ نے اردوکواسکول اورکالج کی سطح پر رائج کیا ان کی خدمات پر یونیورسٹی کانام رکھا گیا۔چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اترپردیش کے دس اضلا ع کی تعلیمی ضرورت کوپوراکرتی ہے ۱۰۰۰کالج اس جامعہ سے ایفیلیٹڈ ہیں سالانہ دس لاکھ طالبعلموں کوسندجاری کی جارہی ہے۔یعنی اب نشاۃ الثانیہ کادورشروع ہوا ہے جوجاری ہے اردوکے حوالے سے بڑود،غازی پور،باغپت،بلندشہر میں صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے۔۲۰۰۲ء میں اس جامعہ میں اردوزبان یا ہندی کا بھی کوئی شعبہ نہیں تھا میں نے کوشش کی۔ایم ۔اے اردو۔ایم فل۔پی ایچ ڈی کی نصاب سازی اورتدریس کاآغازکیا۔ایک ایم اے اردوماس میڈیا کا بھی ہے جوہندوستان کی کسی جامعہ میں نہیں صرف ہماری جامعہ میں ہے اس میں اسکرپٹ رائٹنگ،اینکرنگ،مارکیٹنگ،پبلشنگ،ایڈورڈائزنگ بھی شامل ہے ۔گذشتہ دس سال سے اردومیں آئی ٹی کا کورس بھی جاری ہے۔ہمارے شعبہ کے فارغ التحصیل طلباء تدریس،صحافت اورمیڈیا سے وابستہ ہیںسب کوروزگارمیسرہے اردوکے حوالے سے فلم انڈسٹری میں بھی طالب علموں کے لیے بہت مواقع ہیں۔ہماری فلم انڈسٹری میں سنسر بورڈ نے ’ہندی فیچرفلم‘ کا نام رکھا ہے جو ذراسی پرت ہے اسے کھولیں تواندرسے اردونکلتی ہے گلزارکے گیت،جاویداخترکی کہانیاں سب اردوہی ہیںلیکن انھیں ہندی فیچرکے نام سے متعارف کیا گیا ہے۔اردوعوامی سطح پر نمائندہ زبان ہے آج بھی۔اسی طرح صحافت ہے۔پاکستان میں مجھے اخبارات نے مایوس کیا پاکستان میںاخبارات کاوہ معیارنہیں رہا جوماضی میں کبھی تھا اتنابڑااخبارجنگ جس نے ملٹی ایڈیشنز کی روایت ڈالی اتنے چھوٹے فونٹ میں شائع ہوتا ہے کہ الجھن ہوتی ہے سمجھ نہیں آتا کہ اخبارپڑھنے کے لیے چھپتا ہے یا کاغذ بانٹنے کے لیے!!ہندوستان میں دوبڑے اخبارہیں بارہ صفحات کے اتوارکے دن ۲۰۔۲۰ صفحات کے شائع ہوتے ہیں لیکن ان کا فونٹ بہتر ہے پڑھنے میں دقت نہیں ہوتی۔پاکستان میں اس حوالے سے معیارکوبہترکرنے کی ضرورت ہے۔بہرحال پاکستان آکربہت خوشی ہوئی۔بیرون ممالک میں جتنے اردوزبان وادب سے وابستہ لوگ ہیں ان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ کراچی یا لاہورجائیں اورادبی دنیا کواپنی آنکھوں سے دیکھیں لاہوراور کراچی اردووالوں کے لیے مکہ اورمدینہ جیسی اہمیت کے حامل ہیں۔کراچی آتے ہی ایک حلقہ ادب صاحبان ذوق میں بیٹھنے کا موقع ملا اس ادبی مجلس میں اردونظم کی شان ڈاکٹرصبااکرام،معروف محقق ،نقاد،شاعرڈاکٹرشاداب احسانی، صفدرصدیق رضی،رضوان صدیقی،ناول نگارحنیف عابد ، زاہد حسین ، طارق رئیس فروغ،انیس مرچنٹ،راشدعزیر،شہاب الدین شہاب،واثق قیوم،وغیرہ کی اس مجلس میں شریک ہوا رات گئے یہ سلسلہ جاری رہا ایسی روایات کبھی میرٹھ میں بھی تھی اب کم کم ہے اورآج کل نامی ادبی رسالہ میں ’ادبی اڈا‘ کے عنوان سے ایسی مجلسوں کی روداد نگاری کی جاتی ہے۔کراچی کے اخبارات ورسائل کوبھی ایسی نشستوں کی روداد دیناچاہیے تاکہ علمِ مجلسی کوفروغ ہو۔کراچی کامیرٹھ سے قدیم تعلق ہے۔ میرٹھ سے شوکت سبزواری،نصیرامروہوی،نوراحمدمیرٹھی،احمدہمدانی وغیرہ یہاں آکربسے اورعلمی وادبی روایت میں حصہ ڈالا۔میری رائے میں پاکستان اورہندوستان کے اردوزبان وادب سے وابستہ لوگوں کو عالمی سطح پر یکجا ہونے کی ضرورت ہے ایسی کوئی تنظیم قائم کرنی چاہیے جیسے اردوسارک کانفرنس یا فورم اورعالمی اردوقلمکار انجمن یا کانفرنس جس میں ہر ملک کے اردوادیب وشاعر کی نمائندگی ہواوروہ زبان وادب کے مسائل کے حوالے سے کام کریں۔
اردوکی ایک باکمال شخصیت ،براڈکاسٹر،صحافی،مصنف،کالم نگاررضاعلی عابدی نے طلباء اوراساتذہ سے مخاطب ہوکرکہا کہ میںآپ کے لیے ایک سوغات لایا ہوں اور انھوں نے بچوں کے ادب پر لکھا ہوا مضمون پڑھ کرسنایا سب کادل لبھایا۔انھوں نے کہا کہ میں نے بڑوں کی انیس کتابیں لکھی ہیں اوراس بات پرناز ہے کہ بچوں کے لیے ۲۰ کتابیں لکھی ہیں۔میں بچوں کا ادب لکھتا ہوں تو گمان ہوتا ہے عبادت کررہا ہوں کسی نے کہا تھا بچوں کاادب لکھنے والے کوفرشتہ صفت ہونا چاہیے کیوں نہ ہو اس کے پڑھنے والے بھی تو بچے ہیں !ایک بارکسی نے کہا بچوں کاادب لکھنے کی خاطر ان کی سطح پراترناپڑتا ہے مَیں نے کہا جی نہیں ! ان کی سطح پر بلندہوناپڑتا ہے۔کہاں وہ دنیا میں نئے نئے وارد ہونے والے بچے اورکہاں ان کے کورے کاغذ جیسے پاکیزہ ذہن اورکہا ں ہم جیسے دنیا بھرکی آلودگیاں سمیٹے فرسودہ لوگ مگر اس میں ایک بچت کی صورت بھی ہے اگریہ بات طے ہے اوریہ بات طے ہے کہ ہم سب کے اندرایک بچہ چھپاہوتا ہے کچھ لوگ کچھ سمجھدارلوگ اس بچے سے دوستی کرلیتے ہیں یہ رشتہ قائم ہوجائے تو وہ بچہ ہماری انگلی تھام لیتا ہے ہم تو بڑوں کی چال چلتے ہیں وہ بچوں کی چال چلتا ہوا ہمارے ساتھ دوڑتا ہوا جاتا ہے وہ ہانپتا جاتا ہے اوربولتا جاتا ہے اورسی بولنے بولنے میں وہ اپنی کہانیاں سناتا جاتاہے جوشخص وہ کہانیاں سن کربیان کردے اسے کہتے ہیں بچوں کاادب!! بچوں کے ادب پر اذان کاگمان ہوتا ہے ویسا ہی شفاف ویسا ہی پاکیزہ دل کوچھوجانے کااحساس لیے کانوں میں یوں گونجے جیسے کان نہ ہو کوئی گنبدہو ہرفقرے کاخاتمہ کچھ اس طرح ہو جیسے گاتا ہواپرندہ گاتے گاتے دورچلاجائے۔بچوں کاادب یونہی وجودمیں نہیں آجاتااسے نکھاراجاتا ہے اس کوسنوارا جاتا ہے اسے سجایا جاتا ہے اورآخرمیں اس کے رخسارپر چھوٹا سا کالاتل لگادیا جاتا ہے تاکہ کسی کی نظرنہ لگے۔رضاعلی عابدی نے بچوں کے ادب پر اپنی نظم ’پوچھوں گی تتلیوں سے‘‘ پڑھ کرسنائی ۔
معروف شاعرڈاکٹرصبااکرام نے عمدہ ادبی نشست کے انعقاد پر صدرشعبہ اوراساتذہ کرام کو مبارک باد پیش کی اورمہمانوں کو خوش آمدید کہا۔
بچوں کے لیے ناول لکھنے والے شاعر صحافی حنیف عابد نے کہا کہ شعبہ اردوکی ادبی نشستوں میں آج کی نشست اس لیے بھی اہم ہے کہ بچوں کے ادب کی معروف شخصیت رضاعلی عابدی سے اس موضوع پرسیرحاصل مقالہ سننے کوملا ۔
بعدازاں پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی نے مہمانانِ خصوصی کاشکریہ ادا کیا انھوں نے کہا کہ آج ہماری اردواور ہماراشعبہ اردو ہمیشہ مرہونِ احسان رہے گا کہ آپ تمام احباب یہاں تشریف لائے آج ہم سب کے لیے بہت اہم دن ہے کہ یورپ اورایشیا کاسنگم آج ہمارے شعبہ میں ہے!رضاعلی عابدی سدابہارشخصیت ہیں ان کاتعلق رُڑکی سے ہے کہ جہاں کااردوانجینئرنگ کالج معروف تھا اردومیں انجینئرنگ کی تعلیم انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں دی جارہی تھی اب آپ اندازہ کرلیں علاقے کاجوخمیرہوتا ہے کیسا ہوتا ہے کہ آج بھی کسی بھی موضوع پر ان سے بات کرالیں وہ اردومیں بات کرلیں گے چاہے سائنس وٹیکنالوجی ہو یا کچھ ہو پھران کی کتابیں بے مثل ہیں جو چلتی پھرتی تہذیب وثقافت کی نمائندہ کتابیں ہیں۔پھرعارف نقوی صاحب برلن سے تشریف لائے ہیں اردوانجمن برلن کے بانی صدراِن کی شاعری سے ہم مستفید ہوئے ڈاکٹروفایزداں منش ایرانی لہجے میںاردومدّت بعد سنی ہم نے اب فارسی کاچلن نہیں رہا ورنہ کبھی اس لہجے میں اردوبولنے والے بھی تھے کراچی میں! ڈاکٹراسلم جمشیدپوری میرٹھ سے یہاں آئے اورایک روایت کااحیاء کیا تاریخ بتائی ۔
ڈاکٹر شاداب احسانی نے اساتذہ کرام ڈاکٹر صفیہ آفتاب،ڈاکٹر راحت افشاں،ڈاکٹر صدف تبسم،ڈاکٹرخالدامین،ڈاکٹرسہیلہ ،ڈاکٹرانصار،ڈاکٹر ذکیہ رانی،ڈاکٹر صدف فاطمہ،لیکچرارعائشہ ناز،عطیہ ہما،محمدسلمان،محمدشاکر،منیب الحسن،دیبا مشتاق،مہوش کامہمانوں سے تعارف کرایابعدازاں انھوں نے بتا یا کہ شعبہ میں آمد سے قبل شیخ الجامعہ،جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹراجمل خان صاحب نے چائے پر مدعوکیاتھا انھوں نے شعبہ ٔ اردوکی کارکردگی اوربیرونِ ممالک میں اردوکے حوالے سے درپیش مسائل کے حل کے لیے شعبہ اردوجامعہ کراچی کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے امید ہے آنے والے دنوں میں یہ تعلقات اوربھی مضبوط ہوں گے۔
صدرمجلس اورصدرشعبۂ اردوپروفیسرڈاکٹرتنظیم الفردوس نے مہمانوں کوسپاس نامہ پیش کرتے ہوئے طلبا وطالبات کو سراہا کہ وہ امتحان کے بعد اس نشست میں آخرتک شریک رہے اوران کی خوش نصیبی ہے کہ انھوں نے مشاہیرِ ادب کواپنی آنکھوں سے دیکھااوران سے باتیں کیںجو مستقبل میں ان کاسرمایہ ہوںگی انھوں بالخصوص ڈاکٹر شاداب احسانی کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی مساعی سے ان مشاہیرِا دب نے شعبہ اردوکوعزت بخشی اور اس خوبصورت تقریب کااہتمام کیا۔ شعبہ اردوسے بی ایس سال سوم کے طالب علم محمدعثمان اوران کے ہمراہ ایم اے سال اول کے ،ایم اے سالِ آخر، بی۔ایس ، ایم،فل اردو،پی ایچ ڈی کے طلباء نے انتظامی امورمیں معاونت فرمائی ۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر ذکیہ رانی نے اور دیگرانتطامی امورمحمدسلمان،محمدشاکر ،منیب الحسن ،سیدعون نے انجام دیئے،تقریب کے اختتام پر مہمانوں اورنظامت کار کو گلدستے اورکتابوں کے تحائف پیش کیے گئے اورظہرانے کے ساتھ تقریب اختتام کوپہنچی۔
\"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\" \"\"

Leave a Comment