عہد حاضر کے سخن گو اور کوروناوائرس

\"\"
٭ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

قرنطین ، قید تنہائی، خلوت، اکیلا پن کسی وبا جیسے کورونا ، طاعون وغیرہ کی وجہ سے ہو یا حکومتِ وقت کسی جائز یا ناجائز وجہ کی بنیاد پر کسی کو بھی قید میں ڈال دے یا ڈلوادے،شاعروں یا قلمکاروں کے لیے قید تنہائی خواہ کسی بھی صورت میں ہو تخلیق کا باعث ہوتی ہے۔ دنیا میںبے شمار شاعروں، ادیبوں، سماجی و سیاسی رہنماؤں نے قرنطین ہونے یا قید تنہائی سے تخلیقی فائدہ اٹھایا ۔ ایسے لوگوں کی مثالیں مغربی ادب میں بھی ملتی ہیں اور مشرق میں بھی بے شمار ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل اور پاکستان میں بھی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ سیاسی لوگوں ، شاعروں ، نثر نگاروں اور لکھاریوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈلوادیا ۔ایسی صورت میں شاعروں نے شاعری کی، نثر نگاروں نے نثر لکھی، سماجی شعبہ سے تعلق رکھنے والوں نے عام طور پر اپنی خود نوشت یا یادداشتیں رقم کیں، سیاسی لوگوں نے سیاست اور تاریخ کو اپنا موضوع بنایا۔ اس موضوع پر فہیم انصاری نے ایک کتاب تالیف کی جس کا عنوان ہے ’موضوعات شاعری : قید و بند‘‘۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے مطابق عبدالمجید قریشی کی کتاب ’’کتابیں ہیں چمن اپنا‘‘ میں بھی اس موضوع پر ایک مکمل باب موجود ہے جس سے ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے استفادہ کیا، ان کی یہ تحریر انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ ڈاکٹر روؤف پاریکھ نے جن مغربی مفکرین اور دانشوروں کے نام لکھیں ہیں جنہوں نے قید تنہائی میں تخلیقی کام کیا ان میں فلسفی یونیتھیس کو تھیوڈارک دے گریٹ، مارکو پولو، ہسپانوی ناول نگار کیرونٹس، الٹر سکاٹ ریلیگ، آسکر وانلڈاردو ادب کے حوالے غالب، بہادر شاہ ظفر، فیض الحق خیر آبادی، جعفر تھانیسری ، حسرت موہانی، محمد علی جوہر، مولانا ابو الکلام آزاد، چوہدری افضل، ظفر علی خان، فیض احمد فیض،احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، علی سردار جعفری، نعیم صدیقی،
مکمل معلومات تاحال جمع نہ ہوسکیں کہ کس کس شاعر اور ادیب نے جیل میں کیا لکھا۔بعض کی تصانیف ان کے جیل میں رہتے ہوئے شائع ہوئیں اور بعض کی تخلیقات انہوں نے اپنی رہائی کے بعد شائع کیں۔ میرا موضوع کورونا کے دوران لمحہ موجود کے شعرا کا تنہائی کے دنوں میں کورونا کو اپنی شاعری کا موضوع بنانا ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ کورونا کی وبا کے دوران شعرنے کیا کچھ اور کس انداز سے کہا، انہوں نے اس وبا کو کس انداز سے پیش کیا، اپنی تنہائی کا زکر کس طرح کیا، وبا کے کیسے مخاطب کیا، یہ شاعری کہیں نہ کہیں منظر عام پر آچکی ہیں تاہم بعض دوستوں نے میری درخواست پر شعریا قطعہ کہا ۔ تمام شعرا اور ان کے کلام کا مکمل احاطہ کرنا ممکن نہیں خاص طور پر ایک مضمون میں تاہم اس موضوع پر کتاب مرتب کی جاسکتی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ شعرا اور ان کی مکمل غزلیں یا نظموں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں شعرا اور ان کے کلام کا انتخاب اخبارات، رسائل، فیس بک، واٹس اپ ، مختلف ویب سائٹس یا میسنجر اور واٹس اپ پر میسیجیز سے کیا گیا ۔ یقینا بہت سے شعرا کا کلام شامل نہیں ہوسکا، زندگی رہی تو مضمون کا دوسرا حصہ جلد مرتب کیا جائے گا۔
انور شعور
معروف شاعر انور شعور نے کورونا کے دنوں کی تنہائی میں ماضی کی ادبی محفلوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ احباب کی محفلیں نہیں رہیں اب تو بس کورونا ہے اور ہم ہیں۔ عمدہ قطعہ ۔
میسر گھر میں آزادی ہے پھر بھی
کوئی قید نفس ہے اور ہم ہیں
کہاں احباب کی وہ محفلیں اب
کورونا وائرس ہے اور ہم ہیں۔
امجد اسلام امجد
کورونا سے زندگی اس طرح مفلوج اور بند ہوجائے گی، کورونا کی موجودہ کیفیت کو کئی شعرا نے اپنے اپنے انداز سے اشعار میں بیان کیا ہے۔امجد اسلام امجد اپنے اس شعر میںزندگی کے بند ہوجانے کی کیفیت کو خوبصورت انداز سے بیان کرتے ہیں۔
بند ہوجائے گی ایک دم زندگی ایسے سوچا نہ تھا
یہ جو اب ہوگیا خواب میں بھی کبھی ہم نے دیکھا نہ تھا
محمود شام
تنہائی کورونا کا علاج کہا جارہا ہے بلکہ اس وبا کا علاج ہی تنہائی سامنے آیا ہے۔اس موضوع کومعروف شاعرشاعر ، کالم نگار، محمود شام اپنی ایک غزل میں کورونا کے بارے میں کہا کہ یہ عجیب درد ہے جس کا علاج تنہائی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب مساجد میں نماز کی اجازت کی بات کی گئی تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ مساجد کعبے سے بڑی ہیں کیا۔ اس وقت کعبہ اور مسجد نبوی بھی بند کر دیے گئے تھے۔محمود شام کی نظم کے چند اشعار۔
عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
کیوں تاجر و عالم ہوئے ادراک سے محروم
احسان نہیں ساعتیں یہ کتنی کڑی ہیں
ہیں قیمتی افراد کی جانیں کہ دکانیں
کیا مسجدیں اس شہر کی کعبے سے بڑی ہیں
ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر
ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبرسخن وروں کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام، پروفیسر سحر انصاری کی صاحبزادی۔ آجکل آرٹس کونسل آف پاکستان کی ادبی کمیٹی میں فعال اور سرگرم ۔ کہنا مشق ،زیرک اور مدبر شاعرہ اور شاعری کی کئی اصناف میں اپنے فن اور شاعرانہ صلاحیت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ ان کے کلام میں حقیقت نگاری نمایاں ہے ۔ عمدہ شعر کہتی ہیںبلکہ لاجواب شاعری کرتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی فیس بک وال پر کرونا کے حوالے سے یہ نظم پوسٹ کی گئی جسے احباب نے بہت پسند کیا ۔ اس میں حقیقت کی عکاسی نظر آرہی ہے۔ ان کی نظم دیکھئے۔
زمیں پہ انسان خدا بنا تھا وبا سے پہلے
وہ خود کو سب کچھ سمجھ رہا تھا وبا سے پہلے
پلک جھپکتے ہی سارا منظر بدل گیا ہے
یہاں تو میلہ لگا ہوا تھا وبا سے پہلے
تم آج ہاتھوں سے دوریاں ناپتے ہو سوچو
دلوں میں کس درجہ فاصلہ تھا وبا سے پہلے
عجیب سی دوڑ میں سب ایسے لگے ہوئے تھے
مکاں ، مکینوں کو ڈھونٹتا تھا، وبا سے پہلے
ہم آج خلوت میں اس زمانے کو رو رہے ہیں
وہ جس سے سب کو گلہ تھاوبا سے پہلے
نہ جانے کیوں آگیا دعا میں میری وہ بچہ
سٹرک پہ جو پھول بیچتا تھا وبا سے پہلے
دعا کو اٹھے ہیں ہاتھ عنبر تو دھیان آیا
یہ آسماں سرخ ہوچکا تھا، وبا سے پہلے
ذیب اذکار حسین
ذیب اذکار حسین نے بطور خاص میری درخواست پر قطعہ عنایت فرمایا، انہوں نے کورونا یا کووڈ19کو الرجی کی صورتیں کہا کہ اسے خود سے منایا جائے اس کے لیے دوسرے کا ہونا لازمی نہیں۔ کورونا کے حوالے سے منفرد خیال، عمدہ شاعری۔ ذیب اذکار صاحب نے ادیبوں اور شاعروں کو کورونا کے دوران مستقل مصروفِ شعرو ادب کیا ہوا ہے۔ مجھے ان کی برقی میڈیا پر حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام ادبی نششتوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ کئی ادیبوں اور شاعروں سے متعارف ہوا، ان کا کلام اور گفتگو سے فیض حاصل کیا۔ کورونا کے دنوں میں شاعروں اور ادیبوں کی مثبت مصروفیت کی بہترین مثال۔ دیکھئے ذیب صاحب کا قطعہ ۔
ہیں الرجی کی صورتیں ساری
کووڈ انیس کیا کورونا کیا
خود سے مل کرمنائیے خود کو
لازم ہے دوسرے کا ہونا کیا
چودھری بشیر شاد (ایتھنز، یونان)
بشیر شادسمندر پار میرے ادبی دوست ہیں، یونان کے شہر ایتھنز کے باسی ہیں۔یہ شاعر ہی نہیں بلکہ افسانہ نگار ، کالم نگار، کہانی نویس ، فیچر رائیٹر بھی اور انٹر ویو لینے کے ماہر بھی، یہ جتنا اچھا لکھتے ہیں اس سے اچھا بولتے بھی ہیں ، میں نے تو ان کی آواز کا جادوں موبائل پر محسوس کیا، یہ ریڈیوں کے پروڈیوسر بھی رہے ٹی وی اینکر بھی۔ ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں اور خوبیوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ سوشل میڈیا پر متعدد ادبی گروپس کے روح رواں ہیں۔ حال ہی میں یو ٹیوب ٹی وی چینل (tv4u)کے نام سے شروع کیا جس میں ان کے افسانے اور کالم مجھ سمیت مختلف احباب کی آواز میں بشیر شاد کا جادو جگا رہے ہیں۔شاد صاحب کے متعدد شعری مجموعے منصہ شہود پر آچکے ہیں ، ’قوسِ قزح‘، ’ شفق‘ اور ’پونم‘ میری نظر سے گزرے ۔ پونم کا مطالعہ کرنے اور اس پر کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں لکھنے کی سعادت حاصل ہوچکی ہے۔کورونا یا وبا کے حوالے سے مجھے ان کی کوئی نظم، غزل ، قطعہ یا شعر نہ مل سکا۔ ذیل میں درج قطعہ ہماری سیاسی صورت حال کو بیان کرتا دکھائی دے رہا ہے۔آج ہم جس زوال سے دوچار ہیں اس کی ایک وجہ نفاق ہی تو ہے۔ پاکستان میں وفاق اور سندھ ، وفاق اور حزب اختلاف کے مابین جو نفاق موجود ہے درحقیقت موجودہ وبا، پریشانی، مشکلات ہی ہماری پریشانی کا موجب ہے، شاد صاحب نے درست سمت نشاندھی کی ہے کہ ہمیں اپنے اعمال اور اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
آتا ہے جب بھی کسی قوم پہ زوال
شامل حال ہوتا ہے نفاق کا کمال
وقت ابتری میں سوچوں کی خستہ حالی
قبلہ سیدھا کر لو ، اپنا نامہ ‘ اعمال
خالد عزیز(کنیڈا)
مزاحیہ شعری مجموعہ ’بیگم نامہ ‘ کے خالق جناب خالد عزیز جو کنیڈا میں مقیم ہیں ، مجھ پر بہت مہر بان ہیں، وہ اس طرح کہ میرے بارے میں ایک قطعہ عنایت فرماچکے ہیں۔ کورونا کے دنوں میں انہوں نے اس وبا کو اپنا موضوع بنایا، کہا تو بہت کچھ ہوگا، میری پہنچ جن اشعار اور قطعات تک ہوئی وہ پیش خدمت ہیں۔
کورونا سے بچ کر کہا جاہیے گا
جہاں جاہیے گا وہیں پائیے گا
کورونا کی موجودگی میں رمضان المبارک بھی آئے اور پھر عید بھی ، خالد عزیز نے عید کے دن ملاقات کا حال اپنے ایک شعر میں حسین انداز سے بیان کیا ۔
ہم عید پر ملیں گے ، مگر دور دور سے
منہ پر لگائے ماسک ملیں گے حضور سے
اردو کی معروف شاعرہ عشرت معین سیما نے بھی عید الفطر کے حوالے سے اپنی ٹائم لائن پر یہ شعر پوسٹ کیا ۔ ان کا انداز مختلف ہے انہوں نے عید کو رسموں کے رنگ قرار دیتے ہوئے، اس بار عید کی منفرد کیفیت کا ذکر کیا ہے۔حقیت کی ترجمانی کرتا شعر۔
رسموں نے کچھ رنگ بدلا ہے
عید نے اب کے ڈھنگ بدلا ہے
اس عید کو ڈاکٹر عنبر حسیب عنبر نے بھی موضوع بنا یا ۔ انہوں نے کہا۔
عید آئی مگر خوشی کے بغیر
پھول جیسے ہو دل کشی کے بغیر
زندگی ہوگئی ہے کچھ ایسے
آنکھ جیسے ہو روشنی کے بغیر
کیا کوئی اور بھی قیامت ہے!
اب تو بچے بھی ہیں ہنسی کے بغیر
کچھ عجب طور سے دکھا ہے دل
ورنہ میں! اور شاعری کے بغیر
رنج اُٹھائے ہیں اس قدر عنبر
آنکھ روتی ہے اب نمی کے بغیر
عشرت معین سیما(برلن، جرمنی)
عشرت معین سیما کی ایک اور غزل کے دو شعر دیکھئے۔
بوئے گل ہو کہ ہوا ہو کہ محبت کہ وبا
اتنی سرکش ہے کہ سرحد کو نہیں مانتی ہے
ایک سیلاب امنڈ آیا ہے دل میں سیما
تشنگی درد کے اس مد کو نہیں مانتی ہے
اصغر خان
اصغر خان صاحب ادیبوں اور شاعروں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ محبت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں،کچھ عرصہ ہوا ایک ادبی تقریب میں ان کے برابر بیٹھنے کا اتفاق ہوا، بس وہیں سے ادبی تعلق جڑگیا، مزاح نگار ہیں، مزاح بہت عمدہ لکھتے ہیں۔ شاعر بھی ہیں ، میں نے ان سے مدعا بیان کیا کہ لمحہ موجود کے سخن وروںکی محفل میں آپ کی شمولیت چاہتا ہوں، کورانا پر کچھ کہا ہو تو عنایت فرمائیں، جواب ان کا آیا ، لکھا ، رئیس بھائی ایسا تو کچھ بھی نہیں لکھا البتہ ایک دن ایک بات ذہن میں آئی اور وہ شاید لوگوں کو پسند نہ ہو بہر حال یہ میرا مشاہدہ ہے، شعر لکھا۔
دین و مذہب تصوف و الحاد
اتنے بے بس کبھی نہیں دیکھے
اس شعر پر میں کچھ جزبزسا ہوا، پھر انہوں نے لکھا کہ رشتوں کی ناپائیداری ایثار سب کا بھرم بھی کھو دیا ، ان کا اشارہ یقینا موجودہ وبا کی صورت حال ہی جانب ہے۔ سچ بھی یہی ہے۔
ہر کوئی ہر کسی سے ڈرتا ہے
باپ بیٹی سے بیوی شوہر سے
انجم عثمان
انجم عثمان معروف شاعرہ ہیں۔انہوںنے زندگی کی رونق ، لذت، دل کی آزردگی، امن آشتی اور یک دلی کے چلے جانے کا ذکر کرتے ہوئے ، شہر کو بلاؤں کی زد میں کہا۔ عمدہ شاعری۔
رونقِ زندگی گئی، سو گئی !
لذتِ خامشی گئی، سو گئی
گنگناتی ہے چار سو وحشت
دل کی آزردگی گئی سو گئی !
ہیں بلاؤں کی زد میں شہر کے شہر
امن اور آشتی گئی سو گئی
ربط ٹوٹا نہیں مگر انجم
ان سے وہ یک دلی گئی سو گئی
ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ
ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ نے قرنطینہ کے حوالہ سے ایک نظم کہی اس کا پہلا شعر
ہم سے لاک ڈاؤن میں دل گھر میں لگایا نہ گیا
اور گھر کو بھی قرنطینہ بنایا نہ گیا
ڈاکٹر شفیق آصف۔ میانوالی، صدر شعبہ اردو ، سرگودھا یونیورسٹی ، میانوالی کیمپس
ڈاکٹر شفیق آصف۔ شعبہ اردو ، سرگودھا یونیورسٹی ، میانوالی کیمپس میں استاد اور صدر شعبہ بھی ہیں، شاعر ، نثر نگار، تنقید نگار اور بہت ہی محترم دوست ، بنیادی طور پر ملتان سے تعلق ، اس حوالے سے بھی مجھ سے تعلق بنتا ہے ، ملتان کے میرے کئی احباب سے ڈاکٹر صاحب کا تعلق ہے ، تابش صمدانی مرحوم سے تعلق رہا جو میرے خاندان کے معروف شاعر تھے۔ کورانا کے حوالے سے ایک شعر کی فرمائش کی تھی سو انہوں نے عطا کیا ، دیکھئے ، کیا کہتے ہیں ۔
کیسی دہشت ہے بدن پر طاری
ہم کرونے سے ڈر ے جاتے ہیں
شگفتہ شفیق
شگفتہ شفیق شاعری کی دنیا میں معروف اور سرگرم ہیں۔ کراچی کی کوئی بھی شعری محفل ان کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ پہلے روایتی محفلوں کی زینت تھیں اب برقی مواصلاتی ایب پر منعقد ہونے والے مشاعروں میں دلچسپی اور شوق سے سنی جاتی ہیں۔ اپنے نام کی طرح شگفتہ رو،خوش اخلاص، خوش مزاج، ملنسار، ہنس مکھ، شعر و ادب میں مستغرق ۔اچھے شعر کہتی ہیں۔ان کی ایک نظم کے دو اشعار۔
ہنستی بستی سے بستیاں خاموش۔
کیا کہوں کیوں ہیں مہر باں خاموش
اس کرونا نے کردیا ہے تباہ
در پہ تالہ ہے کھڑکیاں خاموش
وبا۔۔۔۔۔
محفل میں آج تذکرہ پھر سے وفا کا تھا
اب دیکھنا ہے حوصلہ کس میں جفا کا تھا
ایسا عجیب وقت تھا دہشت تھی ہر طرف
ہر ایک دل پہ خوف جو چھایا وبا کا تھا
انور ظہیر رہبر۔ جرمنی
انور ظہیر رہبراچھے شاعر، عمدہ افسانہ نگار و ترجمہ نگار، محبت کرنے والے باپ، معروف شاعرہ عشرت معین سیما کے شوہر، ہنستامسکراتا چہرہ، خوش اخلاق،عزت و احترام دینے والے ۔ حال ہی میں ان کے فن و شخصیت پربھارت کی معروف علمی و ادبی شخصیت امتیاز گورکھپوری نے ایک کتاب تالیف کی ’لفظ بولیں گے میری تحریر کے‘مرتب کی جو رانور ظہیر رہبر کے فن اور شخصیت کا سیر حاصل احاطہ کرتی ہے۔رہبر صاحب نے میری درخواست کورونا کے حوالے سے یہ کلام عنایت فرمایا۔
شہر اپنا ہے مگر اجنبی لگتے ہیں لوگ
اب یہاںسہمے ڈرے سے جاتے کیوں رہتے ہیں لوگ
کردیا کرونا نے حال شہر اتنا برا
گھر میں رہتے ہیں مگر گھر سے ڈراکرتے ہیں
حجاب عباسی
حجاب عباسی معروف شاعرہ ہیں، کورونا کے دوران کیسی کیسی ہستیاں دنیا سے رخصت ہوئیں، کچھ کورونا کے باعث اور کچھ طبعی طور پر ہم سے جدا ہوگئیں خاص طور پر پروفیسر انوار احمد زئی، ڈاکٹر آصف فرخی، پروفیسرسرور جاوید، اطہر شاہ خان، آزاد بن حیدر، نعمت اللہ خان اور دیگر ، حجاب عباسی کی نطم کا ایک شعر دیکھئے۔
اس سال زمیں کی قسمت میں انمول خزینے لکھے ہیں
کچھ ہیرے سینت کے دامن میں لو آج یہ مالا مال ہوئی
کرامت غوری(کنیڈا)
کنیڈا میں مقیم سابق سفارت کار کرامت غوری جنہوں نے اپنی خود نوشت ’’خود نوشت روزگار سفیر‘‘ کے نام سے تحیریر کی ، شاعر بھی اچھے ہیں، فیس بک پر اکثراپنا کلام شیئر کرتے ہیں،ان کے دو اشعار پیش ہیں۔
یہ کیسی وبا آئی ہے بستی میں ہماری
اک دنیا پریشان ہے کیا آہ و فغاں ہے
یہی خلاصہ ہے صبر و رضائے ایماں کا
براہو وقت تو اس سے کبھی نہ گھبرانا
شکیلہ رفیق
شکیلہ رفیق کی نظم’ تنہائی‘۔
جب وہ کہتے ہیں
تنہائی سے سمجھوتہ نہیں ہوتا
تب
میں ہنستی ہوں
کیسے نہیں ہوتا
ہمیشہ ساتھ رہتی ہے
باقی کون ہے
جو ساتھ دے
پاگل
تنہائی کا ساتھ بھی چھوٹ گیا
تو کیا ہوگا؟
یہ
اس کو کون بتائے
جس کے بعد اک سناٹا ہے
اور اک جپ!!!
صبا ممتاز بانو ۔ لاہور
صبا ممتاز بانو کا تعلق شہر لاہور سے ہے، صحافی ، افسانہ نگار اور شاعر ی میں ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔ لاہور میں صحافتی سرگرمیوں میں نمایاں ، شعری محفلوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ان کی ایک نظم ’خاموشی‘ کوروناکے حالات کی عکاسی کرتی ہوئی۔
خاموشی۔۔۔۔
سنسان ہوئے رستے
تھم گئی ساری آوازیں
قدموں کی آہٹ ماند پڑی۔۔
مٹی نے سرگوشی کی
دور کوئی چرواہا بولا
موت نے جیسے دستک دی
گور ہوئی منزل
خوف سے سب نے آنکھیں موندیں
بدن کی مٹی سپرک خاک ہوئی
روشن چہرے ویران ہوئے
بس یادیں رہ گئیں اور دعائیں
کیا جانے کب کیا ہو
خاموشی۔۔ بے بسی اور بس خاموشی۔۔۔
رفعت بلخی
رفعت بلخی معروف شاعرہ ہیں ۔ انہوں نے موجودہ مشکل حالات کا نقشہ بہت خوب کھینچا۔ ان کی نظم کے چند اشعار پیش ہیں۔
موت ہنستی ہے مرے شہر پہ بانہیں کس کے
شہر کے لوگ بھی مرتے ہیں ارادے کر کے
بھوک بیماری اور ظلمت کے درِ زنداں سے
زندگی کیوں نہ سمٹ جائے بہانے کر کے
اب ضرورت کہاں باقی ہے مسیحائی کی
کوئی آتا ہی نہیں جینے کی خواہش کر کے
اوڑھنی ڈال کے چہروں پہ جشن فرماؤ
رفعت سو جاؤ اب مرنے کے بہانے کر کے
مہر جمالی
مہر جمالی کراچی کی شعرو ادب کی محفلوں میں متحرک ہیں، ان کا کلام توجہ اور شوق سے سنا جاتا ہے۔ اچھے شعر کہتی ہیں، اپنا شعری مجموعہ مرتب کرنے اور منظر عام پر لانے کی سعی میں مصروف ہیں۔انشا ء اللہ ان کا شعری مجموعہ جلد منظر عام پر آجائے گا۔درخواست پر اپنا کلام عنایت کیا۔
وبا کی رت گذرجائے
تو پھر بیٹھیں گے مل جل کر
وبا کا خوف پھیلا ہے
کہیں جانے سے قاصر ہیں
ہمیں اک جنگ لڑنی ہے
کرونا سے یہاں ہر پل
ڈاکٹر عابد خورشید
سرگودھا میں مجھ سے محبت کرنے والے میرے دوست اور عزیز ڈاکٹر عابد خورشید اب لاہور یونیورسٹی، سرگودھا کیمپس میں شعبہ اردو سے وابستہ ہیں، سرگودھا کی علمی ادبی حلقوں میں معروف اور مصروف ، اچھے شعر کہتے ہیں، مجھے انہیں قریب سے دیکھنے ، ان کا کلام سننے کا اتفاق ہوا، جب 2011 میں وہ اور میں ایک ہی شعبہ میں تھے۔محنتی اور باصلاحیت،اچھی شاعری کرتے ہیں، میں نے ان سے درخواست کی کہ کورونا کے حوالے سے اپنی کسی نظم کا ایک شعر عنایت کریں ، دوسرے ہی لمحے میسیج آیا ، خوبصورت الفاظ، کورونا کے دو ٹوک پیغام پر مبنی شعر ۔
لفظ، نسبت، وجود سب موقوف
جاؤ اب میرے گھر نہیں آنا
نسرین پراچہ
نسرین پراچہ ایک کہنہ مشق شاعرہ ہیں اور شاعری کی کئی اصناف میں اپنی شاعرانہ شخصیت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں۔ نسرین پراجہ ایک اچھی شاعرہ ہی نہیں بلکہ وہ ایک اچھی انسان بھی ہیں۔ فیس بک ان سے ادبی تعلق کی وجہ بنا۔ انہوں نے اپنا کلام بطور خاص اس مضمون کے لیے عنایت کیا۔
وہ خاموش بستی
اور سنسان گلیاں
وہ سونے چمن زار
وہ خالی بازار
درختوں پہ بیٹھے
خاموش پرندے
سہمی ہوا !
اور چاند تنہا
تاروں کے منڈپ
دھواں ہی دھواں
درِ خاور
کھلا ہی ہوا ہے
تپش، گرمی، دھوپ
کا اِک سماں ہے
ابر کا یہاں
نہ کوئی گماں ہے
چلو مل کے سب
جوڑ کر اپنے ہاتھ
خطاؤں کو اپنی معاف کرائیں
افضل رضوی (آسٹریلیا)
میرے سمندر پار ادبی دوستوں میں افضل رضوی صاحب بھی ہیں۔افضل رضوی کا میدان عمل نباتات ہے ، وہ سائنسداں اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال شناس ہونے کا عملی ثبوت فراہم کرچکے ہیں۔ کلامِ اقبالؔ میں مظاہرِ فطرت اور مطالعہ نباتات میں تحقیق وجستجو ان کا خاص موضوع ہے۔ان کا شوقِ فراواں کا ثبوت اقبالؔ پر ان کی کتاب ہے ، دو جلدیں اس موضوع پر آچکیں ہیں ، تیسری آیا چاہتی ہے۔ مجھ پر خاص مہرباں ، اس مہر بانی کا ذکر سر دست نہیں کررہا، جلد سامنے آجائے گا۔ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں، ان کا کلام کورونا کے حوالے دیکھئے۔
عہدِ کورونا میں جینا کسی کو سستا کسی کو مہنگا پڑگیا
غم و الم کا عذاب بلا تقصیر و جرم سہنا پڑگیا
ہر کس و نا کس گھر میں قرنطینہ ہوا سانس کی خاطر
عادیانِ ہنگام ِمحفل کو جدا سب سے رہنا پڑگیا
ہر شب کسی بزم ِ طرب میں کرتے تھے موج مستی
انہیں بھی الگ گھر کے ایک کونے میں رہنا پڑگیا
خبر ہے کہ جو کہتے تھے کہ کیا ہے؟ کورونا ورونا!!
کانفرنس میں انہیں بھی پہن کر ماسک جانا پڑگیا
اب تو ٹلتے ٹلے گی یہ بلا صاحبانِ عقل و دل
عتاب رب محمدﷺ کے سامنے کفر کو بھی جھکنا پڑگیا
ظفر اقبال
ظفر اقبال روزنامہ دنیا میں کالم تحریر فرماتے ہیں۔ ان کے دو شعر۔
ڈر نہیں بادام سے اخروٹ سے
بچ نہیں پاؤگے اس کی چوٹ سے
اس کو چھونا نہیں ہے ،کارونا
پھیل سکتا ہے کرنسی نوٹ سے
ارشد قریشی
ارشد قریشی ہماری ویب رائیٹرز کلب کے ساتھی ہیں، شاعر ،صحافی، کالم نگار، ریڈیو ، اب ہم سماج ٹی وی پر اپنے جوہر دکھارہے ہیں۔ انہوں نے جو شعر ارسال کیا وہ وبا کے خوف کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرہ کی ایک زمینی حقیت کو بھی آشکار کرتا ہے۔ بڑے اہم نکتہ کے جانب انہوں نے اشارہ کیا ہے جو حقیقت پر مبنی ہے، زرا سوچیں ان لوگوں کے بارے میں جو تنہا ایک پر تعایوش کمرہ میں قرنطینہ ہوئے یا اپنے صاف ستھرے ، تمام ضروریات زندگی کے ساتھ قرنطین ہوئے اور مشکل وقت گزرگیا، وبا کووڈ19ان فٹ پاتھ پر رہنے والوں پر بھی اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک طریقے سے حملہ آور ہورہا ہے وہ غریب اپنا وقت کیسے پورا کرتے ہوں گے۔ بہترین شعر۔
وبا کے خوف سے محفوظ ہوئے ہیں گھر پر
کتنا ڈرتے ہوں گے فٹ پاتھوں پر رہنے والے
حبیبہ طلعت(اسلام آباد)
حبیبہ طلعت کا شہرِ اقتدار سے تعلق ہے، شاعری بھی خوب اور مزاح بھی خوب لکھتی ہیں۔ انہوں نے بھی از راہ عنایت میری درخواست پر کورونا کو اپنا موضوع بنایا اور حسب ذیل کلام عنایت فرمایا۔
انسان کو دیوتا بنایا
اس دور نے کیا نہیں جتایا
قادر ہے خدا کی ذات طلعت
کورونا نے یہ سبق سکھایا
یگانہ نجمی(حیدر آباد سندھ)
یگانہ نجمی پیشہ کے اعتبار سے استاد ہیں۔ شاعری، کالم نگاری اور مضمون نگاری ان کے مشاغل ہیں۔ حیدر آباد سندھ کی باسی ہیں۔ اردو میں ماسٹر کرچکی ہیں، اب ایک نامور خاتون ادیبہ، شاعرہ، کالم نگار پر جامعہ سندھ سے ایم فل کر رہی ہیں۔یگانہ نجمی ایک اچھی شاعرہ ہی نہیں بلکہ ایک اچھی انسان بھی ہیں۔انہوں نے کم کم کہا لیکن جو کچھ کہا بہت خوب کہا ۔ اپنی ایک غزل عنایت کی جس سے موجودہ حالات کی تصویر کشی ہوتی ہے۔
زندگی اک عذاب لگتی ہے
ہر تمنا سراب لگتی ہے
اس طرح ہم غموں میں جیتے ہیں
کہ خوشی اب خراب لگتی ہے
پوچھ لو ان اسیروں سے کہ جنہیں
قید بھی اک حباب لگتی ہے
کہہ تو سکتے ہیں آپ سے کچھ ہم
خامشی ہی جو اب لگتی ہے
یوں تسلسل ہے زندگی کا روز
یہ نصابی کتاب لگتی ہے
میرے اندر چھپی ہوئی لڑکی
کس قدر کامیاب لگتی ہے
تیری خوشبو سی آتی ہے نجمی
یاد آہ گلاب لگتی ہے
فہیم اختر(لندن)
فہیم اختر صاحب اردو کے معروف شاعر اور شعر و ادب کی دنیا میں متحریک و سرگرم عمل ہیں۔ لندن کے باسی ہیں۔ ان کی ایک غزل کے دواشعار ۔
رنج و غم درد و الم وحشت کی ماری زندگی
ہے عذاب ہجر کی زد میں ہماری زندگی
بے سبب جینے میں آخر لطف کیا ہے دوستو
فائدہ ہی کیا اگر ہو جاں پہ بھاری زندگی
وفا صمدانی
وفا صمدانی کا تعلق ملتان سے ہے، ان کاایک تعلق مجھ سے بھی ہے، یہ میرے والد کے چچا زاد بھائی تابش صمدانی جو میرے چچا ہوئے کی بیٹی ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے پردادا (شیخ محمد ابراہیم آزاد) ، دادا(جناب خلیل صمدانی)، والد(جناب تابش صمدانی) صاحب دیوان شاعر تھے ، یہ خود شاعرہ ان کے دو بھائی رہبر صمدانی اور سرور صمدانی بھی شاعر۔ اس گھرانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہمارے خاندان کی شاعرانہ روایت کو تسلسل کے ساتھ قائم و دائم رکھا اور آگے بڑھا رہے ہیں۔ وفاشاعری کی ابتدائی منزل میں ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ پختگی آتی جائے گی۔یہ شعر بے ساختگی میں کہا گیا لگتا ہے ۔
یا الٰہی یہ کیسا کورونا ہے
ہر طرف رونا ہی رونا ہے
ادریس صدیقی۔ ملتان
کس طرح لوگ ہوئے قید گھروں میں اپنے
ہم فقط دیکھ کے حیران ہوئے جاتے ہیں
موت رقصاں ہے یہاں کوچہ و بازار میں
خوف سے زرد سب انسان ہوئے جاتے ہیں
کوئی بتلائے ہمیں جان چھٹے گی کس روز
روز معدوم اب امکان ہوئے جاتے ہیں
شمسہ نجم ۔ لاس اینجلس
گھروں میں رہنے کا اب حکم ہے سب کو
کسی سے ہاتھ اپنا ہم ملانے تک سے ڈرتے ہیں
گلے ملنابہت ہی دور کی اب بات لگتی ہے
نہیں فراز کا یہ قول بھلانے والا
شاہد عزیز
فاصلے اتنے رکھو کہ آواز سنائی دے
قربتیں اتنی رکھو کہ لذت تنہائی دے
ڈاکٹر محمد اشرف کمال ۔ بھکر
کسی سے ہاتھ ملاؤ نہ اب گلے سے ملو
کہ احتیاط ضروری ہے زندگی کے لیے
نکل کے گھر سے نہ جاؤ وبا کا موسم ہے
پڑا ہے بہت وقت دوستی کے لیے
ابراہیم اشک۔ ممبئی
وبائیں پھیلیں گی ملکوں ملکوں
نہ روک پائے گا جن کو کوئی
پشیماں ہوکے دعائیں مانگو
دوا سے کوئی بھی حل نہ ہوگا
کامران عادل۔ مظفر نگر، یوپی
کامران عادل کا تعلق ہندوستان کے ضلع مظفر نگر ، یوپی سے ہے، مظفر نگر میرے اجداد کا وطن ہے، انہوں نے قیام پاکستان کے وقت اسی شہر سے پاکستان ہجرت کی تھی، اس اعتبار سے کامران عادل میرے ہم وطن بھی ہیں ۔ یہ کس عاجزی اور انکساری سے اللہ سے التجا کرتے نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کورونا سے لاشیںاٹھاتے اٹھاتے جسم کے ہلکان ہونے کی بات کی ہے۔اسے دعائیہ شاعری کہا جاسکتا ہے۔
دیکھ ویران ہوگئے مولیٰ
شہر شمشان ہوگئے مولیٰ
ڈھوتے ڈھوتے یہ ڈھیر لاشوں کے
جسم ہلکان ہوگئے مولیٰ
ثنا اللہ چنا دوگھڑوی۔
عجب چلی ہے وبا کی ہوا زمانے میں
نہ زندگی ہے سلامت نہ بندگی محفوظ
یہ کس مقام پہ انسانیت کھڑی ہے آج
ہے آدمی سے کہا آج آدمی محفوظ
فیروز ناطق خسرو
بزرگوں سے سنے قصے ہمیں اب یاد آتے ہیں
وبا میں تھر اجڑتے ہیں ہزاروں کھیت جاتے ہیں
درود و فاتحہ میں کوئی آتا ہے نہ جاتا ہے
نہ دسویں، بیسوئیں ، چالیسوئیں میں اب بلاتے ہیں
پتہ کرتے ہیں خیریت و عافیت کچھ فاصلہ رکھ کر
گلے ملتے ہیں اپنوں سے نہ ہاتھوں کو ملاتے ہیں
سمجھتے تھے صدا دے کر برا، گھر سے بلانے کو
نہ کنڈی کھٹکھاتے ہیں نہ اب گھنٹی بجاتے ہیں
کسے معلوم کب کس نام کی پرچی نکل آئے
ابھی بھی وقت ہے خسرو اسی سے لولگاتے ہیں
سرور غزالی ۔ برلن، جرمنی
وباء کے درمیاں کوئی نہ اپنا منہ کھولے
سِلے نقاب میں لب، اب نہ کوئی کچھ بولے
امیرِ شہر کی سازش ہے یا طبیب کا کھیل
کوئی خلاف طبیبوں کے کیوں نہ کچھ بولے
ہے بے رُخی کا عجب شاخسانہ محفل میں
معانقہ کو نہ بانہیں رفیق اب اب کھولے
قفس میں اپنے ہی صیاد خود مقید ہے
کھڑا ہے سر پہ فرشتہ اجل کا پر کھولے
اعتبار ساجد
چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہوجائے خطا ترکِ تعلق کی
سعد اللہ شاہ
لاک اپ میں غریبوں کا اب حال نہیں کوئی
آٹا بھی نہیں ملتا، چینی کا بھی رونا ہے
عمران کدھر جائے کس کس سے لڑے تنہا
اندر بھی کورونا ہے باہر بھی کورونا ہے
بہت سے احباب کے بچے ملک سے باہر قیام پذیر ہیں، کسی بھی مشکل اور پریشانی میں والدین کو دیار غیر میں موجود بچوں کا بہت خیال آتا ہے۔اس حوالے سے معروف شاعرہ شگفتہ شفیق کا قطعہ اور پھر میرے چند اشعار اپنے بچوں کے حوالے سے جو دیار غیر میں رہتے ہیں۔ بیٹا سعودی عرب میں اور بیٹی وہ بھی اکلوتی جرمنی کی باسی ہے۔
شگفتہ شفیق
اب تو آہٹ سے مری نیند اڑی جاتی ہے
اتنی وحشت ہے کہ ہر سانس رکی جاتی ہے
دور بیٹھے ہوئے بچوں کا خیال آتا ہے
جاگتی آنکھوں ہی میں رات کٹی جاتی ہے
ڈاکٹر رئیس صمدانی
میرے بچوتم ہو پردیس میں اپنا خیال رکھنا
دعا ہمارے لیے بھی کرنا پر اپنا خیال رکھنا
مشکلیں آتی ر ہی ہیں انسان کی زندگی میں
حوصلے اپنے بلند رکھنا م رابطے بحال رکھنا
مہلک و جان لیوا ہے یہ ضعیفوں کے لیے
ہوجائے گر کچھ اُسے فقط اللہ کی رضا سمجھنا
آتی رہی ہیں وبائیں نام بدل بدل کر
کرنا ہے ان کا مقابلہ یہ سوچ اپنی رکھنا
رہیں سلامت سب اللہ کے کرم سے رئیسؔ
بس یہی دعا میرے بچو زباں پہ اپنی رکھنا
ڈاکٹر وں ، نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل عملہ کورونا میں فرنٹ لائن ورکر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اب تک کئی ڈاکٹر، نرسیز اور پیرا میڈیکل عملہ کورونا کا شکار ہوچکے ہیں۔معروف شاعر انور شعور کا یہ قطعہ ڈاکٹر اوسامہ ریاض کی کورونا سے ہلاکت پر کہا جوروزنامہ جنگ میں 24مارچ کو شائع ہوا۔
کرے ایثار اسامہ کی طرح کوئی
تو اُس پر کیوں نہ ہو انسان قربان
بچانے کے لیے اوروں کی جانیں
جو کر ڈالے خود اپنی جان قربان
حافظہ مریم خان
حافظہ مریم خان نے کورونا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی صورت حال کو شاعری میں منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، مریم کی شاعری کا آغاز ہے، اس اعتبار سے یہ اشعار قابل تعریف ہیں۔مسلسل عمل کسی بھی کام میں پختگی لے آتا ہے اور تحریر یا شاعری میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔
صفائی کی نگری میں اتار دیا ’کرونا‘ نے
چہرہ پر نقاب اور ہاتھوں میں دستانے
ہر گھر میں ایک مؤذن بنادیا کرونا نے
بندے کو اپنے رب سے ملا دیا کرونا نے
کہیں جڑی بوٹی تو کہیں وظیفوں کا ورد
اصل زندگی کو جینا سکھا دیا کرونا نے
فرخ رفیق۔ فیصل آباد
عجب زمانہ آگیا ہے
وبا کے دن ہیں ۔۔۔۔
کسی کا ہاتھ کسی کے ہاتھوں سے کسی طرح چھو بھی جائے
تو ہر کسی کو حکم ہے کہ ہاتھ اچھے سے دھو کے آؤ!!
ڈاکٹر دلدار احمد علوی
کورونا کی احتیاط کو اپنی شاعری میں ڈاکٹر دلدار احمدعلوی نے خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔
ایک درماں ایک حل احتیاط احتیار
ادراک طرز عمل احتیاط احتیار
یہ وبا ہے ہمنشیں عام سا مرض نہیں
اے میرے محترم سنبھل احتیاط احتیار
درد دل کی راہ چل احتیاط احتیار
زندگی کے ڈھب بدل اپنے روز شب بدل
رہ بدل سبب بدل احتیاط احتیار
جان کو عزیز جان زندگی کی قدر کی مان
ہاں سنبھل سنبھل سنبھل احتیاط احتیار
ناز عارف
ناز عارف کراچی کے ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شاعرہ ہیں، اچھے شعر کہتی ہیں، بطور خاص اپنی نظم عنایت کی۔
یقین کامل رکھیں رب پر
بلائیں ٹل ہی جائیں گی
وبائیں ٹل ہی جائیں گی
وہ بچے مسکرائیں گے
کرونا سے ڈر سے سہمے
پڑے ہیں لوگ جو گھر گھر
گلابی رنگ چہروں پر
کھلیں گے دیکھنا سب کے
کبھی مایوس مت ہونا !!
سارہ محبوب
سارہ محبوب کراچی کے ادبی حلقوں میں معروف ہیں، حلقہ اربا ب ذوق کے زیر اہتمام ادبی نششتوں میں انہیںسننے کا موقع ملا۔ ان کی نعتیہ نظم ’التجا‘ قارئین کی سماعتوں کی نظر۔
رحمت دو جہاں
ابتلا میں گھری ساری انسانیت
اور یہ امت تیری
اس ہلاکت ذدہ سی وبا سے ڈری
منتظر ہے
کہ چشمِ عنایت اُٹھے
اس سے پہلے کہ شور ِ قیامت اُٹھے
رحمتِ دوجہاں
کچھ کرم کیجئے
جُذ خدا التجا یہ کہا کیجئے
جاں بلب خلق ہے
اب ماں دیجیے
رحمتِ دوجہاں
ڈاکٹررئیس احمد صمدنی
میں اپنے آپ کو شاعروں میں شمار نہیں کرتا اور نہ ہی مستقل مزاجی سے شعر کہتا ہوں۔ میں نے اکثر یہ کہا ہے ، اسے پھر دھرا دیتا ہوں کہ
میں اپنی ضرورت کے تحت شعر کہہ لیتا ہوں۔اس حوالے سے میرا ہی ایک شعر دیکھئے۔
ِ شاعری سے کہاں واقف ہوںمیں
الفاظ کی بندش سے شعر کہہ لیتا ہوں
نثر نگاری کی مختلف اصناف سوانح نگاری ، خاکہ نگاری، سفرنامہ نگاری، کالم نگاری، رپوتاژنگاری اور علمی موضوعات پر مستقل مزاجی سے لکھتے ہوئے مجھے نصف صدی ہونے کا آئی، کچھ عرصہ سے کالم نگاری پر زیادہ توجہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ کالموں پر مشتمل تین مجموعے شائع ہوچکے۔ شخصیات اور کتابوں پر اظہار خیال بھی زیادہ رہا ہے ۔ کورونا کے حوالے سے کچھ اشعار کبھی کبھار ہوئے وہ یہاں پیش ہیں، کوئی شعر علم ِ عروض کی رُو سے مطابقت نہ رکھتا ہو ، وزن اور بحر موجود نہ ہواس کی پیشگی معذرت ، بس شعر میںاپنے جذبات کا اظہار بنیادی مقصد ہے۔
کیسی یہ زمانے میں وبا عام ہوئی ہے
ہر سانس یہاں منبع آلام ہوئی ہے
ملنے پر بھی پابندی ہے ایک دوسرے سے اب
ہر جان قرنطینہ کے نام ہوئی ہے
۔۔۔۔۔۔
جب سے وارد دنیا میں کوروناوائرس ہوا ہے
کر کے بے بس انسان کو خوش بہت ہوا ہے
ہر گھر قرنطینہ ہر کوئی عاجز و پریشان اس سے
کر کے دنیا کو تل پٹ اس نے رکھ دیا ہے
جسامت ایسی نظر نہ آئے خوردبیں سے بھی
انسان لاکھوں یہ اب تک ہڑپ کرگیا ہے
کیسے ملے گی نجات اب اس وبا سے رئیس
کڑا امتحان انسان کی زندگی پہ آن پڑا ہے
۔۔۔۔
ہوا ہے ترک ِ تعلق اورہوئی تنہائی
وبا کا علاج بھی اب ہوا ہے تنہائی
اللہ کرم کردے اب اپنی مخلوق پر
برداشت نہیں ہوتی اب یہ تنہا ئی
۔۔۔۔۔۔۔
کورونا نے خو ب غضب دنیا میں ڈھایا
چین سے کیا آغاز امریکہ میں ڈیرا جمایا
کس کس ملک کا نہیں بنا یہ مہماں کورونا
بن بلائے جا پہنچا اور خوف وہاں پھیلایا
۔۔۔۔۔۔
عہدِ کورونا ہے اور ہم جی رہے ہیں
قہر کا عالم ہے اور ہم جی رہے ہیں
کب تک کرے گا یہ انساں کا پیچھا
ویکسین کی آس پہ ہم جی رہے ہیں
کورونا نے موت کو کھلا چھوڑدیا ہے
خود ہی زندگی کواب ہمیں بچانا ہے
کوئی دن بھی اب ایسا گزرتا نہیں
خبر کسی کے مرنے کی میں سنتا نہیں
اعصاب پر تاری اس قدر کورونا ہے
زندگی کے کسی کام میں دل لگتا نہیں
*******

Leave a Comment