ادیبوں، قلمکاروں اور اردو کے شیدائیوں کی موجود میں کربلا منشی فضل حسین میں سپرد خاک، اردو حلقے میں غم کی لہر
٭ ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ
لکھنؤ :۔ علمی اور ادبی دنیا کی انتہائی قد آور شخصیت ، عالمی شہرت یافتہ محقق ، مدون، مترجم، ناقد،صاحب طرز افسانہ نگارور اردو زبان وادب کے اہم ستون پروفیسر نیرّ مسعودنے آج دوپہر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔وہ تقریباً 81 / برس کے تھے۔ اطلاعات کے مطابق دوپہر سوا دو بجے انھوں نے اپنی آبائی حویلی\” ادبستان\” میں آخری سانس لی۔ پروفیسر نیرّ مسعود کے انتقال کی خبر سے علمی ادبی اور مذہبی حلقوں میں گہرا سناٹا چھا گیاہے۔ پروفیسر نیرّ مسعود طویل عرصے سے بیمار تھے اور صاحب فراش تھے۔ پروفیسر نیرّ مسعود کی پیدائش اپنے والد پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی حویلی ادبستان میں 16/ نومبر 1936ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم لکھنو کے گردھاری سنگھ کالج میں ہوئی۔ الہٰ آباد یونیورسٹی اور لکھنو یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اردو انگریزی اور فارسی ادبیات پر قدرت رکھنے والے پروفیسر نیرّ مسعود لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں صدر شعبہ کی حیثیت سے طویل عرصے تک اپنی خدمات انجام دیں اور اپنی علمی شخصیت سے اساتذہ اور طلباء میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی اور 16/ نومبر 1996ء میں اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔ انکی زیر نگرانی میں بڑی تعداد میں طلباو طالبات نے تحقیقی کام انجام دیئے۔ ان کی تقریباً تیس سے زائد کتابیں منظر عام پر آئیں۔ اور تین سو سے زیادہ تحقیقی و تنقیدی مضامین مختلف رسائل اور جرائد میں شائع ہوئے۔ رجب علی بیگ سرور اور میر انیس پر ان کا قابل قدر کام ہے۔ اودھ کے نواب واجد علی شاہ پر ان کی کتاب نے واجد علی شاہ کے کردار کو تعصب کی بدلیوں سے باہر نکال کر روشن کیا۔ انکی متعدد کتابوں کے اسلوب اور واقعہ نگاری کو بے پناہ پسند کیا گیا۔ طاوس چمن کی مینا، گنجینہ، میر انیس، مرثیہ خوانی کا فن، عطر کافور، تعمیر غالب، سیمیا، ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ان کے افسانے اپنے اندر ایک طلسمی اور پر اسرار فضا کا احساس کراتے ہیں جس میں قاری پوری طرح کھوجاتا ہے۔تحقیقی مطالعات کے ساتھ تراجم میں بھی وہ دلچسپی لیتے تھے اور مشہور جرمن افسانہ نگار فرانز کافکا کی کہانیوں کا انھوں نے اردو میں بیحد خوبصورت ترجمہ کیا ہے۔ وہ ماہر داستان بھی تھے لیکن ان کی شہرت کا سبب ان کے افسانے ہیں۔ پروفیسر نیرّ مسعود کی نثر سادہ سلیس ہونے کے ساتھ ساتھ شگفتہ بھی تھی۔ ان کے افسانوں پر ترسیل کی ناکامی کے الزام بھی لگے لیکن وہ اپنی روش پر قائم رہے۔ پروفیسر نیرّ مسعود اپنے اسلوب کے خود موجد بھی تھے اور حاتم بھی۔ پروفیسر نیرّ مسعود دیگر خصوصیات کے ساتھ ہی اپنے نادر اسلوب کے لئے بھی ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔
انھیں 2001 میں ساہتیہ اکاڈمی دلی کے قومی انعام سے نوازا گیا جبکہ 2007 میں گراں قدر سرسوتی سمان سے سرفراز کیا گیا۔ \”سرسوتی سمان\” ابھی تک اردو میں صرف دو قلمکاروں کو ہی ملا ہے۔ پروفیسر نیرّ مسعود کے علاوہ صرف شمس الرحمان فاروقی کو یہ اعزاز حاصل ہے۔ حکومت ہند نے 1970 میں ڈاکٹر پروفیسر نیرّ مسعود کی ادبی اور تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پدم شری سے نوازا تھا۔ پروفیسر نیرّ مسعود کی متعدد کہانیوں اور افسانوں کا کئی بیرون ملکی زبانوں بشمول جرمن، فرانسیسی میں ترجمہ ہوا ہے۔ ان کے افسانوں کے انگریزی ترجمہ The Snake Catcher اور Essence of Camphorکے عنوان سے معروف مترجم محمد عمر میمن نے کیےہیں۔ تمام افسانوں کا انگریزی مجموعہ Collected Stories شائع ہوچکا ہے۔ انگریزی کے علاوہ ڈاکٹر پروفیسر نیرّ مسعود کے افسانے فرانسیسی ، اسپینی ، ہندی ، فنس اور دیگر زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر پروفیسر نیرّ مسعود لکھنو کی ادبی تہذیب کے مورح بھی تھے، ان کی کتاب\”لکھنو کا عروج و زوال \” ہاتھوں ہاتھ لی گئی ہے۔ ان کی دیگر کتابوں میں شفاء الدولہ کی سرگزشت، انیس سوانح ، رجب علی بیگ سرور حیات و کارنامے، یگانہ احوال و آثار، اور ایران کے فارسی افسانوں کا مجموعہ \” ایرانی\” کہانیوں ہیں۔ مرحوم نے \”دیوان فارسی میر\” بھی مرتب کیا اور غالب کے منتخب کلام کی شرح بھی کی۔ مرثیے کی تاریخ اور سوز خوانی پر بھی ان کی کئی کتابیں ہیں۔ علمی اور ادبی نیز مذہبی شخصیات
نےڈاکٹر پروفیسر نیرّ مسعود کے انتقال کو علم و ادب کی دنیا کا ایک بڑا خسارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو فارسی اور علوم مشرقیہ کا ایک بڑا ستون گرگیا ہے۔ ڈاکٹر پروفیسر نیرّ مسعود کی موت کی خبر عام ہوتے ہی ادبی، علمی اور تہذیبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی۔
ان کی تدفین کربلا منشی فضل حسین میں رات دس بجے سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا۔دبستان لکھنو کے اس اہم قلم کار نے انیس سوانح کے حوالے سے جو اہم خدمات انجام دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔پروفیسر نیر مسعود پروفیسر مسعود الحسن رضوی ادیب کے لائق فرزند تھے ، جنہوں نے اپنی ادبی میراث کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تمثال مسعود ہے۔اہل علم ودانش مانتے ہیں کہ پروفیسر نیر مسعود کا ا نتقال اردو زبان وادب کاایسا نقصان ہے ، جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ڈاکٹر پروفیسر نیرّ مسعود بھی ادبی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
رجب علی بیگ سرور حیات اور کارنامے
بچوں سے باتیں (مرتبہ)
بستانِ حکمت (ترجمہ)
سوتا جاگتا
انیس
عطرِ کافور
سیمیا
طاؤس ِ چمن کی مینا
نیّر مسعود کی تصانیف کی مکمل فہرست
افسانوں کے مجموعے:
عطرِ کافور؛ سیمیا؛ طائوس چمن کی مینا؛ گنجفہ ۔
سوانح:
انیس، سوانح؛ یگانہ، احوال اور آثار؛ شفاٴالدولہ کی سرگزشت؛ دولھا صاحب عروج؛ ادبستان، شخصی خاکے۔
ادبی تحقیق:
رجب علی بیگ سرور، حیات و کارنامے؛ تعبیرِ غالب؛ مرثیہ خوانی کا فن؛ منتخب مضامین
مرتّبہ کتابیں:
سخنِ اشرف، دیوان واجد علی شاہ اختر؛ انتخاب بستانِ حکمت؛ بزم انیس (منتخب مراثی)
Books in English
The Essence of Camphor. Tr. M. U. Memon