شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں منعقد دو روزہ قومی سیمینار اختتام پذیر

شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا سنہرادور پھر سےشروع ہو گیاہے۔ پروفیسرحسین الحق

 مقالہ نگاروں نے شعبہ کے اساتذہ و طلبا کے علمی و تحقیقی کارناموں کا جائزہ لیا
\"27654369_1650830671622914_165132761957556728_n\"

پٹنہ (اسٹاف رپورٹر )بر صغیر ہند و پاک میں اردو زبان و ادب کے بڑے مشاہیر کی خمیر خوش رنگ چمن عظیم آباد میں تیار ہوئی اور عظیم آباد کی خمیر سے تیار ان مشاہیر کا سر رشتہ کہیں نہ کہیں جاکر پٹنہ یونیورسٹی سے ملتا ہے، ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار بعنوان \’اردو زبان و ادب کے فروغ میں پٹنہ یونیورسٹی کی خدمات کے دوران پروفیسر اے قدوس جاوید نے کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ معاصر اردو ادب میں سرزمین بہار سے ہی بہار ہے، انہوں نے ماضی کی پر بہار محفلوں و ادبی نشستوں کی نوحہ گری کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ ادب و دائرہ ادب کی محلفوں کو آج آنکھیں ترستی ہیں، اے کاش وہ رنگین و ادب پرور مجلسیں پھر سجنی لگیں۔
پروفیسر کوثر مظہری نے شکیل الرحمن اور جمالیات غالب پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ غالب کی شاعری کی تفہیم و تشریح بہت سارے زاویے سے ہوئی ہے لیکن جمالیات غالب کی تفہیم بالخصوص رقص و موسیقی کے حوالے سے بالکل نہیں ہوئی شکیل الرحمن پہلے شخص تھے جنہوں نے نئے انداز و خوبصورت پیرائے میں جمالیات غالب کو روشناس کرایا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ غالب کی شاعری سے اگر رقص و موسیقی اور رنگ کو نکال دیا جائے تو ان کی شاعری پھیکی نظر آئے گی، غالب سرخ لہو تمثال کے شاعر ہیں، شکیل الرحمن نے غالب کی پرتیں کھولنے میں تخلیقی تنقید کا سہارا لیا، پروفیسر اسرائیل رضا نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ پٹنہ یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی تدریس کی شروعات عبد المنان بیدل سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک لمبی فہرست ہے جو کلیم الدین احمد، اختر اورینوی، غلام سرور، لطف الرحمن، جمیل مظہری، کلیم عاجز سے ہوتے ہوئے شہاب ظفر اعظمی تک پہنچتی ہے، یہ فہرست بہت روشن و تابناک ہے۔وہیں دوسرے سیشن میں مقالہ پڑھتے ہوئے پروفیسر طلحہ رضوی برق نے کہا کہ شمالی ہندوستان کی ایک اہم ادبی دبستان عظیم آباد کے حصار کو مستحکم کرنے میں پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کا بڑا ہی اہم اور نمایاں کردار رہا ہے۔
واضح رہے کہ پٹنہ یونیورسٹی میں منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار بعنوان اردو زبان و ادب کے فروغ میں پٹنہ یونیورسٹی کی خدمات کا جمعرات کے روز آخری دن تھا، بدھ کی صبح شروع ہوئے اس سیمینار کا اختتام جمعرات کی شام ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے کلمات تشکر کے ساتھ ہوا- جمعرات کے دن تین تکنیکی اجلاس ہوئے، پہلی نشست کی صدارت پروفیسر اسرائیل رضا، پروفیسر علیم اللہ حالی نے مشترکہ طور پر انجام دی جبکہ اس نشست میں پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر کوثر مظہری، ڈاکٹر فرزانہ اسلم، پروفیسر سید شاہ حسین احمد، ڈاکٹر درخشاں زریں، نرجس فاطمہ نے اپنے اپنے مقالے پیش کئے۔
لنچ کے بعد اختتامی تقریب ہوئی جس کے مہمان خصوصی معروف فکشن نگار حسین الحق تھے جبکہ صدارت پوفیسر طلحہ رضوی برق اور ڈاکٹر جاوید حیات نے فرمائ۔اس سیشن میں ڈاکٹر ممتازاحمد ڈاکٹر شاداب رضی زرنگار یاسمین اور حذیفہ شکیل نے پیش کئے۔اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےتمام مقررین نے اسے تاریخی اور کامیاب ترین جشن قرار دیا اور ہرسال اسی طرح منعقد کرنے اور ابنائے قدیم کی تنظیم بنانے پر زور دیا۔سیمینار کے تمام اجلاس میں اخیر تک طلبہ اور معززین شہر کی بڑی تعداد موجود تھی۔
سیمینار میں شعبے کے پرانے طالب علم اور معروف صحافی ریاض عظیم آبادی کی پچاس سالہ صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایک یادگار نشان اور سند اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
\"27751722_1650830034956311_4393041215826920555_n\" \"27540895_1650834264955888_1828362149156327943_n\" \"27654756_1650827721623209_5424838250507701642_n\" \"27655356_1650828848289763_3321199914744290505_n\" \"27655524_1650828221623159_933124794731573411_n\" \"27657158_1650833748289273_1326064297503459455_n\"

Leave a Comment