غالب اکیڈ می کے 47ویں یوم تاسیس اور غالب کے 147 ویں یوم وفات کے موقع پر طرحی مشاعرے کا انعقاد

\"12596273_10207698675378758_918435040_n\"
22فروری2016کو غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں مرزا غالب کے 147ویں یوم وفات اور غالب اکیڈمی کے 47ویں یوم تاسیس کے موقع پر ایک طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ۔ مصرعہ طرح ہے۔1۔سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیں،2۔تم جانو تم کو غیر سے جو رسم وراہ ہو۔جناب گلزار دہلوی نے مشاعرے کی صدارت کی ، نظامت کے فرائض معین شاداب نے ادا کئے، کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔
میں نے ان کو زخم دل اپنے دکھائے تھے ابھی

دیکھتے ہی دیکھتے وہ تو نمکداں ہوگئیں
(گلزار دہلوی)
دلکشی تو اس کی پردے میں بھی کچھ کم نہ تھی

یہ نئی نسلوں کو کیا سوجھی کہ عریاں ہو گئیں
(وقار مانوی)
حسرتیں جب میسر کی غالب کا عنواں ہو گئیں

حالی و اقبال کی روحیں غزل خواں ہو گئیں
(جی آر کنول)
دل کی سیدھی سچی باتیں بول من موہک نسیم

گیت رس غزلیں تری خسرو کی بتیاں ہو گئیں
(نسیم عباسی)
دریا میں ڈال نیکیاں کل کام آئیں گی

لازم ہے ساتھ وقتِ سفر زادراہ ہو
(ابرار کرت پوری)
دلی میں پائوں توڑ کے کیو نکر نہ بیٹھیے

چلنا تو جب ہو جب کہیں چلنے کی راہ ہو
(خالد محمود)
جس میں کسی فساد کی آئے نہیں خبر

اس سال میں خداکرے ایسا بھی ماہ ہو
(اسد رضا)
سب جاں بکف اڑے ہیں اسی ایک شرط پر

قاتل وہی ہو اور وہی قتل گاہ ہو
(احمد محفوظ)
اس کا کوئی مفاد نہ میری کوئی غرض

یہ بات ہے تو دونوں میں کیسے نباہ ہو
(معین شاداب)
خود جس کو زندگی کی طلب ہو نہ چاہ ہو

اس سے ہماری کیسے کوئی رسم و راہ ہو
(تابش مہدی)
اجتماعی زندگی کی تھیں جوقدریں مشترک

کچھ تو ہندو ہو گئیں اور کچھ مسلماں ہو گئیں
(احمد علی برقی)
پستیاں پنجوں کے بل اچھلیں تو قیمت بڑھ گئی

عظمتیں بازار میں پہنچیں تو ارزاں ہو گئیں
(فاروق ارگلی)
مثلِ صدف فراخ دلی ہے کسے نصیب

موتی بنے جو سب کے لیے خود تباہ ہو
(ظفر مرادآبادی)
عزم محکم سے سفر کرتا رہا تا عمر میں

مشکلیں جتنی تھیں میری خود ہی آساں ہو گئیں
(کمال جعفری)
صدیاں لگی ہیں پہنچے ہیں جو اس وکاس پر

بارود سے نہ کھیل کہ دنیا تباہ ہو
(ممتا کرن)
وہ ہم زبان ہو تو کوئی رسم وراہ ہو

اب اس سے کیا ملیں جو فقط خیر خواہ ہو
(رئوف رضا)
آہٹیں ہی آہٹیں خواب پریشاں ہو گئیں

اور یہ آنکھیں میری جیسے کہ ویراں ہو گئیں
(عفت زریں)
ایک آدھ شعر اچھا جو نکلے تو بات ہے

ورنہ قلم سے لاکھ یہ کاغذ سیاہ ہو
(جاوید قمر)
اس کا حیات تشنہ سے کیسے نباہ ہو

دل جس کا آرزووں کی آما جگاہ ہو
(سلمیٰ شاہین)
آج’’اچھے دن ‘‘کی باتیں سوچتا ہوں رات بھر

دن تو جوں کے توں رہے راتیں پر یشاں ہو گئیں
(اسراررازی)
اس قدر سوچیں ہماری یار ناداں ہو گئیں

رنگ پھول اور خوشبوئیں ہندومسلماں ہو گئیں
(سکندر عاقل)
غم نے مراقبے کو وطیرہ بنا لیا

جیسے کہ دل نہیں ہو کوئی خانقاہ ہو
(جاوید مشیری)
ہم یوں گناہ کرتے ہیں شیطان کے ہیں مرید

خوفِ خدا ہو دل میں تو کیوں کر گناہ ہو
(وریندر قمر بدرپوری)
کیسے کریں علینا فراموش وہ گناہ

خود روح جب ہماری ہی اس کی گواہ ہے
(علینا عترت)
قاتل کو میرے قتل کی کیسے سزا ملے

کوئی تو چشم دید ہو کوئی گواہ ہو
(اجے عکس)
بستیاں آباد ہوں گی یا نہیں اب کیا پتہ

امن قائم کر رہا تھا وہ کہ ویراں ہو گئیں
(حبیب سیفی)
رکھ دینا اپنی جھیل سی آنکھیں منڈیر پر

جب عشق کا چراغ جلانا گناہ ہو
(شاہد انجم)
ان کے علاوہ متین امروہوی، سرفراز احمدفراز نے بھی اشعار پیش کئے۔

Leave a Comment