صحافتی قوانین اور صحافتی انجمنیں و ادارے

\"\"
از: ڈاکٹر محمد نظام الدین

اسسٹنٹ پروفیسر اردو
ناگرجنا گورنمنٹ کالج خودمختار نلگنڈہ۔تلنگانہ

صحافت کو مملکت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ہندوستانی جمہوریت میں شہریوں کو جو بنیادی حقوق حاصل ہیں ان میں اظہار خیال کی آزادی بھی شامل ہے۔ جس کے تحت ہندوستانی صحافت غیر ضروری قیود و بند سے بہت حد تک آزاد ہے۔ لیکن یہ آزادی بھی کچھ پابندیوں کے دائرے میں ہے۔ ہندوستانی صحافت کو باقاعدہ بنائے رکھنے کیلئے کچھ قوانین بنائے گئے ہیں جنہیں صحافتی قوانین کہا جاتا ہے۔صحافتی قوانین صحافت کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کراتے ہیں اور قوم کی تعمیر نو میں ان کے رول کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان قوانین میں پریس رجسٹریشن ایکٹ‘ پریس کمیشن‘ پریش کونسل آف انڈیا‘ ڈاک و تار کے قوانین‘ ہتک عزتLIBEL‘ ازالہ حیثیت عرفیDefamation ‘ توہین عدالت Contempt of Court ‘ کاپی رائٹ قانون شامل ہیں۔ان قوانین کی تفصیل اسطرح ہے۔
پریس رجسٹریشن ایکٹ :-
پریس رجسٹریشن ایکٹ کے تحت ملک بھر میں شائع ہونے والے اخبارات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اور ان کے نام کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ تاکہ ایک ہی نام سے کوئی دوسرا اخبار یا جریدہ شائع نہ ہوسکے۔ اس قانون کے تحت اخبارات کیلئے لازمی ہے کہ ہر شمارے میں اخبار کے طابع‘ ناشر اور مدیر کا نام درج کیا جائے۔ اس کیلئے قبل از وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے ڈیکلریشن یا اقرار نامہ داخل کیا جائے۔ اس اقرار نامہ میں اخبار کے مالک‘ پرنٹر‘ پبلشر اور ایڈیٹر کا نام اور ان کے پتے لکھے جائیں۔ اگر کسی اخبار کی ملکیت بدل رہی ہو تو پھر نیا اقرار نامہ داخل کرنا چاہئے۔ اسی طرح اگر اخبار کی معیاد میں تبدیلی کی جارہی ہو اُسے ہفت روزہ ‘ پندرہ روزہ‘سہ روزہ یا روزنامہ بنایا جارہا ہو یا اس کی زبان تبدیل کی جارہی ہو تب بھی اخبار کے مدیر کو تازہ اقرار نامہ داخل کرنا لازمی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت اخبار میں ہر روز ایک پرنٹ لائن کا شائع کرنا ضروری ہے۔جس میں ایڈیٹر پرنٹر پبلشر کے نام کے علاوہ پرنٹنگ پریس کا نام اور پتہ بھی درج کرنا چاہئے۔ روزنامہ سیاست حیدرآباد کی پرنٹ لائن اسطرح ہے۔
’’روزنامہ سیاست کے زیر اہتمام پبلشر پرنٹر ایڈیٹر زاہد علی خان کی ادارت میں سیاست آفسیٹ پریس جواہر لال نہرو روڈ حیدرآباد 500001 سے شائع ہوا۔‘‘ ۱؎
پرنٹ لائن شائع نہ ہو تو اخبار کے خلاف قانونی کاروائی ہوسکتی ہے۔
پریس رجسٹریشن ایکٹ :۔
اخبار کیلئے لازمی ہے کہ وہ سال میں دو بار اقرار نامہ کی تفصیل اخبار میں شائع کرے۔ جس میں ایڈیٹر‘ پرنٹر‘ پبلشر کا نام اور پتہ‘ پریس کی تفصیلات‘ مالکان کے نام اور پتے کی صراحت ہو۔ عموماً یہ تفصیلات مارچ کے مہینے میں دی جاتی ہیں۔ ایک اور قانون ڈیلیوری آف بکس اینڈ نیوز پیپرس کے تحت پرنٹر کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے شائع کردہ اخبار کی ایک کاپی رجسٹرار آف نیوز پیپرس فار انڈیا۔ ویسٹ بلاک VIII آر کے پورم نئی دہلی۔66 ‘ نیشنل لائبریری کلکتہ‘ پبلک لائبریری مدراس‘ نیشنل سنٹرل لائبریری دہلی‘ سنٹرل لائبریری ممبئی کے دفتروں کو اندون اڑتالیس گھنٹے روانہ کردے۔ اخبار کا پہلا شمارہ ارسال کرتے وقت ڈیکلریشن کی ایک نقل بھی منسلک کردینی چاہئے۔ تاکہ رجسٹرار اس کا باضابطہ اندراج کرسکے۔
پریس کمیشن :-
ہندوستانی حکومت نے 23 نومبر 1952 ء کو پریس کمیشن قائم کیا۔ جس کا مقصد ہندوستانی اخبارات کے مسائل کا جائزہ لینا اور مسائل کے حل کیلئے سفارشات پیش کرنا ہے۔ اس کمیشن کے تحت صحافت کی آزادی۔ صحافیوں کی اجرتوں اور تنخواہوں کا تعین‘ اور دیگر قانونی امور شامل ہیں۔ پریس کمیشن نے کل ہند پریس کونسل کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔جو صحافت کی آزادی کا تحفظ کرے۔ صحافتی قوانین اور ضابطہ اخلاق کی تیاری کی ذمہ داری پوری کرے۔اس کمیشن نے قدیم صحافتی قوانین میں ترمیم پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ کمیشن نے اخبارات میں تعداد صفحات کے اعتبار سے قیمت فروخت مقرر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جسے Price Page Scedule کہا جاتا ہے۔ 18 مئی 1977 ء کو دوسرا پریس کمیشن قائم ہوا۔ اس کمیشن کا مقصد یہ اندازہ لگانا تھا کہ اظہار کی آزادی کیلئے اخبارات کو موجودہ دستوری ضمانتیں کافی ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں ہیں تو اس مقصد کی تکمیل کیلئے اخبارات کو زیادہ سے زیادہ قانونی اور دستوری تحفظات کس طرح فراہم کئے جاسکتے ہیں ۔اس ضمن میں کمیشن نے نو سو صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اخبارات کو اپنی تحویل میں لینے سے گریز کرے تاکہ صحافت کی آزادی برقرار رہے۔ اخبارات میں خبروں کی اشاعت اور اشتہارات کی اشاعت کیلئے جگہ کی فراہمی کے معیار کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ کمیشن نے اخبار کے قانونی امور اور صحافتی ضابطہ اخلاق کی ذمہ داری پریس لونسل کو سونپنے کی تجویز رکھی۔ اس کے علاوہ پریس کونسل پر زور دیا کہ وہ صحافت کی آزادی کا ہر ممکن خیال رکھے۔اور ایک باقاعدہ ضابطہ اخلاق ترتیب دے جو سبھی اخبارات کیلئے رہنمائی کا باعث ہوسکے۔ اجارہ داری کے رجحانات کو ختم کیا جائے اور صحافیوں میں احساس ذمہ داری اور عوامی خدمت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ کمیشن نے صحافتی علوم و فنون پر ایک مرکزی علمی اور تحقیقاتی ادارے کے قیام کی تجویز رکھی۔
پریس کونسل آف انڈیا :-
پریس کمیشن نے اپنی سفارشات میں پریس کونسل آف انڈیا کے قیام کو ضروری قرار دیا تھا تا کہ اخبارات کی آزادی کا تحفظ ہوسکے۔ اخبارات کیلئے ضابطہ اخلاق مرتب کرسکے اور اخبارات کے خلاف کارروائی کیلئے ضابطہ اخلاق مرتب کرسکے۔ اور اخبارات کے خلاف تادیبی کارروائی کااختیار رکھتا ہو۔پریس کونسل ایسے وسائل کی نگرانی کا مجاز ہے جن سے اطلاعات کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہو سب سے پہلے پریس کونسل کا قیام جولائی 1966 ء میں عمل میں آیا۔ ابتداء میں یہ کونسل اپنے مقاصد میں نام کام رہی اور صحافتی تقاضوں کو پورا نہ کرسکی۔ یکم جنوری 1976 ء کو یہ کونسل تحلیل کردی گئی اور پریس کونسل ایکٹ 1978 ء کے تحت یکم مارچ 1979 ء کو پریس کونسل آف انڈیا کا دوبارہ قیام عمل میں آیا۔ یہ کونسل نہ صرف اپنے مقاصد میں کامیاب ہے بلکہ پوری ذمہ داری کے ساتھ ہندوستان کی صحافت پر نظر رکھ رہی ہے۔ اس کونسل کو ایک طرح کی قانونی عدالت کا رتبہ مل گیا ہے ۔ صحافت سے متعلق شکایات کی سماعت یہ کونسل کرتی ہے اسے سب ہی اخبارات پر راست کنٹرول حاصل ہے لیکن اس سے صحافتی آزادی متاثر نہیں ہوتی بلکہ اخباروں کی غیر ذمہ داری اور قابل اعتراض مواد کی اشاعت پر کونسل کی جانب سے سرزنش کی جاتی ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں پریس کونسل کے فیصلوں کی پابندی کرتی ہیں اس کونسل سے اخبارات کے کئی مسائل حل ہورہے ہیں۔
ڈاک و تار کے قوانین :-
اخبارات کیلئے کم قیمت میں ڈاک و تار کی سہولت حاصل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اخبارات مختلف ذرائع سے خبریں حاصل کرتے ہیں اور اخبار کی اشاعت کے بعد اُسے دور دراز علاقوں تک پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ محکمہ ڈاک و تار نے اخبارات کیلئے کئی سہولتیں مہیا کی ہیں پوسٹ ماسٹر جنرل کے توسط سے اخبار کو رجسٹرڈ کرایا جاتا ہے ۔ رجسٹرڈ اخبار کو کم مالیت کے ٹکٹ لگوا کر روانہ کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ اخبار کو رجسٹرڈ کراتے وقت خریداروں کی فہرست پوسٹ ماسٹر جنرل کو دینی پڑتی ہے یہ ایک سال کی رجسٹری ہوتی ہے۔ جسکی تجدید ہر سال کرائی جاتی ہے۔ ٹیلی گرام کو بھی کم داموں میں پہونچایا جاتا ہے اُسی طرح اخبار کو ملنے والی تصاویر بھی فوٹو ٹیلی گرام سے کم قیمت پر حاصل ہوتی ہیں۔ صحافیوں کو کم قیمت پر ٹیلی فون کنکشن دیا جاتا ہے اُسی طرح انہیں فون اخراجات میں بھی بارہ فیصد کی رعایت دی جاتی ہے اسطرح محکمہ ڈاک و تار کی فراہم کردہ سہولتیں صحافت کو عوام تک پہچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
ہتک عزت LIBEL:-
سماج میں ہر ایک فرد کو عزت سے زندگی گذارنے کا حق حاصل ہے۔امیر ہو یا غریب ملازم ہو یا تاجر حاکم و محکوم ہر ایک کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے اور کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی نیک نامی متاثر ہو کوئی اسکی اسکی عزت پر ڈاکہ ڈالے ۔ زبانی طور پر اگر کسی کی بے عزتی کی جائے تو اُسے زبانی ہتک یا سلانڈر کہا جاتا ہے اُسی طرح تحریر کے ذریعہ اگر کسی کی بے عزتی ہو تو اُسے ہتک عزت LIBEL کہا جاتا ہے۔ زبانی ہتک عارضی اور وقتی ہوسکتی لیکن تحریری ہتک مستقل ہوتی ہے اور کئی افراد کی نظروں سے گذرتی ہے۔ اگر اخبار میں ہتک عزت والی کوئی خبر شائع ہوجائے تو لاکھوں لوگ اُسے پڑھتے ہیں اسطرح ہتک عزت کے نام پر کسی کو بدنام کرنا کسی پر الزام عائد کرنا کسی کیلئے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرنا غیر قانونی ہے۔ اور متعلقہ شخص عدالت سے رجوع ہو کر اخبار کے خلاف قانونی کاروائی کرسکتا ہے۔ کسی باعزت شخص کی کردار کشی کی جائے تو سماج میں ایسے شخص کی عزت نہیں رہتی ۔ اگر کسی تجارتی ادارے کو بدنام کردیا جائے تو اُس ادارے کی تجارت ٹھپ ہوجاتی ہے۔ اسطرح اخبارات کو اس نوعیت کی خبریں شائع کرنے میں کافی محتاط ہنا چاہئے۔ ایک اخبار نے ایک بیکری کا نام لے کر یہ خبر شائع کی تھی کہ اس بیکری کی اشیاء کھانے نے کئی افراد فوت ہوئے جبکہ خبر یہ تھی کہ کئی افراد متاثر ہوئے تھے۔ صحافتی ضابطہ اخلاق کے اعتبار سے بیکری کا نام لئے بغیر یہ لکھا جاتا ہے کہ شہر کی ایک بیکری کی اشیاء کھانے سے کئی افراد متاثر ہوئے اس سے خبر بھی قارئین تک پہنچ جاتی اور ایک بیکری کی نیک نامی بھی متاثر نہیں ہوتی۔ چنانچہ بیکری کے انتظامیہ نے اخبار کے خلاف قانونی چارہ جوئی کردی جس سے اخبار کی نیک نامی متاثر ہوئی۔ ہتک عزت کی مثالیں صحافت میں کئی پیش آئیں بعض مواقع پر فریق مخالف اخبار سے ہرجانہ طلب کرتے ہیں۔ جسکی رقم لاکھوں روپئے تک ہوتی ہے اگر اخبار کا مالک ہرجانہ ادا نہ کرسکے تو اسے قید ہوسکتی ہے ہتک عزت خبر کے علاوہ تصویر کارٹون مزاحیہ کالم اور کسی بھی تحریر کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔ ہتک عزت کیلئے ضروری ہے کہ ہتک آمیزبیان جھوٹا ہے بیان میں ہجو اور مذمت ہو بیان شائع شدہ ہو بیان موجودہو اہانت آمیز بیان مدعی کے خلاف شائع ہوا ہو ان شرائط سے ثابت ہو تا ہے کہ جھوٹ پر مبنی کوئی بھی بات ہتک عزت کے زمرہ میں آتی ہے۔ اسی طرح ثبوت کے بغیر الزام عائد کرنا بھی ہتک ہے۔صحافت میں اس بات کی بھی آزادی نہیں کہ کسی انسان کو جانوروں سے تشبیہہ دے اخبارات کو آزادی حاصل ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کریں مخالفت پر مبنی خبریں قانون کی گرفت میں نہیں آتیں۔اخبار حکومت پر تنقید بھی کرسکتا ہے۔ اخبارات ہماری جمہوریت کے نگران میں لیکن انکے لئے ضروری ہے کہ وہ افراد کی توہین کرنے سے بچیں۔
اخبار کیلئے دفاعی تدابیر :-
اخبار کیلئے جہاں تک ہوسکے ہتک عزت سے بچنا چاہئے ہتک عزت کے مقدمہ میں عام طور سے تین تدبیریں کام آتی ہیں۔
۱؎ تحریر ہتک کی سوفی صدی سچائی Truth
۲؎ اخبار کے مراعات Privileges
۳؎ واجبی تنقید Fair Comment
اخبار کو چاہئے کہ وہ دفاعی تدبیر کے طور پر تحریر کی سچائی کو پیش کرے اگر کسی کو قاتل یا چو رلکھ دیا ہے تو یہ ثابت کردیا جائے کہ واقعی وہ شخص قاتل یا چور ہے ۔ کیونکہ چور کو چور کہنا اور قاتل کو قاتل کہنا غلط نہیں ہے۔ لیکن یہ ثابت کرنے کیلئے اخبار کے پاس دستاویزی ثبوت ہونے چاہئے۔اخبار کو بعض معاملات میں آزادی حاصل ہوتی ہے جنہیں مراعات کہتے ہیں۔ ایوان کی کارروائی میں حکومت اور اپوزیشن کی نوک جھونک کو من و عن شائع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی پارٹی کو اُبھارنا کسی کو دبانا صحافتی بدیانتی ہوگی۔ اخبار کیلئے تیسری مدافعتی تدبیر واجبی تنقید ہے۔ جمہوریت میں تنقید کی گنجائش ہے ایک عام آدمی وزیر اعظم پر تنقید کرسکتا ہے تو اخبار کیوں نہیں۔ لیکن تنقید برائے تعمیر ہونی چاہئے۔مختصر یہ کہ وہ واجبی تنقید اخبار کیلئے ایک اچھی مدافعت ہے جبکہ وہ عوامی مفاد میں ہو اسطرح اخبارات ہتک عزت کے معاملے میں دفاعی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں۔
ازالہ حیثیت عرفی Defamation :-
ہندوستان میں ہر شخص کو عزت سے زندگی گذارنے کا حق حاصل ہے۔ لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں اگر کوئی کسی کا احترام نہیں کرتا تو وہ ازالہ حیثیت عرفی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اخبار میں کسی سے متعلق جھوٹے بیانات شائع کرکے کسی شخص کی توہین کی جاتی ہے ۔ کردار کشی کی جاتی ہے تو متاثر شخص اخبار کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔ یہ مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ 499 کے تحت دائر کیا جاتا ہے۔فوجداری عدالتوں میں اس قسم کے مقدمے دائر کئے جاتے ہیں۔
توہین عدالت Contempt of Court :-
اخبارات میں آئے دن اہم مقدمات اور انکی پیش رفت اور فیصلوں کے متعلق خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اگر کوئی قانونی مباحث کی غلط رپورٹنگ کرے عدالت کے فیصلے پر اعتراض کرے یا اپنی کسی تحریر سے عدالتی کاروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے تو اخبار کی ایسی کوشش کو ہتک عدالت یا توہین عدالت Contempt of Court کہا جاتا ہے۔ اور قانون کے تحت اخبار کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے۔ بعض حساس مقدموں میں صحافیوں کو عدالت میں داخل ہونے سے منع کیا جاتا ہے اگر کوئی صحافی عدالت میں بغیر اجازت داخل ہوجائے تو اسکا یہ عمل بھی توہین عدالت سمجھا جاتا ہے۔ بعض مقدمات میں ملزمین کی تصاویر لینے کی ممانعت ہوتی ہے اگر کوئی پریس فوٹوگافر کسی ملزم کی تصویر حکم کے خلاف کھینچے تو اُس پر بھی توہین عدالت کا الزام لگ سکتا ہے۔عدالت کے جج وکیل فریقین اور گواہوں کے خلاف اہانت آمیز تحریر بھی توہین عدالت سمجھی جائیگی۔ جب کوئی معاملہ عدالت میں پہنچ جائے تب اُس پر اخبار میں تنقید و تبصرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسے بھی توین عدالت سمجھا جائے گا۔ ہندوستان میں 1952 میں توہین عدالت کے قوانین مرتب کئے گئے جس کی رو سے توہین عدالت کے مرتکب کو چھ ماہ کی قید سادہ یا 2 ہزار روپئے تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اگر ملزم معافی طلب کرے تو عدالت اپنی تسلی کے بعد اُسے الزام سے بری کرسکتی ہے۔
کاپی رائٹ قانون :-
کاپی رائٹ قانون مصنفین اور تخلیق کاروں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اس قانون کی مدد سے اپنے تخلیقات کا تحفظ کرسکیں۔ ایک تخلیق افسانہ ناول ڈرامہ منظر نامہ کتاب رسالہ اخباری مضمون‘ مصوری کارنامہ ‘ موسیقی کی دھن‘ خاکہ معمہ کارٹون تصویر فلم و یڈو فلم وغیرہ کی شکل میں کاپی رائٹ قوانین کے تحت محفوظ کی جاسکتی ہیں۔ اردو کی کتابوں میں اکثر ایک جملہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں‘‘ کاپی رائٹ کے بعد کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی تخلیق کو اپنی بنائیں اُسکی نقل کریں یا اُسکے جعلی ایڈیشن چھاپ کر دولت کمائیں۔ اسطرح کی کوششیں کاپی رائٹ قانون کے تحت قابل گرفتار ہے۔ اس قانون کے ذریعہ ادبی سرقہ کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی تصنیف کا ترجمہ کرنا بھی ہو تو اس قانون کی رو سے مصنف سے تحریری اجازت لینی ضروری ہے۔ خبروں کی کاپی رائٹ نہیں ہوتی لیکن خبروں کی پیش کشی کے انداز میں یکسانیت نہیں ہونی چاہئے سرخی کو کاپی رائٹ کے تحت محفوظ کیا جاسکتا ہے۔مجموعی طور پر کاپی رائٹ قانون تخلیق کاروں کو انکی تخلیقات چوری ہونے سے بچاتا ہے اور اس قانون کے تحت کسی شاہکار تخلیق کا معاوضہ تخلیق کا ر کو راست مل سکتا ہے۔
سنسر شپ :-
ہندوستان میں صحافت کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ لیکن بعض ہنگامی حالات میں صحافت پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔جسے سنسر شپ کہا جاتا ہے۔ایک نگران کا ر کمیٹی اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ اخبار کہیں قوم دشمن اور باغیانہ خبریں کو شائع نہیں کررہا ہے عوام کو حکومت کے خلاف اُکساتو نہیں رہا ہے۔ اگر اسطرح کی کوئی خبر پیش ہو تو اس میں سے متنازعہ حصوں کو حذف کردیا جاتا ہے۔ آزادی سے پہلے برطانوی حکومت ہندوستانی اخباروں پ سخت سنسر شپ عائد کی تھی۔ آزادی کے بعد ایمرجنسی کے دور میں اخبارات کو ہدایت تھی کہ وہ خبریں اور ادارئیے اشاعت سے پہلے سرکاری احتساب کیلئے روانہ کریں اسکے بعد ہی اخباری مواد شائع کرنے کی اجازت دی گئی۔سنسر شپ ہنگامی حالات میں مفید ہوتی ہے لیکن عام حالات میں اس سے اظہار رائے کا قتل ہوجاتا ہے۔ہندوستان میں آج بھی فلموں کیلئے سنسر شپ جاری ہے سنسر بورڈ کا نام اب Centeral Board of Film Certificationan,سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹفکیشن رکھا گیا ہے۔ یہاں پر فلموں کا گہرائی سے مشاہدہ کیا جاتا ہے اور تشدد‘ قتل کی واردات دادا گیری عریانیت کے حدود کو تجاویز کرنے والے سین کٹ کردئیے جاتے ہیں۔ بعد میں موضوع کے اعتبار سے بالغوں کیلئے مناسب فلم کو A سرٹفکیٹ نوجوانوں کیلئے مناسب فلم کو U/A اور بچوں کیلئے مناسب فلم کو U سرٹفکیٹ دیا جاتا ہے۔ سنسر شپ کارکرد ہونے کے باوجود بعض غیر معیاری اور غیر اخلاقی فلمیں عوام کے مشاہدے میں آرہی ہیں جس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اُسی طرح سبقت لے جانے کی کوششیں کرنے والے اخبارات کو بھی پابندی کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔
اہم صحافتی حقوق :-
حکومت کی جانب سے اخبارات اور صحافیوں کو کئی مراعات دی جاتی ہیں۔ محکمہ ریلوے کی جانب سے منعقد صحافیوں کو مفت ٹکٹ فراہم کیا جاتا ہے۔ ایمرجنسی کوٹہ سے صحافیوں کو بر وقت ریزرویشن دیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ اسمبلی اور بڑی کانفرنسوں میں پریس گیلری ہوتی ہے جہاں صحافیوں کو بر وقت خبریں پہنچانے کیلے انٹر نیٹ کی سہولت سے یس کمپوٹر اور فیاکس مشین کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ پریس اکیڈیمی میں کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ حکومت صحافیوں کیلئے مکانات پلاٹ فراہم کرتی ہے اور انہیں علاج معالجہ تعلیم اور دیگر سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ اسطرح صحافتی ضابطہ اخلاق اور صحافتی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے حکومت سے حاصل مراعات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی خدمات انجام دیں تو وہ ملک اور قوم کی تعمیر میں اہم رول انجام دے سکتے ہیں۔
صحافتی انجمنیں و ادارے
دنیا میں انسانی ضروریات کے جتنے شعبے کام کررہے ہیں وہاں باہمی تعاون اور اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے انجمنیں اور ادارے ہوتے ہیں۔ صحافت انسانی زندگی کا اہم شعبہ ہے۔ جس کے ذریعہ عوام کو خبریں پہونچائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ صحافت کے شعبہ میں صحافیوں کو خبروں کی فراہمی اور ان کے مسائل کے حل کیلئے کئی انجمنیں اور ادارے ہندوستان میں کام کررہے ہیں۔ان کی ضرورت اور اہمیت اور ان کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
صحافتی انجمنوں کی ضرورت :-
صحافت کی بنیادی ضرورت اس کی آزادی ہے۔ اگر صحافت کو آزادی حاصل نہ ہو تو وہ حقائق کو عام نہیں کرسکے گی۔ اور اس کا دم گھٹ جائے گا۔صحافت کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی اس نے اپنی آزادی کا استعمال کیا اور حکومت پر تنقید کی اسے دبانے کی کوشش کی گئی۔انگریزی دور حکومت میں ہندوستانی اخبارات اور اس سے وابستہ صحافیوں کو انگریز حکومت کے خلاف لکھنے کی پاداش میں کئی مصائب جھیلنا پڑا۔ پریس بند کردئیے گئے صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا اور مولوی محمد باقر نے جام شہادت نوش فرماتے ہوئے اردو کے پہلے شہید صحافی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ۱۸۳۳ء؁ میں حکومت نے اخبار کی اجرائی کیلئے لائسنس کے حصول کو لازمی قرار دینے کا قانون بنایا تھا۔ اس پالیسی کو صحافت دشمن تصور کیا گیا۔ اور انگریز حکومت کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں صحافت کی حمایت میں یہ پہلا بڑاحتجاج تھا جو صحافت کی آزادی کیلئے کیا گیا۔ یہیں سے صحافتی انجمنوں اور اداروں کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی۔۱۸۸۹ء؁ میں بنگالی روزنامہ امرت بازار پتریکا میں ایک اہم سرکاری دستاویز کی اشاعت سے ناراض ہو کر حکومت نے ایک ایکٹ بنایا جس کی رو سے اہم خفیہ سرکاری معلومات کی اخبار میں اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ حکومت کے خلاف باغیانہ تحریروں کے سلسلے میں بال گنگا دھر تلک پر مقدمہ چلایا گیا۔ اور انہیں سزا دی گئی۔صحافت پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر ۱۸۹۱ء؁ میں Native Press Association کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئی اس ادارہ نے اپنے دور کے اخبارات کی خوب مدد کی اور حکومت کو اخبار دشمن پالیسی ترک کرنے پر مجبور کیا۔حکومت نے پریس ایکٹ ۱۹۱۰ء؁ میں نافذ کیا جس کی رو سے ۱۹۱۹ء؁ تک ساڑھے تین سو چھاپہ خانوں پر حکومت کی جانب سے ناجائز جرمانے عائد کئے گئے۔اس قانون کے خلاف جدو جہد کرنے کیلئے ۱۹۱۵ء؁ میں پریس اسوسی ایشن آف انڈیا تنظیم کا بڑے پیمانے پر قیام عمل میں آیا۔ جس نے صحافتی پابندیوں کے خلاف پر زورآواز اٹھائی ۔آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ہندوستان میںجو صحافتی ادارے وجود میں آئے وہ اسطرح ہیں۔
انڈین اینڈ ایسٹرین نیوز پیپر سوسائٹی :-
۱۹۳۹ء؁ میں اخبارات کے مالکان اور پبلیشرز کی ایک نمائندہ تنظیم ’’انڈین اینڈ ایسٹرن نیوز پیپرسوسائٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اس سوسائٹی کا مقصد اخبارات کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اخبار کی اشاعت میں رکاوٹ پیدا کرنے اور صحافت کی آزادی پر ضرب لگانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف اس ادارے نے کامیاب آواز اٹھائی ۔ اس سوسائٹی کا ایک اور مقصد اخبارات کی اشاعت کے بارے میں تمام ضروری اور تازہ معلومات جمع کرنا بھی تھا۔ سوسائٹی نے اخبارات کے مسائل کو حل کرنے کیلئے سمینار اور کانفرنس منعقد کئے۔ یہ ادارہ معیاری اشتہار دینے والی ایجنسیوں کو مسلمہ حیثیت دیتا رہا۔ سوسائٹی سے منظور شدہ ایجنسیوں کو اشتہارات میں رعایت ملتی ہے اس سوسائٹی کے تحت سو سے زیادہ اشتہاری ایجنسیاں کام کررہی ہیں۔ سوسائٹی کا ترجمان رسالہ ’’انڈین پریس‘‘ کے نام سے نکلتا ہے۔
آل انڈیا نیوز پیپر ایڈیٹرس کانفرنس :-
دوسری جنگ عظیم کے بعد صحافت کیلئے کئی مسائل اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔اخبارات پر حکومت کی جانب سے طرح طرح کی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اور اخبارات کی باقاعدہ اشاعت مشکل ہوگئی تھی۔ان حالات سے نمٹنے کیلئے ۲۶؍ اکٹوبر ۱۹۴۰ء؁ کو ایڈیٹرس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں یہ طئے کیا گیا کہ ’’آل انڈیا نیوز پیپر ایڈیٹرس کانفرنس‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس انجمن نے صحافت کی آزادی اور اسکے معیار کو بلند کرنے اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو صحافتی آزادی دلانے میں نمایاں کارنامے انجام دئیے۔کانفرنس کا انتظامیہ ایک اسٹینڈنگ کمیٹی تشکیل دیتا ہے۔ ہر تین ماہ میں ملک کے مختلف علاقوں میں اسکا اجلاس منعقد ہوتا ہے۔ ملک کے کسی مایہ ناز ایڈیٹر کو سال بھر کیلئے کانفرنس کا صدر منتخب کیا جاتا ہے۔ ۹؍ مئی ۱۹۶۹ء؁ کو تریوندرم میں منعقد اجلاس میں کانفرنس نے مدیران اخبارات کو مکمل آزادی کیلئے آٹھ نکاتی منشور منظور کیا تھا۔ جس میں اخبار کی پالیسی طئے کرنے اور اسٹاف کے تقرر میں مدیر کو مکمل آزادی اور خود مختاری دینے پر زور دیا گیا تھا۔
انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جر نلسٹس -: IFWJ صحافیوں کے مفادات اور اُنکے حقوق کے تحفظ کے لئے 1950؁ء میں انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس تنظیم کا قیام عمل میں آیا یہ صحافیوں کی پہلی نمایاں ٹریڈ یونین ہے 1951؁ء اس کا منشور طئے ہوا ۔ ہندوستان کے تقریباً تمام صحافیوں کی انجمنیں اس تنظیم سے ملحقہ ہیں۔ یہ ایک وفاقی انجمن ہے جس کے ارکان کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ ہے اس فیڈریشن کی مسلسل نمائندگی سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں صحافیوں کے لئے مراعات کا اعلان کیا گیا۔ صحافیوں کی تنخواہوں میں اضافہ اُنھیں ملنے والی طبی سہولتیں تعطیلات وغیرہ کے لئے فیڈریشن نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا ایک ترجمان ماہانہ رسالہ اجلاس ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتا ہے ۔ آندھرا پردیش ورکنگ جرنلٹس اسوسی ایشن اسی انجمن کا ادارہ ہے۔
انڈین لینگویجس نیوز پیپرس اسو سی ایشن -: I.L NA یہ ادارہ 14 جون 1941؁ء کو بمبئی میں قائم ہوا اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد اخبارات کی ترقی کے لئے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا‘ صحافیوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا اور صحافت سے متعلق جملہ تحقیقی و تخلیقی سر گرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔اپنے مقاصد کی حصولیابی کے لئے یہ ادارہ دیگر پیشہ ور اداروں سے اشتراک بھی کرتا ہے۔ اس ادارہ کی رکنیت پر وہ اخبار حاصل کرسکتا ہے۔ جو اس کے اغراض و مقاصد سے واقف ہو اور مقرر فیس ادا کرے۔ یہ ادارہ شروع ہی سے اپنے مقصد میں ہر طرح کا میاب ہے۔ نیوز پرنٹ سے متعلق مسائل حل کرنے میں اس ادارہ کی اہم خدمت رہی۔ 18؍ مئی 1978؁ء کو اس وقت کے مرکزی وزیر برائے اطلاعات ونشریات جناب ایل کے اڈوانی نے دوسرے پریس کمیشن کا جو اعلان کیا تھا ۔ وہ دراصل اسی ادارہ کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ چھوٹے اخبارات کی مالی مشکلات کو دور کرنے میں اس ادارہ نے نیوز پیپرس فائنانس کارپوریشن (newspapers finance corporation) کے قیام پر زور دیا تھا جس کے خوش گوار نتائج برآمد ہوئے۔
انڈین فیڈریشن آف اسمال اینڈ میڈیم نیوز پیپرس -: ہندوستان کے چھوٹے اور متوسط اخبارات کے مسائل کے حل کے لئے مرکزی سطح پر ترجمانی کی خاطر انڈین فیڈریشن آف اسمال اینڈ میڈیم نیوز پیپرس کا قیام عمل میں آیا ۔اس کا دفتر نئی دہلی میں ہے۔ اس ادارہ کے دیگر اغراض و مقاصد اس طرح ہیں۔
} ملک میں صحافت کی ترقی کے لئے کام کرنا ‘ علم صحافت اور پیشہ صحافت کے فروغ کے لئے مفید معلومات کی فراہمی۔
} صحافیوں کے پیشہ وارانہ حقوق کے تحفظ کے لئے کئی اقدامات کرنا ۔
} اخبارات کی آزادی کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لئے کام کرنا۔
} ملک کے مختلف اخبارات کے دفاتر کو اراکین پر مشتمل وفود روانہ کرنا اس کے علاوہ صحافیوں کے لئے بیرونی ملکوں کے دوروں کا اہتمام کرنا۔
} صحافت سے متعلق تحقیقی ذمہ دارایاں قبول کرنا۔
} فیڈریشن کے اراکین کی ہر ممکنہ فلاح و بہبود کے لئے سرگرم رہنا۔
} ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی کمیٹیوں میں فیڈریشن کے اراکین کی شمولیت کے لئے نمائندگی۔
} ہندوستان کا کوئی بھی اخبار رسالہ یا صحافی اس تنظیم کی رکنیت حاصل کرسکتا ہے اور چھوٹے صحافتی ادارے الحاق کی درخواست پیش کرسکتے ہیں اس ادارے نے چھوٹے اور متوسط اخبارات کی تفصیلات پر مبنی معلوماتی کتاب بھی شائع کی ہے۔
آل انڈیا اُردو اسمال نیوز پیپر ایڈیٹرس کونسل -: اُردو اخبارات و رسائل کی یہ نمائندہ کونسل ہے۔ جو رضی بدایوانی کی کوششوں کے نتیجہ میں 1950؁ء میں قائم ہوئی۔ یہ کونسل اُردو کے چھوٹے اخبارات و رسائل کے حقوق کی حفاظت میں سرگرم رول ادا کرتی ہے۔ اس کا دفتر دریا گنج نئی دہلی میں واقع ہے ۔
یہ کچھ مشہور صحافتی انجمنوں کا تذکرہ تھا۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی صحافتی تنظیمیں ہیں۔ جو مرکزی ریاستی اور ضلعی سطح پر اخبارات کے مفاد میں سرگرم رول ادا کررہی ہیں۔ ممبئی میں اس وقت کئی فعال انجمین ہیں۔ جو اخبارات کے حقوق کے لئے مختلف قسم کے کام کررہی ہیں۔
معاون صحافتی ادارے
اخبارات میں خبریں رپورٹروں نامہ نگاروں خبر رساں اداروں سے حاصل کرکے شائع کی جاتی ہیں۔ تاہم اخبارات کی ضرورت معلوماتی مضامین فیچر تقاریر وغیرہ بھی ہیں۔ جنہیں کچھ ادارے فراہم کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بڑے خبر رساں ادارے P.T.I
پی ۔ٹی۔آئی اور UNI یو این آئی ہیں۔ حیدرآباد میں خبریں فراہم کرنے والے ادارے بھارت نیوز‘ اسوسی ایٹڈ نیوز سرویس‘ دکن نیوز ‘ اسٹیٹ سماچار‘ این ایس ایس وغیرہ ہیں۔ ہندوستان کے چند مشہور فیچر و دیگر صحافتی مواد فراہم کرنے والے اداروں کی تفصیل اس طرح ہے۔
پریس انفارمیشن بیورو -: پریس انفارمیشن بیورو مرکزی وزرات اطلاعات و نشریات کا ایک اہم ترسیلی مرکز ہے۔ یہ حکومت ہند کا مرکزی خبر رساں ادارہ ہے۔ اس ادارے کا مقصد اخبارات و رسائل کے ذریعہ حکومت کی پالیسیوں پروگراموں اور سرگرمیوں سے عوام کو واقف کروانا ہے۔ یہ ادارہ پرنٹر فیاکس اور ای میل کے ذریعہ ہندوستان کے اخبارات کو صحافتی مواد فراہم کرتا ہے۔ مقامی سطح پر مطبوعہ مواد بھی روزانہ اخبارات کے دفاتر روانہ کیا جاتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق روزآنہ 30ہزار سے زیادہ اخبارات P.I.B کی خبریں وصول کرتے ہیں۔ اس ادارے کا دوسرا اہم کام حکومت کے بارے میں اخبار میں شائع ہونے والے مواد کو حکومت سے واقف کروانا بھی شامل ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے مسائل پر مبنی قارئین کے خطوط کے تراشے بھی P.I.B کی مدد سے حکومت کے ایوان تک پہونچائے جاتے پیں۔ P.I.B کے نامہ نگاروں کا جال کافی وسیع ہے۔ دنیا کے اہم ممالک اور ہندوستان کے سب ہی بڑے شہروں میں P.I.B کے نامہ نگار کیمرہ مین اور دیگر اسٹاف کے اراکین موجود رہتے ہیں۔
فیچر فراہم کرنے والے ادارے -: فیچر معلوماتی مضمون ہوتا ہے جسے موضوع کے ماہر صحافی لکھتے ہیں یہ فیچر سنڈیکیٹ اداروں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ سنڈیکیٹ کے مالکین ایک ہی فیچر کو کم قیمت پر کئی اخبار وں کو فروخت کرتے ہیں۔ اور ایک فیچر بیک وقت کئی زبانوں کے چھوٹے بڑے اخبارات میں شائع ہوتا ہے۔ ہندوستان میں انفا ‘ کنگ فیچرس ‘ سنڈیکیٹ ‘ پریس ایشیاء انٹرنیشنل نامی ادارے ہیں جو اخبارات کو فیچرس فراہم کرتے ہیں۔ اُردو اخبارات بھی سیاسی موضوعات پر فیچر حاصل کرتے ہیں اور اُنھیںترجمہ کے بعد شائع کرتے ہیں۔ آج کل کرکٹ کے کھیل سے متعلق فیچر بھی مقبول ہیں سنیل گواسکر ‘ روی شاستری وغیرہ کے فیچر اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔
کارٹو گرافک نیوز سرویس -: اخبارات میں خبروں کے ساتھ کبھی کبھی نقشہ بھی دئے جاتے ہیں یہ نقشے صرف جغرافیائی حالات کے نہیں ہوتے بلکہ انتخابات کے سروے موسمی پیش قیاسی کا نقشہ ‘ ریل یا ہوائی جہاز کے حادثہ کا نقشہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح کے نقشے کا رٹو گرافک نیوز سرویس فراہم کرتی ہے۔ 1958؁ء میں نئی دہلی میں اس ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ادارہ نقشہ نویسی کی مدد سے قدرتی حادثات جرائم ‘ انتخابات ‘ محاذ جنگ دہشت گردانہ حملہ بم دھماکے ‘ بجٹ وغیرہ کو نقشوں کی مدد سے پیش کرتا ہے اس ادارے سے کئی اخبارات استفادہ حاصل کررہے ہیں۔
فوٹو ڈیویثرن اور فوٹو سرویس -: تصاویر اخبارات کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔ سرکاری تقاریب کی تصاویر اہم سیاسی واقعات پریس کانفرنس ‘ وزیراعظم کے دورے کی تصاویر تمام اخبارات کو محکمہ اطلاعات کے فوٹو ڈیویثرن کے ذریعہ P.I.B کی مدد سے فراہم کی جاتی ہیں۔ رات دیر گئے کی تصویر بھی چند منٹوں میں P.I.B کی ٹیلی فوٹو سرویس کے ذریعہ اخبار کے دفاتر کو پہونچائی جاتی ہے۔ اس ادارے کی فراہم کردہ تصاویر سے تما م اخبارات کو فائدہ پہنچتا ہے اس طرح معاون صحافتی ادارے اخبارات کو اہم صحافتی مواد مہیا کرتے ہیں۔ آج ماضی کے مقابلے میں معیاری اخبار نکالنا آسان ہے۔ کیونکہ اخبارات کے لئے خبریں اور صحافتی مواد مہیا کرنے والے کئی ادارے وجود میں آگئے ہیں ایسے میں اخبار کی انفرادیت بر قرار رکھنا ایڈیٹر کا کمال ہوسکتا ہے۔ اخبارات نت نئے تجربے کرتے ہوئے قارئین کی توجہہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشیش میں لگے ہیں۔
حوالے
۱؎ روزنامہ سیاست۔ حیدرآباد ۲۳؍ نومبر ۲۰۰۷ء؁

Leave a Comment