ضیا فتح آبادی کی شخصیت اورشعری و فنی کائنات کا مطالعہ

\"\"
٭ڈاکٹر صالحہ صدیقی(الٰہ آباد )
\"\"
ساہوکاری اور کپڑوں کا پیشہ اختیار کرنے والے ’’فتح آباد‘‘ کے ’’سونی‘‘ خاندان کے لئے ۹ فروری (۱۹۱۳)ایک ایسا سنہرا اور تاریخی دن ثابت ہوا کہ جس کے سبب اس خاندان کا نام ہمیشہ ہمیش کے لئے اردو ادب کی عظیم الشان دنیا میں نہ صرف درج ہوا بلکہ اس کی ضیا شعری و نثری پیرائے میں سدا کے لیے محفوظ ہوگئی۔ ضیأ فتح آبادی کا اصل نام’’ مہر لال سونی ‘‘ تھا ۔سات بھائی بہنوں میں سات بھائی بہنوں کے درمیان تین بہنوں سے چھوٹے اور تین بھائیوں سے بڑے مہر لال نے فورمن کرسچن کالج لاہور سے ۱۹۳۳ میں بی اے (فارسی آنرز) اور ۱۹۳۵ میں ایم اے ( انگریزی ادبیات) سے ڈگری حاصل کی۔۱۹۳۶ میں ملازمت کی ابتدأ Reserve Bankکے معمولی کلرک سے کیں ۔آگے چل کر مختلف عہدوں پر فائز رہے اور بالآخر ۱۹۷۱ میں ڈپٹی چیف افسر کی حیثیت سے ریٹا ئر ہوئے ۔

ضیأ فتح آبادی کی جب ہم زندگی کا مطالعہ کرتے ہے یا ان کی سوانح عمری پڑھتے ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سونی خاندان میں کوئی بھی شاعر و ادیب نہ تھا ۔ضیأ صاحب کو شعر و شاعری کا ہنر فطرت نے عطا کیا تھا۔اور وہ ایک ممتاز شاعر و ادیب ہوئے اپنی شعر گوئی کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں کہ ۔
’’ شعر گوئی کا مرض خاندان میں دور تک نہ دیکھا ،نہ سُنا،اس لیے جراثیم ساتھ لے کر پیدا ہوا۔‘‘
ان کا یہ قول ان پر صادق بھی آتا ہے ۔ان کو یہ ہدیہ خداداد ہی ملی تھی،تبھی تو بینک میں نوکری کرنے والا ایک نوجوان اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود بھی شعر و شاعری اور نثر نگاری سے خود کو روک نہیں پاتا ۔بقول جوش ملیح آبادی:۔
’’ یہ بڑی بد بختی ہے کہ ضیأ صاحب بینک کے دامن خشک سے وابستہ ہے،جہاں روپئے ، آنے ،پائی کے حسابات سے دماغ کو فرصت نہیں ملتی اور میرا خیال ہیں کہ اگر قدرت ان کو اس قدر مضبوط دل و دماغ عطا نہ فرماتا تو وہ ناموزوں ہو کر رہ جاتے ۔یہ دراصلایک معجزہ ہے،کہ وہ اس جھُلسا دینے والے ماحول میں رہ کر نسیم و شمیم سے کھیلتے رہتے ہیں۔‘‘(بحوالہ: شاعر انقلاب)
ضیأ صاحب کی شعر گوئی میں دلچسپی یا رحجان کے وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی شامل ہے کہ ضیأ فتح آبادی کے والد لالہ منشی رام فن موسیقی کے بڑے مداّح تھے ۔وہ اکثر گھر پر راگ راگنیوں کی محفل کا انعقاد کرتے اور بعض اوقات اس میں خود بھی حصہ لیتے ۔اس کے علاوہ تھیریٹیکل کمپنیوں کے ذریعے ہونے والے ڈراموں میں بھی بڑے ذوق و شوق سے شرکت کرتے تھے۔والد کے ساتھ مختلف ڈراموں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرنے کے باعث ضیأ فتح آبادی کی توجہ کہہ سکتے ہے کہ بچپن سے ہی شعر و سخن کی جانب مبذول ہو گئی۔جو وقت کے ساتھ پروان چڑھتی گئی۔شعر و ادب کی دنیا میں انھوں نے اپنا پہلا استاد مولوی اصغر علی کو چُنا ۔جن کا تقرر انھیں کے گھر اردو کی تعلیم و تدریس کے لئے ہوا تھا ۔لیکن اصغر علی درس و تدریس کے ساتھ ان کے موزوں اشعار پر اصلاح کے ساتھ ساتھ شعر گوئی کے ذوق میں بھی اضافہ کرتے رہے۔انھیں کے مشورے پر پہلا تخلص ’’عطا‘‘ اختیار کیا۔اور اسی تخلص سے لمبے وقت تک شاعری بھی کرتے رہے ۔کالج کے زمانے میں انھوں نے غلام قادر فرخ سے اصلاح لینا شروع کردیا ۔جنھوں نے ’’ عطا‘‘ کو ’’ضیا‘‘ تخلص سے نوازا،اور اسی تخلص سے وہ تا عمر شاعری کرتے رہے۔اور یہی تخلص آج بھی اردو دنیا میں ان کی پہچان بنائے ہوئے ہے۔آج یہ عالم ہے کہ بہت کم لوگ ہی ایسے ہونگے جو ضیأ فتح آبادی کو ان کے اصل نام سے جانتے ہونگے۔
ضیأ فتح آبادی کی شاگردی کا سلسلہ یہی ختم نہیں ہوا ،ان کی تلاش اس زمانے کے ایسے استاد پر ختم ہوئی جن کے شاگرد نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے میں بلکہ بیرون ملک میں بھی بلا تفریق ِ مذہب و ملت بکثرت موجود تھے۔وہ ممتاز استاد سیما ب اکبر آبادی تھے۔جنھوں نے خود فصیح الملک داغ ؔ دہلوی سے اصلاح لی اور حلقۂ داغ کے ایک اہم رکن اور اپنے دور کے زبردست مصلح شاعر بھی تھے۔ضیأ صاحب نے تقریبا ۱۹۳۰ سے سیماب اکبر آبادی سے اصلاح لینی شروع کی جو کچھ وقفے کے ساتھ ان کی وفات (۱۹۵۱) تک جاری رہا۔حالانکہ ضیا صاحب جب تلامذۂ سیماب میں داخل ہوئے تب تک ان کی بہت سی نظمیں اور غزلیں منظر عام پر آچکی تھی۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’طلوع‘‘ ۱۹۲۱ میں منصۂ شہود پر آچکا تھا ۔جس کا تعرف اس وقت کے قد آور شاعر ساغر نظامیؔ نے اس انداز سے کرایا:۔
’’ آئیے آپ کو عصر موجود کے محشر علم و عمل میں ایک اس شخص سے ملائیں جو آج سے پہلے کبھی میدان میں نظر آنے کی طرح نظر نہیں آیا۔بیٹھیئے آپ کو گلزار ِ ادبیات کے اس عندلیب خوش نوا کے گیت سناؤں ،جس کا دل اچھوتے نغموں کی ایک لازوال دنیا ہے اور جس کی خاموشی ایک عظیم گویائی کا مقدمہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘
ضیأ فتح آبادی کو دبستان ِ سیمابی سے جو کچھ کیمیائی کا ہنر سیکھ کر فیض حاصل ہوا ۔اس نے انھیں نہ صرف شعر و ادب کی نزاکتوں پر غور و فکر کرنے کی ترغیب دی بلکہ انھیں مبتدی شاعروں کی اصلاح و رہنمائی کا وہ سلسلہ عطا کیا جو داغ دہلوی سے شروع ہوکر ان تک پہنچا تھا۔ان کے کُل دس شعری مجموعے میں (۱) طلوع (۲)طلوع مشرق (۳)ضیا کے ۱۰۰ شعر(۴)نئی صبح (۵)گردِ راہ (۶)حسن خیال (۷)دھوپ اور چاندنی (۸)رنگ و نور (۹)سوچ کا سفر(۱۰)اور نرم گرم ہوائیں شامل ہیں۔’’نرم گرم ہوائیں‘‘ ضیأ فتح آبادی کی وفات (۱۹۸۶) کے بعد (۱۹۸۷) میں اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی،جو کہ ۸۷غزلوں ،دو آزاد غزل،اور ۱۴ متفرق اشعار پر مشتمل ہیں۔ضیأ فتح آبادی اپنے ہم عصر شعراؤں میں منفرد مقام رکھتے تھے ،ان کی شاعر ی میں ہر رنگ موجود ہے،ان کی عظمت کا اعتراف ان کے ہم عصر شعراؤں نے بھی کیا بقول منصور احمد:۔’’ ضیأ ایک حقیقی شاعر ہیں ،اور جو کچھ انھوں نے لکھا ہے اسے محسوس بھی کیا اور سوچا بھی،اس لئے ان کے کلام میں سنجیدگی اور اثر کی فراوانی ہے ،ان کا ذوق بلند ہے اور زبان نہایت پاکیزہ اور صحیح ہے۔۔۔۔ضیأکی شاعری ایسی ہے کہ اس میں اجتمائیت کے بجائے انفرادیت زیادہ ہے۔‘‘
بقول شاہد احمد دہلوی:۔ ’’ بحیثیت مجموعی ضیأ کی شاعری داد طلب ہے اور خود شاعر حوصلہ افزائی کا مستحق۔‘‘
یہی نہیں ضیافتح آبادی کی شعری ا ادبی خدمات کی اہمیت و ا فادیت کا اندازہ اردو ادب کے ماہر قلم کو بھی تھا ۔حتیٰ کہ ضیا فتح آبادی کی شاعرانہ اوصاف کا اندازہ خود ان کے استادِ محترم کو بھی تھا ۔فرماتے ہیں ،بقول سیماب اکبر آبادی:۔’’مجھے اعتراف ہے کہ وہ اپنے بعض برادرانِ پیشن اور بعض خواجہ تاشانِ آخرین سے ذیادہ علم دوست،مستعد فاکر،اور صاحب ذوق ہیں ۔ان میںتلاش و تفحص کا مادّہ بہت ذیادہ ہے۔
ضیا فتح آبادی کی نظموں کا جب ہم مطالعہ کرتے ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے یہاں موضوعات کی بہت وسعت ہے انھوں نے یوتو بے شمار موضوعت پر نظمیں کہی ،لیکن برسات ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے مثلا ابر بہار،گھٹائیں،بسنت کا ترانہ،بوندوں کا ساز،مطربہ سے،وغیرہ ۔ان کے مجموعۂ کلام ’’طلوع‘‘ میں برسات کا نقشہ رباعی کی صورت میں کچھ اس طرح کھینچا ہیں :۔
ابر چھایا ہے ،آسماں پر ضیأؔ اور کیف آفریں ہے بادِ صبا
آرزوئیں ہیں اضطراب انگیا ں کیا بتاؤں کہ چاہتا کیا ہوں
اسی طرح زندگی کی تلخ حقیقتوں کا ایک منظر اپنی رُباعی میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:۔
کہیں ماتم ہے ، کہیں شادی کوئی نالاں، کوئی فریادی ہے
اب حقیقت یہ کھلی مجھ پہ ضیاؔ! نام ویرانے کا آبادی ہے
اس کے علاوہ انھوں نے شاعر سجدے میں ،انقلاب بہار،دعوت سیر،نیا سال،آجاؤ، کس طرح قرار ہو،آمد حسن،تصویر،آئینے کے سامنے،حسنِ گمراہ،سال کی آخری رات ،دعوت نظر،نہ جاؤ ابھی،محویتِ محبت،کرن، خوبصورت ارادے،روح کا پیمانہ وغیرہ انگنت موضوعات پر مبنی نظمیں کہیں ،جو آج بھی اُن کے مجموعۂ کلام کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔
اس کے علاوہ انھوں نے گیت بھی لکھے مثلاََ آس،کسِ اور؟، من کی بھول،برہن کا گیت،من کا گیت،نہ روک،پی بِن،وغیرہ کے عنوان سے ان کے مجموعے میں شامل ہیں ۔اس سے ضیا ؔفتح آبادی کی وسعتِ شعری کا اندازہ ہوتا ہے ،ان گیتوں کے مطالعہ سے ملک کی مٹی کی بھینی خوشبو بھی آتی ہے ،جوپڑھنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے مثلاََ ان کا گیت ’’پی بِن ‘‘ جو کہ دہلی میں ۱۹۳۷ کی یادگار ہے ۔سچی محبت اور ہمارے تہذیب و معاشرے کی نمائندگی کرتا ہو ا ایک خوبصورت گیت ہے جس میں اپنے عاشق کے یا محبوب کے انتظار میں ساون کے خوبصورت موسم میں اپنے دل کا احوال بیان کرتی ہوئی ایک کمسن ،ملا حظہ ہو:۔
پیا بِن سونا کل سنسار
کس کے نینوں میں چھپ جاؤں
کس کو پریم کے گیت سناؤں
سوُنا کل سنسار
سُوکھا بیتا سارا ساون
کیونکر قابو میں آئے من
پیا بسیں اُس پار
ڈگمگ ڈولے من کی نیاّ
پریم بنا ہو کون کھویاّ ؟
پریم ہی ہے پتوار
ضیأ فتح آبادی کے شعری گلدستے میں ’’سانیٹ ‘‘ کا بھی اہم رول رہا ہے انھوں نے مختلف موضوعات مثلا جوانی،محبت،دل،اپنی میرا سے،یاد، دھوکا،اضطراب،جُدائی ،دیوی،وغیرہ ۔ان کے ’’سانیٹ ‘‘ کے اشعار بھی بہت خوبصورت اور عمدہ مثالوں کی نمائندہ ہیں جن سے قطع نظر یا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔مثلاََ ان کے ’’سانیٹ‘‘ بہ عنوان ’’محبت ‘‘کی ایک مثال ملاحظہ ہو:۔
محبت لفظ تو سادہ ہے ، لیکن ضیا ٔ اس میں سمٹ آئی ہے سب رنگینیاں گلزار ہستی کی
کرے تفسیر اس کی کوئی ، اتنی تاب ہے کس میں کہ یہ تو آخری منزل ہے ، راہِ کیف و مستی کی
ضیا فتح آبادی کی نظموں میں حُسن بیان،ندرت خیال،وضع اسلوب،خوبی ادا،اور تشبیہات و استعارات کی بہترین مثالیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔سنجیدہ موضوعات میں بھی دلکشی و رعنائی کہیں پر پھیکی یا ماند ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی بلکہ دلکشی و رعنائی بر قرار رہتی ہیں۔اسی طرح کی مثالیں ان کی غزلوں میں بھی جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ضیأفتح آبادی بھی صنف غزل کی اہمیت و افادیت اور اس کی جادوگری ،اور اس کے رموز و نکات ،ادب میں غزل کے مقام اور عوام میں ہر دل عزیز ی کا ان کو نہ صرف بخوبی اندازہ تھا بلکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ غزل کہنا ،یا غزل لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جسے شاعر اپنے خون ِ جگر سے سینچتا ہے،جس کااظہار انھوں نے خود اس انداز سے کیا ہے کہ اشعار ملاحظہ ہو :۔
کرتی ہے اشاروں میں باتیں کہتے ہیں ضیا ؔ ہم جس کو غزل
دل میں جلوؤں کا اُترنا ہے نزولِ اشعار آنکھ سے اُٹھتے ہیں پردے تو غزل ہوتی ہے
بر صغیر کے ممتاز افسانہ نگار ’’منشی پریم چند‘‘ نے افسانہ ننگاری کی جو روایت قائم کی تھی ضیافتح آبادی نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا ،ایک سچا فنکار اپنی قلم سے وہی لکھتا ہے جو وہ اپنے عہد و ماحول میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ۔معاشرے کے تمام پہلوؤں کو خصوصا اس عہد کی برائیوں کو اُجاگر کرنا یا اس کے خلاف لکھنا اس عہد کے تناظر میں بہت ہمت کی بات ہے ۔اور یہ حوصلہ ضیا فتح آبادی نے اپنے افسانوں میں کر دکھایا ہے۔وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں پر پردہ پوشی نہیں کرتے بلکہ انھیں عریاں کر منظر عام پر لاتے ہیں ۔حالانکہ ان کا خاص میدان شاعری ہی رہا ہے، لیکن انھوں نے جو نثر لکھی اس سے قطع نظریا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ کیونکہ انھوں نے زندگی کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا جس کی جھلک ان کے افسانوی مجموعے ’’ سورج ڈوب گیا‘‘ میں پڑھ کر محسوس ہوتا ہو۔انھوں نے زندگی کی تصویر اس طرح کھینچی ہیں کہ ہر کردار ہمیں چلتا پھرتا ،باتیں کرتا اور دل کے قریب محسوس ہوتا ہے ۔انھوں نے متوسط گھرانے اور نچلے طبقے کو موضوع سخن بنایا ہے جس کے پاس سادگی، محبت،انسیت،جزبات و احساسات کے ساتھ نفرت،دشمنی،دوستی جیسے پہلوبھی بامِ عروج پر ملتے ہیں ۔اس کے علاوہ ضیا فتح آبادی نے اپنے افسانے میں ’’ عورت‘‘ جیسے حساس پہلو ں کو بھی جگہ دی ہے ۔ان کے یہاں عورت کا تصور پوری شان و شوکت سے موجود ہے ۔انھوں نے عورت کی نفسیات کے کئی پہلوؤںکو اُجاگر کیے ہیں ۔عورت ان کے یہاں ’’ماں ‘‘ جیسی عظیم ہستی کی صورت میں بھی موجود ہے ،دوسری طرف مکر و فریب کا جال بھی ،محبوبہ بھی ہے اور بے بسی و لاچاری کا شکار بھی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ضیأ فتح آبادی عورتوں کی نفسیات سے کس قدر آشنا تھے ۔
بہر حال اگر ہم دیکھے تو پاتے ہیں کہ یوں تو بحیثیت نثر نگار ضیا فتح آبادی کے نثری کارناموں میں تذکرہ نویسی پر دو کتابیں ’’ شعر اور ادب‘‘ اور ’’ذکر سیماب‘‘ ہیں ۔ایک افسانوی مجموعہ ’’سورج ڈوب گیا‘‘ ہے۔لیکن تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان کے اور بھی افسانے ہے جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آپائے ہے۔افسانوں کے ساتھ بہت سے ایسے خطوط بھی موجود ہیں جس سے موجودہ عہد کے مقق کو اس زمانے کے مذاقِ شعری کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہیں ۔ضیافتح آبادی کے خواہ نثری کارنامے ہو یا شعری ان کے دل میں اپنی قوم و ملت کے لیے بے پناہ محبت تھی ،اور ان کے لیے انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں تھا۔خود ان کے لفظوں میںکہ:۔
کافر بنا دیا کہ مسلماں بنا دیا فطرت کا شُکر کر، تجھے انساں بنا دیا
ضیاء فتح آبادی کی ادبی خدمات کے طویل عرصے کو چند صفحات میں سمیٹ دینا ممکن نہیں ۔یہ ہمارے ادب کا بڑاالمیہ ہے کہ اس نے ایک ممتاز شاعر و ادیب کو نظر انداز کر دیا اور اس کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے ۔ایک عرصہ تک ان کی خدمات کوگمراہی و اندھیرے کی غار میں بھٹکنا پڑا ،لیکن ساتھ یہ خوش آئند بات بھی ہے کہ اب ان پر وسیع پیمانے پر کام ہو رہا ہے دنیائے ادب سے روشناس کرایا جا رہا ہے ،امید ہے آنے والے وقت میں ان کو وہی مقام ملے گا جن کے یہ مستحق تھے۔میں اپنی باتوں کا اختتام ان کے اس شعر سے کرنا چاہتی ہوں کہ:۔
بڑھ کر مہ و انجم سے ضیائے اردو رنگینی و دلکشی برائے اردو
اپنی جسے کہہ سکتے ہو ں سب مل جل کر ہے کوئی ذباں اور سوائے اردو؟؟
ڈاکٹر صالحہ صدیقی(الٰہ آباد )
پتہ
Email- salehasiddiquin@gmail.com

Leave a Comment