عبدالصمد کے ناول ’’جہاں تیرا ہے یا میرا‘‘ کا تنقیدی مطالعہ

\"\"
٭ڈاکٹرشاذیہ کمال

گیسٹ اسسٹنٹ پروفیسر، بہار یونیورسٹی، مظفرپور
موبائل نمبر:9386134522

اردوفکشن کی دنیا میں عبدالصمد کا نام تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے اردو فکشن کی دواہم صنفوں ناول اور افسانہ دونوں پر قریب ایک ہی توجہ کے ساتھ اپنی نگاہ اور نظر صرف کی ہے۔ وہ اپنے شہرۂ آفاق ناول ’’دوگز زمین‘‘ سے مشہور ہوئے۔ ’’دوگز زمین‘‘ ان کا پہلا مگر مقبول ترین ناول تھا۔ ’’دوگز زمین‘‘ دراصل ہندوستان کی آزادی سے قبل سے لے کر بنگلہ دیش کے قیام تک کے عہد کے بر صغیر میں مسلمانوں کے معاشرتی ،سماجی، سیاسی حالات اور ان کی دربدری کی صورت حال کو منعکس کرتا ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷؁ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا مگر معاشرتی، لسانی، علاقائی اور ثقافتی اعتبار سے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) دو الگ الگ خطے تھے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ دونوں ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی اور مہاجرین (بنگالی وہاں کی اصل عوام اور مہاجرین ہندوستان سے ہجرت کرکے گئے ہوئے لوگ) دو الگ قومیں تھیں۔ گرچہ ان کا مذہب ایک تھا، رسول ایک تھا، شریعت ایک تھی۔ مگر ان کے ذہنوں میں جو فرق تھا وہ فرق کسی گہری کھائی سے کم نہ تھا۔ اور اس سبب سے دنیا نے ان کے بیچ جنگ کا جو خونی نظارہ دیکھا وہ نظارہ آج بھی تاریخ کے صفحوں میں بند صفِ ماتم کررہا ہے۔مگر فائدہ اس سے یہ ہوا کہ اس خونی کھیل کے بعد ۲۶؍مارچ ۱۹۷۱؁ء میں دنیا کے نقشے پر ایک ملک نمودار ہوا جس کی زبان بنگالی تھی۔ ان کی اپنی رہائش اور اپنی منفرد تہذیب و ثقافت تھی۔ اسے آزادی حاصل کرنے میں ہندوستان کی حمایت حاصل رہی تھی۔ اس میں کتنی جانیں گئیں اور کس کس طرح کی دہشت، وحشت اور خوف و ہراس کا لوگوں نے سامنا کیا، کس کا کیا لٹا اور کس کا کیا بچا ان تمام باتوں کی واضح عکاسی موصوف کے ناول ’’دوگز زمین‘‘ میں کی گئی ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک سنجیدہ مگر اہم اور دلچسپ موضوع تھا جس نے اس ناول کو کامیابی کی ضمانت دے دی۔ اپنی اشاعت (۱۹۸۸ء) کے ساتھ ہی اس ناول نے اردو دنیا (برصغیر) کو پوری شدت کے ساتھ اپنی جانب متوجہ کیا۔ اسے حکومت ہند کے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے متواتر ان کے کئی ناول منظرِ عام پر آتے گئے۔ ان ناولوں کے نام ہیں۔ مہاتما (۱۹۹۲ء)، خوابوں کا سویرا (۱۹۹۴ء) ، مہاساگر (۱۹۹۶ء)، دھمک (۲۰۰۴ء)، بکھرے اوراق (۲۰۱۰ء)، شکست کی آواز (۲۰۱۲ء)، اُجالوں کی سیاہی (۲۰۱۵ء) اور \”The Journey of Burning Boat\” (۲۰۱۲ء)۔ موصوف نے کہانی کی مختصر شکل افسانہ نگاری میں بھی خاصا نام حاصل کیا۔ ان کے چھ افسانوی مجموعے اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے نام ہیں۔ (۱) بارہ رنگوں والا کمرہ (۱۹۸۰ء)، (۲) پسِ دیوار (۱۹۸۳ء)، (۳) سیاہ کاغذ کی دھجیاں (۱۹۹۰ء)، (۴) میوزیکل چیر (۱۹۹۶ء)، (۵) آگ کے اندر راکھ (۲۰۰۰ء) اور (۶) بہ قلم خود (۲۰۱۶ء)۔ ان کے بہترین افسانوں کا مجموعہ ’’عبدالصمد کے منتخب افسانے‘‘ (۲۰۱۴ء مرتب محسن رضا رضوی اور افسانہ خاتون)شائع ہو چکا ہے۔ فکشن کے علاوہ غیر افسانوی ادب خاکہ نگاری کی جانب بھی انہوں نے اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ ان کے خاکوں کا ایک مجموعہ ’’دل میں رہے مقیم‘‘ (۲۰۱۴ء) چھپ کر منظرِ عام پر آچکا ہے۔ موصوف علم سیاسیات کے اُستادرہے ہیں اور سیاسیات سے متعلق بھی ان کی دو کتابیں سامنے آئی ہیں۔
مگر یہاں پر میرے ذکر کا موضوع ان کا نیا ترین ناول ’’ جہاں تیرا ہے یا میرا ‘‘ ہے ۔یہ ناول ۲۰۱۸ء میں شائع ہوا ہے۔ عام طور پر کوئی بھی ناول ہو اس کی سرزمین بڑی طویل ہوتی ہے اور جس ناول میںپیچیدگی اور طوالت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ ناول اتنا ہی ہمہ گیر بن جاتا ہے۔ ’’جہاں تیرا ہے یا میرا‘‘ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ ناول بہت سارے مسائل (جن کا تعلق ہندوستانی مسلمانوں سے ہے) اور ان کے پیچیدہ حالات کا چشم دید گواہ ہے۔ پورا ناول ۵۵ مختصر و طویل اکائیوں میں منقسم ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس کی ہراکائی ایک مکمل کہانی ہے جس میں حقیقت کے مختلف رنگ شامل ہیں۔ مگر ہر اکائی ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ ناول اپنے موضوعات، کردار نگاری اور اندازبیان کے اعتبار سے اہم ہے۔ جہاں تک موضوع کا سوال ہے اس میں جلدی کسی تفریحی نکتے کو جگہ نہیں ملی ہے۔ بلکہ اس میں ایسے سلگتے ہوئے مسائل پر بات کی گئی ہے جو بدقسمتی سے ہندوستانی مسلمانوں کے حصے میں در آئے ہیں۔ ان میں بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر اس سے بھی بڑے کئی دوسرے مسائل ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو دیگر قوموں بشمول خود کی نظروں میں ذلیل و خوار بنادیا ہے۔ یہ اپنی زندگی ہی میں فوت ہوچکے ہیں۔ ان مسائل نے مسلمانوں کو ایک ایسی کھائی میں گرادیا ہے جہاں سے نکلنا خود ان کے لیے بڑاچیلنج ہے۔ غریبی، مفلوک الحالی اور جہالت تو مسائل ہیں ہی مگر ذلت پسندی،سستی، کاہلی، نئی نسل کا تعلیم سے دوری، غلط عادات و اطوار اور مذہب سے بیزاری ایسے عوامل ہیں جنہوں نے خود ان کی نظروں میں ان کی شناخت کو ختم کردیا ہے۔ ان کی آنکھوں پر دھند کا ایک ایسا پردہ پڑچکا ہے کہ جس سے ان کے شعور کی تمام راہیں مفقود ہوچکی ہیں۔ دنیا میں ہندوستانی مسلمانوں کا تعارف پست حال اور قابلِ رحم قوم کے طور پر کیا جاتا ہے۔ نہایت قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ دہشت گردی جیسے جرم کو مسلمانوں سے ہی جوڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ اس قوم کا المیہ ہی ہے کہ مسلم مخالف قومیں مسلمانوں کی شبیہہ کو مزید بگاڑنے پر کس قدر مستعد ہیں۔
یہ ناول دراصل ہندوستانی مسلمانوں پر کیا گیاdiscourseہے۔ اس سے مصنف کی فکر اور ان کے خلوص کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے انتہائی اہم مسائل کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے اور ظاہر ہے اس طرح کا ناول وہ مخلص قلم کار ہی لکھ سکتا ہے جس کے دل میں ذرہ برابر بھی قوم سے ہمدردی کا جذبہ موجود ہو۔ جن مسائل اور مجبوریوں کو موضوع بنایا گیا ہے ان کا تعلق مسلمانوں کے متوسط بلکہ نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ مسلم نوجوانوں کے بیچ بے روزگاری کا مسئلہ عام ہے اور یہ ناول کا مرکزی موضوع ہے۔ مصنف نے ہندوستانی مسلمانوں کی معیشت اور ان کے سلسلۂ روزگار کے باریک سے باریک نکتوں پر اپنی چشم بینی سے کام لیا ہے۔ پورا ناول ایک تعلیم یافتہ محنتی نوجوان کا روزگار کے لیے دربدری کی صورت حال کو منعکس کرتا ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جو نایاب ہے نہ کم یاب بلکہ یہ ہر دوسرے تیسرے فرد کا قصہ معلوم ہوتا ہے۔ ایم-اے کر لینے کے بعد راشد جب ایک مقامی اقلیتی کالج میںبطور غیر مستقل استاد بحال ہوتا ہے تو وہاں کالج کے اندر کرپشن کا جو ماحول گرم ہے وہ سب اس کے سامنے آجاتا ہے اس سلسلے سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’راشد کے کانوں میں کسی نے پھونک دیا کہ اس بحالی میں سارے ممکنہ حربے آزمائے جائیں گے، پیسہ، پیروی اور بھی بہت سی ایسی چیزیں جو ہاتھوں ہاتھ اور اشاروں ہی میں طے کی جاتی ہیں۔ راشد نے اپنا محاسبہ کیا تو اس کے ہاتھ ایسے تہی دست تھے کہ ان میں لکیریں بھی اپنی آب و تاب کھوچکی تھیں۔ وہ ان سینئر سے ملا جنہوں نے دورانِ گفتگو آئین کی دفعات ۲۹ ؍ اور۳۰ ؍ کا حوالہ دیا تھا۔ وہ صاحب قہقہہ لگانے لگے۔‘‘ (ص ۱۳؍)
اسی حوالے سے مصنف نے ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ نشاطِ ثانیہ کا بھی ذکر کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ اسی پسِ منظر میںآئین ہند نے ہندوستانی مسلمانوں کو ۲۹؍اور ۳۰؍ دفعات کے تحت خصوصی اختیار دیتے ہوئے انہیں اقلیتی ادارہ کھولنے اور چلانے کا اختیار دے رکھا ہے۔ مگر اس اختیار کے پسِ پشت اقلیتی اداروں کی جو حقیقت ہے اور وہاں کرپشن کا جو ماحول گرم ہے اسے مصنف نے طشت ازبام کر ڈالا ہے۔ اس ناول میں جہاں مسلم نوجوان کی بے روزگاری، اس کے راستے میں جگہ جگہ پر حائل مشکلات، جدوجہد اور مشقتوں سے پُرزندگی کی داستان بیان کی گئی ہے مگر اس سے بھی زیادہ مسلم قوم کی جاہلیت، مغلوک الحالی اور خصوصاً ان کے جوان ہوتے بچوں کی بے راہ روی، تعلیم سے ان کی دوری، اخلاقی پستی اور برائیوں و جرائم سے ان کی وابستگی کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔ درج ذیل اقتباس میں یہ تصویر نظر آتی ہے۔ ملاحظہ کریں۔
ایک گارجین اپنے ماحول سے متعارف کراتے ہوئے راشد سے بولتے ہیں۔
’’…… یہ کھنڈر مجرمانہ سرگرمی کے اڈے بن چکے ہیں ۔ پورے محلے میں ایک بھی فرد ایسا نہیں جس نے میٹرک سے آگے تعلیم پائی ہو، ان کے میٹرک پاس کرجانے کی بھی ایک الگ کہانی ہے، زیادہ تر بچے بیکار ہیں، دن بھر تاش کھیلنے، گپیں لڑانے اور ایک دوسرے سے مارا ماری میں وقت گزارتے ہیں، رات بھر لوڈو اور کیرم کی محفلیں جمتی ہیں…‘‘ (ص۸۶)
اُس گارجین سے راشد پوچھتا ہے۔
’’ایسا تو نہیں کہ انہیں سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر شاطر مجرموں نے بھی انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنا لیا ہو …؟ آخر ان بچوں کے پاس ہوٹل بازی اور گرل فرینڈس پر خرچ کے لیے پیسے کہاں سے آتے ہیں …؟‘‘
گارجین اپنا شک ظاہرکرتے ہوئے بولتے ہیں۔
’’میں حتمی طور پر تو نہیں کہہ سکتا، مگر آپ کا قیاس بعید ازامکان بھی نہیں …؟‘‘
ایک دو مکالمے کے بعد راشد نے ان کے شک پروار کرتے ہوئے کہا۔
’’معاف کیجئے گا، آپ میرے باپ کے برابر ہیں، کوئی سچ بات میرے منہ سے نکل جائے تو بُرامت مانیے گا۔آپ کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے بچوں کے پیسوں سے آپ کا باورچی خانہ بھی چلتا ہے اور آپ نے یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ پیسے کہاں سے لاتے ہیں…‘‘ (ص۸۷)
بہت ساری برائیاں اور گندگیاں نچلے اور غریب طبقے میں سرایت کرگئی ہیں۔ دراصل غربت، جہالت، پست ماحول اور مذہب سے دوری انہیں زندگی کی حقیقت سے اتنا دور کردیتے ہیں کہ انہیں اپنے چاروں اطراف صرف کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں مگر ان کی توجہ کبھی اس جانب نہیں جاتی کہ’’ کنول پھول‘‘ اور بہت سے قیمتی موتی کیچڑ کی ہی پیداوار ہوتے ہیں۔
متذکرہ بالا مسائل کے علاوہ ایک نہایت سنجیدہ اور اہم مسلہ دہشت گردی پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو حالیہ چند برسوں سے دنیا کا سنگین ترین اور نہایت اہم مسلہ بن کر رہ گیا ہے ۔ اس مسلے کے موجد کچھ شرپسند عناصر اور اینٹی مسلم قسم کے لوگ ہیں۔ اس شرکی ترویج میں کچھ ملکوںکی خفیہ ایجنسیاںبھی کام کررہی ہیں۔ یہ ایساشر ہے جو بہت سارے شروں پر حاوی ہوگیا ہے اور اسے مسلمانوں سے جوڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس بات سے پوری طرح انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نام نہاد مسلمانوں یعنی اسلام کی بنیادی باتوں سے ناآشنا مسلمانوں نے بھی دہشت گردی کو کہیں کہیں اپنایا ہے اور وہ اپنی ناعاقبت اندیشی سے اسے جہاد قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے پسِ پشت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی اس طرح کی واردات رونما ہوتی ہیں اس کی سوئی صحیح یا غلط مسلمانوں کی جانب گھما دی جاتی ہے اور اس سبب سے ان گنت مظلوم مسلم نوجوان فوراً شک کے کٹھگھرے میں آجاتے ہیں اور اپنے جرم ناکردہ کی سزا کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔ اس مسئلے نے عالمی شکل اختیار کرلی ہے۔ نائین الیوین (۱۱ستمبر۲۰۰۱ء میں امریکہ میں ہوا دہشت گردانہ حملہ) کے بعد امریکہ کے سماجی حالات میں آئی تبدیلی کو مصنف نے خصوصیت سے پیش کیا ہے۔ یہ اب تک کا سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ ہے۔ اس میں یو-ایس-اے کی دو اہم عمارتیں ’’ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘‘ اور ’’پنٹاگون‘‘ ہوائی حملے سے اڑادی گئی تھیں۔ اور تین ہزار کے قریب بے قصور انسان بے موت ماردیے گئے تھے۔ ان میں سے سینکڑوں لوگوں کی موت تو جائے واردات پر ہی ہوگئی تھی۔ زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر چند دنوں یا ماہ میں زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ اس حملے میں جاں بحق ہونے والوں میں کچھ ایسے بھی تھے جن پر حملے کے سبب بعد میں سنگین بیماریاں حملہ آور ہوئیں اور انہوں نے بھی دنیا چھوڑ دی۔ مرنے والوں میں ایک بڑی تعدا د سائنسدانوں، افسران اور اعلیٰ عہدیداران کی تھی۔ شاید یہ حملہ امریکی برین کو ختم کرنے کی کوشش تھی۔ مگر اس کے بعد امریکہ میں خوف و ہراس کا ماحول قائم ہوا اور وہاں کی سرزمین مسلمانوں کے لیے تنگ ہوگئی۔ اس کی سزا وہاں کے مقامی مسلمانوں کو بھگتنی پڑی۔ اور اب بھی وہاں کے مسلمان مقامی امریکن سے آنکھیں ملانے کی جلدی ہمت نہیں کر پاتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا المیہ نہیں تو اور کیا ہے جبکہ اسلا می رو سے ایک ناحق انسان کا قتل روئے زمین کے تمام انسانوں کے قتل کے مساوی ہے۔ اورخواہ دنیا کا کوئی مذہب ہو وہ دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا۔ یہ تو کسی مخصوص ذہنیت کی اُپج ہے جنہیں انسان سے پیار ہوتا ہے نہ مذہب سے اور نہ ہی اپنی زندگی سے ۔ ان کے لیے زندگی ہی بے کار شئے ہے تبھی تو یہ اس طرح کی حرکتیںانجام دیتے ہیں۔
یہ ناول بیک وقت مسلمانوں کے متعدد مسئلوں پر غوروفکر کے کئی نکتے فراہم کرتا ہے۔ اس میں مسلمانوں کی پریشانیوں اور ان کے مسائل پر افسانوی انداز میں اس طرح گفتگو کی گئی ہے کہ دوران مطالعہ نہ کسی قسم کی اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی دل اُچٹتا ہے۔ دلچسپی اور تجسّس ہرجگہ قائم رہتے ہیں۔ مصنف نے وسیع اور گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے ناول میں حقیقی رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس ناول میں بڑا تضا ہے اور اس میں مختلف رنگ موجود ہیں۔ مگر یہ رنگ قوس و قزح کے نہیں ہیں جنکی ترنگوں کے پھوٹنے سے چہارسمت اُمید اور خوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
کردار نگاری کے اعتبار سے بھی یہ ناول نہایت اہم ہے۔ راشد نامی نوجوان ناول کا مرکزی کردار ہے۔ یہ کردار نہایت جاندار ہے اور اسی کی کشتی پر سوار ہوکر ناول نے اپنا پورا سفر طے کیا ہے۔ راشد متوسط یا نچلے متوسط طبقے کا ایک نوجوان ہے جو باکردار، محنتی اور تعلیم یافتہ ہے اور روزگار کی تلاش میںکبھی یہاں اور کبھی وہاں کا چکر لگاتا رہتا ہے۔ وہ غیر مستقل اور پرائیویٹ نوکریوں کے سہارے اپنی زندگی کو آگے بڑھانے میں پوری تگ و دو کے ساتھ گامزن ہے۔ بہت کوششوں کے بعد وہ قدیر ماموں کے توسط سے امریکہ پہنچتا ہے۔ اپنی مختلف ملازمتوں کے دوران وہ زندگی کے مختلف مشاہدوں اور تجربوں سے ہم کنار ہوتا ہے۔ اس صارفی دنیا میں جو نشیب و فراز ہیں اُن کا وہ سامنا کرتا ہے اور کبھی خوشی، کبھی غم کی کیفیات سے دو چار ہوتا رہتا ہے۔ اس ناول میں کئی ایسے ضمنی کردار ہیں جو ناول کی معنویت بڑھانے اور اسے ہمہ گیر بنانے میں نہایت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ان میں ایک کردار راشد کے والد کا ہے۔ وہ ایک غریب مگر صابر، تحمل پسند ،انسانیت نواز، شریف النفس اور خداترس انسان ہیں جو موقع بہ موقع راشد کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس جو غریب والدین اپنی لائق اور نالائق اولادوں کو بغرض تعلیم لے کر آتے ہیں۔ اس میں وہ اُن والدین کی حتی الامکان مدد کرتے ہیں اور انہیں کوچنگ میں پڑھانے پر راشد کو راضی کرلیتے ہیں۔ راشد بھی کسی سعادت منداولاد کی طرح ان کے ہر حکم اوران کی ہر خواہش پر اپنا سرجھکادیتا ہے۔ ناول کا دوسرا اہم ضمنی کردار قدیر ماموں کا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اپنے قدم جمانے کے لیے پٹنہ میںdeputedایک امریکی نژاد لائبریرین سے کورٹ میریج کرلی تاکہ امریکہ جیسی جنت میں وہ آباد ہوسکیں اور اپنی پیشانی پر امریکہ کا لیبل لگا سکیں قدید ماموں سے وابستہ جو کہانی ہے وہ جگہ جگہ انہیں خود غرض ثابت کرتی ہے۔ اس سے ان کے منفی چہرے سامنے آجاتے ہیں۔ مگر ان کا کردار ناول کی ہمہ گیریت اور جاذبیت میں اضافہ کرتا ہے اور یہی وہ کردار ہے جس سے ناول میں افسانویت قائم ہوتی ہے۔ یوں تو یہ ناول مسلمانوں کا نوحہ یا ان کی سرگزشت معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ اس نوحے میں بھی غم اور فکر کی جو لہر ہے اور اس سے جو سوز پیدا ہوتا ہے وہ اس ناول کو اس کے تقاضے اور مفاہیم سے ہم کنار کرتا ہے۔ تیسرا اہم ضمنی کردار سبکدوش امیریکن پروفیسر کا ہے جو نہایت دانش ور اور باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ مخلص اور انسان دوست ہیں۔ پروفیسر کے کردار کی اہمیت اس طرح سے اور بڑھ جاتی ہے کہ ایک سچا امریکن ہونے کے باوجود انہوں نے امریکی حکومت کی پالیسیوں کے سامنے کبھی بھی اپنا سر نہیں جھکایا۔ وہ انسانیت میں یقین رکھتے ہیں۔ راشد سے گفتگو کے درمیان پروفیسر امریکی حکومت کی مراعات نہ لینے کے سلسلے سے کہتے ہیں۔
’’بھائی، وہ تو کچھ نہیں کہیں گے، اُن کی ہمت ہی نہیں مگر میری زبان،میراقلم ان کی مہربانیوں کے باعث خاموش ہوجائیں گے، صرف سوچ باقی رہے گی، وہ بھی زبان اور قلم کے بغیر زنگ آلود ہوجائے گی۔ ان سب کی پالیسیاں مجھے پسند نہیں بلکہ ان سے سخت اختلاف ہے۔…‘‘
پروفیسر آگے بولتے ہیں۔
’’بات یہ ہے بیٹے کہ ان کی اکثرپالیسیاں مجھے بالکل پسند نہیں اور مجھے کیا امریکہ کے زیادہ تر لوگوں کو پسند نہیں، مگر مجبوری یہ ہے کہ ہم ایک بار انہیں چُن کراپنے ہاتھ کاٹ لیتے ہیں۔‘‘ (ص ۳۱۷)
پروفیسر کی اسی صاف گوئی اور انسانیت نوازی نے راشد کو ان کا اس قدر گرویدہ کردیا کہ جب وہ امریکہ سے واپس آنے لگا تو اسے یوں محسوس ہوا کہ اگر وہ پروفیسر سے نہ ملتا تو اس کا امریکہ آنا بے معنی ہوتا۔ مذکورہ بالا تین اہم ضمنی کرداروں کے علاوہ ایک نہایت اہم کردار آفرین کا ہے۔ حالانکہ ناول میں اس کی مداخلت بہت کم ہوئی ہے مگر وہ راشد کے اعصاب پر اس قدر حاوی ہے کہ اسے ناول سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ آفرین ، راشد کی خالہ زاد بہن ہے۔ ان دونوں کی پرورش ایک ہی گھر آنگن میں ہوئی ہے۔ راشد اسے پسند کرتا ہے اوراس سے محبت بھی کرتا ہے۔ وہ بذاتِ خود ایک خوبصورت، پُرکشش گھریلو لڑکی ہے۔ آفرین بھی اسے پسند کرتی ہے۔ مگر ان کی محبت حیا کی پروردہ ہے۔ راشد اپنی زندگی کی ہر بھاگ دوڑ میں آفرین کے نازک ہاتھ کا سہارا محسوس کرتا ہے اور امریکہ جانے سے پہلے ان دونوں کا رشتہ بھی طے ہوجاتا ہے۔ ہندوستان سے لے کر امریکہ تک وہ آفرین کو محسوس کرتے ہوئے زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ مگر افسوس کہ ان دونوں کی محبت حقیقت میں نہیں بدلتی اور کہانی آدھی ہی رہ جاتی ہے۔ مندرجہ بالاکرداروں کے علاوہ کئی اور ایسے کردار ہیں جو ناول کی کہانی کو رفتار عطا کرتے ہیں۔ ان میں راشد سے پڑھنے کے لیے آنے والے وہ بچے بھی ہیں جو پڑھنے کے لیے کم اور وقت گزاری کے لیے زیادہ آتے ہیں۔ ایک قابلِ ذکر کردار قدیر ماموںکی پہلی بیوی امریکن لائبریرین کا ہے جسے امریکہ میں جمنے کے بعد قدیر مامو ںچھوڑ دیتے ہیں۔ ایک اور قابلِ بیان کردار قدیر ماموں کی دوسری بیوی (جوان کی خالہ زاد بہن ہیں) کا ہے جنہیں پاگل مشہور کرکے قدیر مامو کمرے میں بند رکھتے تھے۔ پھر ان کے دو پوتے راحیل اور قبیل کا کردار بھی قابلِ ذکر ہے۔ ان معصوم کرداروں کے نفسیاتی پہلو پر کچھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کے علاوہ کالج کے دنوں کے چند کردار ہیں جن کی سازشوں کا وہ شکار ہوتا رہا۔ کمپنی کے منیجر کا کردار بھی اہم ہے۔ غرض یہ سبھی کردار مل کر ناول کو ہمہ گیر اور ضخیم بنانے میں معاون ہوئے ہیں۔
زبان و بیان کے اعتبار سے بھی یہ ایک کامیاب ناول ہے۔ پورا ناول سادہ اور سہل انداز میں لکھا گیا ہے۔ اس میں مصنف نے بیانیہ تکنیک اپنائی ہے۔ ایک حد تک پیشہ وارانہ زبان سے بھی گریز کیا گیاہے۔ عام بول چال کی گفتگو میں پورا ناول اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ اس میں جابہ جا گھریلو محاوروں اور روز مروں کا استعمال کیاگیا ہے جس سے فطری پن کے عناصر در آئے ہیں۔ مصنف نے انسانی حسیب کی باریک سے باریک باتوں اور جزئیات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے کیف و سرور بھی حاصل ہوتا ہے اور انسانی نفسیات اور اس کی سوچ و فکر پر سے ہٹتے ہوئے پردے سے ایک انجانا اور سہما سہما ساخوف بھی محسوس ہوتا ہے۔ دراصل مصنف نے انسان کے ذہن و دل کے باطن کو طشت ازبام کر ڈالا ہے۔ اس سے انسانی حرکات و سکنات پر مصنف کے گہرے فہم و شعور کا پتہ چلتا ہے۔ مصنف نے اس قدر چابکدستی کے ساتھ کہانی کا نقشہ بیان کیا ہے کہ کہیں رکنے اور ٹھہرنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔body languagesکو بھی الفاظ کے لبادے میں خاطر خواہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے جس سے ناول کی معنویت میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ حالات اور معاشرے کے پیش نظر جگہ جگہ انگریزی الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں جو کہانی کی تفہیم میں مدد گار ہیں۔ حالانکہ ناول میں کہانی کے بیان کی رفتار تیز ہونے کے سبب کہیں کہیں املے کی غلطیاں اور تذکیر و تانیث کی اُلٹ پھیر سرزد ہوگئی ہے۔ بہرکیف واقعہ کی رفتار قاری کو اس میں زیادہ دیر اٹکنے نہیں دیتی۔ کہانی کے ہر موڑ پرایک نیا تجسّس موجود ہے جو قاری کو قرأت میں منہمک رکھتا ہے۔
غرض یہ ناول مسائل و موضوعات کے ساتھ ساتھ کردار نگاری اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ایک کامیاب ناول ہے۔ اس میں جہاں مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو جگہ دی گئی ہے وہیں ہندوستانی سیاست کے کھوکھلے چہرے پر سے بھی نقاب اُٹھایا گیا ہے۔ انسانی نفسیات کے باریک سے باریک پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی جیسے عالمی مسئلے کو شامل کرکے ناول کو آفاقیت عطا کی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

Leave a Comment