عصرِ حاضر میں سر سید اور رفقائے سر سیدکی معنویت

سر سید احمد خان کی یوم پیدائش پرخصوصی پیش کش

\"06\"
٭ڈاکٹر صغیر افراہیم

پروفیسرشعبۂ اردو
ایڈیٹر’تہذیب الاخلاق‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ۔۲
s.afraheim@yahoo.in

\"Sir

جنھیں ہم محبوب رکھتے ہیں اُن سے توقعات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور اگر وہ شخصیات مثالی ہوں تو پھر توقعات کا دامن وسیع تر ہوتاجاتا ہے۔ سر سید اوراُن کے رفقاء اِسی زُمرے میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں قوم کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردیں۔ اس لیے وہ ہم سب کو عزیز ہیں۔ انھوں نے اپنے عہد کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے پیشِ نظر تعلیم و تعلّم اور تعمیری نظام کا جو تصور پیش کیا وہ آج بھی ہمارے لیے آئیڈیل ہے۔ حالانکہ اُن دانشوروں میںفکری نیز انتظامی امور میںاختلافات بھی تھے چاہے وہ یوروپین اسٹاف یا ٹرسٹیز کا مسئلہ ہو یا پھر جانشینی کا معاملہ، سب کچھ حدِّ ادب کے دائرے میں رہا۔ حیرت تو اِس پرہوتی ہے کہ مولوی سمیع اللہ خاں نے بھی پاس و لحاظ کو پوری طرح ملحوظ رکھا۔ سبب یہ کہ قوم کی خدمت اور جدید علوم و فنون کے فروغ کے جذبے نے سب کو یکجا کر دیا تھا۔اُن کی علمی اور عملی کاوشوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر ذہنی کُشادگی اور قومی و ملّی خدمت کا جذبہ موجزن ہوتو اختلافات کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔
ماضی کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو سیاحوں اور تاجروں نے ہی نہیں ادیبوں اور دانش وروں نے بھی خطّۂ برِّ صغیر کو ’’جنّت نشاں‘‘ قرار دیا ہے ۔ امن و انسانیت کے اس گہوارے کی شہرت سبھی کے لیے کشش کا باعث بنی ہے۔ اوروں کی طرح مسلمان بھی محض فاتح کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ اس خطۂ ارض کو اپنا مسکن بنانے کے لیے آئے اور پھر یہاں کی پُر سکون فضا میںرچ بس گئے ہیں۔ امیر خسرو تو برِ صغیر ہند و پاک سے اِس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ وہ امراء کے دربار میں مقامی باشندوں کی ذہانت، علمی استعداد، محبت، مروت اور شرافت کی تعریف کرتے ہیں۔ اپنی مثنویوں میں یہاں کے باشندوں کی وفاداری، وحدانیت اور علوم و فنون سے رغبت کو اُجاگر کرتے ہیں۔ امیر خسرو کے پیر و مرشد حضرت نظام الدین سلاطین کو مشورہ دیتے ہیں کہ عوام کے دلوں پر حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ رعایا کے ساتھ بلا تفریق مذہب و ملّت، محبت و ہمدردی اور انصاف و ایمان داری کا سلوک کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے صوفیہ کے ارشادات پر عمل کیا ہے۔ اِس خطہ کو سجانے سنوارنے اور اِس کی فضا کو خوش گوار بنائے رکھنے کا جتن کیا ہے، تو پھر امن و انسانیت کے اِس گہوارہ کو گرہن کب اور کیوں لگا؟
سر سید احمد خاں نے سب سے پہلے اس کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اسلاف کے کارناموں کا ذکر ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ اہم تاریخی عمارتوں کے در و دیوار کے جاہ و حشمت کو بھی اُجاگر کرتے ہیں اور دیگر اقوام کو بتاتے ہیں کہ دیکھو ہم بھی آن بان کے ساتھ ملک کی خدمت میں خونِ جگر صرف کرتے رہے ہیں۔
اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کی عزت، شان و شوکت محض اقتدار کی وجہ سے تھی؟ اقتدار کے ختم ہوتے ہی وہ تنزلی کا شکار ہوئے یا وقت کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر رہے، آپسی رسہ کشی، تعلیمی نظام میں پیدا ہونے والی وُسعت سے دُوری یا پھر اپنی غفلت کی بدولت ابتری میں مبتلا ہوئے ہیں۔بہر حال انتشار و خلفشار کی صورتِ حال پر سر سید لکھتے ہیں:
’’میں نے غور کیا کہ یہ سب فروعی باتیں ہیں، اصل سبب سوچنا چاہیے کہ قوم پر یہ مصیبت کیوں پڑی اور کیوں کر دُور ہو سکتی ہے۔ اس کا یہ جواب ملا کہ قوم میں تعلیم و تربیت نہیں تھی اور انگریزوں سے، جن کو خدا نے ہم پر مسلط کیا ہے، میل جول اور اتحاد نہ تھا۔ اور باہم دونوں میں مذہبی اور رسمی مُنافرت بلکہ مثلِ آب ِ زیرِ کاہ‘ عداوت کا ہونا تھا۔ میں نے یقین کیا کہ اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوتیں تو یا غدر واقع نہ ہوتا، اگر ہوتا تو جو سخت مصیبت گورنمنٹ پر، ملک پر، ہماری قوم پر واقع ہوئی اس قدر نہ ہوتی۔‘‘
(حیاتِ سر سید، نور الرحمن، ص:۱۵)
رفقائے سر سید نے اپنے اپنے انداز سے یہ واضح کیا ہے کہ جب جب انقلاب برپا ہوتے ہیں اور قوموں کی تقدیریں عروج و زوال سے گزرتی ہیں تب تب حسّاس افراد اپنا اپنا لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود کا تعین کرتے ہیں اور اُس کو پالینے کا جذبہ انھیں ہر دم توانا رکھتا ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ اسی مطمحِ نظر پر عمل کرتی رہی ہیں۔ وہ نصب العین تک پہنچنے کا تہیّہ کرتی ہیں، پھر یہی جستجو اور آرزو قوم کی پہچان بن جاتی ہے۔ منزل اورراستے کا احساس، انسان ہی نہیں قوم کی زندگی کے بھی اہم جُز ہیں۔ ان کے بغیر حساس افراد ہی نہیں قوموں کی زندگی بھی بے معنی ہو سکتی ہے یعنی منزل کو پالینے کا جذبہ بیدار ہونا ضروری ہے جس کی بنا پر انسان اس تک رسائی حاصل کرنے کی جدو جہد کر سکتا ہے۔
سرسید حال و ماضی، جدید و قدیم کا موازنہ کرتے ہوئے اپنے ایک لیکچر میں فرماتے ہیں:
’’تم اپنے حال کا اپنے بزرگوں کے حال سے مقابلہ کرو، آپ کے بزرگ جس زمانے میں تھے انھوں نے اپنے تئیں اُس زمانے کے لائق بنا لیا تھا۔ اس لیے وہ دولت اور حشمت اور عزت سے نہال تھے اور جس زمانے میں کہ ہم ہیں، ہم نے اپنے تئیں اُس زمانے کے لائق نہیں بنایا اور اس لیے نکبت اور ذلّت میں ہیں۔‘‘
سر سید یوروپ کی ترقی اور ہماری تنزلی کو بھی موضوعِ بحث بناتے ہیں کہ ہم نے جب نئے علوم و فنون سے چشم پوشی اختیار کی اور اپنی معلومات و اِیجادات پر اِکتفا کر لیا تو ہم میں ٹھہراؤ آگیا۔ مغرب جو ہم سے سبق حاصل کرتا تھا۔ وہ حصولِ علم کی تگ و دو میں مصروف رہ کر نئی نئی تحقیقات کرتا رہا۔ نتیجتاً علوم و فنون کا احیا ہوا، صنعت و حرفت کو فروغ ملا۔ سائنٹفک اپروچ میں عقل کو بنیادی حیثیت حاصل ہوئی تو مشرق خصوصاً ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ ذہنی انتشار میں مبتلا ہوکر تو ہم کاشکار ہوا، اور یہیں سے آغاز ہوا جارحانہ اور مُدافعانہ جنگ کا۔ ہم قوموں کی نبض شناسی کے قصے گڑھتے رہے اور دوسرت نبض کی ہر حرکت سے واقف ہوتے گئے۔ ہم جوش میں حدود پار کرتے رہے اور وہ منصوبہ بندی پر عمل کرتے رہے۔ ہمیں اتنے محاذوں میں اُلجھا دیا گیا کہ ہم اپنوں سے ہی مشکوک ہو گئے۔ سر سید اِس کشاکش سے گھبرائے نہیں، جھنجھلائے ضرور اور وہ بھی ہماری جہالت پر:
’’اگر ہماری قوم میں صرف جہالت ہی ہوتی تو چنداں مشکل نہ تھی۔ مشکل تو یہ ہے کہ قوم جُہلِ مُرکّب میں مبتلا ہے۔ علوم جن کا رِواج ہماری قوم میں تھا یا ہے اور جس کے تکبر اور غرور سے ہر ایک پھولا ہوا ہے، دین و دنیا میں بَکار آمد نہیں۔ غلط اور بے اصول باتوں کی پیروی کرنا، بے اصل اور اپنے آپ پیدا کیے ہوئے خیالات کو اُمور واقعی اور حقیقی سمجھ لینا اور پھر اُن پر فرضی بحثیں بڑھائے جانا اور دوسروں کی بات کو خواہ کیسی ہی سچی کیوں نہ ہو، نہ ماننا اور لفظی بحثوں پر علم و فضیلت کا دارومدار اُن کا شیوہ تھا۔‘‘
سر سید کی بیشتر تحریریں خصوصاً مقالات اِس کے گواہ ہیں کہ وہ قوم کو ہٹ دھرمی اور گُل افشانی کے بجائے خود احتسابی کی طرف راغب کرتے ہیں اور مختلف دلائل سے علوم و فنون کے نئے نئے گوشوں کو منتخب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ نوآبادیاتی نظام نے انگریزی زبان اور سائنسی اِیجادات کے ذریعے ہمیں ان گنت فائدے پہنچائے ہیں۔ ذہنی کُشادگی اور مالی آسودگی مہیا کی ہے، وہیں اِس سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ عرصہ سے رائج ہمارے ملک کا سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے بکھرا ہے۔ اس کے شکار سب سے زیادہ مسلمان ہوئے ہیں۔ نواب سراج الدولہ کی شکست (مئی ۱۷۵۷ء) کے بعد مسلمانوں کو روشن خیالی اور جدید علوم کی آڑ میں تشکیک میں ملوث کیا گیا۔ اُن کے رہن سہن، طور طریق اور طرزِ لباس کا مذاق اُڑایا گیا۔ تضحیک کو محسوس کرتے ہوئے مسلمان تحفظ و بقا اور اِرتقاء و ترقی کی کشاکش میں کچھ اس طرح مبتلا ہوئے کہ احساسِ کمتری میں گرفتار ہونے کے ساتھ ساتھ آپسی نفاق کے بھی شکار ہوتے گئے۔ ترقی کے نام پر وہ اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے لیے عسکری جدو جہد میں مبتلا رہے جب کہ غیر مسلموں نے نئے نظام کے استحکام میں مُعاونت کی اور معاشی، معاشرتی و تعلیمی سطح پر مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی علوم و فنون کو قبول کرنے میں پہل کی۔
ہم عموماً سر سید کے خیالات و افکار، اُن کی تحریک اور اُس تحریک سے وابستہ سائنٹفک سوسائٹی، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس وغیرہ کے سُنہرے دور کا خاکہ بیان کرتے ہیں اور اِس پر زور دیتے ہیں کہ ِان نظریات کا دوبارہ اَحیاء ہونا چاہیے لیکن اب اس کے مثبت اثرات کیوں نظر نہیں آتے ہیں، یہ امر باعثِ حیرت ہے ۔مادری زبان کے اعتبار سے دیکھیں تو اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ اپنے فکر و عمل کے ذریعہ سر سید اور رفقائے سر سید نے اردو زبان پر جو احسانات کیے اور تہذیب و تمدن کا جو زریں لباس عطا کیا اُس کی چمک دمک تا قیامت باقی رہے گی لیکن آج اُسی زریں لباس میں لپٹی ہوئی اردو بیمار ہے، بس اپنی قوت مُدافعت کی بدولت صحت یابی کی جدو جہد میں مصروف ہے لیکن ستم دیکھیے کہ اردو کے جن ہمدردوں کو اُس کی مسیحائی کا کردار ادا کرنا چاہیے وہ اُس کے تابناک ماضی کے گُن تو گا رہے ہیں لیکن عملی طور پر اُسے توانا بنانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ اپنی خانہ جنگی کے ذریعہ لا شعوری طور پر اُس کو محدود کرنے میں بھی مصروف ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم صدقِ دل سے اِس کا جائزہ لیں کہ موجودہ دور کی ضرورتوں کے تحت ہم کیا اَقدام کر سکتے ہیں اور کون سے ایسے ذرائع استعمال کر سکتے ہیں کہ قومی یکجہتی کی علم بردار یہ زبان اور اس کے ساتھ ہماری پوری تہذیب سفاکیوں اور منافقانہ روش اور در اندازیوں سے محفوظ ہو جائے۔انسانی فلاح و بہبود اور زبان و ادب کے تحفظ کے لیے قائم اداروں پر اور بھی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق کے ساتھ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس کا کوئی مثبت اور کار آمد حل تلاش کریں۔ اگر ہم صرف گُل افشانیٔ گفتار کرتے ہوئے محض اپنا ماضی نہارتے رہے اور مستقبل کی طرف سے آنکھیں بند رکھیں تو صرف ہماری زبان ہی نہیں ، تہذیب و ثقافت پر بھی مصیبتوں کے بادل گِھرتے چلے جائیں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام میںہمارے ذہنوں پر طاری ہونے والے جمود کو توڑنے، اذہان کو متحرک کرنے اور احساسِ کمتری کو ختم کرنے کا نام علی گڑھ تحریک ہے۔ اِس تحریک نے ایسے پُر آشوب دور میں قوم کی رہبری کی جب عظمت رفتہ کی بازیابی کے سارے امکانات بظاہر معدوم ہو چکے تھے۔ پچھلے سو ڈیڑھ سو برسوں کے حالات و حادثات نے مایوسی اور نا اُمیدی کو پروان چڑھایا تھا۔ کسی کو پھر سے حکمرانی کی اُمید بھی نہیں تھی بلکہ قوم دوبارہ اُٹھ کر ، با عزت طریقے سے نئی سمت تلاش کر سکے گی، اس میں بھی شبہات پیدا ہو چلے تھے۔ سر سید اور اُن کے رفقاء نے قوم کو حوصلہ دیا۔ آگے بڑھنے کی راہیں دکھلائیں۔ مختلف ذرائع اور وسائل اختیار کرکے علمی ، عملی ، فکری اور تعلیمی بیداری پیداکی۔ انھوں نے اپنی تحریروں سے واضح کیا کہ ثقافت ایک قومی ورثا ہے جو ماضی کی حسین یادیں، عمدہ تصورات، بہترین اخلاق و عادات، مختلف قسم کی تعبیریں، رموز ، ایجادات و اخترعات اور اُمنگوں سے عبارت ہے۔ اسی بنا پر ثقافت قوموں کی تمدنی زندگی کی پیچان بن جاتی ہے۔ اس تشکیلی عمل میں خوش اخلاقی اور شائستگی لازم و ملزوم ہے جو تہذیب کا نعم البدل ہے۔ تاہم ہر تہذیب دوسری تہذیب سے بڑی حد تک جُدا ہوتی ہے کیوں کہ تہذیبیں اپنے اندر الگ الگ خصوصیات رکھتی ہیں۔ ان کے ماننے والے بھی مختلف راہوں کے مسافر ہوتے ہیں۔
تہذیب و ثقافت وہ آزمودہ ذریعے ہیں جو علاقائی اور مقامی لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہوئے ان کو ایک دوسرے سے قریب لاتے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام سے پہلے محض ہندوستان کو ہی دیکھیں تو اجنتا و ایلورا، موہن جوداڑو اورہڑپّا نیز سندھ گھاٹی تک تہذیب و ثقافت کا ایک وسیع و عریض سلسلہ ہے جس میں نئے نئے نظریے اور رشتے شامل ہوتے رہے ہیں اور جن کی عظمت کے بارے میں علامہ اقبال کہہ اٹھتے ہیں:
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
رسالہ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ نے اس امر کو بار بار باور کرایا ہے کہ کسی بھی قوم کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ان کی زبان، تاریخ، ادبی، علمی اور عملی حلاحیتیں ہوتی ہیں، جن پر وہ ناز کرتی ہے۔ رسم و رواج، تیج و تیوہار، کھانے پینے کی اشیاء، رہن سہن اور لباس وغیرہ بھی اس زمرے میں شامل ہیں۔ اس لیے کوئی بھی قوم اپنی اِن صفات کے سلب ہونے پر تلملا اُٹھتی ہے، انقلاب کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
باہمی میل جول یعنی قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا ایک اہم ذریعہ زبان ہے۔ اسی کے سہارے قومیں ترقی کرتی ہیں، بلندی پر سرفراز ہوتی ہیں، ان میں یگانگت اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے جو در حقیقت تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کا وسیلہ ہے۔ اسی لیے جو قوم اپنی زبان کو زیادہ استعمال کرتی ہے وہ دراصل اس زبان کو ہی نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کو دوام بخشتی ہے۔ آج انسان اپنے اس عظیم ورثے کو نہیں انفرادیت کو زیادہ اہمیت دینے لگا ہے لہٰذا عالم کاری کے اِس دور میں مادیت کی تیز لہر کے مقابل اخلاقی اقدار کی افادیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ جیسا کہ ماضی میں سر سید اور اُن کے رفقاء نے اس کی نشان دہی کی تھی کہ قوموں میں تہذیب اور اخلاق کیسے بنتے بگڑتے ہیں اور کس راہ سے وہ نئی نسل میں در آتے ہیں۔ انھوں نے طاق نسیاں کی زینت بنے قدیم متکلمین اور فلسفۂ اسلام کے افکار کا احیاء کیا اور ٹھوس حقائق و دلائل کی جانب ذہن کو راغب کیا۔ ذہنی و فکری تقلید کو متحرک کرتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی اپروچ کو تقویت پہنچائی۔ قرآن و حدیث اور تاریخی حوالوں سے حساس ذہن میں پیدا ہونے والے شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے سائنسی چیلنجوں کے مقابلہ کی راہیں استوار کیں۔قیامتِ صغریٰ کے اُس دور میں رفیقانِ سر سید کی بدولت قوم کو سنبھلنے، سنورنے اور با عزت زندگی گزارنے کا موقع ملا۔ ذرا اُس پُر آشوب دور کا تصور کیجئے جب سات سمندر پار کا طوفان صدیوں کی جمی جمائی بساط کو تباہ و برباد کرنے کے درپے تھا۔ ایسی مشکل گھڑی میں اپنی وراثت کو بچانے اور اپنا وجود بر قرار رکھنے کی خاطر آہنی عزم و ارادے کے حامل چند اشخاص اُٹھ کھڑے ہوئے اور مخالفین کی پروا کیے بغیر قوم کو تحفظ فراہم کرنے کی جدو جہد میں مصروف رہے حالاں کہ اُن کے پاس وسائل کم مگر حوصلے بلند تھے لہٰذا وہ اصلاح اور فلاح و بہبود کی ڈگر پر بے خوف و خطر آگے بڑھتے رہے۔ کامیابی نے اُن کے قدم چومے اور وہ تاریخ میں امر ہو گئے۔
مُعاشرتی ، تہذیبی، ادبی اور اَخلاقی سطح پر برِ صغیر کو سر گرم عمل کرنے کے لیے سر سید احمد خاں نے ٹھوس عملی اقدام کیے۔ اُن کی کاوشوں کا اولین مقصد عام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کو نئے نئے فنون سے واقف کرانا اور سائنسی ایجادات و اختراعات کے ذوق کی آبیاری کرنا تھا۔ اُن کے اِس لائحہ عمل کا ایک اہم حصہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجراء تھا۔ مذکورہ رسالہ میں شامل ہونے والے مقالات، خطبات، مکتوبات وغیرہ سر سید اور اُن کے رفقاء کے غیر معمولی عزم کا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اُس پُر آشوب دور میں ہمہ جہت ترقی کے اِمکانات دریافت کرنا اور قوم کو فوقیت کے ساتھ چلنا سکھانا، بظاہر آسان مگر بے حد مشکل مرحلہ تھا۔ ارادے مضبوط ہوں تو دشواریاں خود بخود رفع ہوتی جاتی ہیں۔
حصولِ علم کے لیے ’باب العلم ‘پر نظر ٹھہری۔ علی گڑھ میں علم کی بارش شروع ہوئی تو سب کے لیے رحمت بن گئی۔ جذبۂ فلاح و بہبود اور حصولِ علم کی مقناطیسی کشش کی بدولت سید والا کی بستی میں ایک سے بڑھ کر ایک گوہرِ آبدار جمع ہوتے گئے اوراگر انکی ایک مختصر فہرستمرتب کی جائے تو اسے بلا تکلف سر سید کے نورتنوں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جس کی زمانی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی۔
۱۔محمد حسین آزاد۔۱۸۳۰ء۔۱۹۱۰ء
۲۔ڈپٹی نذیر احمد۔۱۸۳۱ء۱۹۱۲ء
۳۔ذکاء اللہ۔۱۸۳۲ء۔۱۹۱۰ء
۴۔سمیع اللہ۔۱۸۳۴ء۔۱۹۰۸ء
۵۔حالی۔۱۸۳۷ء۔۱۹۱۴ء
۶۔محسن الملک۔۱۸۳۷ء۔۱۹۰۷ء
۷۔وقار الملک۔۱۸۴۱ء۔۱۹۱۷ء
۸۔چراغ علی۔۱۸۴۴ء۔۱۸۹۵ء
۹۔شبلی۔۱۸۵۷ء۔۱۹۱۴ء
محمد حسین آزاد (۱۸۳۰ء-۱۹۱۰ء) نے نہ صرف نظمِ جدید کی ابتدا کی بلکہ تاریخ ، تہذیب، ثقافت اور روایت کی آمیزش سے نثر میں قابل قدر اضافہ بھی کیا۔ انشائیہ نگاری کو فروغ اور مضمون نگاری کو تقویت بخشتے ہوئے سر سید کے ہم سفر بنے ۔ وہ اپنے عہد کی افراتفری اورخون آشام فضا سے سمجھ گئے تھے کہ اب نثر ہی ابلاغ کا بہترین ذریعہ ہے کہ اِس کے توسط سے براہ راست قاری تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حال اور ماضی کے گہرے مطالعے سے مستقبل کی راہوں کو روشن کیا۔ حقیقت کی افادیت کو سمجھتے ہوئے بھی وہ تخیل کو عزیز رکھتے تھے، یہ بظاہر حیرت کی بات ہے مگر یہی ان کا طرۂ امتیاز بھی ہے کہ ذہن کے نہاں خانوں میں ماضی اور حال کے کسی بھی واقعے، حادثہ یا سانحہ کے دستک دیتے ہی اُن کی قوتِ متخیلہ بیدار ہوکر اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ تانے بانے اس طرح بُنتے چلے جاتے ہیں کہ وہ واقعہ یا حادثہ تجریدی صورت میں نہ رہ کر تصویر یا مرقع کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں فضا اور ماحول کی جزئیات نگاری اور اشخاص کی شکل و شباہت، حلیہ، لباس، نشست و برخاست، اندازِ گفتگو سب کچھ رچ بس جاتے ہیں اور پھر مرقع کی جان دار اور جاذبِ نظر تصویر چلتی پھرتی، بولتی چالتی قاری کے رو برو ہوتی ہے۔ اندازِ بیان قصہ کہانی کا ہے مگر محض خواب و خیال کو مہمیز کرنے والا نہیں بلکہ ذہن کو بیدار اور حوصلے کو تقویت دینے والا ہے۔

محمد اکرم چغتائی، ابرار عبدالسلام اور شافع قدوائی نے اِس کے شواہد پیش کیے ہیں کہ محمد حسین آزاد دیوانگی کے عالم میں علی گڑھ تشریف لائے اور اُس وقت بھی جب وہ ایران کے سفر پر جا رہے تھے۔ سر سید نے اس تعلق سے لکھا بھی ہے۔ وہ انجمن پنجاب کی تحریک کو پسند کرتے تھے۔ انھوں نے اُن کی اصلاحی اور قومی شاعری کی پُر زور وکالت کی ہے۔پروفیسر شافع قدوائی ’’آب حیات: اولین تبصروں کی روشنی میں‘‘ لکھتے ہیں:
’’مولانا محمد حسین آزاد سر سید کے اصلاحی مشن کے قائل تھے اور نیچرل شاعری سے متعلق ان کے مضامین دراصل سر سید کے اصلاح کے وسیع تر مفہوم کو خاطر نشاں کرتے ہیں۔ سر سید نے اپنے متعدد اداریوں اور ادارتی تذکروں میں شعر و ادب سے متعلق آزاد کے تصورات کی ہمنوائی کی ہے اور انجمن پنجاب کی کوششوں کو لائقِ تحسین ٹھہرایا ہے۔ آب حیات کی اشاعت کے فوراً بعد سرسید کے رفیق اور مشہور قلم کار منشی ذکاء اللہ کا تفصیلی تبصرہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ کے شمارے ۱۸؍ دسمبر ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(ماہنامہ’آج کل‘ دہلی دسمبر،۲۰۰۶ء، ص۳)
منشی ذکاء اللہ نے اپنے تفصیلی تبصرے میں جو نکات اُجاگر کیے ہیں اُن سے محمد حسین آزاد کی علی گڑھ تحریک سے اُنسیت کا بھی علم ہوتا ہے۔
’’ہر ایک کے پاس اردو زبان اور اردو علم ادب کا اوستاد (اُستاد) بھیج دیا ہے اور خود اس صدی میں علم استادی بلند کیا ہے۔‘‘
انہوں نے اِس کا بھی اظہار کیا ہے کہ:
’’جن لوگوں کو اردو زبان کے عام ادب یا اردو زبان کی شعر و شاعری سے شوق ہے ان کو اس کتاب کا پڑھنا اور دیکھنا نہایت مفید اور سب سے زیادہ مقدم ہے۔‘‘
پروفیسر شافع قدوائی نے سر سید کی صحافت پر اپنا گراں قدر تحقیقی مقالہ سپرد قلم کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے ۳۲؍ برسوں کے تقریباً تمام شماروں کا بالاستعیاب مطالعہ کیا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں:
’’گزٹ میں شائع تبصروں سے آب حیات کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آب حیات نے نہ صرف ادبی اسناد سازی کی بنا ڈالی بلکہ ایک نئے ادبی ڈسکورس کا بھی آغاز کیا۔‘‘ (آج کل، دسمبر ۲۰۰۶ء، ص۶)
آبِ حیات کی اشاعت (دسمبر ۱۸۸۰ء) کو سر سید، حالیؔ اور منشی ذکاء اللہ نے اردو ادب کے لیے فالِ نیک قرار دیا۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ (۱۸۸۰ء-۱۸۸۱ء) میں اِس پر کئی تبصرے شائع ہوئے۔ ذکاء اللہ کے علاوہ حالیؔ کا تبصرہ بھی بے حد اہم ہے اور یہ بھی علی گڑھ سے آزاد کی پسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔’’آبِ حیات‘‘ کے تعلق سے خود سر سید نے نہ صرف اظہارِ خیال کیا بلکہ اُنھیں اپنا عزیز دوست کہہ کر مخاطب کیا۔ وہ ۸؍ جنوری ۱۸۸۱ء کے گزٹ کے اداریے میں لکھتے ہیں:
’’ہم اس کتاب کو نہ شعرائے نامی کا تذکرہ کہتے ہیں اور نہ اردو زبان کے مشاہیر شعرا کی سوانح عمری بلکہ اس کو اوستاد (اُستاد) اور معلم زبان اردو کا جانتے ہیں۔ آزادؔ نے یہ کتاب نہیں لکھی بلکہ ہر ایک کے پاس اردو زبان اور اردو علم و ادب کا اوستاد (استاد) بھیج دیا ہے اور خود اس صدی میں المِ استادی بلند کیا ہے۔ ‘‘
(علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، ۸؍ جنوری ۱۸۸۱ء)
ڈپٹی نذیر احمد (۱۸۳۱ء-۱۹۱۲ء) انشاء پرداز، خطیب اور عالم دین تھے۔ حقیقی زندگی کے قصوں کو اِس طرح پیش کیا کہ وہ اردو ناول میں سنگ میل ثابت ہوئے۔ ان کے ناولوں میں خواہ فنّی پختگی اور اس کے بنیادی تقاضوں کی پوری پابندی نہ ہو لیکن نذیر احمد کے ناول اس اعتبار سے اردو میں ایک نیا اور کامیاب تجربہ ضرور ہیں کہ ان میں پہلی مرتبہ محض دل چسپی اور تفریح کے مقصد کو نظر انداز کرکے کسی معاشرتی و سماجی مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مراۃ العروس، بنات النعش، توبتہ النصوح، فسانۂ مبتلا، ابن الوقت، رویائے صادقہ اور ایامیٰ خواہ تکنیک کے اعتبار سے ناول کے مفہوم پر پورے نہ اُترتے ہوںیہ فن پارے نیا شعور اور نیا احساس پیدا کرنے میں ضرور مدد گار ثابت ہوئے۔ مشرق و مغرب کی کشا کش کو ملحوظ رکھتے ہوئے محاوراتی زبان اور دہلوی لہجے میں خلق ہونے والی تخلیقات میں وہ قوم کی فلاح و بہبود کی خاطر جدید تعلیم کی پُر زور حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔اُن کے ناولوں میں صاف نظر آئے گا کہ پسِ منظر کے طور پر فورٹ ولیم کالج سے دہلی کالج کا سفر ہے تو پیشِ منظر علی گڑھ تحریک کا ہے جس نے تعلیم و تربیت کی اہمیت اور سائنسی ایجادات سے ہندوستانیوں کو واقف کرایا، اور اُن میں ایک نیا حوصلہ اور عزم پیدا کیا۔ اس رُجحان میں تراجم اور بھی معاون ہوئے۔ ردّو قبول کے مابین نظام زندگی میں آئی تبدیلیوں نے گھر کے آنگن مختصر کیے اور ضرورتیں بڑھائیں تو رہن سہن، طور طریق میں ہی نہیں سوچنے ، سمجھنے اور عمل کرنے میں بھی تبدیلی آئی۔ بچوں کی پرورش، ذہنی نشو ونما اور بڑوں کے خانگی معاملات میں جدید تعلیم و تربیت کس طرح معاون ہو سکتی ہے، اس کی جھلک نذیر احمد کے ناولوں میں ملتی ہے۔ انھوں نے نئی تہذیب و تمدن کی آہٹ کو شدّت سے محسوس کرتے ہوئے قاری کو متعارف کرانے کا مخصوص طریقۂ کار اختیار کیا جو بلا شبہ کامیاب رہا۔
مولوی ذکاء اللہ (۱۸۳۲ء-۱۹۱۰ء) فہم و فراست اور ذکاوت میں بے مثل تھے۔ وہ مولوی امام بخش صہبائی کے شاگرد اور دہلی کالج میں محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد کے ساتھی اور دوست تھے۔تدریسی زندگی کا آغاز دہلی کالج سے ہوا۔ آگرہ کالج میں بھی یہ خدمت انجام دی۔ دہلی نارمل اسکول کے صدر مدرس رہے۔ الہ آباد کے مئیور سینٹرل کالج میں پروفیسر ہوئے۔ شروع سے علی گڑھ تحریک کے ہمنوا تھے۔ ۱۸۶۶ء میں سائنٹفک سوسائٹی کے ممبر ہوئے، کالج کے ٹرسٹی رہے۔وہ تہذیب الاخلاق اور انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے بہی خواہ تھے۔ ان رسائل میں خود لکھتے تھے اور دوسروں کو لکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ ۱۸۸۷ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ایم۔ اے۔ او۔ کالج میں ریاضی کے اُستاد مقرر ہوئے اور انھوں نے طلبائے علی گڑھ کی ذہن سازی میں نہ صرف نمایاں کردار ادا کیا بلکہ اُن کو انجینئرنگ کے لیے تھامسن کالج رڑکی کالج میں داخلے کی ممکنہ تیاری کرواتے۔تذکرۂ ذکاء اللہ کے صفحہ نمبر ۱۴۱ پر درج ہے:
’’میری ساری زندگی کی اُمیدیں اسی کالج سے وابستہ ہیں۔ اگر اسے نقصان پہنچ گیا تو میری زندگی کا کام تباہ اور برباد ہو جائے گا۔‘‘
مولوی ذکاء اللہ نے تعلیم نسواں کی حمایت میں آواز بلند کی، بیواؤں کے لیے بلند شہر میں اسکول کھولا۔ مغربی علوم و فنون سے واقفیت کی بناپر ریاضی ، تاریخ، جغرافیہ، طبیعات، ہیئت، علم اخلاق و ادب کے تعلق سے کثیر تعداد میں مضامین لکھے جن میں وسعت اور تحقیقی رمق ہے۔ انھوں نے تصنیف و تالیف کے ذریعے اردو نثر کے سرمایہ میں زبردست اضافہ کیا ہے بلکہ زندگی سے وابستہ بہت چھوٹے چھوٹے مسائل پر موثر انداز میں دوسروں کو لکھنے کی ترغیب دی ہے۔
قوم کی بد حالی میں بے چین مولوی سمیع اللہ خاں (۱۸۳۴ء-۱۹۰۸ء) سرسید کے رفیق و عزیز تھے۔ انھوں نے وکالت کی، ولایت گئے۔ سی۔ ایس۔ آئی ۔ کا تمغہ حاصل کیا اور علی گڑھ تحریک کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب کچھ نثار کر دیا۔شجاع الدین فاروقی نے ’’نامورانِ علی گڑھ‘‘ میں لکھا ہے:
’’انگریزی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ قائم کرنے کا خیال اگر چہ سر سید ہی کے ذہن میں آیا تھا مگر اِس کے اولین محرک اور بانی ہونے کا شرف مولوی سمیع اللہ خاں کو حاصل ہے۔ انھوں نے مدرسۃ العوم علی گڑھ کی وہ عظیم الشان اور گراں قدر خدمات انجام دیں جو علی گڑھ کی تاریخ کے صفحات پر ہی نہیں علی گڑھ کے درو دیوار پر بھی نقش ہیں۔‘‘
(فکر و نظر،طبع سوم ، مارچ ۲۰۰۹ء، ص ۱۶۲)
مولوی ذکاء اللہ نے مولوی سمیع اللہ کی سوانح عمری کے صفحہ ۸۶ پر لکھا ہے کہ:
’’جس قومی غرض و غایت کو مدِ نظر رکھ کر سید صاحب نے سفر ولایت اختیار کیا تھا، اسی کو پیشِ نظر رکھ کر مولوی صاحب نے بھی ولایت کے سفر کی زحمت گوارہ فرمائی تھی۔‘‘
سر سید اُنھیں کتنا عزیز رکھتے تھے، اِس ظاہر ہے کہ ۱۲؍ اکتوبر ۱۸۸۰ء کو جب سمیع اللہ مذکورہ سفر سے ہندوستان واپس آئے تو وہ اُن کی پذیرائی کے لیے خود بمبئی پہنچے۔اُن کے احباب نے لکھا ہے کہ منصف کے عہدے پر کام کرنے کی وجہ سے مزاج میں سختی اور تلخی آئی تو مصلحت اور درگزر کو بالائے طاق رکھ دیا۔ وہ بے حد مخلص اور جوشیلے تھے۔ اُن کی بے لوث خدمت کی بدولت ’’سمیع منزل‘‘ میں قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود کے منصوبے بنتے اور اُن پر یکسوئی سے عمل بھی کیا جاتا۔ مسلمانوں کی مادی ترقی کے لیے انگریزی تعلیم کو ضروری سمجھتے مگر ان کے اقتدار سے نالاں رہتے۔ایم ۔ اے۔ او۔ کالج میں انتظامی امور میں انگریز افسران کی بیجا مداخلت سے نالاں رہتے اورپھر ٹرسٹیز بِل اور جانشینی کے معاملے میں سر سید سے اختلاف ہوا۔ تقریباً نو سال تک رفیقوں میں بظاہر فاصلہ بنا رہا لیکن مصلح قوم کے انتقال کی خبر سن کر بے چین ہو اُٹھے۔گِلہ شکوہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سید محمود کے پاس پہنچے اور تدفین کے انتظام میں اشکبار آنکھوں سے لگ گئے۔
الطاف حسین حالیؔ (۱۸۳۷ء-۱۹۱۴ء) کی سر سید سے پہلی ملاقات سائنٹفک سوسائٹی کے جلسہ، منعقدہ علی گڑھ ۱۸۶۷ء میں ہوئی۔ وہ جہانگیر آباد، ضلع بلند شہر کے نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کے ساتھ اُس مردِ مجاہد کو دیکھنے اور سننے کے لیے آئے تھے جس سے وہ غائبانہ طور پر متاثر تھے۔ ذہنی مطابقت اور موافقت کا جذبہ اُسی وقت پیدا ہو گیا تھا جب سر سید نے غازی پور (۱۸۶۴ء)میںسائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور انگریزی مدرسہ قائم کیا۔حالیؔ نے بھی اسی سال’’مولود شریف‘‘لکھی۔دراصل یہ مشرق کو مغرب سے اور مغرب کومشرق سے ملانے کی غیر شعوری کوشش تھی جس نے دسمبر ۱۸۷۰ء میں ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی صورت میں عملی شکل اختیار کی۔ ذہنی ہم آہنگی اور بے لوث خدمت کے جذبے نے حالیؔ کو سید والا گُہر کے اور بھی قریب کر دیا ۔ ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ اس قربت کو تقویت دینے میں رسالہ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ بہت معاون ثابت ہوا۔نرم لب و لہجہ میں اصلاحی مضامین لکھ کر مضمون نگاری کو جلا بخشی۔شاعری کی نئی جہتیں تلاش کیں۔’’مقدمہ شعر و شعری‘‘ کے توسط سے اردو میں تنقید کی بنیاد ڈالی۔ ’’حیات جاوید‘‘ اور ’’یاد گار غالب‘‘ سوانح نگاری کے بہترین نمونے بھی ہیں۔
محسن الملک (۱۸۳۷ء-۱۹۰۷ء) نے خود اِس کا اعتراف کیا ہے کہ ’’ان سے زیادہ سر سید کو جاننے والا، اُن کی عزت کرنے والا، اُن کی خوبیوں کو سمجھنے والا کوئی دوسرا نہیں تھا۔‘‘ پھر بھی جزوی معاملات میں اختلاف تھا جو آخری دور میں بھی بر قرار رہا۔ وہ ۱۸۶۴ء میں سائنٹفک سوسائٹی کے ممبر بنے، خطبات احمدیہ کی تالیف میں ممکن مدد کی۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں درجنوں مضامین لکھ کر اردو میں مقالہ نویسی کو مقبول عام بنانے کا جتن کیا۔ ۱۸۹۳ء میں حیدر آباد سے پنشن لے کر اپنے آپ کو ایم۔ اے۔ او۔ کالج کے لیے وقف کردیا۔ سر سید کے انتقال کے بعد کالج کے سکریٹری مقرر ہوئے۔ خیالات کی یکسانیت اور باہمی تعلقات کی قربت کی بنا پر محمد امین زبیری نے ’’حیاتِ محسن‘‘ میں اُنھیں محب اور محبوب کے لقب سے یاد کیا ہے۔ بلا شبہ وہ ’محبوب اور محب‘ کے مراحل سے گزرتے ہوئے ملک و ملّت کے ایسے محسن ثابت ہوئے کہ اُن کا اصل نام سید مہدی علی، فراموش ہو گیا۔ وہ پُرجوش مبلغ، مقالہ نگار، معاملاتِ قانون اور سیاست کے ماہر تھے۔ سائے کی طرح زندگی بھر ساتھ رہنے والے سر سید کے محسن انتقال کے بعد بھی اُنھیں کے قریب آرام فرما ہوئے۔’’حیاتِ جاوید‘‘کی روشنی میں شیخ عبداللہ عُرف پاپا میاں ’’مشاہدات و تاثرت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’سر سید نے سالار جنگ ریاست حیدر آباد (P.M.) سے محسن الملک اور وقار الملک کی سفارش کی۔ دونوں نے وہاں اپنی انتظامی قابلیت کا سکّہ حیدر آباد کے حکمراں اور عوام کے دلوں پر بٹھا دیا۔ نواب محسن الملک نے مالی انتظام میں وہی شہرت حاصل کی جو اکبر کے وزیر ٹوڈر مل نے اپنے زمانے میں کی تھی۔‘‘ (ص۱۶۲)
اِس تعلق سے پاپا میاںمزید لکھتے ہیں کہ:
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ زمانہ ہے جب ’’اودھ پنچ‘‘ سب سے زیادہ علی گڑھ تحریک کا مخالف تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔نواب محسن الملک نے اپنے سکریٹری شپ کی آٹھ سالہ زندگی میں بہت مفید کام کیے۔ اول تو انھوں نے سر سید میموریل فنڈ کے صدر کی حیثیت سے چندہ جمع کرنے میں بہت امداد دی۔ یہ راقم اُن کا سکریٹری تھا اور قریب قریب ہر روز اُن سے ملاقات رہتی تھی۔ اگر سر سید میموریل فنڈ قائم نہ ہوتا اور اس میں چندہ نہ جمع ہوتا تو یونیورسٹی کا قائم ہونا دشوار تھا۔ ‘‘ (ص ۱۶۳-۱۶۴)
وقار الملک (۱۸۴۱ء-۱۹۱۷ء) نے اس اصلاحی مشن کی وسعت و ہمہ گیری کو لامحدود قرار دیتے ہوئے بابانگِ دُہل کہا کہ:
’’اِس سے یہ مراد نہیں کہ جوکچھ ہو علی گڑھ کی زمین میں ہو بلکہ علی گڑھ تحریک میں ہر وہ کام شامل ہے جو حقیقی و کامل و اکمل طور پر مسلمانوں کے حق میں مفید ہو، خواہ کسی صوبے کے مسلمانوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔‘‘ (تحریکیں، انور سدید، ص:۲۲۹)
سر سید تحریک کے اہم رُکن بننے سے قبل وہ مشتاق حسین کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ۱۸۷۵ء میں چار سو روپیے ماہوار پر ریاست حیدر آباد میں ناظم عدالت دیوانی ہوئے۔ نواب سالار جنگ کی معاونت میں کئی اہم کام کیے لہٰذا وقار الملک کا خطاب ملا۔ ۱۸۹۱ء میں وہاں کی ملازمت سے سبک دوش ہوکر خود کو علی گڑھ کالج کے لیے وقف کر دیا۔ نواب محسن الملک کے بعد دسمبر ۱۹۰۷ء میں وہ اتفاق رائے سے کالج کے سکریٹری مقرر ہوئے۔ تین سال کی مدت ختم ہونے کے بعد اُنھیں دوبارہ سکریٹری منتخب کر لیا گیا۔ ۱۹۱۰ء میںسر آغا خاں نے ایم۔ اے۔ او۔ کالج کو مسلم یونیورسٹی بنانے کی تجویز پیش کی تو نواب وقار الملک اُس کے لیے تن ، من ، دھن سے جُٹ گئے۔وہ نہایت جفا کش اور اعلیٰ منتظم کار تھے، انھوں نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں مضامین لکھنے ، کانفرنس میں لکچر دینے اور کالج کے لیے چندہ جمع کرنے میں بھر پور تعاون دیا۔ شیخ عبداللہ بانیٔ ویمنس کالج، اے۔ ایم۔ یو۔ لکھتے ہیں:
’’نواب وقار الملک مرحوم کی زندگی نہایت پاک اور بے لوث تھی۔ کالج کے حسابات اور حفاظت کا محض خیال ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنی زندگی کا زیادہ وقت اسی کی دیکھ بھال میں صرف کرتے تھے۔‘‘ (ص ۳۰۵)
وہ اُن کی گوناگوں صفات بیان کرتے ہوئے ’’مشاہدت و تاثرات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’نواب سلطان جہاں بیگم نواب صاحب کی شخصیت اور ان کی پاکیزہ زندگی کی بہت مدّاح تھیں اور بعض خانگی معاملات میں بھی وہ اپنے افسروں کو نواب صاحب سے مشورہ کرنے کے لیے بھیجا کرتی تھیں۔‘‘ (ص ۳۱۲)
سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں کہ:
’’نواب محسن الملک کی وفات پر ہم نے تدبیر و سیاست کا ماتم کیا۔ مولانا نذیر احمد کے مرنے پر سحر نگاری اور بزم آرائی کا مرثیہ پڑھا۔ مولانا حالیؔ کو رخصت کرتے ہوئے ہم نے سخنوری اور دقیقہ سنجی پر نالہ کیا لیکن نواب وقار الملک کی رحلت پر ہم قوم کا ماتم کرتے ہیں اور اولوالعزمانہ اخلاق کی گمشدگی پر فریاد‘‘
(بخوالہ صحیفہ لاہور، مئی جون ۱۹۷۸ء، ص۶۴)
مولوی چراغ علی (۱۸۴۴ء-۱۸۹۵ء) گوناگوں صفات کے مالک اور کامیاب مترجم تھے ۔مذہبی بحث و مباحث میںوہ سر سید کے ہمنوا تھے۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے مولوی محمد زکریا سہارنپوری کی مدد سے نہ صرف مولوی چراغ علی کے آبا و اجداد کے تعلق سے بہت کچھ مواد جمع کردیا بلکہ ایم۔ اے۔ او۔ کالج سے اُن کی وابستگی کو بھی مدلل انداز میں پیش کر دیا ہے۔ ’’چند ہم عصر‘‘ میں وہ اس کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مولوی چراغ علی کی تصنیفی زندگی کا آغاز ’’تعلیقات‘‘ کے نام سے ہوا۔ دونوںکی پہلی ملاقات لکھنؤ میں ہوئی ۱۸۷۶ء میں وہ سر سید کے بلاوے پر علی گڑھ آئے اور ترجمہ کے کام میں منہمک ہو گئے۔ اگلے سال( ۱۸۷۷ء)وہ سر سید کی کوشش سے حیدر آباد گئے۔ اکیاون سال کی عمر میں وہیں انتقال ہو گیا۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے لیے برابر مضامین لکھتے اور لکھواتے رہے۔ انھوں نے شدت پسند عیسائی مبلغین کے ذریعے اسلام کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور سر سید پر ہونے والے مذہبی اعتراضات کا مدلل جواب دیا۔ وہ تحقیقی نظریے کو معتبر سمجھتے تھے، اسی لیے محافظ تہذیب و ثقافت کہلائے۔
شبلیؔ نعمانی (۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء) سر سید کے نورتنوں میں عمر کے لحاظ سے سب سے چھوٹے تھے مگر انھوں نے اپنی کثیر الجہات شخصیت اور بے پناہ صلاحیت کی بدولت ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔شبلی سر سید سے محض متاثر ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سر سید کو اپنے خوابوں میں بسا لیا تھا۔ چوبیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے بڑے بھائی مہدی حسن سے ملنے کے لیے ایم۔ اے۔ او۔ کالج آئے تو اُن کا مقصد بھائی کی چاہت کے ساتھ ساتھ اُس شخص کا دیدار کرنا تھا جس کو انھوں نے اپنے تصورات و تخیلات میں سجا رکھا تھا۔ قصیدہ کے پیرائے میں لکھی ہوئی وہ عقیدت و محبت سر سید کو اِس حد تک پسند آئی کہ اَحباب کو کئی بار سُنایا اور پھر ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۸۱ء کے علی گڑھ گزٹ میں اُسے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع بھی کرایا۔ کالج کی اَقامتی زندگی کو دیکھنے کے بعد شبلیؔ بھی قوم کی فلاح و بہبود کے بارے میںسوچتے رہتے۔ اتفاق کہ ڈیڑھ سال بعد ہی ایم۔ اے۔ او۔ کالج کو مشرقی زبان کے ایک معلم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ شبلیؔ نے دوخواست بھیجی، جو منظور کر لی گئی۔ آناً فاناً فارسی و عربی کے اُستاد کی حیثیت سے اُن کا تقرّر بھی ہو گیا۔سر سید کی خواہش کے مطابق وہ اُن ہی کے بنگلے سے متصل مکان میں رہنے لگے۔ سر سید اُنھیں ہر پل مطالعہ میں مصروف،کچھ لکھتے پڑھتے ہوئے دیکھتے۔وہ عوام و خواص، اساتذہ اور طلبا سبھی میں مقبول تھے۔ شبلیؔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف درجات کے طلبا کو درس قرآن، دینی و اَخلاقی تربیت دیتے اور تصنیف و تالیف کی طرف اُنھیں مائل کرتے۔وہؔ اکثر سوچتے کہ کیا قدیم و جدید، مشرقی اور مغربی تعلیم کی راہیں الگ الگ ہیں؟ہیں تو کیوں؟ کس طرح دونوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ یکسوئی اور دلجمعی سے غور و فکر، مطالعہ و مشاہدہ کرکے رفقاء سے تبادلۂ خیال، بحث و مباحثہ کرتے۔ رفتہ رفتہ اُن کے ذہن میں قدیم و جدید تعلیم کا معیار و مقصد واضح ہوتا گیا۔اسی لیے شبلیؔ نے دونوں نظامِ تعلیم میں اصلاح و ترمیم کی تجاویز پیش کیں جن پر اتفاق بھی ہوا اور اختلاف بھی۔ اُن کے دور دراز کے سفر کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ صحیح صورتِ حال معلوم کر سکیں۔ عالمی سطح پر اُن کے سامنے تین طرح کے ادارے تھے:
۱۔ قدیم طرز کے مدارس
۲۔ جدید طرز کے جامعات
۳۔ قدیم و جدید طرز کو اپنا کر چلنے والے ادارے
لہٰذا انھوں نے تینوں طرز کے تعلیمی اداروں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا۔ غور و فکر کے بعد مسلمانوں کے لیے مغربی تعلیم کے ساتھ مشرقی علوم کے حصول کی وکالت کی مگر اِس تاکید کے ساتھ کہ ہم اپنی قدیم تعلیم کے مُثبت اثرت سے کسی طور چشم پوشی اختیار نہ کریں۔
تاریخ گواہ ہے کہ سر سید کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اُن کے رفیقوں نے ہر ممکن جتن کیا۔ محمد حسین آزاد نے اردو زبان کو وہ رنگ و آہنگ عطا کیا کہ بقول شبلیؔ وہ گپ بھی ہانک دیں تو وحی معلوم ہو۔ نذیر احمد نے عقل کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کوموضوعِ بحث بنایا گیا۔ افسانوی ادب کے اسلوب اور مزاج کو نیا پیراہن عطا کیا۔ ذکاء اللہ نے صحیفۂ نگاری کو عروج بخشا۔ مولوی سمیع اللہ نے ملک و ملت کی غمگساری اور آزادیٔ رائے کو واضح کیا، حالیؔ نے سادگی اور نرم لہجے کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاعری کی نئی جہتیں تلاش کیں، سوانح اور تنقید کے نئے معیار قائم کیے۔ محسن الملک پُر جوش مبلغ، مقالہ نگار، معاملاتِ قانون اور سیاست کے ماہر تھے۔ وقار الملک نہایت جفا کش اور اعلیٰ منتظم کار تھے۔ مولوی چراغ کو مغربی اور مشرقی علوم سے بے حد دل چسپی تھی۔ عبارت آرائی اور رنگین بیانی سے گُریز برتنے کے ساتھ نفسِ مضمون پر توجہ دلائی۔ شبلیؔ نے تاریخ و تہذیب اور سیرت و سوانح میں عالمانہ شان کے ساتھ نفاست و لطافت کو برتنے کا ہُنر بھی سکھایا۔
اِن نورتنوں کے علاوہ سید محمود علی گڑھ تحریک کے اہم رُکن ہیں۔ وہ عمر میں شبلیؔ سے سات سال بڑے تھے۔ ۲۴؍ مئی ۱۸۵۰ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ والدہ پارسا بیگم عرف مبارک بیگم اپنے اِس چھوٹے بیٹے کو بے حد عزیز رکھتی تھیں۔ سرسید نے اُن کی تعلیم پر غیر معمولی توجہ دی۔ بنارس کے کوئنس کالج سے فراغت کے بعد ۱۸۶۹ء میں وہ انگلستان گئے۔ کرائسٹ چرچ کالج کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۷۳ء میں قانون کی ڈگری لی۔ لندن سے بیرسٹر ہوکر وطن واپس آئے اور جلد ہی ماہرِ قانون کی حیثیت اختیار کرلی۔ ۲۹؍ برس کی عمر میں ڈسٹرکٹ جج اور بتّیس برس کی عمر میں الہ آباد کورٹ کے جج ہوئے۔
۱۸۸۶ء میں سید محمود کی مشرف جہاں بیگم سے شادی ہوئی۔ اِس موقع پر شبلی نعمانی نے سہرا، اور مولانا محمو فاروق چریاکوئی نے خطبۂ عقد پڑھا تھا۔ ۱۵؍ فروری ۱۸۸۹ء کو سید محمد راس مسعود پیدا ہوئے۔
سر سید نے تعلیم و تربیت کا جو خواب دیکھا۔ بنارس میں اُس کی تکمیل کے تانے بانے بُنے اور غازی پور میں اُس کا خاکہ تیار کیاتھا۔ اُس کی تفسیر و تعبیر میں سید محمود بھی اپنی ذہانت و لیاقت کی بدولت معاون رہے ہیں۔ سید محمود اِس سلسلے میں خود لکھتے ہیں:
’’جب میں ولایت میں تھا اور اس کمیٹی کے اس ارادہ کا حال سُنا کہ بعد تحقیقات اسباب ترقی تعلیم مسلمانان یہ ٹھہرا ہے کہ مدرسہ مسلمانوں کے لیے بنایا جا وے جس میں تعلیم مسلمانوں کے حال کے مناسب ہو اور نیز اس بات کی اطلاع پاکر کمیٹی نے حقوق سے مشرف کیا ہے میں نے اس بات پر توجہ کی کہ ولایت کے اسکول اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے انتظام اور طریقۂ تعلیم کو دیکھوں اور ایک تدبیر جو کہ میری رائے میں ہماری قوم کے حالات کے مناسب ہو، صلاح و مشورہ ولایت کے نامی و قابل احباب کے اس مدرسۃ العلوم کے لیے تیار کرکے کمیٹی میں پیش کردوں۔ چنانچہ تجویز میں نے مرتب کی ہے۔‘‘
سر سید کا بنیادی مقصد بلکہ نصب العین قوم کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کا تھا۔ ہر پل وہ اسی فکر میں لگے رہتے اور ہر جگہ سے فیض اُٹھانے کی کوشش کرتے۔ لندن کا سفر بھی اسی زمرے میں شامل ہے جہاں انھوں نے تعلیم و تربیت دونوں کے منصوبے بنائے اور ان میں کسی نہ کسی زاویے سے سید محمود ضرور شامل رہے، وہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’لندن ہی میں، میں نے اس مدرسہ کے قائم کرنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔تجویزوں کو پورا کیا۔یہاںتک کہ جس نقشہ پراب کالج کی عمارتوں کو بنتا ہوا دیکھتے ہیں یہ بھی لندن میں قرار پا چکا تھا۔ میں بد نصیبی سے انگریزی سے نا واقف تھا۔ میں سید محمود کا نہایت شکر گزار ہوں کہ تمام واقفیت اور اطلاعیں جو مجھ کو حاصل ہوتیں اس میں سید محمود نے بڑی مدد کی۔ مجھ کو اِس بات کے اقرار کرنے میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر ان کی مدد نہ ہوتی تو جس مقصد سے میں لندن گیا تھا، میرا جانا فضول تھا۔‘‘
(لیکچر دربیان تاریخانہ حالات کالج، مطبع مفید عام، آگرہ، ۱۸۹۴، ص ۶۔
مکتوب سر سید، ۱۹۸۱، علی گڑھ، ص ۳۵)
باپ بیٹے کے جزوی اختلاف کو خوب ہوا دی گئی مگر سر سید کالج کے حق کے لیے سب سے لڑتے رہے اور کبھی بھی تعصب و تنگ نظری کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دیا۔ جو حق اور سچ سمجھتے تھے اُس پر قائم رہے۔ سید محمود کے تعلق سے ۱۸۹۴ء میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک اور امر ہے جس کو میں بہت بڑا عظیم الشان سمجھتا ہوں گو لوگ اس کو حقیر سمجھیں کہ یہ کالج جس مقصد اور جس پالیسی سے میں نے قائم کیا ہے اور جس نتیجہ قومی پر میں نے اس پر محنت کی ہے۔ میرے بعد بھی اسی طرح اور اسی نتیجہ پر چلے۔ سید محمود ابتدا سے آج تک ان تمام صلاحوں میں شریک غالب رہے ہیں اور مجھ کو اس بات کا یقین کامل ہے کہ سوائے سید محمود کے اور کوئی شخص اس کالج کو اس طریقہ پر نہیں چلا سکتا۔‘‘
(سید محمود لیکچر در باب اشاعت موجودہ حالت اعلیٰ تعلیم انگریزی۔
مطبع مفید عام، آگرہ۔ ۱۸۹۴ء، ص ۱۲۲)
ہم سب واقف ہیں کہ سید محمود نے برِ صغیر میں رائج پچھلے سو سال کی مغربی تعلیم کے نفاذ کے جائزے کے بعد ہی اپنی سفارشات پیش کی تھیں۔ اور جب جب ضرورت پیش آئی وہ کالج کی فلاح کے لیے لکھتے رہے۔ یہاں تک کہ ۱۸۹۴ء میں قبل از وقت ملازمت سے سبکدوش ہوکر علی گڑھ آگئے۔ سر سید کی وفات کے بعد ۱۸۹۹ء میں حکومت کی سازشوں سے سید محمود کو سکریٹری کے عہدے سے ہٹا کر صرف کالج کمیٹی کا صدربنا دیا گیا اور اگلے سال انھیں اِس عہدے سے بھی الگ کر دیا گیا۔ موجودہ صورت حال سے اُکتا کر وہ اپنے چچا زاد بھائی سید محمد احمد کے پاس سیتا پور چلے گئے اور وہیں ۸؍ مئی ۱۹۰۳ء کو اُن کا انتقال ہوا۔
سر سید سے محبت و عقیدت رکھنے والوں میں سرِ فہرست راجہ جے کشن داس ہیں جو ساز گار ماحول اور ابتر حالت میں ہمیشہ ان سر سید کے ساتھ رہے۔ ۲۴؍ نومبر ۱۸۳۲ء کو مُراد آباد میں پیدا ہوئے اور ۷۲ سال کی عمر میں اِس دنیا سے رُخصت ہوئے۔ خاندانی طور پر راجہ اور اعلیٰ تعلیم کی بدولت ڈپٹی کلکٹر ہوئے۔
دونوں بزرگوں کی ملاقات مراد آباد میں ہوئی جو دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ تعلیمی مشن کو کامیاب بنانے میں اُن کا نمایاں کردار ہے۔ ۱۵؍ اگست ۱۸۶۷ء کو جب سر سید کا تبادلہ علی گڑھ سے بنارس ہواتو انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی کے تمام کام راجہ جی کے سپرد کرتے ہوئے اُنھیں سکریٹری مقرر کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جے کشن پرساد نے سوسائٹی کے کاموں کو نہایت یکسوئی اور دلجمعی سے انجام دیا۔ زیر تعمیر عمارتوں کو مکمل کرایا بلکہ دیگر کاموں کو بھی نہایت انہماک سے دیکھا۔ وہ تقریباً سات سال تک سوسائٹی کے سکریٹری رہے اور جب ۲۱؍ فروری ۱۸۷۴ء کو ان کا تبادلہ الہ آباد ہواتو دل علی گڑھ میں ہی لگا رہا۔
وسیع النظر اور وسیع القلب انسان جو تعصب اور تنگ نظری سے کوسوں دور تھا، اُن کے انہماک ، خلوص اور دل سوزی کے سبھی قائل تھے۔ اُن کے طریقۂ کار اور حُسنِ انتظام کا اظہار اُس دور کے تمام ادیبوں نے کیا ہے۔ نہایت صاف گو اور بے باک ہونے کی وجہ سے وہ بد خواہوں کو مدلل جواب دیتے ہوئے قائل کر تے جس کا تفصیلی ذکر میاں محمد امین زبیری نے ’’تذکرۂ سر سید‘‘ میں کیا ہے۔ راجہ صاحب اپنی تمام مصروفیات کے باوجود علی گڑھ میں ہونے والے بیشتر تقاریب میں شریک ہوتے، کالج کے پھلنے پھولنے کی دُعائیں کرتے۔ بہت کم لکھنے کے باوجود تصنیف و تالیف سے انھیں خاص شغف تھا اور ان کو جدید طریقے سے شائع کروانے کے منصوبے بناتے۔
سر سید اُنھیں کس حد تک عزیز رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ جب انھوں نے اپنے چار سال کے پوتے راس مسعود کی رسم بسم اللہ کرائی تو وہ راجہ جے کشن داس کی گود میں بیٹھے ہوئے مولوی صاحب سے قرآن سُن رہے تھے اور سر سید اِس ادا پر خوشی کا بر محل اظہار کر رہے تھے۔ وہ انھیں ہمیشہ اپنا دوست اور بھائی کہتے۔ سید محمود اُن کو چچا اور راس مسعود دادا راجہ کہتے تھے۔ علیگ برادری میں اُن کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ آج بھی سلیمان ہال کے جے کشن ہوسٹل میں ہونے والی تقاریب میں اساتذہ و طلبا نمناک آنکھوں سے فرطِ مسرت کا والہانہ اظہار کرتے ہیں۔
مولوی زین العابدین (۱۸۳۲ء-۱۹۰۵ء) کا شمار سر سید کے بے تکلف دوستوں میں ہوتیا ہے۔ انھوں نے مچھلی شہر ضلع جونپور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کلکتہ سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ملازمت کے ابتدائی تین سال بنارس میں گزرے۔ غازی پور میں دونوں کے تعلقات استوار ہوئے جو آخر عمر تک بر قرار رہے۔ مستقل سکونت کے لیے علی گڑھ کا انتخاب کیا۔ رہائش کے لیے کچّی اینٹوں سے بنا ہوا مکان خریدا اور اس کے طویل احاطہ کی حد بندی کے لیے خار دار تار لگوائے جس کی وجہ سے وہ مکان تار والے بنگلے کے نام سے مشہور ہوا۔ ۱۸۹۷ء میں انھوں نے اپنے اس بنگلے کو ایم۔ اے۔ او۔ کالج کے نام وقف کردیا۔
مولانا وحید الدین سلیم (۱۸۵۹ء-۱۹۲۸ء) سر سید کے شیدائی اور اُن کے لٹریری اسسٹنٹ تھے۔ انھوں نے ترجمے کیے، اداریے لکھے اور اپنے پیرو مرشد (سر سید) کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کیا۔
کس کس کی تعریف کروں، کس سے گُریز۔ ہر ایک نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے علی گڑھ تحریک کی بنیادوں کو اپنی علمی، عملی اور فنکارانہ صلاحیتوں کے سہارے اتنا پختہ کیا ہے کہ نئے ادیبوں نے فکر و فن کے جو بھی تجربات کیے یا تکنیکی تبدیلیاں کیں، اُن کے ردّے وہ اِس ٹھوس اسا س پر بآسانی رکھتے چلے گئے ہیں۔ سر سید اور رفقائے سر سید نے آنے والے مصلحین اور فنکاروں کو ایک ایسا مضبوط اور وسیع ڈھانچہ فراہم کیا ہے کہ اُن کو اپنی متنوع، پُر پیچ اور رنگا رنگ عمارتیں تعمیر کرنے میں کسی بھی دِقّت کا سامنا کرنا نہیں پڑ رہا ہے۔
در اصل سر سید اور اُن کے رفقاء کے زبردست عزم، وسیع النظری اور مضبوط قوتِ ارادی کے مشن کو ہی علی گڑھ تحریک سے موسوم کیا جاتا ہے۔ رفقائے سر سیدنے جدید تعلیم و تربیت کے غیر معمولی فوائد کے پیش نظر ادارۂ تہذیب الاخلاق، سائنٹفک سوسائٹی اور مدرسۃ العلوم علی گڑھ کی بنیاد ڈالی لیکن ماضی کے مثبت پہلوؤں کو بھی سامنے رکھ کر وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے اور مستقبل کو سنوارنے پر زور دیا۔ انھوں نے ملک کے تمام افراد خصوصاً مسلمانوں کی ترقی کے لیے علم کو بنیادی حربہ قرار دیتے ہوئے ایسا نسخہ تجویز کیا جو تیر بہ ہدف ثابت ہوا۔
مشرق کی پروردہ مگر مغرب کی نبض شناس، سر سید احمد خاں کی ذات، قدیم و جدید کا سنگم تھی۔ وہ مشرق و مغرب کی تابناک جہتوں کو یکجا کرکے ایک ایسا مینارۂ نور تعمیر کر گئے ہیں جس کی ضو پاش کرنوں سے آج بھی آنکھیں منوّر ہیں۔ وہ نواب شاہجہاں بیگم اور مولوی ضیاء الدین سے متاثر اور مولوی مملوک علی کے شاگرد خاص ہونے کی وجہ سے ایک طرف ماضی کے اُس علم کے نگہبان تھے جو مسلمانوں کی شناخت ہے اور دوسری طرف وہ نئے علوم و فنون کو برِ صغیرہندو پاک میں عام کرنا چاہتے تھے جس کے لییے سید والا نے اپنے رفیقوں کے تعاون سے کاروباری اور روز مرہ کی زبان کو فروغ دیتے ہوئے اردو نثر کو ایک نیا انداز عطا کیا۔انھوں نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ وقت تشدد کا نہیں، امن اور بھائی چارے کا ہے اور قوم کو ہر اعتبار سے مضبوط بنانے کے لیے حصولِ علم لازمی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ ترقی کی بیش تر راہیں سائنسی و استدلالی نظریات سے ہوکر گزرتی ہیں لہٰذا بے حد معتدل اور متوازن انداز میں انھوں نے اپنے لائحۂ عمل کو مرتب کیا۔ سر سید کی طرح ان کے احباب کو بھی مشرق کی علمی روایات بہت عزیز تھیں اس لیے سبھی نے اپنے مضامین، مقالات، خطبات اور مکتوبات میں مسلمانوں کے گزشتہ علوم و فنون کی عظمت کا احساس دلایا اور یہ بھی واضح کیا کہ اُن کی توقیر کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے لحاظ سے جدید طرزِ تعلیم کے حامل تھے۔ بانیانِ علی گڑھ نے قوم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ آج کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنے عصر کے تناظر میں جدید طرزِ تعلیم سے مستفید ہونے کی کوشش کریں اور ایک بار پھر ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوں۔
محدود ذرائع اور تھوڑے سے وسائل میں ہمارے بزرگوں نے کیا کچھ ایسے کارنامے کر دکھائے جو ہمارے لیے آج بھی باعثِ حیرت ہیں۔ وہ بزرگ روز مرہ کے کاموں میں مشغول رہ کر بھی تصنیفی ذوق اور تعمیری شوق کے لیے وقت نکال لیتے تھے۔ اُن میں کوئی ایسی کشش ضرور تھی کہ وہ جاہ و منصب کے لالچ کے بغیر مختلف مزاج و درجات کے لوگ اُن کے گرد جمع ہوکر، کاندھے سے کاندھا ملا کر ملّی و قومی خدمات میں شریک ہوتے رہے۔ اس طرح سر سید اور رفقائے سر سید نے ’’جنّت نشاں‘‘ کے انتہائی حسّاس منظر نامہ کو سمجھتے ہوئے کئی محاذوں پر توجہ دی۔ انھوں نے قوم کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کا جتن کیا۔ مغربی فکر و فلسفہ کی اِفادیت بیان کی، اور مشرق کی تابندہ روایات کی بازیافت بھی کی۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اخبار و رسائل کو اپنی تعلیمی ، تصنیفی، قومی ، ملّی، صحافتی، سیاسی اور ادبی خدمت کا طاقت ور ذریعہ بنایا۔ نثر کے اس مضبوط وسیلے کے توسط سے بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ آج کا ترقی یافتہ مُعاشرہ ہی نہیں بلکہ ادب بھی سر سید تحریک کا رہینِ منّت اور اُن کی عقلیت، مادیت اور حقائق نگاری کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ بلا شبہ آج کا منظر نامہ بدلا ہوا ہے۔صارفیت کے اِس دور میں ہر شخص ذاتی ترقی اور خوش حالی کو مقدم رکھ رہا ہے اور قدروں کی باتیں از کار رفتہ بنتی جا رہی ہیں۔ ہماری نئی نسل جو بے حد ذہین، سند یافتہ اور متحرک ہے نہ جانے کیوں اپنی تاریخ، تہذیب اور اردو رسم الخط سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ہم کس طرح اُنھیں اپنے بیش قیمت تہذیبی اور ثقافتی ورثہ سے منسلک رکھیں، یہ ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ چمک دمک کے جس جال میں وہ گرفتارہو رہے ہیں اُس کی گرہیں اتنی مضبوط ہوتی جا رہی ہیں کہ نجات کے ذرائع اپنی بے بسی پر اشکبار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بزرگ خاموش بیٹھے ہوئے ہوں۔ وہ امکانی جتن کر رہے ہیں مگر کامیابی ہر پل دور ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ آخر کیوں؟اس کی ایک وجہ تو ذمہ داران کی چشم پوشی قرار دی جاسکتی ہے لیکن دوسری اہم وجہ خود پر اعتبار و اعتماد کی کمی ہے۔ دراصل یہ جوہر ہی مشکل گھڑی میں کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اسی جذبۂ حرکت و عمل کو بیدار کرنے کا نام علی گڑھ تحریک قرار پایا ہے۔ ہم سب کو رفقائے سر سید کی طرح اس بابت سوچنا ہی نہیں بلکہ عمل بھی کرنا چاہیے کہ——
۱۔ نئی نسل کو کس طرح قدروں کی اہمیت، افادیت اور معنویت کا احساس دلایا جائے۔
۲۔ تہذیب الاخلاق جیسے رسائل و جرائد سے نئی نسل کو کس طرح متعارف کرایا جائے اور مستفید ہونے کی طرف اسے کیسے راغب کیا جائے۔
۳۔ انسانیت، محبت، مروت اور در گزر کے جذبہ کو کیسے فروغ دیا جائے۔
۴۔ نئی ایجادات اور معلومات سے کس طرح مثبت نتائج اخذ کیے جانے کا رجحان عام کیا جائے۔
۵۔ اکیسویں صدی میں جو عالمی معیار وضع ہو رہے ہیں، اُن کی پاسداری کے لیے خود کو کس طرح تیار کیا جائے۔
۶۔ فنونِ لطیفہ کو کیسے اپنے لیے مفید اور کارآمد بناتے ہوئے روحانی غذا کے طور پر استعمال کیا جائے۔
۷۔ مادری زبان سے کس طرح رغبت اور انسیت پیدا کی جائے کہ وہ زندگی کا لازمی حصہ بن جائے۔
اِس جانب بھی بھر پور توجہ دینی ہے کہ کسی بھی صورت حال میں مثبت سوچ کو فروغ حاصل ہو ، اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے باہمی اتحاد برتا جائے۔
بنیادی امر یہ ہے کہ ذاتی اختلاف ہونا یا افراد سے اختلاف ہونا ممکنات میں تو شامل ہے لیکن وسیع النظری کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بڑے مقصد یا مشن سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ آج کے حساس اور حبس زدہ ماحول میں اِس جانب اور بھی توجہ کی ضرورت ہے۔نئی نسل ادیبوں کو استفہامیہ انداز میں دیکھ رہی ہے کہ انتہائی مشقت سے آئی مثبت تبدیلی کے اثرات کیوں زائل ہو رہے ہیں۔ کل رفقائے سر سید نے قوم کو ڈھارس بندھائی تھی، محبت، مساوات اور انسانی فلاح و بہبود کے جذبہ کو فروغ دیا تھا۔ آج کا ادب یہ فریضہ انجام دینے سے کیوں قاصر ہے؟ مسدس میں حالیؔ نے جو قوم کی زبوں حالی کا مرثیہ پڑھا تھا ۔ کیا عالمِ اسلام کے تناظر میں اُس کے پھر سے محاسبہ کی ضرورت ہے؟
جُزوی اختلافات آج بھی برقرار ہیں مگر ہم سر سید اور رفقائے سر سید کے عظیم الشان مشن کو آگے بڑھانے میں تساہلی کیوں برت رہے ہیں! ہمارے سامنے تو یہی نصب العین ہونا چاہیے کہ جس طرح ماضی میں علی گڑھ تحریک سے وابستہ افراد سر سید کے ہم نوا بن کر پوری تَن دہی سے فلاح و بہبود اور تعمیر و تشکیل کی ڈگر پر چلتے رہے، اُسی طرح ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے۔ رفقائے سر سید کا بنیادی مقصد اپنے ہم وطنوں اور اُن کے توسط سے عالمی برادری کو قدامت پرستی کے خار زار سے نکالنا اور جدید علوم و فنون سے واقف کرانا تھا مگر اس کے لیے وہ سب بہت احتیاط کے ساتھ چلے جس میں یہ ملحوظ رکھا گیا کہ ردّ و قبول کے دُشوار گزار مرحلہ میں قدیم تہذیب کی صحت مند روایات کا بھر پور احترام ہو اور نئی چیزوں کو برائیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ دو دھاری تلوار جیسی راہ سے ہم آج بھی گزر رہے ہیں لہٰذا ہمیں عصر حاضر کے تبدیل ہوتے ہوئے معاشرتی منظر نامے کی تاریک راہوں کو روشن کرنے کے لیے سرسید اور اُن کے معاصرین کے افکار و نظریات اور عملی جدو جہد کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

کتابیات /حواشی:
سوانح عمری حاجی مولوی محمد سمیع اللہ، مصنف مولوی ذکاء اللہ ۔ انوار الاسلام حیدر آباد، ۱۹۰۹ء
تذکرہ مولوی ذکاء اللہ دہلوی، اردو ترجمہ ضیاء الدین احمد برنی۔ کراچی ۱۹۵۳ء
ناموارنِ علی گڑھ۔ سہ ماہی رسالہ، فکر و نظر، علی گڑھ۔ پہلا کارواں، طبع سوم مارچ ۲۰۰۹ء
اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام، پہلی جلد ۱۹۱۰ء،مطبع مفید عام آگرہ، دوسری جلد ۱۹۱۱ء رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور۔
٭٭٭٭٭

Leave a Comment