شہر غزل کا شاعر: ڈاکٹرافتخار شفیع

\"\"
٭سیدعون الحسن غازی،ساہیوال

\"\"

سر زمین ساہیوال کئی لازوال کہانیوں کی امین ہے۔ ساہیوال ، ہڑپا ، پاک پتن کو قدیم تاریخی شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آج سے پانچ ہزار سال پہلے ہڑپا ایک جیتا جاگتا عظیم الشان شہر تھا۔ اس شہر کے صدر دروازے پر ہاتھیوں اور چوبداروں کو ہجوم ہر وقت رہتا تھا۔ یہ ایک ایسی تہذیب تھی، جس کا نشان آج مٹ چکا ہے۔ اس کی اپنی مسلمہ تاریخی اہمیت ہے۔ جس کا تذکرہ تاریخ عالم کا درخشندہ اور روشن باب بن چکا ہے۔ ہڑپا چونکہ ایک تاریخی اور قدیم شہر تھا۔ شہرمجیدامجد ساہیوال کے باشندوں کو اس پر اس لیے بھی ناز ہے کہ وہ اسی کی وساطت سے انسانی تہذیب کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ساہیوال کے بیش تر قدیمی خاندان بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔ بابا فرید الدین مسعود گنج شکرپنجابی زبان کے اولین شاعر ہیں۔ڈاکٹر الف۔د،نسیم مرحوم کے بہ قول یہ بات محال ہے کی انھوں نے اردو میں شاعری نہ کی ہو،اصل معنوں میں ان کے اشلوک بہ یک وقت پنجابی اور اردو کا شاہ کار نمونہ ہیں۔یہی خطہ ہے جہاں سید وارث شاہ نے ہیر رانجھے جیسی شہرہ آفاق عشقیہ داستان تخلیق کی۔ مولانا عبدی نام کے بزرگ نے اسی علاقے میں علم ودانش پر مشتمل سوسے زیادہ کتب لکھیں۔آج یہی علاقہ ساہیوال کہلاتا ہے،ساہیوال کا نام اگر کوئی لے توزبان پربے اختیار اس کی علمی وادبی شناخت آجاتی ہے ۔اردو ادب کی دنیا میں اسے شہر غزل کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ ساہیوال کو شہرِ غزل اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس شہر نے بڑے بڑے غزل گو شاعر پیدا کیے ۔مولانا عزیز الدین احمد عظامی ،شیخ عطااللہ جنوں،مجید امجد ، منیرنیازی ، الف دنسیم ، مراتب اختر ، جعفرشیرازی ، گوہر ہوشیار پوری ، بشیر احمد بشیر ، ناصر شہزاد ، ان سب کا تعلق اسی شہر سے تھا اور انہی کی وجہ سے اس شہر کو شہرِ غزل کہا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا ان سب کی موجودگی سے شہرِ غزل کی ادبی رونقیں بھر پور ہوا کرتی تھیں ۔ اس شہر کی فضائیں ، ہوائیں اور گلی کوچے آج بھی اِن کے وجود سے اٹھنے والی خوشبو سے مہک رہے ہیں ۔اس شہر سے منسلک شعرا اور ان کے ان کے قلم سے لکھے ایک ایک حرف اور ان کی زبان سے ادا ہوئے ،ایک ایک لفظ کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے ۔ شہر غز ل ان کے تخلیق کیے ہوئے ادب سے آج بھی آباد ہے ،اُن کی کہی ہوئی غزلوں ، نظموں اور نثر پاروں سے ہمارا ادب آج بھی جگمگا رہا ہے ۔ یہ بلند قد عظیم لوگ صرف شہرِ غزل کی ہی پہچان نہیں بلکہ پورے اردو ادب کی پہچان ہیں ۔
اِنھی بلند قد عظیم شعرا کی صحبت میںبیٹھنے اور ہم نشینی میں رہنے والے کئی نوجوان شاعر آج بھی بہت اعلیٰ شعر کہہ رہے ہیں۔ ان نوجوانوں میں ایک نام ڈاکٹر افتخار شفیع کا ہے جنہوں نے ادبی سطح پر اپنا قد اپنی محنت سے بلند کیا اور شہر غزل کو آباد رکھا،افتخار شفیع ساہیوال کی عظیم تعلیمی درس گاہ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں شعبہ اردو کے سربراہ ہیں۔انھوں نے اپنی علمی استعداد سے اس عظیم روایات کے حامل شہرکی ادبی و شعری روایت کو زندہ رکھا ہے۔نئی نسل میں اس چراغ فکر کوجلا کر اس کی آبیاری ہے اور اسے گمنام ہونے سے بچالیا ہے۔

افتخار شفیع کو میں زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں، ان دنوں یہ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں زیرتعلیم تھے اور ہمہ دم متحرک،کالج میگزین کی ادارت کے ساتھ ساتھ بزم ادب کے صدر بھی تھے۔ ان سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات مراتب اختر کی یاد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں ہوئی ۔یہ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی ایک شام تھی۔ چاروں طرف رات کی آمریت مستحکم ہورہی تھی، مشاعرہ شروع ہوا ایک خوبرو نوجوان ،کلین شیوڈ ،آنکھوں پر نظر کی عینک لگائے ،کاندھے پر گرم شال اوڑھے بیٹھا تھا ۔ میں نے قریب بیٹھے ایک شاعر دوست سے پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کا نام افتخار شفیع ہے ، شاعر ہیں اور بہت اعلیٰ غزل کہتے ہیں، جس کا اندازہ اُن کی غزل سُن کر مجھے ہو گیا ۔ اچھی شاعری تب ہی تخلیق ہوتی ہے جب ایک شاعر زندگی کے زندہ تجربات اور مشاہدوں سے گزر کر شعر کہتا ہے اور یوں تخلیق ہونے والی شاعری اپنے ہونے کا احساس خود دلاتی ہے ۔ تجربات اور مشاہدہ سے انسان کے اندر فطرت کی رنگینی پیدا ہوتی ہے ۔
شاعری ذات کے مکمل اظہاریے کا نام ہے ۔ افتخار شفیع کی شاعری کو پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ پہلے توکھلی انکھ سے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں اور مشاہدے کی آنکھ سے جو دیکھتے ہیں اُس کا اظہار بڑی آسانی اور بھرپور طاقت سے کر دیتے ہیں۔وہ اپنے شعروں میں خالص ذاتی تجربات کو بیان کرتے ہیں جن میں کہیں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ نہیں ہوتی۔ افتخار شفیع اپنے تجربات اور کیفیات بیان کرنے کے لیے زندگی کے ہر رنگ کا استعمال کرتے ہیں ،اپنے موڈ اور مزاج کے مطابق منظر تشکیل دیتے ہیں پھر شوخ اور ہلکے رنگوں سے اپنے شعر کو سجاتے ہیں جن سے اُن کے شعر خوب سے خوب تر بن جاتے ہیں۔ اُن کے کہے ہوئے شعر انسان کو نئی راہ دکھاتے ہیں اورایسی منزل پر لے جاتے ہیں جہاں پہنچ کر انسان قدرے سکون محسوس کرتا ہے یہ افتخار شفیع کا کمال ہے کہ وہ جب ان دیکھے سفر پر نکلتے ہیں تو اپنے قاری کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔اُن کے یہ اشعار میری بات کی تصدیق کریں گے ۔
تم نہیں ہو تو گماں ہے کہ نہیں تھے ہم بھی
ورنہ من جملئہ اربابِ یقیں تھے ہم بھی
قصہ گو ! تو نے فراموش کیا ہے ورنہ
اس کہانی میں ترے ساتھ کہیں تھے ہم بھی
افتخار شفیع کی شاعری میں اگر کسی ایک پہلو کو اُجاگر کیا جائے تو یہ اُن کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ اس طرح اُن کی شاعری کے کئی پہلو نادیدہ رہ جائیں گے ۔اُن کے اشعار اپنے اندر کئی معنویت لیے ہوئے ہیں ۔اگر وہ کہیں پر محبت کے موتی بکھیر رہے ہیں توکہیں زمانے کی بے وفائی پر آنسو بہا رہے ہیں ، کہیں پر وہ افسانوی داستانوں کا قصہ سنا رہے ہیں تو کہیں رُتوں کے حسین گیت سنارہے ہیں ، اگر اُن کے ہاں ہجر کا موسم ہے تو وہیں وہ موسمِ بہار کے پھولوں سے بھی اشعار مہک رہے ہوتے ہیں ،اُن کے ہاں خوشیاں بھی ہیں اور حالات کی تلخیاں بھی ، وہ اپنی شاعری میں معاشرتی ، سیاسی اور سماجی صورتِ حال کا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔
افتخار شفیع کے کلام سے کچھ منتخب اشعار آپ سب کی نذر کرتا ہوں۔
سب طرح کے حالات کو مکان میں رکھا
ہر لمحہ اسے سوچ میں ، وجدان میں رکھا
ہجرت کی گھڑی ہم نے ترے خط کے علاوہ
بوسیدہ کتابوں کو بھی سامان میں رکھا

کسی چراغ کی لو سے کلام کرتے ہوئے
گزر رہا ہوں یونہی صبح و شام کرتے ہوئے
نجانے کون سی رُت کی سفیر تھی وہ ہوا
درخت رو دئیے جس کو سلام کرتے ہوئے

بانسری بج رہی تھی دور کہیں
رات کس درجہ یاد آئے تم
ایک شاخ یمین گل کے لیے
کن درختوں پہ چہچہائے تم
میں نکل آتا ہوں بازار کے سناٹے میں
گھر میں تو خوف کا احساس نہیں رہتاہے

اک یاد شبِ رفتہ کے مرقد پہ چڑھی یاد
ورنہ یہ چراغوں کا دھواں کچھ بھی نہیں ہے
بکھری پڑی ہیں آج بھی اس پر کہانیاں
ٹیلہ جو ریت کا مرے گائوں سے دور ہے
ان کی کہی ہوئی غزلیں اور نظمیں پڑھنے کہ بعداحساس ہوتا ہے کہ یہ شہرغزل کبھی بنجر نہیں ہوگا، یہ دھرتی ہمیشہ زرخیز اور آباد رہے گی۔یہاں اعلیٰ ادب تخلیق کرنے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے۔افتخار شفیع کے حالات زندگی کے بارے میں چند بنیادی معلومات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔انہوں نے گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کیا ،اس کے بعدبہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو زبان وادب میں ایم اے کیا۔اس کے بعد انھوں نے وہیں سے ایل ایل بی کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔کچھ عرصہ وکالت بھی کی لیکن ان کی حساس طبیعت کو یہ پیشہ راس نہ آیا۔اسی دوران ان کا پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ بہ طور لیکچرر انتخاب ہوا،تعلیم وتعلم کی ذمہ داریوں کو انھوں نے بہ طریق احسن نبھایا۔تدریس کے شعبے سے وابستگی کے بعد انھوں نے اردو ادب اور تحریک آزادی فلسطین کے موضوع پر ایم فل کیا ،ان کی ڈاکٹریٹ کا موضوع اردو غزل میں سراپا نگاری تھا۔ایم فل اور پی ایچ ڈی میں انھوں نے اول بدرجہ اول کامیابی حاصل کی ۔افتخار شفیع کے علمی وادبی کام پر احمدندیم قاسمی،منیر نیازی ،شمس الرحمان فاروقی،انتظارحسین،ظفراقبال،محسن بھوپالی اور بہت سے دیگر مشاہیر نے مضامین لکھے ہیں۔ان کے علمی وادبی کام کی صدائے بازگشت برصغیر پاک وہند کے سنجیدہ ادبی حلقوں میں سنائی دیتی ہے ۔پاک وہند کی مختلف جامعات میں ان کی ادبی خدمات پر ایم اے اور ایم فل کے تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں۔ان کا شعری مجموعہ نیلے چاند کی رات کے عنوان سے منظر عام پرآیا،افتخار شفیع نے تحقیقی وتنقیدی کام بھی جم کرکیا ہے،ان کی تنقیدی وتحقیقی کتب پاکستانی ادب کا منظر نامہ،آثارجنو ں،اصناف شاعری،اصناف نثر،اسلم انصاری شخصیت اورفن،اردو ادب اور آزادی فلسطین،کلیات نثر(مجیدامجد)،حفیظ الرحمان خان فن وشخصیت،شواہدالالہام از مولانا حالی اوراردو ٖغزل میں سراپا نگاری جیسے وقیع موضوعات پرشایع ہوئی ہیں۔
ان کی نثری کتب پر الگ سے بحث کی ضرورت ہے،ہمارے پیش نظر تو اس وقت محض افتخارشفیع کی غزل ہے۔آج سے چندسال پہلے ایک ممتاز کالم نگار نے ڈاکٹراسلم انصاری اور ڈاکٹر ریاض مجید کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دونوں اگر کسی بڑے ادبی مرکز میں ہوتے تو ان کو زیادہ عزت وتکریم حاصل ہوتی۔اس فہرست میں اگر چنداور ناموں کااضافہ کیا جائے تو یقینی طور پر ڈاکٹرافتخارشفیع کا نام بھی اس میں شامل ہوسکتا ہے۔انھوں نے غزل میں طبع آزمائی کی ہے اور یہ ایک مخصوص تقاضوں کی حامل صنف ہے۔اس کا حق ادا کرنا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں۔ہمارے شاعر سے بھی بہت سی تسامحات ہوگئی ہوں گی لیکن اصل بات خاموشی سے اپنا کام کیے جانے کی ہے،افتخارشفیع نے ہر قسم کی ادبی گروپ بندیوں سے ہٹ کر اپنی قلم فرسائی کو جاری رکھا ہے۔ان کو اہل علم کی طرف سے عزت افزائی بھی ملی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افتخار شفیع ہمہ جہت،ہمہ ادیب،شاعر اور دانش ور ہیں،ان کی ہاں غزل کے مشکل تقاضوں کے باوجود سماجی مسائل کا کہرا ادراک نظرآتاہے۔ان کے ہاں روایتی وضع داری کی خوب صورت عکاسی ملتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ فن کار کی شخصیت اس کی تحریروں میں جھلکتی ہے۔وہ اس دنیا کوبدلنا چاہتے ہیں،خودغرض جبلتوں پر ایستادہ معاشرہ ا ن کے نزدیک ایک ناسو ر ہے۔اگر ان کی شاعری میں رومان کے گیت ہیں تو ستاروں پر کمند ڈالنے کی آرزو بھی ہے۔غزل ایک آئینہ خانہ ہے جہاں اپنا ہی عکس دکھائی دیتا ہے،یہ غزل انسانی اقدار کے فروغ کا استعارہ ہے۔طلوع کا جشن مناتی ہے اور غروب کی نوحہ گری کرتی ہے۔افتخار شفیع اردوادب کے افق پر طلوع ہونے والا ستارہ ہے،اس کا ہر قدم ارتقا کی طرف اٹھتا ہے۔اس وقت ساہیوال کی شعری اورپہچان انھی سے ہے۔آخر میں اُن کے یہ اشعار پیش کرکے اجازت چاہتا ہوں۔
آندھی کا رنگ لال بڑی دیر تک رہا
مرنے کا احتمال بڑی دیر تک رہا
مجھ کو یہ علم تھا کہ وہ منظر نہیں رہے
میں پھر بھی ساہیوال بڑی دیر تک رہا
\"\"

Leave a Comment