عالمی یومِ خواتین کے موقع پر پروفیسر سیما صغیر کی کتاب”تانیثیت اور اردو ادب:روایت،مسائل اور امکانات“ کا رسمِ اجراء

پروفیسر سیما صغیر عصرِ حاضر میں نسائی ادب کے حوالے سے ایک اہم تنقید نگار:آصفؔ اظہارعلی

علی گڑھ(اسٹاف رپورٹر)عالمی یومِ خواتین کے موقع پر انجمنِ محبانِ اردوعلی گڑھ کے زیرِ اہتمام معروف ادیبہ،تنقید نگار اور مترجم ڈاکٹرسیما صغیر پروفیسر شعبہئ اردو اے ایم یو علی گڑھ کی کتاب”تانیثیت اور اردو ادب:روایت،مسائل اور امکانات“کا رسمِ اجراء بدست معروف افسانہ نگار آصف اظہار علی عمل میں آیا۔پروگرام کی نظامت کے فرائض جدید افسانہ نگار افشاں ملک نے انجام دئیے۔اس موقع پرصاحبِ کتاب پروفیسر سیما صغیر نے کہا کہ تانیثیت کی ابتداء ورجینا وولف کی تخلیقات میں دیکھنے کو ملتی ہے جس کا اثر دنیا کے ہر خطے میں نظر آتا ہے۔ اردو ادب میں بھی تانیثیت کے حوالے سے بہت سی خواتین ہیں جو اپنی نگارشات پیش کر رہی ہیں۔ان کے یہاں اس سلسلے سے مختلف نظریات نظر آتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ معاشی،سماجی،اقتصادی،سیاسی معاملات میں امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔میں نے اس کتاب میں جہاں تانیثیت کے اصول پرروشنی ہے ڈالی ہے وہیں اس کے نظریات پر بھی گفتگو کی ہے۔اس کے علاوہ اردو میں جو خواتین لکھ رہی ہیں ان کی تخلیقات کا بھی جائزہ لیا ہے۔کتاب اور صاحبِ کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے پروگرام کی صدر آصف اظہار علی نے کہا کہ پروفیسر سیما صغیر عصرِ حاضر کی ایک اہم نقاد ہیں۔ نسائی ادب پر ان کی نگاہ نہایت عمیق ہے مذکورہ کتاب میں انھوں نے تانیثیت کے حوالے سے جو بحث کی ہے وہ نہ صرف طلبہ و طالبات کے لیے مشعلِ راہ ہے بلکہ اساتذہ کے لیے بھی مفید ہے۔ افشاں ملک نے کہا کہ پروفیسر سیما صغیر متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں ان کی علمی و ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں مختلف انعامات و اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔وہ ایک بے باک تنقید نگار ہیں ان کی کتاب”تانیثیت اور اردو ادب“ تانیثیت کو سمجھنے میں معاون ہوگی۔پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ پروفیسر سیما صغیر نے انتہائی مصروفیت کے باوجود نہایت محنت سے یہ کتاب لکھی ہے یہ کتاب اردو ادب میں اضافے کا باعث ہے خصوصاً تانیثیت کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب سنگِ میل ثابت ہوگی۔اس کتاب میں نہایت مدلل انداز میں تانیثیت کے مفہوم و مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔اس کا مطالعہ اردو ادب کے چاہنے والوں کے لیے تانیثیت کی شناسائی کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ عادل فراز نے کہا کہ پروفیسر سیما صغیر کا نام اردو حلقوں میں روشن ستارے کی حیثیت رکھتا ہے ان کی ادبی خدمات کا جائزہ لینے سے یہ ثابت ہے کہ ان کے سو سے زائد مضامین شائع ہو چکے ہیں،پندرہ کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ان کی یہ کتاب تانیثیت کی راہ میں افہام و تفہیم کے نئے راستے روشن کرنے میں معاون ہوگی۔شہناز رحمان نے کہا کہ پروفیسر سیما صغیر ہمارے عہد کی اہم تنقید نگار ہیں ان کا مطالعہ وسیع ہے یومِ خواتین کے موقع پر تانیثیت کے حوالے سے ان کی کتاب کا منظرِ عام پر آنا شائقینِ ادب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ذوالفقار زلفی نے کہا کہ میں انجمنِ محبانِ اردو علی گڑھ کے تمام اراکین کی جانب سے پروفیسر سیما صغیر کے حضور میں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ کی یہ کتاب اردو ادب کے قارئین میں نہایت مقبول ہوگی۔پروگرام میں شامل ہونے والوں میں غیاث الدین،اظہار علی،انعم فاطمہ،ثنا فاطمہ،ریشمہ طلعت، زرّین ناز،عذرا پروین،مشہود فاطمہ،پاکیزہ خاتون،نسرین فاطمہ،تسلیم زہرہ،صبا صدیقی،ذہین فاطمہ،انجم فاروقی،رفعت کاظمی،فرزانہ نقوی،سلمہ انصاری،جیوتی چودھری،سیما ملک،رفعت فاطمہ،ذکیہ فیروزاور صائمہ فیروزوغیرہ وغیرہ پیش پیش رہیں۔

Leave a Comment