غالب اور راجستھان۔۔۔ایک تحقیق

\"\"
٭ڈاکٹر معین الدین شاہینؔ

Ph.9413940070
ایسو سی ایٹ پروفیسر،شعبہ اردو،
سمراٹ پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج،اجمیر۔(راج)

مر زا غالب ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔تا ہم ہر مکتبہ فکر سے متعلق شخض غالب سے اپنی وابستگی کو با عث افتخار متصور کر تا تھا۔غالب کے سلسلہ تلمذ سے متعلق مولوی مہیش پرساد،لالہ سری رام دہلوی،مالک رام،مشفق خواجہ،پروفیسر انصار اللہ نظر ،ڈاکٹر خلیق انجم،پروفیسر نثار احمد فاروقی،پروفیسر حنیف نقوی اور علامہ کالی داس گپتا رضا جیسے محققین و ناقدین کے علاوہ بعض دیگر اہل قلم حضرات نے وقتا ً فوقتا ً اپنی مستند تحریریں پیش کی ہیں،جنھیں قابل قدر کار ناموں میں شامل کیا جا تا ہے۔
سابق راجپوتانہ میں غالب کی تعظیم و تکریم کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ یہاں کے جا ئے جنمے اور بود و باش اختیار کر نے والے حضرات نے غالب کی شاگردی قبول کر کے اپنے بیدار مغز ہو نے کا ثبوت فراہم کیا۔
ادبی تناظر میں دیکھا جا ئے تو راجستھان میں خود ستائی اور خود نمائی کے مریضوں کی تعداد کم نہیں ہے۔جو اپنی تحریر و تقریر سے یہ ظاہر کر نے کی بے سود کوشش کر تے ہیں کہ راجستھان میں اردو شاعری،تنقید،تحقیق حتیٰ کہ تدریس کا سلسلہ صرف اور صرف ان کے اہل خاندان اور ان کے دم قدم سے شروع ہوا اور انھیں پر ختم ہو گیا۔ایسے حضرات کو اکثر کہتے سنا گیا ہے کہ راجستھان میں اردو شعرو ادب سے متعلق ان کے دادا،تایا،چچا، والد اور خود ان کے حوالے کے بغیر کو ئی اول قلم ایک لقمہ بھی نہیں توڑ سکتا۔ہم نے تو حالیؔ اور ان جیسے کئی حضرات کی جڑیں ہلادیں ہیں،ہمارے خانوادے کو نمائندہ حیثیت حاصل ہے وغیرہ وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ کا ہزار شکر و احسان ہے کہ شاہد احمد جمالی ایسے حضرات کی فہرست میں شمار نہیں ہو تے۔جمالی صاحب نے خالص ادبی اور تہذیبی خد مت کی غرض سے جو کتابیں راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی سے مرتب کر کے شائع کی ہیںوہ قابل قدر ہیں۔ان کتابوں کی کسی تحریر سے نہ تو ’’ پدرم سلطان بود‘‘ کی بو آ تی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ڈھنڈورا اور پرو پیکینڈہ سامنے آ تا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ جمالی نہ خود ستائی کے مریض ہیں اور نہ ہی انھیں خود نمائی کی عادت ہے۔ان کی تحریروں سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہو تا ہے کہ زبان و ادب پر کسی مخصوص طبقے،حلقے اور خانوادے کی اجارا داری نہیں ہو تی۔
زیر بحث تذکرہ ’’ غالب اور راجستھان ‘‘ غالبیات میں اہم اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔گو کہ اس سے قبل مختلف مضامین میں اس موضوع سے متعلق اشارے اور حوالے ملتے ہیں لیکن اس قدر مبسوط کتاب نہیں ملتی۔شاہد جمالی نے اس تذکرے کے ذریعہ اس کمی کو دور کر نے کی کامیاب کو شش کی ہے۔
زیر بحث تذکرہ یوں تو دو حصوں پر مشتمل ہے جس میں پہلا حصہ بعض حضرات کی تاثراتی،رسمی اور سرسری تحریروں پر مشتمل ہے۔جس سے راقم الحروف قصدا ً صرف نظر کر رہا ہے۔اس لئے دوسرا حصہ معرض بحث میں لا یا جا رہا ہے۔اس حصہ میں مو ٔلف نے بہت کار آ مد اور مفید مطلب باتیں،دلائل اور شواہد کے ساتھ پیش کی ہیں۔یہ حصہ چار اہم ذیلی عنوانات پر مبنی ہے۔جو حسب ذیل ہیں۔
۱۔ جے پور میں تلامذہ غالب اور ان کا سلسلہ تلمذ
۲۔ راجستھان کے دیگر شہروں میں غالب کے تلامذہ اور احباب
۳۔ اجمیر میں تلامذہ غالب کا سلسلہ تلمذ
۴۔ راجستھان میں غالب کے ہم عصر
جے پور سے متعلق ایک تذکرہ مو لا نا احترام الدین شاغل نے بعنوان ’’تذکرہ شعرا ئے جے پور ‘‘ مرتب کر کے ابتدا ً خوب واہ واہی لوٹی تھی،لیکن تغیرات زمانہ اور نئی تحقیق نے اس کی ڈھیروں خامیاں اور کمزوریاں عیاں کر کے اسے قابل اصلاح و تصحیح قرار دیا۔لیکن اس سے اس تذکرے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔نقش اول میں جو تسامح ،خامیاں اور فرو گذاشت ہو تی ہیں وہ بظا ہر اس تذکرے میں بھی موجود ہیں،تا ہم یہ تذکرہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے مستند نہ سہی اہم ضرور ہے۔
واضح ہو کے شاہد جمالی نے ’’ تذکرہ شعرا ئے جے پور ‘‘ کو چھوڑ کر بعض دیگر قابل قدر تصنیف،تالیف،رسائل،جرائد،اخبارات اور قلمی نسخوں کی مدد سے ’’ غالب اور راجستھان ‘‘ کے مو ضوع پر قلم اٹھا کر حق تحقیق ادا کیا ہے۔یہ تذکرہ ایسے دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جو خود ستائی اور مقامی عصبیت جیسے الزامات سے پاک صاف ہے۔جے پور کے تناظر میں جمالی صاحب نے شاغل صاحب کے بجائے خم خانہ جاوید(لالہ سری رام)تذکرۃ الشعرا (مو لانا حسرت مو ہانی)نظم دلفروز(دیوان انور )تذکرہ آ ثار الشعرا ئے ہنود(منشی دیبی پرشاد،بشاش)عقد ثریا(قمر الدین راقم دہلوی)میر مہدی مجروح(ڈاکٹرمحمدفیروز)گلدستہ مشاعرہ:محاذ جنگ،اجمیر(ابوالعرفان فضائی )تاریخ صحافت اردو(مو لانا امداد صابری)دیوان اخگر(مرتبہ،خدا داد مو نس)حیات عزیز (قلمی،عارف عزیزی)نغمات آزادی(پروفیسر فیروز احمد)کلام جو ہر(مرتبہ،خدا داد مو نس)نقش حیات(عبد الوہاب عاصمؔ)ریاست جے پور میں بیرونی شعرا ء کی شعری خدمات(شاہد جمالی)سمن زار سخن(راہی شہابی)شاہد غم(انور علی شاد)تذکرہ بہار سخن(محمد شرف الدین یکتا جودھپوری)وغیرہ پر زیادہ اعتماد کیا ہے۔
علاوہ ازیں رسائل و جرائد کے ذیل میں شان ہند(دہلی)نخلستان(جے پور )فن اور شخصیت(بمبئی)وغیرہ میں شائع شدہ تحریروں سے حوالے پیش کئے ہیں۔یہ حصہ زیر بحث تذکرے کے دیگر مشمو لات کے مقابلے قدرے ضخیم ہے۔جس کے مطالعہ سے شاہد جمالی کے عمیق مطالعے اور تلاش و جستجو کے مثبت پہلوئوں کا علم ہو تا ہے۔یہ حصہ یا باب متعلقہ موضوع سے متعلق ایسی اہم معلومات بھی فراہم کرا تا ہے جو ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں۔جنھیں شاہد نے سمیٹ کر یکجا کیا اور اہل ذوق حضرات سے دعوت غور و فکر کا مطالبہ کیا۔اس باب میں جن قابل قدر شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں انور دہلوی،آ گاہ دہلوی،بصیر دہلوی،منشی ہر گوپال تفتہ،حکیم محمد علی صوفی،راقم دہلوی،منصور علی خاں بسمل،حافظ یوسف علی خاں عزیز،عبد الحمید اخگر،فدا حسین فدا،عبد الرحمن کو کب،مانگی لال تجلی،منوہر لال تسلی،آ نندسنگھ قمر،عارف عزیزی،زین العابدین عارف،عظیم اللہ نطق،عبد الحئی اختر،محمد محسن محسن،عابد علی ہلال،رضی الذکا جوش،منشی نظیر حسین نظیر،مر زا محمد تقی بیگ ما ئل،مو لانا منظور احمد کو ثر،اشفاق رسول جو ہر،منشی ایوب خاں فضا،احمد علی خاں رونق،عبد الوہاب خاں عاصم،خور شید علی مہر،مو لا نا اسماعیل رزی،الیاس عشقی،مر زا محمود بیگ محمود،مر زا اختر یار بیگ،اعظم خسروی،محمد اسماعیل شاد،محمد طٓسین ذہین،مولوی اساس الدین تسنیم،انجم عزیزی،سالک عزیزی،شمیم جے پوری،حسرت جے پوری،عبد الرحیم طالب،محمد رفیق عا رف،رضی الدین رضا،حافظ منظور ادیب،احمر جے پوری،منشی مظہر حسین ناظم،قاضی امین الدین اثر،خلیق عزیزی بیکانیری،آغا حسین پیکرحبیب الحسن عالی،غلام حسین شاہ برقی،عبد الرحیم اختر،محمد صدیق قمر،پارسا کو ثری،محمد بخش منظر،چان نرائن ٹکو مہر،عبد الغفور شیدا،جلیل شیدا ئی،اور بھنور سنگھ نازش وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
راجستھان کے دیگر شہروں میں غالب کے تلامذہ و احباب کے زیر عنوان صاحبِ تذکرہ نے مستند اور مستحکم حوالوں کی مدد سے مو لانا نجف علی خاں جھجری،مر زا قربان علی بیگ سالک،میر مہدی مجروح،مو لانا دلاور علی طرزی، خواجہ امان اللہ دہلوی،خواجہ قمر الدین راقم،یوسف مر زا،غلام حسین وحشت،میر تفضل حسین خاں کوکب ،طالع یار خاں(ٹونک)آ غا مر زا ،دیوان جانی بہاری لال راضی بھرتپور،مولوی امو جان ولی دہلوی،نواب مردان علی خاں رعنا،(جودھپور )الیکزنڈر ہیڈر لے آ زاد(الور )سید اقبال حسین عاشق(بیکانیر ) بانکے رائے رند(بھرتپور )قربان علی سالک (الور )محمد حسین ثاقب (کو ٹہ )کا ذکر خیر کیا ہے۔گو کہ یہ باب پہلے باب کے مقابلے مختصر ہے،لیکن اس اختصار میں بھی اوصاف کے پہلو نمایاں ہیں۔
’’ اجمیر میں تلامذہ غالب کا سلسلہ تلمذ‘‘ کے تحت صاحبِ تذکرہ نے ڈپٹی امام الدین علی خاں اثر ،مراد علی ہو شیار ؍بیمار،مو لانا عبد الصمد کلیم،ولی محمد نشتر،منشی محمد حسین خاک،اکبر حسین اکبر،منشی عبد الکریم خاں بے خود،سید نظر محمد نظر،محمود علی عرشی،امتیا ز علی خور شید،اور ابو المظفرصدیقی اطہر کا تذکرہ مالک رام(تلامذہ غالب)لالہ سری رام دہلوی(خم خانہ جا وید)پروفیسر پریم شنکر شریواستو(راجستھان کے موجود اردو شاعر )سید فضل المتین(موجودہ ہ نمائندہ شعرا ئے اجمیر،نیز ان کے چند مضامین)اور شان ہند(دہلی)کے خصوصی شمارے بابت جون ۱۹۵۷ء کے علاوہ نغمات آزادی(ڈاکٹر فیروزاحمد)وغیرہ کی وساطت سے اپنا ما فی الضمیر واضح کیا ہے۔اس ذیل میں اگر مو لانا عبد الباری معنی ؔ کی تحریروں سے بھی مدد لی گئی ہو تی تو بہت اچھا ہو تا۔جمالی صاحب نے اس باب میں ان کا ر آ مد معلومات کی شیرازہ بندی کی ہے۔جو موضوع تحقیق کے لحاظ سے اہم ہیں۔میں اس سلسلے میں ایک طرف ڈاکٹر مدبر علی زیدی صاحب کے اس بیان سے زیادہ متفق نہیں کہ اس سلسلے میں’’ ابھی اور تحقیق کی ضرورت ہے‘‘ بلکہ شکیل الرحمن صاحب کی اس اثبت اور صائب رائے کا ہمنوا ہوں،جس میں انھوں نے تحریر فر مایا ہے کہ ’’ یہ تصنیف راجستھان میں غالب اسکول کا مکمل احاطہ نہیں کر تی ہے۔ہو سکتا ہے ابھی اس سلسلے میں اور بھی نام سامنے آ ئیں،مرتب نے اپنی ذاتی فہم اور محنت ہ ہمت اور سرمائے سے جتنا ہو سکا کر دکھایا‘‘۔،ود فاضل مؤ لف صاحبِ تذکرہ کا یہ بیان کس قدر انکساری کا ثبوت فراہم کر تا ہے،
’’ راقم کا ہر گز یہ دعو یٰ نہیں ہے کہ یہ کتاب غالب اسکول کا احاطہ کر تی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ راجستھان میں اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے۔ضروری سمجھتے ہو ئے غالب کے چند ہم عصر مشاہیر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔یہ تذکرہ میں نے اپنے ذاتی فہم و ادراک سے مرتب کیا ہے۔کسی شاعر کو قصدا ً نہیں چھو ڑا ہے اور نہ کسی شا عر کی تضحیک کی ہے جیسا کہ جے پور کے سابقہ تذکروں میں ہو تا آ یاہے اور نہ کسی کو غیر معیاری کہا ہے۔میری نظر میں راجستھان کا ہر شاعر ،خواہ چھو ٹا ہو یا بڑا ادبی حیثیت ضرور رکھتا ہے۔‘‘
یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو منفی پہلوئوں کو اہمیت نہ دے کر اثبات کو ترجیح دیتا ہے۔
زیر نظر تذکرے کا آ خری باب بعنوان’’ راجستھان میں غالب کے ہم عصر‘‘ اس لحاظ سے اہم اور قابل قدر ہے کہ اس کے مطالعے سے عہد غالب میں راجستھان کی علمی و ادبی صورت حال پرروشنی پڑتی ہے۔کسی بھی شاعر یا ادیب کا مقام و مر تبہ طے کر تے وقت اس قسم کی تحریریں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔اس لئے یہ باب امتیازی اہمیت کا حامل ہے۔اس باب میں صاحبِ تذکرہ نے آ فتاب شیخا واٹی،خواجہ نجم الدین نجم فاروقی(فتح پور )حکیم سلیم خاں خستہ دہلوی(جے پور) مولوی دیوان شمس الدین(ٹونک)محمد علی جو یا(جے پور )حافظ سراج الدین خاں (ٹونک )اور مولوی دوست محمد کابلی(ٹونک) کا تذکرہ کیا ہے۔
مجمو عی طور پر ’’غالب اور راجستھان: ایک تحقیق ‘‘ایسا تذکرہ ہے جو راجستھان اور سلسلہ غالب کو جوڑ نے والی اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔کیڑے ڈالنا اور نکالنا معترضین کا محبوب مشغلہ رہاہے اور وہ یہ کام تا دم حیات کر تے رہیں گے۔دوسری طرف ایسی نسل آ ج بھی موجود ہے جس کی نظر روشن پہلوئوں پر رہتی ہے۔اور اسی نسل کی آ را ء اور خیالات کا خیر مقدم نا گزیر ہے۔اعتراض برائے اعتراض یا بے جا طور پر کی جا نے والی جانب دا ری بھی مصنف یا مؤ لف کو مبتلائے غلط فہمی کر دیتی ہے۔اگر اعتدال پسندانہ نظریہ سے دیکھا جا ئے تو شاہد احمد جمالی کا یہ تذکرہ کئی اعتبار سے قابل لحاظ ہے۔جس خلا کو انھوں نے پر کر نے کی سعی فر مائی وہ ان حضرات کا مقدر کیوںنہیں بنی جو محض اجداد و اسلاف کے نام پر اپنی دوکانیں سجا ئے ہو ئے ہیں۔
غالب اور راجستھان کے سلسلے میں بنیاد فراہم کر انے کا کام ہمارے بزرگوں نے کیا تھا۔شاہد جمالی نے انھیں بنیادوں پر قصر ادب تعمیر کر نے کا فریضہ انجام دیا ہے۔اب نسلِ نو کی ذمہ داری ہے کہ اس قصر ادب کو نبات کے رنگ و روغن سے آ راستہ و پیراستہ کرے تا کہ اس کی چمک دمک سے منفی اور تاریک پہلو روشن ہو جائیںاور راجستھان میں علم و ادب کی تعمیر و ترقی کی نئی راہیں ہموار ہو سکیں۔

٭٭٭

Leave a Comment