شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا

\"_20161004_210737\"

الہ آباد(اسٹاف رپورٹر )شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی نے گاندھی جینتی کے موقعہ پر بابائے قوم مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ۲اکتوبر کو مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش بڑے جوش وخروش سے منایا گیا۔ شعبئہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی نے اس موقعہ پر یونیورستی کے گاندھی وچار و شانتی ادھین سنستھان کے کانفرنس ہال میں ایک جلسے کا انعقاد کیا جس کی صدارت سنستھان کے ڈائیرکٹر پروفیسر یوگیشور تیواری نے کی ۔جلسے کا آغاز ڈاکٹر ضیاء الدین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ صدر شعبہ ڈاکٹر صالحہ رشید نے مہمانوں کا استقبال کیا اور جلسے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے’’مختلف مذاہب کے تئیں مہاتما گاندھی کا نظریہ اور اسلام ‘‘عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔جس میں انھوں نے بتایا کہ گاندھی جی ہندو مذہب کے پیرو تھے۔وہ اپنے عقیدہ کے اعتبار سے پکے ہندو تھے۔ وہ مذہب کی تعریف اس طرح کرتے تھے کہ ان کے مذہب کی کوئی جغرافیائی حد نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ ان کا مذہب پوری طرح ستیہ اور اہنسا پر مبنی ہے۔ تیسرے یہ کہ ان کا مذہب کسی سے بھی نفرت کرنے سے روکتا ہے۔ چوتھے یہ کہ ان کا مذہب لوگوں کو جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ ان کے مطابق دنیا کے تمام مذاہب ایک ہی تعلیم دیتے ہیں جس میں مساوات ،بھائی چارہ اور رواداری خاص ہیں۔ وہ علامہ اقبال کا مصرعہ برابر دہراتے تھے۔ ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘۔ان کے مطابق مذہب کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ تو فرد کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ گاندھی جی کے اکثر خیالات وہی ہیں جن کی تعلیم قرآن دیتا ہے۔ انھوں نے مذہب اسلام کا مطالعہ کیا تھا ۔وہ اسلام کی رواداری ،مساوات اور سادگی کی تعلیم سے بہت متاثر تھے۔ انھوں نے سیرت رسولؐ اور خلفاء راشدین کی حیات طیبہ کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ وہ اپنی صبح کی دعاء میں اکثر سورئہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ وہ ہریجن اور ینگ انڈیا اخباروں میں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ دوسرے مذاہب کو جان کر ہی ہم ان کی عزت بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔وہ کہتے تھے کہ اگر ہم ہندو ہیں تو ہمیں ایک بہتر ہندو ہونا چاہئے۔ سب اپنے مذہب کو اچھی طرح سمجھیں تو ٹکرائو کی نوبت ہی نہ آئے۔اس کے بعد شعبہ کی ریسرچ اسکالر عابدہ خاتون نے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ،صدر شعبئہ اردو ،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ،کی کہانی ’سچائی کا راستہ ‘ کی پر تاثیر قرأت کی۔گاندھی جی کے ستیہ اور اہنسا کے اصولوں پر مبنی یہ کہانی دل کو چھو گئی۔ کہانی کا ایک جملہ ’کیا گاندھی آئوٹ ڈیٹڈ ہو گئے‘سوالات کا طوفان کھڑا کر دیتاہے اور موجودہ حالات میں غور و خوض کی تلقین دیتا ہے۔ان دونوں پیش کش کے بعد بحث و مباحثہ کا طویل سلسلہ چلا۔طلباء نے پورے جوش و خروش کے ساتھ اس مباحثے میں حصہ لیا اور کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انھوں نے صدر شعبہ ڈاکٹر صالحہ رشیدسے اس طرح کے مزید پروگرام کے انعقاد کا مطالبہ کیا ۔جس پرانھوں نے مہینے میں کم از کم ایک اس طرح کے پروگرام کے انعقاد کا وعدہ کیا ہے تاکہ طلباء کی ذہنی پرداخت ہو سکے۔ شعبہ کے استاد ڈاکٹر محمود مرزا نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔پروگرام میں شعبہ کے اساتذہ کے علاوہ کثیر تعداد میں طلباء نے شرکت کی ۔

Leave a Comment