صحت خوشی کامیابی اور امن کی دعاؤں کے ساتھ سلامتی بھرا سلام آپ تک پہنچے \”

\"24068034_1123811821088934_2450127707635075580_n\"
احوال ۔ ۔ ۔ ۔ ارم زہراء،کرا چی۔

سچی کہانیاں ڈائجسٹ کے \”احوال\” میں اسی جملے سے ہر ماہ ناصر رضا بھائ ابتدا کرتے تھے اور پھر دنیا بھر سے ان کے چاہنے والے احباب جو ان کے خلوص محبت اور حوصلہ افزائ کی بنا پر آج فخر سے خود کو رائٹر کہہ رہے ہیں ان سے تبصروں کے ذریعے مخاطب نظر آتے اور ناصر رضا بھائ اتنی اپنائیت سے جواب دیتے کہ قاری تبصرہ بھی اتنے ہی انہماک سے پڑھتے جتنی کہ کہانیاں !!
گو کہ میں نے لکھنے کا آغاز دوشیزہ اور سچی کہانیاں سے سن 2000 میں کیا تھا لیکن باقاعدہ اور گہرا ربط سن 2008 میں ہوا جب میں ناصر رضا بھائ سے ملنے ان کے آفس پہنچی اور انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا ارم زہرا اور میں حیران رہ گئ کہ ان سے پہلی بار ملاقات ہو رہی ہے اور انہوں نے مجھےپہچان لیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں کومل ڈائجسٹ کی ادارت بہترین انداز میں کررہی ہوں ان دنوں میں کومل ڈائجسٹ کی ایڈیٹر تھی ۔ ناصر رضا بھائ ملنسار , مخلص ,حوصلہ افزائ کرنے والی شخصیت کے مالک تھے ۔ مسکراتا چہرہ ۔ ۔ محبت و احترام کے ساتھ ملنا ان کا خاصہ تھا یوں کہہ لیجئے ناصر رضا محبت میں گندھی شخصیت کا مکمل پیکر تھے
یہ ان ہی کا اصرار تھا کہ مجھے کوئ بڑا کام کرنا چاہئیے کیونکہ میں ان دنوں قومی اخبار اور جرات کی ریگولر کالم نگار تھی اس لیے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ سچی کہانیاں کے لیے \”میرے شہر کی کہانی\” کا سلسلہ شروع کرو اور پھر میں نے کرائم اسٹوریز کا سلسلہ شروع کیا جو سچی کہانیاں کا مقبول ترین سلسلہ ثابت ہوا اور چار سال تک جاری رہا ۔
کیونکہ ان دنوں دوشیزہ کے لیے سلسلہ وار ناول \”چاند میرا منتظر\” بھی لکھ رہی تھی تو ناصر بھائ ہر ماہ اقساط کے لیے کال کرتے \” کیسا ہے میرا بیٹا؟ اس ماہ کی کہانی کب آرہی ہے ؟ اور کوئ اچھی بات کہو ؟\” یہ وہ جملے ہیں جن کی مٹھاس ہر ماہ میرے کانوں میں رس گھولتی ۔
آج \”میرے شہر کی کہانی \” میری پہچان ہے اور میں یہ اعتراف کرتی ہوں کہ اس کا کریڈٹ ناصر بھائ کو جاتا ہے ۔ جب تک ناصر بھائ سچی کہانیاں سے منسلک رہے میرا رابطہ رہا پھر میں بھی مصروف ہوگئ اور ناصر بھائ میٹرو لائیو میں آگئے ۔
میری آخری ملاقات ان سے میڑو لائیو کے آفس میں ہوئ ۔ \” میرے شہر کی کہانی \”کا تحفہ قبول کرتے وقت میری کامیابیوں پہ بہت خوش تھے جو یقینا ان کی بھی کامیابی تھی
ناصر رضا بھائ ہمیشہ زندگی کی بات کرتے تھے زندگی کیا کہہ رہی ہے ۔ موت کے سرد ہاتھ زندگی کا گلا بہت سفاکی سے گھونٹ رہے ہیں ۔ زندگی اس حال و مآل میں کچھ اچھی نہیں لگ رہی لیکن ہم زندہ ہیں ۔ ۔ میں زندہ ہوں شاید اس جہاں سے جانے سے پہلے کچھ اچھے سچے اور زندہ منظر میری آنکھوں کا رزق بن جائیں ۔ یہ سچ ہے لیکن مجھ سمیت کوئ نہیں مانے گا کہ جھوٹ کے موسم میں سچ کے پھول کھلنا بند ہوجاتے ہیں اور یہ کہ میرے ذہن میں بس یہ سوال ہے کہ ہم یا پھر یہ جاتا وقت اور سال کیا ورثہ چھوڑ کے جارہا ہے ؟ کچھ تو ایسا ہونا چاہئیے ناں ! جو اس بات کا ثبوت بن کر رہے کہ کبھی ہم بھی صرف زندہ ہی نہیں موجود بھی تھے ۔ ۔ ۔
ناصر رضا بھائ یقینا آپ اچھے سچے اور زندہ منظر آنکھوں میں سجائے رخصت ہوچکے ہیں لیکن آپ ہمارے دلوں میں موجود بھی ہیں اور زندہ بھی رہیں گے ۔آپ کی یادیں ہمارا سرمایہ ہے ۔ آپ کے لیے تھے کا لفظ لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے قلم کی سیاہی بھی یقینا اسی لہو سے آپ کو خراج پیش کر رہی ہے لیکن میں یہ بات جانتی ہوں کہ ادب نے آج ایک مخلص ۔ محنتی ۔ جنونی اور اپنے فن سے محبت کرنے والا علم دوست ۔ کتاب دوست ایک اچھا انسان , مدیر , صحافی , ڈرامہ نگار , افسانہ نگار , ادیب اور بے شمار ادیبوں کا استاد کھو دیا ہے ۔ آپ کی مغفرت اور بلند درجات کے لیے دعاگو ہوں
\"1924962_396808727122584_1536849955_n\"

Leave a Comment