فیاض احمدوجیہہ
حقانی القاسمی دلی ایسے شہر میں جو بہ قول میرؔ عالم میں انتخاب ہے،آج بھی اس طرح ’رہتے ہیں‘ جیسے کسی گاؤں میں پیپل کی چھائوں۔اس مہانگر میں اکثر یہ خیال مجھے پریشان کرتا ہے کہ کوئی شخص کیسے اپنی لفظیات میں بیک وقت اتناکہنہ ہے اورجدید بھی۔ان کی خوشبو ،رنگ اور روشنی احساس،سطروں میں ان کا ذہنی اور نفسی وجود مجھے ایک ہی دکھائی پڑتا تھا،لیکن میری اس سوچ کو وصال ان ساعتوں میںنصیب ہوا جب میں نے ان کو اپنے بچوںکی ہنستی اور روتی ہوئی آنکھوں میں ’ماں ‘بنتے ہوئے محسوس کیا۔اُن ساعتوں کی سائکی میںتحیرکائنات کی خوشبو بھی تھی کہ ہنستی ،مسکراتی ،گنگناتی اور ملول ہوتی آنکھیں’ماں‘ کا عطیہ ہی ہوتی ہیں۔شاید انہی ساعتوں میں کسی لمحہ مجھ پر یہ رمزبھی منکشف ہوگیا کہ اس مہانگر میں اپنی پیشانی پر جو شخص دھوپ لیے نہ جا نے کب سے پھر رہا ہے ابھی تک اپنے گائوں کی دھول مٹی سے بھی کہاں نکلاہے۔اس کے بعد سے ہی میںبدن،مٹی اور ماں کی ایسی مقدس کتھائیں سن رہا ہوں جس کی سطریں گائوں کے پن گھٹ کی طرح ہی سچی ہیں ،اور جو کچھ بھی اس شہراورمہانگر میں اس کے مدمقابل ہے اس کی حیثیت Dancing Bear\” \”کی سی ہے۔اس کلچر میں کسی ایسے شخص کا وجود ہی تازیانہ ہے۔اس مصنوعی سماج کے سایہ میںزندہ رہنا شاید ہماری مجبوری ہے لیکن اس مقدس احساس سے الگ ہوکر ہم اپنی مجبوریوں کو موت کی گود میں سونپ دینا پسند کریں گے۔اس طورپر یہ واقعہ نہیں ہے کہ موت کی عذاب ساعتوں کا تسلط قائم ہو چکا ہے،لیکن یہ احساس تو ابدی ہے:
گویند مرا چو زاد مادر/پستان بہ دھن گرفتن آموخت/شب ھا برِگاھوارۂ من/بیدار نشست و خُفتن آموخت/دستم بگرفت و پا بہ پا بُرد/تا شیوۂ راہ رفتن آموخت/یک حرف و دوحرف بر زبانم/الفاظ نھاد و گفتن آموخت/لبخند نھاد بر لب من/بر غنچۂ گل شکفتن آموخت/پس ھستیِ من ز ھستیِ اوست/تاھستم و ھست دارمش دوست ——(نظم ’مادر‘)
ایرج میرزا(م:1926ء)کی اس نظم کی تخلیقی سائکی بے پناہ ہے اور کہیں نہ کہیں اس میں وہ فطری تجربہ اور مشاہدہ سطح پرچلا آیا ہے جس کا شدید احساس حضرت انسان کو اس وقت ضرورہوتا ہے جب وہ خود اس رشتہ کی تقدیس وتجدیدکا شرف حاصل کرتا ہے۔وہ اپنے بچپن کی دھول مٹی میں اچانک اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ایسے ہی کسی لمحہ میں اس کو کسی سایہ کی عظمت اُوڑھ لیتی ہے۔’رینو کے شہر میں‘ ھستیِ من ز ھستیِ اوست—— کا خالص فطری اورابدی تجربہ ایسے المیہ میں ڈھل گیا ہے کہ’ دل داغدار ماں کا مزار ‘بن گیا ہے ۔اسی تجربہ نے تھوڑی دھوپ اور اُوڑھی تو کائنات کا جمال بھی اس میں منقلب ہو گیا۔اس طوراحساس کی ایک نئی فرہنگ وضع ہوئی اورمعلوم ہوا کہ’ ماں کی قبر کی مٹی میں کائنات جمال کی جستجو ‘ہماری بھید بھری زندگی کا مقدس صحیفہ ہے ۔اس مقدس صحیفہ کی تشکیل اورپہلی قرأت حقانی القاسمی نے کی ہے۔اول تومٹی کا بھیدہی اپنی ماہیت میںعظیم ترین استعارہ ہے اور اس کے جمالیاتی وجدان میں خوشبو کا احساس(؟) شایدسلوک کی وہ منزل ہے جس کو باطن کی بینائی ہی محسوس کرتی ہے۔دراصل حقانی القاسمی نے اپنی سانسوں کو رات کے طویل سایہ میں تسخیر کیا ہے۔اس لیے ان کے ہاں وہی مشاہدہ ملتا ہے جو محمد حسین شہریار(م:1988ء)کی ایک نظم—— ’ای وای مادرم‘کا تخلیقی کیف ہے۔ان کی اس طویل نظم کے بیانیہ میں ناستلجیائی احساس بھی گامزن ہے۔اس بیانیہ کا کردار بیمارہے ۔ اس کی نگہداشت اورتیمارداراس کی ماں ہے ،لیکن یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کو ہم Dilemma کہہ سکتے ہیں۔دراصل اس Dilemma میںنشاط و غم کی اصل کیفیت اورٹریجڈی یوں نمایاں ہوتی ہے:
——’بردی مرا بہ خاک سپردی و آمدی؟‘/تنھا نمی گذارمت ای بینوا پسر/می خواستم بہ خندہ درآیم زاشتباہ/اما خیال بود/ای وای مادرم!
حقانی القاسمی نے بدن،مٹی اور اس عظیم ہستی کی جمالیات کو اپنے اندرون میں محسوس کیا ہے،اس لیے ان کا مسلسل احساس تخلیقی تجربہ میں ڈھل گیا۔یقین جانیے شکیل الرحمن کے جمالیاتی وجدان کے ادراک میں بھی روشنی اوراحساس کا یہ پہلاقطرہ فقط انتساب نہیں بلکہ جسم وجان کے اس عظیم سایہ کا ازلی گیت اور نوحہ ہے،ان کے ہاں ابدی موسیقی کی زبان مصوری میں ڈھل گئی ہے۔چوں کہ وہ ظاہری تشخص کی تہوں سے آزاد ہونے کے بعد بھی’ کسی‘ کی سانسوں میں مسلسل بسی ہوئی ہے۔ویسے اس شدت احساس کو TINCTURE OF MADNESSکہنے میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ اس کیفیت اور جذب و جنوںکو مہذب زبان کے کسی لفظ میں قید کرنا مجھ نارسا کے لیے محال ہے۔ایسے بھی یہ حضرت انسان کا شدید فطری رویہ ہی ہے کہ بہ قول صائب تبریزی (م:):
زگاھوارہ تسلیم کن سفینۂ خویش/میان بحر بلا در کنار مادر باش
حقانی القاسمی جمالیات کی تصریحات میں انفرادبھی اسی وجہ سے رکھتے ہیں کہ انہوں نے بدن،مٹی اور اس کے تحیرات میں کئی راتوں کا مسلسل سفر کیا ہے۔اس سفر کو حالت جنوں میں ہی طے کیا جاسکتا ہے ورنہ دن کی عذاب آنکھوں میں سطریں طلوع ہوتی ہیں اورنہ ہی بدن کا کوئی عضوہی سالم رہتاہے۔دن کا سایہ ایسا طویل ہے کہ ہر مسافت کے بعد کوئی نہ کوئی ٹوک دیتا ہے اور لفظوں کی پیشانی کی پروا کیے بغیر اپنی ڈراونی اور بے ہنگم آواز میں مسلسل پکارتا ہے اس آوارہ ذہن کو جلا وطن کرو——جلاوطنی ایسے ہی ذہنوں کا مقدرہے، حقانی القاسمی نے اس جلاوطنی کی پرستش کی ہے اس لیے ان کے ہاں دن اور رات کا مطلق وجود نہیں ملتا۔ان کی سوچ بھر سطروں، پر کان دھرنے کے لیے سماعتوں کا ’جوگی‘ ہونابھی ضروری ہے چوں کہ انہوں نے تحیرات کی کروٹوں میں الکھ جگایا ہے۔ان کروٹوں کو محسوس کرنے کے لیے بھی یک گونہ بے خودی درکار ہے۔ہم دن اور رات کے جس سایہ میں قید ہیںاس کا اپنا وجودہی جھوٹ ہے ایسے میں تحیرات کے ان ارتعاشات کا گزربھی کیسے ہو سکتا ہے۔ان تحیرات کو حقانی القاسمی نے اپنی قرأت کا مسلسل شیوہ ہی نہیں بنایا بلکہ جمالیات کے عظیم ترین سیاح شکیل الرحمن کے ہاں دریافت بھی کیاہے۔ہمارے ہاں جمالیات کی کوئی بھی بوطیقاان ذہنوں کو عنوان کیے بغیراپنے معراج سے محروم رہے گی۔دراصل یہ وہ شعریات نہیں جس کو ہماری فارمولہ تنقید مختلف عنوان میں پیش کرتی رہی ہے۔یہ نئی تنقید کا وہ اسلوب ہے جس کاجوہر فکشن اور فکشن کی سچائی ہے۔فکشن کی اس سچائی میں روزاول کی کہانی بھی شامل ہے اور ان ارتعاشات کی نایاب خوشبو بھی جن کو ہم اساطیر،لوک کتھااور تحیرات عشق کی مسلسل شکلوں میں دیکھ سکتے ہیں۔اس فکشن کی ایک بڑی سچائی مشرقی شعریات ہے لیکن مغربی شعریات سے اس کوگریز بھی نہیں۔ان باتوں کوحقانی القاسمی کے ہاں ملاحظہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ان کا ذہنی وجود نہ صرف اُن روایات سے چراغاں ہے بلکہ عربی شعریات،فارسی شعریات اور انگریزی شعریات کے علاوہ سائنسی علوم کے طبعیات اور حیاتیات کا جمالیاتی ادراک بھی ہے۔حقانی القاسمی کے اس تشخص کا تعین ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ شکیل الرحمن ایسے زیرک نقاد کی تصریحات میں کوئی دوسرا ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔چنانچہ نقد شکیل کی قرأت اس ’جوگی‘ کے ہاں بامعنی نظرآتی ہے۔ اس کے باوجود حقانی القاسمی ’در تہہ ہر حرف…‘میں لکھتے ہیں:
بڑی ہستیوں کا ذہنی نظام بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔ان کے جملہ ذہنی زاویوں کی تفہیم وتعبیر آسان نہیں ہے۔شکیل الرحمن کے تعلق سے تو یہ مشکل اوربھی بڑھ جاتی ہے کہ ان کے ذہنی تجسس اورتحرک نے ایک ایسا منطقہ دریافت کیا ہے جس کی منطق اردو کی عمومی تنقیدی روایت اور روش سے مختلف ہے۔
یہاںبہت سی باتوں کی ظاہرداری کے علاوہ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ نقد شکیل کا علمیاتی زمرہ ان متون میں خفی ہے جن کی قرأت اُردو میں بہت کم قائم ہوئی ہے۔دراصل اس کی مرتب اور غیر مرتب شعریات اس کائنات کا وہ عظیم واقعہ ہے جب ابھی پہلی دفعہ مرد نے عورت کو چھواتھااوراپنے ہی بدن کے تحیر میں ان کی آنکھیں سراپا حیرت تھیں۔اُن آنکھوں کی ہنسی اس شعریات کی پہلی کڑی تھی تو اُن کے آنسو اس شعریات کی ایک دوسری کروٹ۔اس تحیر آمیزسفر کا آغاز بدن سے ہوا اورکائنات کے ہرذرہ میں اس نے اپنے آہنگ کی دریافت کی اور ایک بار پھر اس سفر کامرجع بدن ہی قرار پایا۔اس مسلسل عمل کو مؤرخوں نے شماریات کی قواعد میں محفوظ کیا تو خلاق ذہنوں نے مصور اسلوب میں کوہ کنی کی، شاید اسی لیے تحیرات عشق کی کہانیاں تاریخ کی شماریات سے اکثرسچی معلوم ہوتی ہیں۔ہماری تنقید اپنے قالب میں ان باتوں سے اجنبی ہے کہ اس کی کل قواعد لفظوں کی ظاہری پیشانی سے مرتب کی گئی ہے۔اس میں Eternalization of thoughtکی گردان کو بھی خاصا دخل ہے۔ماضی قریب میں وزیرآغااورگوپی چندنارنگ ایسے نقادہیں جن کے مضامین(نظم/فکشن)میں لفظوں کے تحیرات کا درشن ہوتا ہے۔بلاشبہ ان تحیرات میں ہی جمالیات کا گزرہوا ہے۔گوپی چند نارنگ کے فکشن اساس مضامین کے مطالعات میںکتھا کہانی،اساطیر ،بدن کی سائکی اور بدن کے مصورمتون کے جمالیاتی سیاق کو محسوس کیا جا سکتاہے۔لیکن شکیل الرحمن اس مصور اسلوب کے سیاح اعظم ہیں کہ انہوں نے مثنویات/منظومات/بیانیہ غرض فنون لطیفہ کی ہر عبارت کو جمالیات کی ہمہ گیر اور مخصوص منطق میں قائم کیا ہے۔اس لیے حقانی القاسمی کا یہ مفروضہ محض نہیں کہ نقد شکیل کی منطق اردو کی عمومی تنقیدی روایت اور روش سے مختلف ہے۔شکیل الرحمن کی شعریات میں اس بات کو یوں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں تخلیقی متون کی قرأت ہرآن بدلی ہوئی نظرآتی ہے۔
شکیل الرحمن کی تنقید مشرقی شعریات کا اہم ترین حوالہ اس لیے بھی ہے کہ اس میں قدیم متون کاچہرہ اکثر روشن ہوگیا ہے۔یہ نقدشکیل کی تخلیقیت ہی ہے کہ اس میں فکشن کے لغوی مفہوم کو شدید نقصان پہونچاہے۔بدن اور مٹی کی تہوں میں اُترکر انہوں نے ہر اس آنچ کی شدت محسوس کی ہے جن کو مٹی اپنی کوکھ میں لیے کب سے پھر رہی تھی۔اس آنچ کی حرارت میں حقانی القاسمی نے سات قدم طے کیے ہیںاس لیے مجھ ایسے قاری کے حضوربھی اس کی سیاہ بوندیںشایدروشن ہوگئی ورنہ ان تحیرات کے ارتعاشات کی جلی عبارتوں میں بھی بھید بھری باتیں ہیں۔نقد شکیل کے تناظرات میں حقانی القاسمی کی غواصی کچھ یوں نمایاں ہوتی ہے:
}بین علومی مطالعات
}جمالیاتی اوصاف کا اظہار/اطلاقی جمالیات کی بلند ترین مثال
}تخلیق کے داخلی جمالیاتی تحرک کی تلاش
}شکیل الرحمن کی تنقیدبھی فکشن ہی ہے کہ یہی تنقید کا نقطہ عروج ہے۔
}شکیل الرحمن کی تنقیدمیںفکشن کے جوہر ہیں بالکل اسی طرح جیسے غالب کی اردو نثر میں داستانیت۔
}ان کی تحریروں سے جمالیاتی انبساط کے ساتھ ساتھ قاری کا کرہ علم وسیع سے وسیع تر ہوتا ہے۔
}شکیل الرحمن کی مطالعاتی وسعت اور تنقیدی فکر کی عظمت کی پہچان ان قدیم تصورات کی تعبیروتفہیم سے بھی ہوتی ہے جن سے اکثر اہل اردو ناآشنا ہیں۔
}شکیل الرحمن کی نے اساطیر کا مطالعہ اس کی کلیت اور وحدت کی تلاش کے لیے کیا ہے جو کائنات انسانی کی اساس ہے۔
}اسطوری اصطلاح میں نقد شکیل کو ’میتھن تنقید‘کہہ سکتے ہیں کہ اس میں متن اور مطالعہ اور تخلیق وتعبیر میں مکمل ہم آہنگی ہے۔
}انسان کی شعوری اور لاشعوری کیفیات کو مرتعش کرنے والی ایسی تحریریں اردومیں نہیں کے برابرہیں۔
}یہ محض ایک جمالیاتی مطالعہ نہیں ہے بلکہ عمرانیاتی اور ثقافتی علوم سے آگہی کا بھی ایک وسیلہ ہے۔ثقافتی مطالعات کے باب میں بھی ان کی تحریریں ان منزلوں تک پہچاسکتی ہیںجہاں ثقافت مرکوز مضامین بھی پہچانے سے قاصر ہیں۔
ان باتوں کے سیاق و سباق میں جائیے تو اندازہ ہوگا کہ جمالیات کا کرۂ علم کتنا وسیع اور ہمہ گیر ہے اور شکیل الرحمن اس سے کس قدر گوہر آب دار چن کرلائے ہیں۔بات یہ ہے کہ حقانی القاسمی نے اپنے مطالعات میں جنسی عمل ایسی ڈھٹائی اور ارتکاز کا ثبوت دیا ہے اس لیے زاویہ ہائے نظر کی صورتیں مل جا تی ہیں،یعنی ایک ہی وقت میں غیاب کی ان تہوں کا نظارہ جس کی ایک تہہ میں بھی اُترنا مشکل ہے۔
شکیل الرحمن کی تنقیدی رہ گزر وہ بھی نہیں ہے جو سیدھی حالی تک پہونچتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ماخوذیت اور مستعاریت کا میلان نہیں ہے جو کہ آج کی تنقیدی عمومی روش ہے۔
حقانی القاسمی کی ان باتوں میں بت شکنی کا عمل ضرور ہے لیکن یہاں جذباتیت نہیں ہے۔دراصل انہوں نے ہماری تنقید کے اس سچ کو بیان کیا ہے جس کے پس پردہ یہ رجحان نظر آتا ہے کہ مطالعات اور مشاہدات کی نفی کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں اپنے شخصی اور نفسی وجود کی نفی کی گئی ہے۔
حقانی القاسمی بعض جگہوں پر گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ان علوم سے ذراسی بھی آشنائی کے لیے اُردو میں——’زبان ،فرہنگ ،اسطورہ [ژالہ آموزگار]،’فرھنگ اساطیر[محمد جعفریا حقی ]ایسی کتابیں بھی موجود نہیں اور نہ ہی ان کتابوں سے استفادہ کرنے والے اذہان ہی ہیں۔اس لیے ان کے اسلوب نقد کی نُکیلی سطریں بھی اپنا جواز رکھتی ہیں۔
نقدشکیل کی تصریحات میں حقانی القاسمی نے سات قدم طے کیے ہیں اور ان کا پہلا ہی قدم حافظ شیرازی کے جمالیاتی نگارخانہ میں نظر آتا ہے۔جن کے فنی مشاہدہ کے بارے میں کم سے کم ہم یہ جا نتے ہیں:
استادغزل سعدیست پیش ہمہ کس ھمہ/لیکن دارد غزلِ حافظ طرز و روشِ خواجو
نہ دیدم خوشتر از شعرِ تو حافظ/بہ قرآنی کہ اندر سینہ داری
حقانی القاسمی نے ان کے جمالیاتی نگار خانہ کی سیاحت کی ہے اور ان کی مظہریت پر لبیک کہا ہے ،اس لیے ان کی شاعری کو انہوں نے Ethereal beauty قرار دیا ہے۔ان کے اس سائنسی انکشاف میں ان کی شاعری کا بھید ہم پر زیادہ کھلتا ہے ۔اس طور پر حقانی القاسمی نے یہ احساس دلایا ہے کہ حافظ کے ہاں جمالیات کا اندرون کتنا بھید بھرا اور کیفیات و جذبات کا کیسامرجع ہے۔حقانی القاسمی کے مطالعات کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ کسی بھی متن کی تعبیر میں اپنے ذہنی وجود کو ضرور ٹٹولتے ہیں اور اس کے تکملہ میں ہی کسی کی باتوں پر کان دھرتے ہیں۔یہاں بھی انہوں نے کلام حافظ کے مطالعات کا درشن پہلے کیا ہے اس کے بعد شکیل الرحمن ایسے صاحب اسلوب نقاد کے اثبات میں قدم اُٹھایا ہے۔جس Ethereal beauty کا ذکر ابھی کیا گیا ہے اس کو نقد شکیل کی زبان میں انہوں نے اس طرح نقل کیا ہے:
جس خوشبو سے کبھی جھرجھری سی ہوتی ہے اور کبھی نسیم سحر کا سرور ملنے لگتا ہے۔جسم پر نشہ سا طاری ہوجاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ احساس کی اس جمالیات کو نفسی وجود کے عرفان اور مشاہدہ کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔
اس مضمون کے مطالعہ میں کہیں ایسا نہیں لگتا کہ حقانی القاسمی کلام حافظ کو شکیل الرحمن کی تعبیرات میں پیش کررہے ہیں ۔دراصل اس نوع کے مضامین میں حقانی نے متن کی گویائی،قاری کے مکاشفہ اور شکیل الرحمن کی تفہیمات کو اس طرح تحلیل کیا ہے کہ جمالیات کی وحدت نہ صرف روشن ہوگئی ہے بلکہ نقد شکیل کا انفرادی اسلوب بھی واضح ہو گیا ہے۔ایک طرح سے یہ مطالعہ بین علومی بھی ہے اور بین قرأت بھی۔
انہوں نے جہاں بھی نقد شکیل کی قرأت کی ہے کم وبیش ہر جگہ نقد شکیل کی مسلسل منطق میں ایک نئی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔اسی وجہ سے یہ کہنے کی پوری گنجائش ہے کہ نقد شکیل کی حقانیت، دراصل قرأت کی مسلسل منطق ہے جس میں متن اور قرأت کی سائکی کا انعکاس کسی تحدید کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔اس تنقید میں تاثرات نہیں بدن کی ہر آن بدلی ہوئی خوشبو ہے اس لیے ان کے ہاں اطلاقی تنقید کی صورتوں میں بھی شخصیت پرستی کا رجحان نہیں ملتا۔حقانی نے کلام حافظ اور نقد شکیل کے عرفان میں کسی بھی نوع کی دوئی کو پیدا نہیں کیا ہے۔انہوں فکشن کی حقانی مصطلحات میں اپنی تنقید لکھی ہے اس لیے اکثر جگہوں پر ’نامانوس‘ لہجہ کا گمان ہوتا ہے حالاں کہ یہ وہ اسلوب ہے جس کی تشکیل میں لفظوں سے زیادہ بدن کی ان تہوںکو دخل ہے جو صدیوں سے مٹی کا کرب اُٹھائے پھر رہی ہیں۔حقانی اپنی آنکھوں میں دور تک سفر کرتے ہیں اس لیے ان کے ہاں اس طرح کی باتوں پربھی شک نہیں ہوتا:
شکیل الرحمن نے حافظ کے خیال کی خلوت میں داخل ہوکر ان نکات کو تلاش کیا ہے جو حافظ سے ہی مختص ہیں۔انہوں نے حافظ کی اختراعی اور ابتکاری فکری جہتوں کا اس طرح اکتشاف کیا ہے کہ حافظ ،ان شارحین سے الگ شکل و صورت میں رونما ہوتے ہیں جنہوں نے حافظ کے کلام کی تشریح و تعبیرتو کی مگر ان کے شعری تخیل کی بازگشتPoetic Resonanceکو اپنے باطن میں محسوس نہ کرسکے۔شکیل الرحمن نے اپنے قلب میں حافظ کی اس قلقل مینا کو محسوس کیا ہے،اس لیے حافظ کو ایک نئی شکل دی ہے،بالکل مختلف اورمنفردشکل کہ شعر حافظ سے ایک والہانہ شیفتگی سی پیدا ہو جاتی ہے۔
یہاں بہت سی باتوں کے ذیل میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حقانی القاسمی تنقید کی اس فطرت کے داعی ہیں جو تخلیقی متون کا جمال ہوتے ہیں، یعنی تنقید اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے جب وہ تخلیق کے احساس میں ڈھل جائے۔نقد شکیل کی اسی خوبی کو انہوں نے شکیل الرحمن کا انفراد قرار دیا ہے۔اسطور کی زبان میںتخلیق و تنقیدکے اس ملاپ کو جنس کی معراج یعنی ’ میتھن ‘کہتے ہیں۔دراصل تنقید تجسس سے زیادہ سمبھوگ کے تحیر میں زندہ رہتی ہے۔اس لیے ان کے ہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ تنقید تخلیقی جذبوں کو زبان دیتی ہے۔تخلیقی جذبوں کو زبان دینے کا عمل فقط لسانی رویہ نہیں ہے بلکہ اس رقص ِمسلسل میں تحیرات بدن کی لہریں اکثر بلند ہوتی ہیں ۔
جنسی توانائی میں شونیہ کا احساس شکیل الرحمن اور حقانی القاسمی کو اس طور سے ہوا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ ان کے ہاں جمالیات کی وحدت میں ڈھل گیا ہے۔دراصل ہمارا وجود پرچھائیں ہی ہے جس کو جنس کے مقدس لمحات میں تسخیر کیا جاتا ہے۔اپنے بدن سے گزرنے کا یہ عمل فطری ہے لیکن اس کی ’تحدید‘ ان ذہنوں کا مقدر ہے جن کے تخیل میں تازہ خون’ نہیں‘ ٹپکتا۔نقد شکیل کی حقانیت تخیل کے تازہ خون کی بوندیں ہیں۔چنانچہ متن کی ظاہرداری میں جو مثلث نظر آتا ہے وہ اپنی فطرت میں تخیل کی لہریں ضرور ہیں لیکن ان لہروں کی مصوری میں خون کی بوندوں کاشمار بدن کو اپنی مٹی اور آتما سے الگ کرنا ہے۔
اس مضمون کے درون میں یہ بات شدت سے محسوس کرنے کی ہے کہ انہوں نے شکیل الرحمن کے تنقیدی جمال کو حافظ کے تخلیقی جمال میں دریافت کیا ہے۔حقانی القاسمی نے اپنے مضامین میں کئی طرح کے تجربے کیے ہیں اس مضمون میں بھی انہوں نے دیوان حافظ کی ابجدی ردیف کے التزام کی کوشش کی ہے اس کے باوجودکو مضمون کو متن کے تہذیبی سیاق اور اپنے مشاہدہ سے کہیں الگ نہیں ہونے دیا ہے۔ان کے ہاں اکثر نئی زمینوں کی تلاش کا عمل نظر آتا ہے اس لیے ان کے تخیل کے دائرہ کار میں جس نوع کی بھی لفظیات درآئی ہیں اس سے سرسری نہیں گزرا جا سکتا۔
اُردوفکشن میں پریم چند کا وجود تاریخی اور کسی قدر فکری بھی ہے حالاں کہ ان کے فنی رموز کو ہماری تنقید نے اپنے قالب میں جگہ نہیں دی۔دراصل قمررئیس ایسے نقاد ماہر پریم چند شمارکیے گئے۔واقعہ یہ ہے کہ پریم چند پر جتنے بھی اچھے مضامین لکھے گئے وہ سب کسی ماہر پریم چند نے نہیں لکھے۔(مثلاً گوپی چند نارنگ کا مضمون ’افسانہ نگار پریم چند[تکنیک میں آئرنی کا استعمال ]اس باب میں یاد گار ہے )اس لیے آج بھی پریم چند کے فکری سروکار کو ایک خاص عنوان میںاہمیت حاصل ہے ان کے فنی سروکار خواہ اس کی صورت بہت اچھی نہیں دیکھنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔بعض ایسے ہی محسوسات کی ترجمانی میں حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
شکیل الرحمن نے اس پریم چند کو تلاش کیا ہے جس کی زندگی صحیفہ اخلاق نہیں ہے اور نہ ہی جس کی شخصیت ایک سیدھی لکیر ہے۔
اس بیان کے درون میں یہ بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شکیل الرحمن کے ہاں پریم چند کی نفی سے پریم چند کا ظہور ہوا ہے ۔اس طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ جمالیات Eternalization of thoughtکے خلاف بھی ایک علمی رویہ ہے۔ حقانی القاسمی نے پریم چند تنقید کی صورتحال اوراس تعلق سے نصابی تنقید کو ان لفظوں میں نشان زد کیا ہے:
پریم چند کے باب میں یہ بھی عجب المیہ ہوا کہ ایک سیدھے سادے ہندوستانی اسکول ماسٹر کی تخلیق کے اسرارورموز،عصرجدید کے جیدپروفیسران بھی سمجھنے سے قاصر رہے تو پھر معمولی درجے کے پروفیسران کی بساط ہی کیا ہے۔اس لیے وہ منشی پریم چند کے ناولوں میں ہندوستان کی معاشرت ،تاریخ اور تہذیب ہی تلاش کرتے رہ گئے۔خارجی عوامل پر نگاہ کو اس قدر مرکوز کر دیا کہ داخلی کشمکش اورتصادم کو فراموش کر بیٹھے اور اس طرح ایک بڑا فن کار چھوٹے فریم میں قید ہوتا گیا۔
ان باتوں کو نشان زد کرتے ہوئے حقانی اُردو تنقید کی موہوم کمر کی طرف اشارہ نہیں کررہے ہیں ،اصل میں وہ نقد شکیل کے ان نشانات کو پیش کررہے ہیں جن سے پریم چند کی شناخت ہوتی ہے۔’فکشن کے فن کار پریم چند‘شکیل الرحمن کی ایسی کتاب ہے جس میں اردو تنقید کی صورتحال کا خوب خوب تجزیہ کیا گیا ہے اور ایک فن کار کے باطن کو براہ راست ٹٹولا گیا ہے۔اس کتاب کے مطالعات سے حقانی نے جن سطروں کو عنوان کیا ہے اس کے مندرجات کو کوئی بھی باذوق قاری نظر انداز نہیں کرسکتا:
}فن مقدم ہے،موضوع نہیں۔
}اصلاحی نظریہ حاوی ہوجاتا ہے ،فنکاری دب جاتی ہے۔
}موضوعات اور خارجی حقیقتوں کا بیان آرٹ نہیں بن سکتا۔
}خارجی حقائق اصل نہیں ہیں ،خارجی سچائیاں بدلتی رہتی ہیں۔
}اصلاحی مقصد سے ناول بڑا نہیں بن جاتا۔
}پریم چند کے ناول میں کرداروں کی تشکیل میں کمی ہے۔
}مکالموں میں تصنع ہے۔
}پریم چند جب بھی ماہر اخلاقیات بنے ہیں ،فکشن میں ان کا المیہ سامنے آیا ہے۔
}المیہ کے داخلی حسن کی تلاش ضروری ہے۔
اس طرح کی بہت سی باتیں جو نقد شکیل کا وجودی آہنگ ہیں ان کو عنوان کرتے ہوئے حقانی القاسمی نے پریم چند تنقید کی بت شکنی میں حصہ لیا ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ کسی بھی ادب اور آرٹ کا مطالعہ تخلیقی نظام کے ہر ہر پہلو کا اکتشاف ہے ورنہ تنقید نہ صرف موہوم ہوگی بلکہ فن کا داخلی پورٹریٹ بھی ابھر کر سامنے نہیں آپا ئے گا۔حقانی القاسمی نے بہت واضح لفظوں میں لکھا ہے:
پریم چند کی تمام تخلیقی لہریں ،شکیل الرحمن کی تنقیدی فکر کا حصہ بن گئی ہیں اور یہی لہریں پریم چند کے احساس واظہار کے داخلی حسن کو نمایاں کرتی ہیں۔
اس طرح ا ن کے ہاں پریم چند کی جیسی بھی تصویر بنتی ہے اس کو قبول کرنا اور تفہیم و تعبیر کے دائرہ کار میں لانا ایک پریم چند کو رد کرنا ہے تو ایک نئے پریم چند کو محسوس بھی کرنا ہے۔
حقانی القاسمی کے مطالعات میں تخلیقی متو ن کا اکتشاف اصل میں تخلیقی جرثومہ کی تلاش وجستجو سے عبارت ہے ۔اس لیے ان کے ہاں تنقید سحرانگیز فکشن کے قالب میں بھی نظر آتا ہے ۔اس فکشن میں تخلیقی جمالیات کا صیغہ اپنی توانائی میں پیدا ہوتا ہے ۔اس کی ایک ساخت یوںبھی متشکل ہوتی ہے کہ نئی لفظیات اور اصطلاحات سے تنقیدی جمالیات کی بوطیقا’نامانوس‘ آہنگ اور فرہنگ میں ڈھل جاتی ہے اور کہیں نہ کہیں اس آہنگ میں ہمارے تخیل کا دائرہ نئی جہتوں میں صیقل ہوتا ہے۔اُردو تنقید میں یہ آہنگ ایک نوع کا اضافہ ہے ۔اس طورپر کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں تصریحات کی منطق اپنی قرأت میں بے حد انفرادی ہے۔ان کے تجربات ومشاہدات سے یوں ہی گزرا نہیں جا سکتا کہ انہوں نے تخلیق کی تہوں میں اُتر کر علمیات کا تخلیقی صیغہ اور اپنے وجود کا خفی استعارہ اسالیب نقد میں دریافت کیا ہے۔اس لیے جب وہ شکیل الرحمن کی جمالیات میں غوطہ زن ہوئے ہیں تو انہوں نے ان کی تنقید اور تخلیقی متون کے مابین اپنے نفسی اور ذہنی وجود کو بھی ٹٹولا ہے ۔حقانی القاسمی کا یہ رویہ ان کی تنقید میں اس قدر نمایاں ہے کہ بعض دفعہ گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے تفہیم وتعبیر کے محاورات ہی بدل دیے ہیں۔بلاشبہ اس نئے آہنگ کو قبول کرنا اُن ذہنوں کا مقدر نہیں جن کے تخیل کا محور ہی مشکوک ہے۔کسی بھی مطالعات میں مصنف کے ذہنی وجود سے زیادہ اپنے نفسی وجود کی تلاش ہی تنقیدی جمالیات کی بوطیقا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے مطالعات میں شکیل الرحمن اپنے ذہنی اورنفسی وجودکے ساتھ بیک وقت نمایاں ہوتے ہیں۔ حقانی القاسمی نے فراقؔ کی شعری جمالیات کی تفہیم میں بھی تنقید کے اس جوہر کو تسخیر کیا ہے۔اس طورپر یہ لکیر مستقیم ہو ہی نہیں سکتی،چوں کہ انہوں نے متن،مصنف اورقاری کے تناظرات کو ایک ہمہ گیر احساس میں ڈھال دیاہے۔تجمیل و تحمیل کی اس صورت میں فن کی تجریدشامل ہے لیکن اس کا سرچشمہ وہی اسطوری کتھاہے جس میں انسانی سائکی ایک حاملہ وجود قرارپاتی ہے۔اس طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حقانی القاسمی نے شکیل الرحمن کے ذہنی اور نفسی وجود میں تخلیق کی دیوی اور اس کے تحیرات کا خوب خوب درشن کیا ہے۔یہ فکشن کی قرار واقعی سچائیوں سے کہیں بڑی اورعظیم سچائی ہے۔اس لیے اس فکشن میں حقانی القاسمی اور شکیل الرحمن کے ذہنی وجود کو الگ کرنا محال ہے۔مجھ ایسے قاری کے خیال میں Character displacementکی ایسی تمثیل اُردو تنقید میں نایاب ہے۔حقانی القاسمی کے اس استغراق میں شکیل الرحمن کی قرأت کیسی اُجلی ہوگئی ہے،اس کی مرقع اورمرصع لکیریں یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں :
}فراق کے یہاں نشاطیہ رومان کی جو کیفیات ہیں ،وہ معاصر اُردو شاعری میں خال خال ملتی ہیں۔
}فراق کی شاعری میں تہذیبی جمہوریت کے نقوش روشن ہیں اور اسی نے ان کی شاعری کو تنوع اور تجدد کی لہریں عطا کی ہیں۔
}جنس سے بڑی کوئی جمہوریت نہیں ہوتی۔
یہ بیانات نہیں بلکہ Aesthetic Sensibilityہے جو متن کی خفی ساخت ،نفسی وجود کی حرارت اور نقدشکیل کی توانائی کی تحمیل ہے۔اس لیے حقانی القاسمی کے ہاں فراقؔ حسن و عشق کے نئے عنوان میں نظر آتا ہے۔اس نوع کے مطالعات کو تصریحات کے ذیل میں نہیںرکھاجا سکتا،یہ جمالیات کا وہ دائرہ ہے جس کے مسلسل رقص کی انتہا ہی نہیں۔اس کی پرتیں ایسی ہیں کہ کسی ایک مدار میں اس کا اکتشاف نہیں ہوسکتا،اس لیے اس کو نقدشکیل کی حقانیت کا نام دیا جا سکتا ہے۔چنانچہ حقانی سطریں اپنی داخلیت میں نقد شکیل سے معطر ضرور ہیں لیکن اس کامدار مسلسل التوا میں ہے۔اس رقص میں غیاب ہی غیاب ہیں اور ان کی تہوں میں لپٹا ہو اوجودکبھی شکیل الرحمن ہے تو کبھی بدن کی دھوپ میں امرت کا متلاشی عبدالحق حقانی:
}’روپ‘ کی رباعیاں جنسی روحانیت کی بہترین تمثیل ہیں۔اس میں نسائی بدن کا بیان ہی نہیں بلکہ کلچر کی روح بھی ہے اور وہ ہے ہندی کلچر جہاں جنسیت میں بھی روحانیت کا تقدس ہے۔
}عورت اور رات کی رمزیت سے فراق کی شاعری روشن ہے۔
عبدالحق حقانی یعنی حقانی القاسمی کی اس تفہیم میں شکیل الرحمن کی طلسمی انگوٹھی لفظوں کی کس انگلی میں ہے؟اس کا ادراک اس وقت تک محال ہی ہے جب تک کہ نقدشکیل کی جمالیات کو مطالعات سے زیادہ مشاہدات میں شامل نہ کیا جائے۔اس مشاہدہ کے لیے اپنے نفسی وجود کا عرفان لازم ہے۔حقانی القاسمی نے اس باب میں بھی ایک قدم آگے کا سفر طے کیا ہے اس لیے ان کے ہاں عورت اور رات کی پرستش کا دیومالائی احساس بھی شدید ہے۔حقانی القاسمی نے ان سطروں کے طلوع معانی میں بھی اس بات کا بھرپور ثبوت دیا ہے:
}شکیل الرحمن نے چشم بینا سے فراق کے لفظوں میں پنہاں چہروں کو تلاش کیا اور قاری کے احساساتی وجود کو فراق کی شاعری میں نہاں سکوت نیم شبی کے لطیف اشاروں سے آشنا کیا۔
}شکیل الرحمن نے فراق کی تخلیقی حسیت اور شب کی رمزیت میں ایک ربط تلاش کیا ہے اور رات کو ان کے تخلیقی وجود کا حصہ قرار دے کر حسی کیفیات کے آئینہ میں ان کے اشعار کو معنی کے پیرہن عطا کیے ہیں۔
}شکیل الرحمن نے فراق کے خارجی جمال میں داخلی حسن کی جستجو کرکے تنقیدی جمالیات کی ایک نئی بوطیقا تشکیل دی ہے۔
}شکیل الرحمن نے فراق کے سات رنگوں کی پھوار کو تنقید کی نئی بہار عطا کی ہے اور اس کے لیے تھکے تھکے ذہن ،تھکے تھکے الفاظ نہیں بلکہ شکیل الرحمن جیسا جمالیاتی ذہن ہی چاہیے تھا۔
ان باتوں کی پیشانی کیسی اور کتنی سچی ہے اس کا ادراک بھی اسی وقت ممکن ہے جب نفسی وجود کے احساس کو حاملہ رات کی سیاہی میں بکھیرکر تسخیر کی کی کوشش بھی کی جائے۔دراصل فراقؔ گورکھپوری کی یہ ایسی تفہیم ہے جس میں تہذیب و ثقافت کی سائکی اور اسطوری کتھا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اس عمل میں شکیل الرحمن نے ’شب اور آہنگ شب کے شعری تجربوں میں ارضیت اور لذتیت ‘کی تلاش کی ہے تو حقانی القاسمی نے اس دریافت کے ذائقہ کو تسخیرکیا ہے اور ایک نئے جہان میں قدم رکھا ہے۔
حقانی القاسمی نے تحیرات بدن کی جستجو میں زندگی کے اسراراور بھید کو اپنے مشاہدات کا حصہ بنایا ہے۔ان کے ہاں تجسس کا عمل شدید ہے۔اس لیے انہوں نے منٹو کی تفہیم میں منٹوکے اس تخلیقی پرسونا کی نفی کی ہے جس میں تخلیق کی بالائی ساخت کو اکثر عنوان بنایا گیا ہے۔منٹو کی تجدید میں ان کے ہاں شعریات کن خطوط پر منکشف ہونے کی آرزومند ہے اس کی چند لکیریں یوں نمایاں ہوتی ہیں:
}وہ فریم سے باہر کے آدمی ہیں۔
}منٹو ہمیشہ ایک ’معمہ‘ بھی بنا رہے گا۔
}منٹو شناسی ایک دشوار عمل ہے۔ناقدین نے جیسا سمجھا ہے منٹو شاید اُن سے کچھ الگ تخلیقی وجود کا حامل ہے۔منٹو کے تخلیقی وجود کی معرفت کے لیے وہی ڈھب،وہی رویہ ،وہی روش،وہی زاویہ ،وہی نظر درکار ہے جو منٹو سے مخصوص ہے۔
اس طرح دیکھیے تو جہاں انہوں نے تنقید کی تحدید میں حصہ لیا ہے وہیں انہوں نے تخلیقی سائکی کی تجدید بیش از بیش کی ہے،اور یہ ایک مشروط عمل ہے۔حقانی القاسمی منٹو کوExperienceکرنا چاہتے ہیں اور اس میں وہ کامیاب بھی ہیں۔لیکن نقد شکیل کے باب میں ان کے معروضات کی حد بندی کو سمجھنا ضروری ہے :
شکیل الرحمن نے منٹو کی تفہیم کی بہ جائے اُن کو experienceکرنے پر اپنی توانائی صرف کی ہے ۔اسی لیے منٹو اپنی تمام تر خارجی و باطنی ہیئت وکلیت کے ساتھ اُن پر منکشف ہوا ہے۔
منٹو کو Experienceکرناآسان نہیں ہے۔لیکن شکیل الرحمن نے اس باب میں بھی ایک قدم طے کیا ہے۔میں ان کے اس قدم کو تفریدی جست نہیں کہہ سکتا چوں کہ ان کے ہاں عامیانہ باتیں زیادہ ہیں۔جمالیات کی پرپیچ وادیوں میں منٹو کے ساتھ ٹہلتے ہوئے جیسی باتیں نقد شکیل کا خواص بنی ہیں ،ان میں تہہ داری کم کم ہیں۔اس کے باوجود ان کے ہاں ایک نیا منٹو ملتا ہے۔منٹو کی نوتفہیم ہمارے ہاں ممتازشیریں کے بعد گوپی چند نارنگ کو نصیب ہوئی۔بو،ایسے افسانہ پرکی قرأت میں ہی گوپی چند نارنگ کے ہاں تفہیم کی جو پرتیں قائم ہوتی ہیں ،اس کی ہر تہہ میں ایک نوع کی رنگا رنگی ہے۔نقد شکیل میں ماجرانویسی کی دروں بینی کے علاوہ بہت کم باتیں ایسی ہیں جن کو منٹو کی تفہیم کا نام بھی دیا جا سکے۔حالاں کہ نقد شکیل اسی افسانہ کو بالخصوص اسطوری وجدان میں Experienceبھی کرسکتی تھی اور نئی عورت کی مرکزی حیثیت میں جمالیات کی نو بوطیقاکی دریافت بھی۔اس کے باوجود منٹو کی تفہیم کے کئی زاویہ ایسے ہیں جو پہلی بار ان کے ہاں نظر آتے ہیںشاید اسی لیے حقانی القاسمی نے یہ نکتہ فراہم کیا ہے:
}یہ منٹو کی نئی جستجو ہے یا منٹو کا re-creationہے۔
دراصل یہ ایسی باتیں ہیں جس میں ایک نوع کی سچائی ضرورہے لیکن نقد شکیل کی اساس میں شکیل الرحمن کی تنقیدی جمالیات کو ہم بہت دورتک محسوس نہیں کرتے۔ان کے ہاں اسطور ،تمثیل اور تلمیح کی صورتیں جہاں جہاں نمایاں کی گئی ہیںوہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہاں یہ منٹو کاre-creationہے۔بلا شبہ بعض ایسے ہی موقع پر منٹو ہمیں بھی منٹو نظر آتاہے۔
حقانی القاسمی نے ان کے تنقیدی اوصاف کو منٹو کے باب میں زیادہ عنوان بنایا ہے حالاں کہ وہ ان پہلوئو ں کو بھی نشان زد کرسکتے تھے۔شکیل الرحمن جمالیات کی جیسی سیاحی کرتے ہیں اس کی تحدید نہیں کی جا سکتی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے منٹو کو Experinenceکرنے میں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔اس لیے حقانی القاسمی کی بعض ایسی ہی باتوں پر کان دھرنے کے لیے ایک نوع کا احتیاط بھی ضروری ہے:
جس طرح brain biologyپر منٹو کی گرفت بہت مضبوط ہے ،اسی طرح شکیل الرحمن نے بھی منٹو کے brain biologyکو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔اور ان کے نیوراتی نفس Neurotic Psycheکو بھی سمجھا ہے۔
دراصل حقانی القاسمی جب اس نوع کی تفہیم میں حصہ لیتے ہیں تو ان کو بھی کہیں نہ کہیں یہ احساس ہے کہ نقد شکیل میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے،اس طورپر ان کے ہاں ایک محتاط رویہ بھی ہے کہ انہوں نے نقدشکیل کی انہی باتوں کو عنوان بنایا ہے جن کے سیاق میں اُردو تنقید کا قالب کشادہ معلوم ہوتا ہے اور ان کی تصریحات کو ایک جواز بھی فراہم ہوجاتا ہے۔ان کے اس رویہ کو ہم مصلحت پسندی کا نام نہیں دے سکتے البتہ ان سے یہ گلہ کرسکتے ہیں کہ ان کوان مقامات کی سیر بھی کرنا چاہیے تھی،جہاں شکیل الرحمن کی تنقید کا صیغہ اپنی توانائی میں ظاہر نہیں ہو اہے۔اس کے باوجودیہ اچھی بات ہے کہ حقانی القاسمی کے ہاں نقدشکیل کا بے جا اعتراف نہیں ملتا:
اگر منٹو کے افسانے ،للت راگنی یا مدھیامدی راگنی کی تصویروں میں بدلتے نظر آتے ہیں تو یہ صاف اشارہ ہے کہ اُن کی نظر اسطوری روایت پر تھی جہاں سیکس ممنوع نہیں بلکہ محترم اور مقدس ہے اور اس مصورانہ مطانقت کی جستجو کرکے شکیل الرحمن نے منٹو کی کہانیوں اور قدیم مصوری کے مابین ایک ایسا نقطہ اتصال دریافت کیا ہے جس کی طرف شاید ہی کسی کی نگاہ جا پاتی۔
یہ ایسی ہی باتیں ہیں جن کو ہم حقانی القاسمی کے اکتشاف کی روشنی میں شکیل الرحمن کے ہاں محسوس کرتے ہیں۔اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر منٹو کی ایک نئی تصویر بھی ان کے ہاں نظر آتی ہے:
سعادت حسن منٹو seductive techniquesسے بھی واقف تھے اور ان کی کہانیاں اسی طرحseduceکرتی ہیں جیسے ہیلن آف ٹرائی،قلوپطرہ،مارلن منرو،متاہری یا Maewest۔ان خواتین کے seductionمیں عارضی پن ہے جب کہ منٹو کا seductionابدیت کا حامل ہے۔
جس موہک تکنیک اور فریفتگی وشیفتگی کی ابدیت پر ان کو اصرار ہے اس کی تفہیم میں ہی منٹو کی شعریات کا درشن کیا جا سکتا ہے۔اس احساس کی حرارت نقد شکیل میں یوں تفرید یت کی حامل ہے:
منٹو کی تخلیقی لہروں (creative waves)جنہیں کچھ لوگ waves of pleasureسمجھتے ہیں،ان کی صحیح طورپر شناخت اور تشکیل ،شکیل الرحمن نے ہی کی ہے۔
ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حقانی القاسمی کو اُردو تنقید کی عمومی روش کا کس قدر احساس ہے۔لیکن ان کی تنقید بعض دفعہ جمالیات کی تہہ میں اس قدر ڈوب جاتی ہے کہ تنقید کا عمومی رویہ پس منظر میں چلا جا تا ہے اور اس کے بعد جو کچھ ہاتھ لگتا ہے وہ تازگی کا احساس ضرور دلاتا ہے۔
رومی کی روحانیت اورابدیت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی دنیا اس کی آغوش میں پناہ لے رہی ہے۔دراصل رومی کی تخلیقی لہروں کا یہ وہ دائرہ ہے جن سے اپنے آپ یہ طے ہوجاتا ہے کہ نفسی وجود کا عرفان ان کے ہاں ہفت افلاک طے کرچکا ہے۔شاید اسی لیے حقانی القاسمی کی باتیں ہمارے احساس کو شدت عطا کرتی ہیں:
مولانا رومی کا تخلیقی پرسونا اس قدر بلند اور مرتفع ہے کہ بہت سے ادب شناسوں کے ذہنی مطاف میں سما ہی نہیں سکتے۔ان کی تخلیقی حسیت ،اساطیری بصیرت ،حکایتی رمزیت اور داستانی سریت کی کشفیت ایک ایسے ہی ذہن سے ممکن ہے جس کی وسعتوں میں کائنات کے اسرار کا ادراک بھی شامل ہے۔
بلا شبہ شکیل الرحمن کی عمرانیات اور جمالیات کے پیش نظر حقانی القاسمی نے ایک سچی بات کہی ہے۔ان کے اس معروضہ میں کہیں بھی احتیاط کا رویہ اور مصلحت کوشی نہیں ہے۔شکیل الرحمن نے اپنے بعض ایسے ہی مطالعات کی تشکیلات میں اُردو تنقید کو ایک نیا محاورہ دیا ہے۔ان کے اس نوع کے مطالعات کی تشکیلات میں عمرانیات اور جمالیات کی تحلیل کو حقانی القاسمی نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
رومی کی جمالیات کے تناظر میں شکیل الرحمن کا تنقیدی ادراک اور ادبی عرفان نہایت روشن تابناک اور رخشندہ نظر آتا ہے۔رومی کی جمالیت اپنی نوعیت کی ایسی منفرد کتاب ہے جو صرف رومی شناسی نہیں بلکہ تہذیب ،تمثیل اور تخلیق شناسی کی ایک نئی جہت کی تفہیم میں معاون ثابت ہوگی۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شکیل الرحمن نے اپنی تنقید میں تخلیقی ریاضت کی مثال قائم کی ہے۔ان کے ہاں غیاب سے غیاب کا سفر ملتا ہے جو فکشن کے سحرانگیزاسلوب میں منقلب ہوتے ہی روشنی کے مینارمیں داخل ہو جا تا ہے۔ان کی تنقید کایہی وہ وصف ہے جن کو حقانی القاسمی نے اپنی تصریحات میں پھیلا دیا ہے،اور ان کی پذیرائی یوں کی ہے:
}شکیل الرحمن نے رومی کی جمالیات میں مختلف تمثیلی حوالوں سے مولانا رومی کی ذہنی دراکی ،طبعی ذکاوت اور فراست کے شواہد پیش کیے ہیں۔
}شکیل الرحمن ،مشرق و مغرب کے جمالیاتی فلسفوں اور رویوں کے رمز شناس ہیں۔
قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریاں ہندوستانی تہذیب میں اسطور کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔اس کی کتھائیں ایسی روح پرور ہیں کہ کئی راتوں کی سیاہی سے مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔حقانی القاسمی نے اپنے اکتشاف کی تجمیل میں نقد شکیل کی اس خوبی کوشدت سے محسوس کیا ہے اس لیے انہوں نے اس کو اسطوری اصطلاح میں پدمنی تنقید کا نام دیا ہے:
}یہ پدمنی تنقید ہے اور اس تنقید کی پیشانی پر عشق اور تپسیا کا قشقہ کھنچا ہوا ہے۔
عشق اور تپسیا کی روحانیت میں اس تنقید کا ایک تہذیبی سیاق بھی روشن ہوتا ہے جس کو بارہ پیاریوں کی تخلیقی جدت وندرت کی رہین کہہ سکتے ہیں۔یہاں ایک نقطہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ تنقید علم واحساس کی دیوی (لکشمی)ہے،جس کے قالب میں تخلیق کا صیغہ صیقل ہوتا ہے۔ بعض ایسے ہی اساطیری احساس سے منور تنقید کے ذیل میں یہ بات بھی کہنے کی ہے کہ مشرقی جمالیات کے مشاہدہ کے بغیرتنقید وتخلیق کی دوئی کو مٹایا نہیں جاسکتا۔عصری تنقید کی کم مایہ سطریں اس لیے بھی نمایاں ہیں کہ ان میں علمیات کی ہجویہ گردان اکثر کی گئی ہے۔شکیل الرحمن ایسے زیرک نقادکے ہاںجو علمیاتی زمرہ متشکل ہوا ہے اس کی ایک اہم وجہ تخلیقی شدت کی اثر پذیری کا رجحان بھی ہے۔اس لیے انہوں نے جب قلی قطب شاہ کی تخلیقی جمالیات میں پناہ تلاش کی تو ان کی تنقید پدمنی قرارپائی۔حقانی القاسمی نے اسی کیف کی تجدید میں یہ نکتہ فراہم کیا ہے:
}قلی قطب شاہ پر لکھا تو بہت کچھ گیا مگر اس کی رومینٹنگ روح تک رسائی شکیل الرحمن کو ہی نصیب ہوئی۔
Romanceکی اس تفہیم میں لذتیت کی عامیانہ منطق بالکل نہیں بلکہ eyebrow feminismکی نفی کا فطری اور تہذیبی تناظر ملتا ہے:
}نسائی شعوروثقافت کی تمجید کے تناظر میں دیکھا جائے تو قلی قطب شاہ پہلا ایسا فیمنسٹ شاعر ہے جس نے عورت کو مرکزیت دی۔
نسائی شعوروثقافت کی تمجید اصل میں عشق کا روحانی احساس ہے۔اس احساس میں عورت شے نہیں بلکہ تحیرات جمال کا استعارہ ہے۔اس کا ایک ایک روپ کائنات کی رگوں میں شامل ہے۔جب کہ اس عہد میں عورت محض بدن کا نام ہے جس پر بازار کی سرخی پوت دی گئی ہے۔اس لیے بھی قلی قطب شاہ ایسے خلاق ذہنوں کی مصوری کا مشاہدہ لازم ہے۔قلی کی تخلیقی روحانیت کیسی فطری ہے کہ وہ اپنی تنقید میں بھی اُترتی ہے۔
یہ تنقید بھی قلی قطب شاہ کی تخلیقی ambianceکا ایک حصہ معلوم ہوتی ہے کیوں کہ انہوں نے قلی قطب شاہ کے الفاظ و افکار کے شعلہ وشبنم اور حرارت و برودت کو صحیح طورپر محسوس کیا ہے اور ان کے ذہنی نظام کی تفہیم کی مکمل طورپر کوشش کی ہے۔
اس طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حقانی القاسمی نے کسی بھی انفرادی متن کی تخلیقی سائکی کے بغیر شکیل الرحمن کی جمالیات کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔اس عمل میں انہوں نے علمیات کی نمائش بالکل نہیں کی ہے البتہ اپنے وجودی آہنگ کے ہرنشان کو کریدا ضرور ہے۔دراصل ان کے ہاں رہ جوگ کی خاصیت اور اس کا بنیادی فلسفہ ایک ہی ہے۔اس لیے ’تیاگ‘کا جذبہ ان کے مطالعات کو آبرومند بناتا ہے۔
l l l
117-Sutlej Hostel,
JNU,New Delhi-67
faiyazwajeeh@gmail.com