عربی میں علم عروض کا آغاز و ارتقا

\"03\"
٭ڈاکٹر محمد حسین

صدر شعبۂ اردو گورنمنٹ ڈونگر کالج، بیکانیر، راجستھان، انڈیا
Mob.09413481379
Email:husainbkn@gmail.com

شاعری کی منطقی تعریف سے قطع نظر دنیا کی تمام زبانوں میں شاعری کے لیے وزن ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پہلے بغیر وزن کے شاعری کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا ۔وزن کی تعریف کرتے ہوئے نجم الغنی لکھتے ہیں: ’’وزن سے مراد ہے اُس ہیٔت سے جو نظامِ ترتیب ِ حرکات و سکنات اور ترتیبِ حروف اور تناسبِ عدد ِ حرف و مقدار کے تا بع ہو ؛ایسے نہج پر کہ نفس اس سے ایک خاص قسم کی لذت کا ادراک کر ے ،اس ادراک کو ذوق کہتے ہیں۔‘‘ ۱؎
شاعری میں وزن کی لازمیت کے سبھی علما قائل ہیں۔ابنِ رشیق (م۱۰۶۴ء) کے مطابق شعر کی عمارت ؛ لفظ،وز ن معنی اور قافیہ سے اٹھتی ہے۔ بہت سے مشرقی اور مغربی مفکرین کا یہی خیال ہے کہ نثر اور شاعری کا ایک امتیاز وزن سے قائم ہوتا ہے۔دنیا کی ہر زبان میں وزن کا ایک خاص نظام ہو تا ہے جس کی بنیاد پر کسی کلام کو موزوں یا غیر موزوں قرار دیا جاتا ہے۔اس نظام کو انگریزی میں Prosody اور عربی ،فارسی اور اردو میں عروض کے نام سے جانا جاتا ہے۔اگر شعر میںوزن کو ایک آفاقی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اصوات کی مقداری یا اقداری اعتبار سے ایک خاص طوالت اور ان کی باہم خوش آہنگ ترتیب کو وزن یا Meterکہہ سکتے ہیں۔کچھ عروضی نظاموںکی بنیا داقداری Qualitativeہوتی ہے کچھ کی مقداریQuantitative۔اقداری نظامِ عروض میں وزن کی بنیاد طرزِادا پر ہوتی ہے؛ یعنی کوئی لفظ کس طرح بولا جاتا ہے اور اس کے بنیادی مصوتوں پر بولتے وقت کتنا زورصرف کیا جاتا ہے، اسی سے اس کے وزن کا تعین ہوتا ہے۔مقداری نظامِ عروض میں وزن کا انحصار ہجائوں کی طوالت یا اختصار پر ہوتا ہے۔عربی فارسی اور اردو نظامِ عروض اسی مقداری وزن پر قائم ہے۔
عروض قدیم عربی شاعری کے علمِ وزن کا ایک اصطلاحی نام ہے۔اس کی تعریف علماے لغت نے کچھ اس طرح کی ہے۔’ العروض علم با صولِ یعرفُ بہا صحیح اوزان الشعر و فاسدہا‘ (علمِ عروض ان قواعد کانام ہے جن کے ذریعے اشعار کے صحیح اور غلط اوزان میں تمیز کی جاسکے۲؎۔
عروض کی وجہہ تسمیہ کے سلسلے میں اہلِ علم کے درمیان اختلاف ہے۔مختلف علما نے اس کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ۔ جن میں سے کچھ کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔ لفظ عروض کا مفہوم ( علم الاوزان) لفظِ عروض کے لغوی معنی (-خیمے کی درمیانی چوب ) کے قیاس پر مبنی ہیں۔’’دراصل اس سے مراد وہ بلی یا چوب ہے جو خیمے کے درمیان رکھی جاتی ہے جسے مستول کہا جاتا ہے ۔
۲۔علم ِ عروض کے موجد خلیل بن احمد الفراہیدی کو عروض ایجاد کرنے کی تحریک مکہ میں ہوئی ،اور مکہ بلاد العروض میں سے ہے۔۳؎
۳۔عروض نام شعر کے عروض کی وجہ سے عام ہوا ہے۔، یعنی پہلے مصرعے کے آخری حصے کو عروض کہتے ہیں ،اس سے یہ نام رائج ہوا ۔
۴۔عروض شعر کے اسالیب و طرق اور اس کے عمود کا نام ہے۔
۵۔ اس کو عروض اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر شعر کا نصف اول( مصرعِ اول) معلوم ہو تو شعر کی تقطیع آسان ہو جاتی ہے۔
۶۔عروض پیش کیے جانے یا پرکھنے کے باعث کہا جاتا ہے۔کیوں کہ شعر مقررہ اوزان میں کہا جاتا ہے تو جو شعر ان اوزان کے مطابق ہو وہ صحیح مانا جا تا ہے۔
۶۔ پہاڑ کے دامن کے راستے کو عروض کہتے ہیں، مطلب یہ کہ عروض وہ راہ ہے جس پر عرب شعر کہنے میں چلے۔
۷۔عروض کے معنی ناقۃ الصعبہ بھی ہیں، اس لیے بھی اس کا نام عروض پڑا۔۴؎
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ عروض کی وجۂ تسمیہ میں اختلاف پایا جاتاہے۔ ڈاکٹر علی جاوید ۵؎ اور ناتل خانلری۶؎کا خیال ہے کہ وجۂ تسمیہ کی توجیہ میں یہ اختلافات اس بات کی دلیل ہے کہ علماے عروض اس کے مولد و منشا اور اس کے منصۂ شہود میں آنے کی کیفیت سے واقف نہ تھے ۔۷؎
وجہ تسمیہ کے علاوہ اس کے آغاز و نشات کے بارے بھی عجیب عجیب راویتیں پیش کی جاتی ہیں۔ایک رویت یہ ہے جسے قدر بلگرامی یوں نقل کیا ہے:
’’ ایک دن وہ( خلیل) بازارِ صفارین یعنی ٹھٹھیروں کے بازار میں جاتا تھا کسی نے تشت پر ہتھوڑا مار چونکہ فنِ مو سیقی سے ماہر تھا جھنکار کے ساتھ مارے خوشی کے وہ اچھل پڑا اور بے اختیار منہ سے نکل پڑا ’ واللہ یظہر من ہذا شیء ،ُ؛یعنی بخدا اس سے کوئی چیز معلوم ہوتی ہے۔پھر تو ایک موزونیت وہمی کا خیال اپنے دماغ میں گانٹھنے لگا ،چونکہ وزنِ صرفی فعل مشہور تھے،اس لیے خلیل نے فا و عین و لام کے موافق انھیں نقرات متتابع اور سکناتِ متناسب سے اوزانِ عروضی تراش لیے۔ قاضی جہان سیفی نے بدائع العروض میں استخراج عروض کو کوبۂ قصار یعنی دھوبی کی موگری سے بتا یا ہے ۔مولف کو اس میں تامل ہے۔اس لیے کہ موگری کی آواز میں نقرہ پیدا نہیں ہو سکتا ہے اور صفا ے ظرف مسی یا آوازتار کے مثل وہ گھٹتی بڑھتی نہیں ؛بدیں دلیل روایتِ او ل صحیح ہے۔‘‘۸؎
ٹھٹھیروں کے بازار اور دھوبی کے گھاٹ والی روایت پرتبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر علی جاوید لکھتے ہیں:
’’یہ واقعہ مورخین کے قصوں میں سے ایک بے رس ، بے کیف قصہ ہے ۔اس قسم کے قصے کہانیا ں اس وقت وضع کرتے ہیں جب ان سے ایسے امور کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جن کے بارے میں انھیں کچھ علم نہیں ہوتا ۔کیا یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ خلیل نے شعر کی بحور ٹھٹھیروں کے ہتھوڑا کوٹنے کی ان نا گوار اور پریشان کن ،سمع خراش آوازوں سے اخذ کی ہوں ،جو سوچ فہم کو انسان کے ذہن سے دور بھگا دیتی ہے اور جو کچھ علم مو جود ہو غائب ہو جاتا ہے؟مذکورہ قصہ مورخین کی اپنی اختراع ہے جسے انھوں نے اس علم کی ایجاد کے سبب کے طور پروضع کیا ،اور یوں ٹھٹھیروں کے ہتھوڑا کوٹنے اور شعر کی تقطیع کے درمیان ( خواہ مخواہ) کا ایک ربط پیدا کردیا۔‘‘۹؎
ڈاکٹر علی جاوید اور ڈاکڑ پرویز خانلری اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے کہ علم عروض ایک دم سے عدم سے وجود میں آ گیا ۔پرویز خان لری اپنے تشکیک کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’از توجہ بہ ایں عقایدِ مختلف متعدد معلوم می شود کہ معنی کلمہ ٔ عروض از آغاز درست روشن نہ بود۔اما چگونگیِ وضعِ ایں علم نیز روشن نیست۔ہمہ مورخان و علمائے لغت کہ در بارہ خلیل بن احمد و کیفیت وضعِ علم عروض گفتگو کردہ اند متفق اند در این کہ پیش از ہیچ کس در زبانِ عرب قواعدی براے اوزانِ شعر نمی دانستہ و کمترین سابقی در این باب وجود نہ داشتہ است، بہ این سبب وضعِ عروض را نوعی از ایہام شمردہ اند ۔گفتہ اند کہ خلیل بن احمد مردے تعبد و زاہد بود و بہ خانۂ کعبہ رفت و دعا کرد کہ خدا وند علمی ببخشد کہ پیش ازاں ہیچ بشر نہ دادہ باشد ،چوں از حج باز آمد دعایش مستجاب شد و خداوند علمِ عروض اور الہام کرد‘‘ ۱۰؎
ڈاکٹر پرویز خانلری اس امر پر تعجب کا اظہا رکیا ہے کہ خلیل کے معاصرین اور متاخرین میں سے کسی نے بھی اس بات کی طرف کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ خلیل نے یہ علم کسی اور زبان سے اخذ کیا ہے۔البتہ ابو ریحان البیرونی نے اپنی تصنیف کتاب الہند میں سنسکرت اور عربی عروض کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔اسی بنا پر ڈاکٹر خانلری نے گمان ظاہر کیا ہے کہ خلیل نے عربی عروض ترتیب دیتے وقت سنسکرت عروض کو پیشِ نظر رکھا ہوگا۔وہ لکھتے ہیں:
’’بنا بر اشارۂ ابو ریحان بیرونی وبہ موجب مشابہتی کہ میان ِ قواعدِ اوزان ہند و عروضِ عرب ہست،و این کہ بسیار بعید می نماید کہ کسی علمی را از آغاز تا انجام خود یک بار ہ ابداع کردہ باشد۔می توان گمان برد کہ خلیل بن احمد در اختراع ِ قواعد عروض بہ اصولِ علمِ اوزان سنسکریت نظر داشتہ و قوانین عروض عرب را از روے آن ساختہ و پرداختہ باشد۔آنچہ این حدس را تائید می کند تولد واقامت اوست در بصرہ کہ بند تجارتی بود ہ و با ہند یان نا چار رابطہ داشتہ است۔دیگر ترتیبی کہ او نخستین بار در حرفِ تہجی اتخاب کردہ و کتاب العین را آن وجہ مرتب ساختہ است و این ہمان ترتیب حروف در سنسکریت است‘‘۱۱؎
خلیل کی عراق میں مو جودگی کو بھی اس کے عروضی نظام ترتیب دینے معاون قرا دیا گیا ہے۔اہلِ عراق اسلا م سے قبل نحو شعر اور زبان کا مطالعہ کیا کرتے تھے ۔انھوں نے ان سے متعلق علوم کا دیگر زبانوں سے اپنی تہذیبی زبان سریانی میں ترجمہ کیا اور ان کی روشنی میں اپنے علوم کی تدوین کی ،اور بقول علی جاوید ’’جب ان میں کچھ لوگ اسلام لائے ، یا مسلمانوں سے ان کا میل جول ہوا تو ،عربوں کے ہاں زبان و شعر سے متعلق جو کچھ مواد موجود تھا ،خاص طور پر عراق کے عرب عیسائیوں کے ہاں ،تو انھوں نے اپنے زبان و شعر کے علم کو اس قسم کے علوم سے دل چسپی رکھنے والے اصحاب ( جیسے ابوالاسوالدولی اور خلیل بن احمد)کے سامنے پیش کیا اور یہی پیش کش علومِ نحو وعروض کی نیو رکھنے کا باعث بنی۔‘‘۱۲؎
ابنِ خلکان کہتے ہیں چونکہ خلیل کو سر تا ل اور نغمے کی سمجھ تھی۔اوراسی سمجھ نے اسے علم عروض ایجا کرنے کی طرف راغب کیا ۔یہاں یہ خیال میں رہنا چاہیے کہ خلیل نے علم ِ موسیقی میں ایک کتاب ’ کتاب النغم‘ کے نام سے تصنیف کی ہے۔ڈاکٹر علی جاوید نے خاص طور پر جاہلی دور کے شاعروں کی عروض دانی پر زور دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جاہلی شعرا بھی عروض کی اصطلاحات سے واقف تھے۔ اس سلسے میں انھوں نے متعد دشواہد پیش کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیںکہ:
’’میری رائے میں جاہلی دور کے شعرا پہلے سے علمِ شعر(عروض) سے واقفیت رکھتے تھے جو اسلام سے قبل وضع کیا گیا (جس کے تحت) انھیں اپنے قدیم اسلاف سے بحروں کے مطابق شعرنظم کرنے کے اصول و قواعد مہیا ہوئے ۔وہ بحروں کے بارے میں جانتے تھے اور غالباً انھوں نے ان بحروں کے نام بھی رکھے ہوئے تھے۔دورحاضر کے بعض مولفین نے مقامی زبانوں کی شاعری پر کتابیں تالیف کی ہیں اور اس کے اسالیب و طرق اور اصولوں قاعدوں کی تدوین بھی کی ہے۔خلیل کا کام بھی اسی نو عیت کا ہے ۔اس نے شعرا کے ہاں بحروں ،ان کے اسالیب و طرق اور اصول و قواعد کے بارے میں جو کچھ معروف تھا ،اس کی جمع و تدوین کی،جسے اس نے اپنی ایک کتاب میں اکٹھا کردیا۔اسی کی وجہ سے وہ علمِ عروض کا موسس قرار دیا جاتا ہے۔جب کہ ( در حقیقت)وہ اس علم کے بکھرے ہوئے اجزا کو اکٹھا اور شعر کے قواعد کو مدون کرنے والا ہے۔ہمارے نزدیک وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ کام انجام دیا ،جو یقیناً داد اور شکریے کا مستحق ہے۔‘‘۱۳؎
بہر حال یہ بات طے ہے کہ موجودہ عربی عروض خلیل ہی نے مدون کیا اگرچہ سے اس نے دیگر زبانوں کے علمِ عروض استفادہ ہی کیوں نہ کیا ہو۔
الخلیل بن احمد(ابو عبد الرحمٰن الخلیل ابنِ احمد بن عمرو بن تمّام الفراہیدی(یا الفروہیدی) الازدی الیحممدی)عُمّان کا رہنے والا تھا ۔یہ تقریباً۱۰۰ھ /۷۱۸،۷۱۹ء میں پیدا ہوا ۔ ۱۷۰ھ /۷۸۶ء اور ۱۷۵ھ/ ۷۹۱ء کے بیچ بصرہ میں انتقال کر گیا۔خلیل عربی عروض کا مدون ہونے کے ساتھ بہت بڑا لغوی ااور نحوی بھی تھا۔لغت اور نحو میں دبستانِ بصرہ کے مسلمہ رئیس الاساتذہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔وہ شاعر بھی تھا اس کے شاعری کے کچھ نمونے بھی دستیاب ہیں۔ اس نے مختلف علوم پر متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں سے کچھ دستیاب ہیں کچھ تلف ہو گئیں۔ اس سے مندرجہ ذیل کتابیں منسوب کی جاتی ہیں:
۱۔کتاب العین: یہ عربی کی پہلی لغت تسلیم کی جاتی ہے۔اس کے کچھ نسخے دستیاب ہیںاس کتاب میں اس نے حروف تہجی کی ترتیب ان کے مخرج کے اعتبار سے کی ہے۔جو بہت سائنٹفک ہے مگر یہ ترتیب عربی میں رواج نہ پا سکی۔ اس لغت میں حروف تہجی کی وہی ترتیب رکھی گئی جو سنسکرت کے حروفِ تہجی کی ہے۔اس اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید خلیل سنسکرت کی اس ترکیب سے واقف ہو۔کہتے ہیں یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب وہ خراسان کی سیاحت پر تھا اور خراسان ہندوستان سے قریب پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ اس کا ایک خراسانی شاگرد بھی اس کتاب کی تدوین میں اس کا معاون تھا۔
۲۔کتاب فی المعانی الحروف۳۔کتاب شرح صرفِ خلیل۴۔کتاب فیہ جملۃ آلات۵۔فعل کی گردان کے متعلق ایک حصہ۶۔کتاب النقط و الشکل۷۔کتاب الجمل۸۔کتاب الشواہد ۹۔کتاب العروض۱۰۔کتاب الایقاع۱۱۔کتاب النغم۱۲۔کتاب النوادر
آخری تین کتابوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تینوں کتابیں تلف ہو چکی ہیں۔اسی طرح عربی نحو سے متعلق بھی اس کی کوئی کتاب محفوظ نہ رہ سکی ، تا ہم بعد کے نحویوں کی کتابوں میںخلیل سے بہت سے شواہد لیے گئے ہیں خاص طور پر اس کے شاگرد سیبو یہ کی کتاب میںدیگر حوالوں کے ساتھ صرف خلیل ہی کے ۵۲۲ حوالے ہیں۔۱۴؎
جیسا کہ معلوم ہے کہ خلیل نے عروض پر ایک کتاب لکھی تھی مگر وہ کتاب دستیاب نہیں ۔بعد کی کتابوں سے سے ہمیں خلیل کے پیش کردہ علمِ عروض کے بارے میں معلومات حاصل ہو تی ہیں۔الخلیل نے بحروں کی تشکیل کے لیے کچھ موزوں اجزا متعین کیے ۔جن کی ایک خاص تکرارا سے مختلف بحریں ایجا دکی جا سکتی تھیں۔یہ تمام اجزا’ ف ع ل‘ سے تشکیل پاتے ہیں۔ جو وزن کی ابتدائی اکائیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔یہ اجزاحسبِ ذیل ہیں۔
۱۔ سبب ِ خفیف- دو حرفوں کا مجموعہ جس کا پہلا حرف متحرک دوسرا ساکن ہو۔ جیسے ہَل مَن وغیرہ
۲۔سببِ ثقیل – دو حرفوں کا مجموعہ جس کے دونوں حرف متحرک ہوں۔ جیسے لَکَ،مَعَ۔
۳۔ وتد مجموع- تین حرفوں کا مجموعہ جس کے پہلے د وحرف متحرک ہوں اور تیسرا حرف ساکن۔ جیسے صنم قلم۔
۴۔وتد مفروق- تین حرفوں کا مجموعہ جس کا پہلا حرف متحرک،دوسرا ساکن اور تیسرا متحرک ہو۔جیسے لیثَ کیفَ۔
۵۔ فاصلۂ صغریٰ-چار حرفوں کا مجموعہ جس کے پہلے تین حرف متحرک ہوں اور چو تھا حرف ساکن۔ جیسے ضَرَبَت۔
۶۔ فاصلۂ کبری- پانچ حرفوں کا مجموعہ جس کے پہلے چار حرف متحرک اور پانچواں حرف ساکن ہو۔ جیسے ضِرَبَکُم
ان میں فاصلہ ٔ صغریٰ اور فاصلۂ کبریٰ کے بارے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ فاصلۂ صغریٰ ایک سببِ خفیف اور ایک سببِ ثقیل کا اور فاصلۂ کبریٰ ایک سببِ ثقیل اور ایک وتد مجموع کا ہے ۔متاخرین میں سے کچھ ماہرین نے ان دونوں کو غیر ضروری قرار دیا ہے تا ہم ابھی بھی یہ رائج ہیں۔
خلیل نے حرفوں کی ان اکائیوں سے مندرجہ ذیل افاعیل یا اجزا تشکیل دیے اور ان سے پندرہ بحریں نکا لیں :
۱۔ وتد مجوع+سببِ خفیف فعولن
۲۔ وتد مجموع+ سبب خفیف+ سبب خفیف مفاعیلن
۳۔ سبب خفیف+ وتد مجموع+ سبب ِ خفیف فاعلاتن
۴۔سببِ خفیف+ سببِ خفیف +وتد مجموع مستفعلن
۵۔ وتدِ مفروق+ سببِ خفیف+ سببِ خفیف فاعِ لاتن
۶۔ سببِ خفیف + وتدِ مفروق+ سببِ خفیف مس تفعِ لن
۷۔ سببِ خفیف+ سببِ خفیف + وتد مفروق مفعولاتُ
۸۔وتدِ مجموع+ فاصلۂ صغریٰ مفا علتن
۹۔فاصلۂ صغریٰ + وتد مجموع متفا علن
اور ان اجزا کی ترکیب سے پانچ دائروں میں مندرجہ ذیل بحور کا استخراج کیا ۔
اول۔ دائرۂ مختلفہ:
۱۔ طویل- فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن دو بار
۲۔مدید- فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن دو بار
۳۔بسیط- مستفعلن فاعلن مستفعلن فاعلن دو بار
دوم ۔دائرۂ موئتلفہ:
۱۔وافر-مفا علتن مفاعلتن مفاعلتن دوبار
۲۔کامل- متفا علن متفا علن متفاعلن دو بار
سوم۔دائرۂ مجتلبہ:
۱۔ ہزج- مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن دوبار
۲۔رجز- مستفعلن مستفعلن مستفعلن دوبار
۳۔رمل-فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن دوبار
چہارم۔دائرہ مشتبہ:
۱۔سریع-مستفعلن مستفعلن مفعولاتُ دو بار
۲۔منسرح- مستفعلن مفعولاتُ مستفعلن دو بار
۳۔خفیف-فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن دو بار
۴۔مضارع-مفاعیلن فاع لاتن مفاعیلن دو بار
۵۔مقتضب- مفعولاتُ مستفعلن مستفعلن دو بار
۶۔مجتث- مس تفع لن فاعلاتن فاعلاتن دو بار
پنجم۔ دائرۂ منفردہ:
۱۔ متقارب- فعولن فعولن فعولن فعولن دو بار
یہا ں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ بحر متدارک کو بعد میں اخفش نے اس دائرہ کا حصہ بنایا جو اب دائرہ ٔ متفقہ کہلا تا ہے۔۔ یعنی یہ بحر اخفش کی ایجاد ہے ۔ یہ فعولن کا عکس ہے جس سے فاعلن اخذ کیا گیا۔ متدارک کے معنی ہیں ملنے والی۔ چونکہ یہ بحر بعد میں خلیل کی بحروںسے مل گئی اس لیے اس کا نام متدارک پڑ گیا۔ اس کی صورت یہ ہے :
متدرارک- فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن دو بار ۱۵؎
خلیل کے نظامِ عروض پر تبصرہ کرتے ہوئے اردو کے ممتاز عروض داں جابر علی جابر لکھتے ہیں:
’’۱۔خلیل نے اصولِ سہ گانہ کی تعداد بڑھانے کے لیے فاصلے کی اصطلاح ایجا دکی۔جو اصل میں ایک سببِ ثقیل اور ایک خفیف کا مجموعہ ہے۔مثلاً مَدَنی،خلیلی عروض میں فاصلۂ صغریٰ ہے۔یہ ایجاد کی غلطی ہے اور اس کی نشان دہی سب سے پہلے اخفش نے کی۔
۲۔صرف ایک بحر پر مبنی دائرہ ایجاد کیا جو منطقی طورپر غلط ہے۔اس دائرہ کا نام خلیل نے منفردہ رکھاتھا یعنی ایک بحر والا دائرہ ؛یہ دائرے کے مقصد اور تقاضے کو پورا نہیں کرتا ۔چنانچہ اخفش ثانی نے رکن فاعلن پر مبنی بحرِ متدارک کا استخراج کیا اور دونوں سے متشکل ہو نے والا دائرہ بنایا جس کا نام متفقہ رکھا۔
۳۔خلیلی نظامِ عروض کی کا سب سے بڑا سقم اس کا غیر جمالیاتی ہو نا ہے۔اگرچہ خلیل موسیقی سے واقف تھا اور ایک مستقل تصنیف ’کتاب النغم‘ بھی اس کی ہے،اس کے با وجود اس نے اپنا نظام علمِ صرف کی مدد سے مدون کیا ؛ اور نثر موسیقی،رقص وغیرہ سے اس کا تقابلی مطالعہ پیش نہ کر سکا۔نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ عروض ایک خشک ،بے رنگ اور بھول جانے والا علم ہو کر رہ گیا۔اس میں کوئی فن کارانہ وسعت اور دل کشی پیدا نہ ہو سکی۔عروض کا جدید ترین رجحان آہنگ شناسی یا عالمی شعری آہنگ کا مطالعہ ہے،جس میں ایک طرف موسیقی ،رقص حتّیٰ کہ مصوری سے تقابل کیا جا تا ہے۔دوسرے دنیا کی زبانوں میں جس قدر شعری آہنگ کے نمونے ملتے ہیں ان میں مقاماتِ اشتراک و اختلاف کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ خلیل نے بحور کا نام بعض نغموں کے نام پر تجویز کیا ؛رمل، ہزج وغیرہ۔بحر رجزکا نام اراجیز؛یعنی مختصر رزمیہ گیتوں سے اخذکیا۔رجز اولین عربی بحر ہے اور اراجیز میں آہنگ کا زیر وبم اُبھرتا محسوس ہو تا تھا۔اس کے با وجود خلیل کو موسیقی اور رقص سے تقابلی مطالعے کا خیال نہ آیا۔جہاں صوتیات اور صرف میںعروضی نظام کی بنیاد ہوں وہاں واضع سے جمالیت کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟‘‘۱۶؎
خلیل کی تصنیف کتاب العروض کے بعد جو کتابیں علمِ عروض پر متقدمین نے لکھی تھیں وہ بھی خلیل کی کتاب کی طرح اب نا پید ہیں۔تیسری صدی ہجری کے کچھ رسائل ہم تک پہنچ پائے ہیں اس سے قبل کس نے کیا لکھا کچھ علم نہیں۔ تیسری صدی ہجری کے اوائل میں مرتب کیے ان رسائل میں ایک رسالہ اخفش سے منسوب ہے جس کا نام القوافی ہے۔علاوہ ازیں اس دور کی علمی اور ادبی کتابوں میں بھی علم اوزان پر فصلیں قائم کی گئی ہیں۔ان کتب میں سب سے معروف اور قدیم کتاب ابن عبد ربہ (م ۳۲۸ھ/۹۴۰ء) کی’العقد الفرید ‘ہے۔اردو دائرۃ المعارفِ اسلامیہ میں عروض سے متعلق کچھ اہم عربی تصانیف کی فہرست مرتب کی گئی جسے یہاںپیش کیا جانا مناسب ہو گا۔
چوتھی صدی ہجری
۱۔تلقیب القوافی و تلقیبُ حرکا تہا- ابنِ کیسان۲۔الاقتاع فی العروض-الصاحب بن عباد الطالقانی۳۔کتاب العروض- ابنِ جنبی
پانچویں صدی
۱۔الکافی و الوافی- الربعی القنذری التبریزی
چھٹی صدی
۱۔ القسطاس فی العروض- زمخشری۲۔العروض البارع- ابن القطاع۳۔المعمول فی القوافی- ابن الدھان ۴۔ کتاب فی القوافی- نشوان الحمیری۵۔اختصار العروض-ابن السقاط
ساتویں صدی
۱۔ عروضِ اندلسی- ابو الجیش عندلسی۲۔القصیدۃ الخزرجیہ- الخزرجی۳۔المقصد الجلیل فی علم الخلیل – ابنِ حاجب الشفا- المحلّی ۴۔ارجوزۃ فی العروض – المحلی۵۔العروض – ابنِ مالک
آٹھویں صدی
۱۔القصیدۃ الحسنیٰ- القلاوسی الساوی
نویں صدی
۱۔الکافی فی علمی العروض والقوافی، الدمامینیالقنائی
بارھویں صدی
۱۔ منظومہ ( الشافیۃ الکافیہ) فی علم العروض -العبان
مذکورہ کتابوں میں سے بیشتر خلیل کی تقلید میں ہی لکھی گئیں وہ بھی مختلف ثانوی ماخذات سے۔ لیکن کچھ ایسے بھی مصنف ہوئے ہیں جنھوں نے خلیل سے اختلاف بھی کیا ہے۔ابنِ عبد الربہ نے کئی مقامات پر خلیل سے اختلاف کیا ہے۔ابنِ رحیق کی العمدہ میں ابو نصر الجوہری (م ۳۹۳ھ یا حدوود ۴۰۰ھ) نے مفعولاتُ کے رکن کو قابلِ ترک قرار دیا ہے۔ابنِ ندیم اپنی کتاب ’الفہرست میں برخ العروضی اور ابو الحسن علی بن حرون کی کتابوں کا ذکر کرتا ہے جو خلیل بن احمد کے ردّ میں تحریر کی گئیں۔ اخفش (م ۲۲۱ھ)نے فاصلۂ صغریٰ پر اعتراض کیا۔اسی نے بحر متدارک کی ایجاد کی اور دیگر تصرفات بھی کیے جن کی تفصیل دستیاب نہیں۔اخفش کے بعد محمد الناشی الانبار نے از سرِ نو خلیلی قواعد پر تنقید کی لیکن اس کے اعتراضات خلیل کی شہرت کے مقابلے میں ٹک نہ سکے۔ابو بکر محمد بن حسن الزبیدی (م ۳۷۹) المزاھرا‘ میں خلیل کی عروض پر دو کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کی تنقید کرتا ہے۱۷؎۔ اص طرح عربی میں خلیل کے بعد کچھ عروضیوں نے غور و فکر کا سلسلہ شروع رکھا اور خلیل کے نظامِ عروض پر تنقید بھی کی لیکن زیدہ تر رجحان ان کی تقلید ہی کا رہا۔ اور ان مصنفین کی آواز صدا بصحرا ہو کر رہ گئی۔اگر ان کی کتابیںدستیاب ہو جائیں تو علمِ عروض میں مزید غور و فکر کی راہیں کھلیں گی۔
حواشی:
؎۱۔ بحرالفصاحت ،مطبع منشی نولکشور، لکھنئو، ۱۹۱۷ء، ص ۵۱- ۵۲
۲؎۔ اردو دائرۂ معارف ِ اسلامیہ ، دانشگاہِ پنجاب، لاہور جلد۱۳، ۱۳۹۶ھ /۱۹۷۶ء، طبع اول ،ص ۲۷۸
۳؎۔علمِ عروض کا آغاز و نشات:ایک غیر تقدیسی معروضی جائزہ- از ڈاکٹر جواد علی ِ ترجمہ عمر فاروق،معیار، شمارہ نمبر ۹،ص۱۵۹
۴؎۔العروض الواضح و علمِ قافیہ، الدکتور محمد ولی الہاشمی ،دار القمر دمشق،۱۹۹۱،ص ۹
۵؎۔علمِ عروض کا آغاز و نشات: ایک غیر تقدیسی معروضی جائزہ- از ڈاکٹر جواد علی ِ ترجمہ عمر فاروق،معیار، شمارہ نمبر ۹،ص ۱۶۰
۶؎۔ وزنِ شعر فارسی، پرویز ناتل خانلری ، انتشاراتِ توس، اول خیابان ، دانشگاہ تہران، ۱۳۶۷، ص ۸۴
۷؎۔ علمِ عروض کا آغاز و نشات :ایک غیر تقدیسی معروضی جائزہ- از ڈاکٹر جواد علی ِ ترجمہ عمر فاروق،معیا،ر شمارہ نمبر ۹،ص ۱۶۰
۸؎۔قوعد العروض،مطبع شامِ اودھ ،۱۲۸۸ھ، غلام حسین قدر بلگرامی، ص ۱۵
۹؎۔علمِ عروض کا آغاز و نشات :ایک غیر تقدیسی معروضی جائزہ- از ڈاکٹر جواد علی ِ ترجمہ عمر فاروق،معیار ،شمارہ نمبر ۹،ص ۱۶۳
۱۰؎۔وزنِ شعر فارسی، پرویز ناتل خانلری ، انتشاراتِ توس، اول خیابان ، دانشگاہ تہران، ۱۳۶۷، ص ۸۴
۱۱؎۔ وزنِ شعر فارسی، پرویز ناتل خانلری ، انتشاراتِ توس، اول خیابان ، دانشگاہ تہران، ۳۶۷،۱ ص ۸۸ تا ۸۹
۱۲؎۔علمِ عروض کا آغاز و نشات: ایک غیر تقدیسی معروضی جائزہ- از ڈاکٹر جواد علی ِ ترجمہ عمر فاروق،معیار، شمارہ نمبر ۹،۶۵،۱۶۴
۱۳؎۔علمِ عروض کا آغاز و نشات( ایک غیر تقدیسی معروضی جائزہ- از ڈاکٹر جواد علی ِ ترجمہ عمر فاروق،معیار، شمارہ نمبر ۹،۱۶۴
۱۴؎۔اردو دائرۂ معارف ِ اسلامیہ ، دانشگاہِ پنجاب، لاہور جلد، ۸، ۱۳۹۳ھ/ ۱۹۷۳ء ،طبع اول، ص ۱۰۳۳ تا ۱۰۳۵
۱۵؎۔بحر الفصاحت از نجم الغنی،مطبع منشی نول کشور ل لکھنئو ۱۹۱۷ء، ص ۲۰۰
۱۶؎۔بڑے عروضی بڑی غلطیاں ،نقوش، لاہور سالانامہ، نمبر ۱۲۲، جنوری ۱۹۷۷ء، ص ۱۷۶ تا ۱۷۷
۱۷؎۔ بحوالہ -مقالاتِ مولوی محمد شفیع ،جلد سوم ، لاہور،۱۹۷۴ ص ۲۹۴تا ۳۳۷،اور ’’فارسی عروض کی تنقیدی تحقیق اور اوزانِ غزل کے ارتقا کا جائزہ ، لاہور ،۲۰۰۵ء، ص ۲۵ تا ۳۰، بذل حق محمو (مترجم) اردو عروض- ارتقائی مطالعہ از محمد زبیر خالد ، پی ایچ ڈی مقالہ ،بہا ء الدین زکریا یو نور سٹی، ملتان ،،ص ۷۰ ،۷۱

Leave a Comment