تحریر۔ علی مزمل کراچی۔ پاکستان
مورخہ ٦ جنوری ٢٠١٨ بروز ہفتہ رات ٧ بجے شام حسبِ معمول ایک مختلف نوعیت کا ١٣٤ واں تنقیدی مشاعرہ براۓ \”داغ دہلوی ایوارڈ\” منعقد کیا گیا۔ جس میں معروف شعراء نے شرکت کی۔
اس تنقیدی طرحی مشاعرہ کو \”داغ دہلوی ایوارڈ\” کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اور جیتنے والے کے لیے \”داغ دہلوی\” ایوارڈ کا اعلان کیا گیا۔ جس کے مہتمم جناب توصیف ترنل صاحب تھے اور مشاعرہ کی صدارت محترم جناب ضیاء شادانی صاحب مرادآباد انڈیا سے فرما رہے تھے۔
جبکہ مہمانانِ خصوصی میں
جباب شاہین فصیح ربانی صاحب اور جناب ہمراز اوچوی قادری صاحب پنجاب۔ پاکستان کے نام شامل تھے۔ جبکہ۔
نظامت کے فرائض مختار تلہری صاحب۔ انڈیا سے انجام دے رہے تھے۔
حلقہء ناقدین میں۔
محترم جناب شفاعت فہیم صاحب انڈیا محترم جناب شاہین فصیح ربانی صاحب۔ مسقط عمان کے نام شامل تھے۔ جو دونوں محترم صاحبان نے احسن طریقے سے انجام دئیے۔
آج کے اس طرحی تنقیدی مشاعرہ براۓ \”داغ دہلوی ایوارڈ\” میں دو مصرعۂ طرح دئیے گئے۔ جس میں دیا جانے والا پہلا طرحی مصرعہ ذوالقافیتین یعنی دو قوافی پر مشتمل تھا۔
١- \”اس پھول سے چہرے کو گلفام کہا جاۓ\”
قافیہ۔١- گلفام۔ نام۔ آرام۔ دام وغیرہ
قافیہ۔٢- کہا۔ سنا۔ لکھا۔ دیا وغیرہ
جب کہ آج کے طرحی مشاعرہ براۓ \”داغ دہلوی ایوارڈ\” کا دوسرا مصرعہ یہ تھا۔
\”آئینہ ہم کو آپ دکھانے سے پیشتر\”
رودادِ مشاعرہ مرتب کرنے کی زمہ داری پاکستان سے علی مزمل کو تفویض ہوئی۔
ٹھیک سات بجے اللہ کے بابرکت نام سے تقریب کا آغاز ہوا اور ناظمِ مشاعرہ نے صدرِ مشاعرہ اور مہمانانِ خصوصی کو مسند پر آنے کی دعوت دی حمدِ باری تعالی کے لیے ناظمِ مشاعرہ نے اپنا نام پیش کیا۔
اس کے فوراً بعد مختار تلہری صاحب نے نعت رسولِ مقبول ص پیش کی۔
مختار تلہری صاحب نے حمد و ثناء اور نعت سے محفل کو مشکبار کیا اور تحسین پائی۔
نمونہء کلام۔ (حمد)
علی کے گھر سے وظیفہ ملا ہے اللہ
طریقِ مصطفوی کا پتا ہے اللہ
نمونہء کلام۔ (نعت)
ہے نتیجہ تم سے رسم و راہ کا
مل گیا جو راستہ اللہ کا
نعت پاک کے بعد ناظمِ مشاعرہ جناب مختار تلہری صاحب نے طرحی مشاعرہ کا باقائدہ آغاز کرتے ہوۓ سب سے پہلے اپنا کلام سامعین کی نذر کیا۔ اور بہت سے توصیفی کلمات کے حقدار ٹھہرے۔ آپ نے ذوقافیتین مصرعہ پر غزل کہی۔
نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔
دنیا نے بڑی گہری نظروں سے مجھے پرکھا
تاکہ مری الفت کو بدنام کیا جاۓ
جناب مختار تلہری صاحب کے بعد عبدالحمید ابنِ ربانی صاحب نے ذوقافیتین مصرعہ پر غزل پیش کی جسے سامعین نے پسند کیا۔
نمونہء کلام۔
ربانی دلِ ناداں حسرت بھی عجب رکھے
اس دستِ مسیحا کو اب تھام لیا جاۓ
عبدالحمید ابنِ ربانی کے بعد دعوتِ کلام وادئ سندھ کے ابھرتے ہوۓ شاعر جناب اشرف علی اشرف صاحب کو دی گئی۔ انہوں نے بھی ذوقافیتین میں سخن پیمائی کی۔ آپ نے خوب خوب داد پائی۔
نمونۂ کلام۔
وہ آتے نہیں ملنے ہم جاتے نہیں ملنے
اشرف تو عبث یارو بدنام ہوا جاۓ
جناب اشرف علی اشرف کے بعد شمعِ محفل تہذیبِ سندھ کی علم بردار ہونہار شاعرہ محترمہ ثمینہ ابڑو کے رو برو لائی گئی۔
آپ نے دونوں مصرعوں پر طبع آزمائی کی اور خوب کی۔ ان کے کلام کو شرکاء محفل نے بہت پسند کیا اور داد و تحسین سے نوازا۔
نمونۂ کلام۔
پہلی طرحی غزل سے۔
ہر رنگ سے معمور ہے وہ حسنِ مجسم
اس پھول سے چہرے کو گل اندام لکھا جاۓ
دوسری طرحی غزل سے۔
رونا پڑے گا جگ کو ہنسانے سے پیش تر
مرنا پڑے گا تجھ کو بھلانے سے پیش تر
ثمینہ ابڑو صاحبہ کے بعد کیلیفورنیا۔ امریکہ سے جناب قاضی جلال صاحب کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنا کلام سامعین کی نذر کریں۔
آپ نے بھی دونوں طرحی مصرعوں پر غزلیں کہیں اور داد حاصل کی۔
نمونہء کلام۔
پہلے طرحی مصرعہ سے۔
بے نام محبت کو اب نام دیا جاۓ
آ بیٹھ کے سوچیں ہم اک جام پیا جاۓ
دوسری طرحی غزل سے۔
نظریں جھکا لیں آنکھ لڑانے سے پیش تر
اور ہاتھ کھینچے ہاتھ ملانے سے پیش تر
پے در پے شاعر آتے رہے مشاعرے نے رنگ جما لیا تھا کہ قاضی جلال صاحب کے بعد مرادآباد انڈیا کی مایہ ناز شاعرہ محترمہ مینانقوی صاحبہ کو دعوتِ کلام دی گئی۔ آپ نے حسبِ سابق بہت معیاری کلام سے سامعین کے نفیس ذوق کی تشفی کی اور خوب داد سمیٹی۔ آپ نے بھی دونوں مصرعوں پر قلم کے نشتر آزماۓ۔
نمونۂ کلام۔
پہلی طرحی غزل سے۔
یوں امن و اخوت کو اب عام کیا جاۓ
دنیا کو محبت کا پیغام دیا جاۓ
دوسری طرحی غزل سے۔
کوئی بھی لفظ ہونٹوں پہ لانے سے پیش تر
سو بار سوچ لیجے سنانے سے پیش تر
محترمہ مینانقوی کے بعد جناب علی مزمل صاحب کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ حاضرین نے ان کے کلام پر تحسین کی۔
نمونۂ کلام۔
تخلیق اگر ہوا تھا میں آنے سے پیش تر
کس شکل میں تھا شکل میں لانے سے پیش تر
علی مزمل کے بعد پنجاب پاکستان سے جناب ہمراز اوچوی قادری صاحب کی باری آئی۔ آپ آج کے مشاعرہ کے دو مہمانانِ خصوصی میں سے ایک تھے۔ آپ کا کلام بھی پسند کیا گیا جس پر ناقدین نے بھی اپنی آراء سے مستفیض کیا۔
نمونۂ کلام۔
مے خانہ میں آیا ہوں مرا نام لیا جاۓ
اب میرے لیے ساقیا اک جام دیا جاۓ
جناب ہمراز اوچوی قادری صاحب کے بعد آج کے مشاعرے کے دوسرے مہمانِ خصوصی جناب شاہین فصیح ربانی صاحب کو مدعو کیا گیا۔ آپ نے دونوں مصرعوں پر کلام پیش کیا اور بے تحاشہ داد سمیٹی۔
نمونہء کلام۔
پہلی طرحی غزل سے۔
ہر صبح سنا جاۓ ہر شام سنا جاۓ
نظروں کو تکلم کا انعام دیا جاۓ
دوسری طرحی غزل سے۔
ہوتے ہیں سو طلسم خزانے سے پیش تر
ہو اسم اک عطا مجھے جانے سے پیش تر
شاہین فصیح ربانی صاحب کے بے مثال کلام کے بعد جناب ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی جن کا تعلق انڈیا سے ہے کو دعوتِ کلام دی گئی۔ آپ نے بھی ذوقافیتین غزل کا انتخاب کیا۔ آپ کا کلام بھی خوب رہا۔
نمونۂ کلام۔
ایسا بھی زمانے میں اک کام کیا جاۓ
بے کس کی صداؤں کو ہر گام کیا جاۓ
اور آخر میں صدرِ مشاعرہ جناب ضیاء شادانی صاحب کو دعوت دی گئی کہ وہ آئیں اور اپنا کلام سامعین کی نذر کریں اور حاضرینِ محفل کو خطبۂ صدارت سے سرفراز فرمائیں۔
صدرِ محفل نے نہایت مشاقی سے کہے گئے کلام سے مستفید کیا اور بجھتے ولولوں کو ایک بار پھر بھڑکا دیا۔ محفل از سرِ نو جوبن پر آگئی اور خوب داد دی گئی۔ آپ نے دئیے گئے دونوں طرحی مصرعوں پر غزلیں کہیں۔
نمونۂ کلام پہلی غزل سے۔
اک کیف ہے مستی ہے یہ دین ہے قدرت کی
کیوں آپ کی آنکھوں کو بدنام کیا جاۓ
دوسری طرحی غزل سے۔
اے کاش پہلے اپنے گریباں میں جھانک لیں
آئینہ آپ ہم کو دکھانے سے پیش تر
بعدازاں ضیاء شادانی صاحب نے خطبۂ صدارت سے نوازا اور مشاعرہ بخیر و خوبی انجام کو پہنچا۔
یہ مشاعرہ اب تک کئے گئے بہترین مشاعروں میں شمار کیا جانا چاہیے جن میں شرکار اور سامعین نے بھرپور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ محفل کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔
اس منفرد پروگرام کا سہرا چیئرمین توصیف ترنل کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے سر بندھتا ہے جو کسی بھی ذریعہ سے پروگرام کا حصہ رہا۔
اس موقع پر مختار تلہری صاحب کی نظامت اور ناقدین خصوصاً شفاعت فہیم صاحب کی مستعدی کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔
آخر میں توجہ منصفین کی جانب مبذول رہی اور تجسس انتہا کو پہنچا کہ آخر وہ کون خوش بخت ہوگا جسے \”داغ دہلوی\” ایوارڈ سے نوازا جاۓ گا۔
خلافِ توقع مختصر انتظار کے بعد منصفین نے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور کامیابی کا ہما جناب مختار تلہری صاحب کے سر بیٹھا اور یوں مختار تلہری صاحب \”داغ دہلوی ایوارڈ\” کے حقدار قرار پاۓ۔