صاحبہ شہریارؔ: خود آگہی اور خود کلامی کی شاعرہ

\"12325108_10207698745580513_223136854_n\"
ڈاکٹر واحد نظیرؔ دہلی

اردو شاعری میں نسوانی جذبات اور مسائل و معاملات کا منضبط اظہار کم ہی شاعرات کے حصے میں آسکا ۔پروین شاکر،کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، زہرہ نگاہ، ادا جعفری، شفیق فاطمہ شعریٰ وغیرہ نے اردو شاعری میں نسائی احساسات اور نفسیات کو نہ صرف یہ کہ باوقار طور پر پیش کیا بلکہ یہ باور بھی کرایا کہ شاعری محض تذکیری آواز کی مصوری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کہنا انسب ہوگا کہ خواتین کے جذبات و احساسات کی نمائندگی کے بغیر تکمیلیت اس کے مقدر کا حصہ نہیں ہو سکتی۔گذشتہ دودہائیوں میں شاعرات کے شعری مجموعے تواتر سے منظرِ عام پر آتے رہے ہیں لیکن بیش تر مجموعے سے متعلق وہی رائے قائم کی جا سکتی ہے جو شاعروں کے مجموعے سے متعلق عام ہے کہ ان سے شعری کتابوں کی تعداد میں تو اضافہ ہو رہا ہے، شعری سرمایے میں نہیں۔ ایسی مایوس کن صورتِ حال میں جب کوئی آواز صحت مند شعری روایات کی امانت دارکے بطور ابھرتی ہے تواس کی حیثیت اندھیرے میں کرن کے مصداق ہوتی ہے اور طبیعت خود بخود داد دینے پر مائل ہو جاتی ہے۔صاحبہؔ کے شعری مجموعے ـ’ شاخِ لرزاں، برگ ِچناراور آگہی کا درد اسی قبیل کی شاعری کا نمونہ ہیں۔
\"12442857_10207704105274502_1554060520_n\"
صاحبہؔ کی شاعری ایسی داخلی کشمکش کا با سلیقہ اور متین اظہار ہے جو خوبصورت ماضی، کرب ناک حال اور پر امید مستقبل کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا ہے۔یہاں مایوسی ہے لیکن مطلق نہیں۔ یہ مایوسی مسرتوں کے نہ ملنے کے سبب نہیں بلکہ روٹھ جانے یا کھو جانے کے سبب ہے۔ محرومی ہے لیکن ابدی نہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مسرتیں اور سیرابیاں جو کبھی زندگی کا حصہ تھیں ، وقت کے دھند میں ملفوف ہو گئی ہیں۔ صاحبہؔ شہریارؔ اس دھند کو چیرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں انھیں اپنے عزم و ہنرمندی پر اعتماد ہے کہ وہ فتح مند ہوں گی اور دھند شکست خوردہ گویا ان کی کشمکش اور اضطراب کی وجہ کھوئی ہوئی مسرتوں کے حصول اور تجدیدِ ملاقات ہیں، محرومی بھی نہیں اور خوشیوں کے لیے صورتِ دیگر کے امکانات کی تلاش بھی نہیں :
زندگی میری مہک سی اٹھی
اس کی خوشبو کا سفر یاد آیا

گزرتے وقت میں دنیا کا رنگ بھی بدلا
مگر وہ ڈوبا ہوا اب بھی میری چاہ میں ہے
عین ممکن ہے وہ اک روز ادھر آ نکلے
آرزوؤں کے درو بام سجا کر رکھنا

آندھیوں سے بھی نہ بجھ پایا کبھی
دل میں اک ایسا دیاجلتا رہا

تم جوچاہے وہ ملے کوئی ضروری تو نہیں
پھر بھی امید کی اک شمع جلائے رکھنا
داخلی کیفیات کی یہ لے صاحبہؔ کی شاعری میں از اول تا آخر اپنے تسلسل کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جس زندگی کی شعری تفسیر پیش کرتی ہیں وہ سرتاسر حزن و یاس کا پیکر ہے۔ یہ تو ایسی زندگی کا ذکر ہے جس کا سفر خوشبوؤں سے اس قدر معطر رہا ہے کہ اس کی خوش گوار یادیں بھی رگ و پے میں انبساط بھر دیتی ہیں۔ وقت اور حالات کی گردش عکسِ ملال کا سبب ضرور بنی ہے لیکن ماضی کی یادیں ایسی پر قوت ہیں کہ یہ عکس محض عکس ہی رہتا ہے نقش نہیں بن پاتا۔ دل کی دنیا جب کسی دل نواز وجود سے آباد ہو تو جدائی کی خزاں کی علامتیں ذہن و دماغ کی سرحدوں سے آگے کی بات نہیں ہوتیں۔ صاحبہؔ جز وقتی خزاں کی حیثیت کو جانتی ہیں۔اس لیے امیدوں کی ڈور ان کی گرفت میں رہتی ہے۔ جس کے سہارے آرزوؤں کے درو بام کی آرائش کبھی ماند نہیں پڑتی۔ آندھیاں اپنازورضرور آزماتی ہیں لیکن وہ چراغ جس سے صحنِ دل روشن ہے کبھی گل نہ ہوا کیوں کہ صاحبہؔ اس فلسفے سے واقف ہیں کہ زندگی کا سفر یاس و امید کے ہی سہارے طے ہوتا ہے ۔ اس جہاں میں کوئی ایسا نہیں جس کے حصے میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔ غموں کی موجودگی کے بغیر خوشیوں کی تمام تر لطافتوں سے آشنائی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ذہن و دماغ کے اضطراب کے باوجود، ان کا دل سرشار رہتا ہے:
منزل تو سامنے ہے پہ اٹھتے نہیں قدم
ڈالی ہے کس نے پاؤں میں زنجیر بتا دے

ہے کون جو خیالوں میں رہتا ہے صاحبہؔ
دل میں ہے مرے کس کی یہ تصویر بتا دے
ان اشعار میں پاکیزہ محبت کی تمام تر قدریں نہایت خوبصورت انداز میں پیش کر دی گئی ہیں۔ کون سی منزل سامنے ہے، قدم کیوں نہیں اٹھتے اور پاؤں میں زنجیر کیسی ہے۔ یہ محض خیال یا سوال نہیں بلکہ ان قدروں کی پاسداری کے اشاریہ ہیں جو تہذیبی وقار کی ضامن ہیں ۔ دوسرے شعر میں تصویر اور بھی واضح ہو گئی ہے کہ جو محبوب صاحبِ خانۂ دل ہے اس کے تئیں ایسی خود سپردگی ہے کہ خیال غیر بھی ذہن و دل کو گوارا نہیں۔
خود آگہی اور خود کلامی کی ایسی ہی دلکش تصویروں سے صاحبہ ؔکی شاعری کا مرقع تیار ہوتا ہے۔ وہ ذہن و دل کی کیفیتوں کو صرف محسوس نہیں کرتیں بلکہ ان سے ہم کلام بھی ہوتی ہیں اور اسی ہم کلامی کو شعری پیکر عطا کرتی ہیں ، یہی ان کی شاعری کا نشانِ امتیاز بھی ہے ۔ کیفیتوں کی تجسیم کا عمل شاعری میں آسان نہیں ہوتا ۔ یہ جذب و ہوش کا بہ یک وقت متقاضی ہوتا ہے۔اجمالاً یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ صاحبہؔ کی شاعری جذبات کے شعری اظہار سے متعلق ایک ایسی نہج سے آگاہ کرتی ہے جو رموزِ ذات اور اسرارِحیات کھولنے والی ہے۔ گرچہ ہجر و وصال، معشوق کی بے اعتنائی، شوقِ ملاقات ، خوبصورت گزشتہ ایام اور سنہرے خواب ان کی شاعری کے نمایاں مضامین ہیں لیکن جابجا عصری حسیت اور غمہائے زمانہ کا شعری اظہار قاری کو موجودہ صورتِ حال سے روشناس بھی کرتا رہتا ہے۔ زبان کی سادگی، بیان کی روانی، نا مانوس الفاظ سے احترازاور جذبات کی پیش کش میں صداقت وہ خوبیاں ہیں جو فرحت و انبساط کا سامان مہیا کرتی ہیں۔

Leave a Comment