اردو شاعری کے ہر دور میں عصری حسیت کے حوالے سے ہندوستانی معیشت کی ترجمانی ملتی ہے: پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی
پروفیسر صاحب علی گلدستہ پیش کرکے پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کا استقبال کرتے ہوئے، ساتھ میں پروفیسر شفیع شیخ اور ڈاکٹر معزہ قاضی
ممبئی،۲۲؍نومبر(اسٹاف رپورٹر) شعبۂ اردو ،ممبئی یونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقدہ ’علی سردار جعفری میموریل لیکچر ‘ کے تحت آٹھواں یا دگاری خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو کی معروف اسکالر اور شاعرہ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے ــ’ہندوستانی معیشت اردو شعرا کی عصری حسیت کے حوالے سے‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو شاعری کے ہردور میں عصری حسیت کے حوالے سے ہندوستانی معیشت کی ترجمانی ملتی ہے۔ انھوں نے ہندوستان کے وسیع تاریخی پس منظر کے حوالے سے مختلف ادوار میں معیشت کی صورتحال پراجمالاًتبصرہ کیااور اردو شاعری کے ابتدائی دور سے عصر حاضر تک کے شعرا کی تخلیقات سے مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو شاعروں نے ہر عہد میں اپنے سماج سے وابستہ معاملات و مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں معیشت کو بھی نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے ۔ پروفیسر عابدی نے ملکی معیشت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے عناصر زراعت ، تجارت ، صنعت و حرفت کے تناظر میں ابتدائی دور سے عصر حاضرتک کی اردو شاعری میں معاشی احوال و آثار کی نشاندہی مدلل انداز میں کی ۔ انھوں نے دکن اورشمالی لی ہند کی اردو شاعری کے مختلف ادوار کے شاعروں کی تخلیقات سے مثالیں پیش کیں جس میںمحمد قلی قطب شاہ، سراج، ولی، فائز، آبرو، حاتم ، جعفر زٹلی، سودا، میر، غالب، ظفر کے علاوہ سرسید اور ان کے رفقا، ترقی پسند تحریک اور اس تحریک کے بعد منظر عام پر آنے والے معروف و ممتاز اردو شاعروں کے یہاں عصری حسیت کے حوالے سے ہندوستانی معیشت کے احوال کی نشاندہی کی ۔ معیشت کی سمت و رفتار طے کرنے والے شعبوں اور عوامل کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اردو شاعروں نے کسانوں، مزدوروں، مفلسوں، سرمایہ داروں، بے روزگاروں کے مسائل جس انداز میں بیان کیے ہیں ان سے اس عہد کی معیشت کی صورتحال کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ہر عہد کے اردو شعرا کی غزلوں، نظموں، مثنویوں، شہرآشوبوں میں اس نوعیت کے اشعار مل جاتے ہیں جو ہمعصر معیشت کی ترقی یا تنزل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس یادگاری خطبہ کی صدارت شعبۂ عربی ممبئی یونیورسٹی کے سابق صدر اور معروف اردو شاعر پروفیسر شفیع شیخ نے کی ۔ انھوں نے صدارتی خطبہ میں پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کے پرمغز مقالے کی توصیف کرتے ہوئے کہا کہ اس مقالے میں سمندر کو کوزہ میں ایسی مہارت کے ساتھ سمویا گیا ہے جو فہم و دانش کی سیرابی کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ پروفیسر شفیع شیخ نے کہا کہ پروفیسر عابدی نے اس منفرد موضوع پر جس تحقیقی اور تجزیاتی انداز میں روشنی ڈالی ہے وہ ان کی دانشوری کی بہترین مثال ہے۔انھوں نے اس خطبہ کے انعقاد کے لیے شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر صاحب علی اور ان کے رفقا کو مبارک باد دی اور یہ امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی اس درخشاں روایت کو برقرار رکھا جائے گا۔پروگرام کے آغاز میں شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر صاحب علی نے اس یادگاری خطبہ کی غرض غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کے ذریعہ عموماً ادب وثقافت اور معاشرہ سے متعلق اہم و منفرد موضوعات پر معلومات افزا خطبات پیش کیے جاتے ہیں جو زبان و ادب کے اساتذہ، طلبا اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مفید اور کارگر ثابت ہوں ۔انھوں نے کہا کہ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو کی معروف اسکالر اور شاعرہ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کو ’ہندوستانی معیشت اردو شعرا کی عصری حسیت کے حوالے سے ‘جیسے اہم موضوع پر لیکچر کی دعوت دی گئی ہے۔ پروفیسر صاحب علی نے کہا کہ اس سے قبل شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر اسلم پرویز، پروفیسر عبدالستار دلوی، ڈاکٹر محمود الرحمن ، پروفیسر اختر الواسع جیسے ممتاز اسکالر س اور دانشور وں نے شعرو ادب، تعلیم و تہذیب سے متعلق مختلف موضوعات پر خطبات پیش کیے ہیں۔انھوں نے کہا کہ آج کے اس پروگرام کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے صدر اور مقررہ دونوں علم و ادب کی دنیا میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیںجنھوں نے اپنی شاعری اور دیگر تخلیقات کے ذریعہ اہل ادب کو اپنا معترف بنایا ہے۔اس پروگرام میں شعبۂ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر معزہ قاضی، ڈاکٹر عبداللہ امیتاز، ڈاکٹر جمال رضوی، ڈاکٹر قمر صدیقی، ڈاکٹر سرکھوت مزمل، ڈاکٹر رشید اشرف خان، شری سنمترا نوگھڑے، مختلف کورسس میں زیر تعلیم طلبا کے علاوہ احمد وصی، قاسم ندیم، عبداللہ مسرور، پرنسپل فضل الرحمان خان ڈاکٹر ذاکر خان ذاکراوردیگر ادب شناس شخصیات نے شرکت کی اور کامیاب بنایا۔ پروگرام کے آخر میں پروفیسر صاحب علی نے تمام شرکا اور خصوصاً این سی پی یو ایل نئی دہلی کا شکریہ ادا کیاجس کے مالی اشتراک سے اس یادگاری خطبہ کا انعقاد عمل میں آیا۔