عبدالرحمن بجنوری انسانیت کے سچے پرستار تھے : گوپی چند نارنگ

ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام دو روزہ سیمینار کا افتتاح
\"\"
نئی دہلی (اسٹاف رپورٹر) اردو کے نامور ادیب، نقاد اور شاعر عبدالرحمن بجنوری کی حیات و خدمات پر ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی کے زیراہتمام دو روزہ سمینار کا افتتاحی اجلاس آج اکادمی آڈیٹوریم، منڈی ہاؤس، نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت اردو کے ممتاز نقاد اور دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کی۔ انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ عبدالرحمن بجنوری کا یہ جملہ کہ ’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں؛ ایک وید مقدس اور دوسرا دیوانِ غالب‘ غالب ڈسکورس میں جتنا مشہور ہوا اتنا مشہور کوئی جملہ نہیں ہوسکا۔ جب تک اردو تنقید ہے تب تک یہ جملہ زندہ جاوید ہے۔ فُلو کی زد میں آنے سے قبل صرف اکتیس سال کی عمر میں بجنوری نے غالب کی عظمت کا لوہا منوا لیا۔ انھوں نے یہ ثابت کردیا کہ غالب ہمارا شیکسپیئر ہے۔ پروفیسر نارنگ نے مزید کہا کہ عبدالرحمن بجنوری کا ایک ایک لفظ ہندوستان اور اس کے مذاہب کی محبت سے سرشار ہے۔ بجنوری انسانیت کے سچے پرستار تھے اور ان جیسی کوئی دوسری شخصیت پیدا نہیں ہوسکتی۔ پروفیسر نارنگ نے ساہتیہ اکادمی اور اس کے فعال سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ کا شکریہ ادا کیا کہ اس ادارے نے بجنوری کے وفات کے سو سال بعد اُن پر سمینار کراکر انھیں سچی خراجِ عقیدت پیش کی ہے۔ اس سے قبل کنیڈا سے تشریف لائے اردو کے ممتاز نقاد اور محقق ڈاکٹر سید تقی عابدی نے سمینار کا افتتاح کیا۔ اپنی افتتاح تقریر میں انھوں نے کہا کہ بجنوری کی تنقید کا کوئی جواب نہیں۔ گلشن دیوانِ غالب کا پہلا دروازہ کھولنے والا پہلا شخص عبدالرحمن بجنوری ہی ہے۔ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے تمام مقالہ نگاروں اور مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ انھوں نے اپنی مختصر تقریر میں اردو تنقید کا ایک جائزہ پیش کیا اور اکادمی کے ذریعہ ماضی میں منعقدہ کچھ اہم سمیناروں کا ذکر کیا۔ اس موقع پر ساہتیہ اکادمی کے اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر جناب شین کاف نظام نے ابتدائی کلمات پیش کیے۔ انھوں نے بجنوری پر مختلف دانشوروں کی تقریروں کا حوالہ پیش کیا اور کہا کہ بجنوری ایک نقاد کے علاوہ شاعر بھی تھے۔
ممبئی سے تشریف لائے اردو کے معروف نقاد اور صحافی جناب شمیم طارق نے اپنے مخصوص انداز میں جامع کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے بجنوری کی مشہور کتاب ’محاسن کلامِ غالب‘ کو شاہکار بتایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بجنوری نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ دراصل علمی اور ادبی مسائل بجنوری کو پڑھے بغیر حل نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں تصور علم یورپ کے تصور علم سے بہت وسیع ہے۔ غالب شناسی کی اصل بنیاد اس جملہ پر قائم ہے۔
پروگرام کی نظامت اکادمی کے افسر بکارِ خاص ڈاکٹر دویندر کمار دیویش نے کی اور انھوں نے اظہارِتشکر بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ کل سمینار کے باقی اجلاس میں بھی لوگوں کی شرکت حوصلہ افزا ہوگی۔ کل کے اجلاس میں بالترتیب ف س اعجاز، انیس اشفاق اور ابن کنول صدارت کریں گے جبکہ فاروق ارگلی، راشد انور راشد، حبیب نثار، حقانی القاسمی، سرورالہدیٰ، انور پاشا، قاسم خورشید، دانش الٰہ آبادی مقالے پیش کریں گے۔ اس موقع پر دہلی کی سرکردہ شخصیات موجود تھیں۔
\"\"

Leave a Comment