عتیق اللہ
میں نے غالباً 2004 میں علی گڑھ یونیورسٹی کے سمینار کے لیے بعنوان ’غالب تنقید کے مراحل‘ ایک مضمون لکھا تھا جس میں گذشتگان کے علاوہ بعض معاصر نقادوں کی غالب تنقید زیربحث آئی تھی لیکن ایک نام کہیں نظر نہیں آیا اور وہ تھا گوپی چند نارنگ کا۔ مجھے حیرت تھی اور افسوس بھی کہ نارنگ صاحب جیسے ہمہ اطراف نگاہ رکھنے والی شخصیت سے یہ کیسی چوک ہوگئی۔ کیا غالب کو انھوں نے کسی لائق نہیں سمجھا یا بہتوں کی طرح غالب بھی ان کے لیے ایک ٹیرھی کھیر، ایک مشکل گرہ، ایک لاینحل معمہ تھا۔ جبکہ بہتوں کی گرہیں سلجھانے اور عقدہ ہائے لاینحل، حل کرتے ہوئے ان کی ساری عمر کھپ گئی۔ 2013 میں ان کی قاموسی تصنیف ’غالب، معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتاا ور شعریات‘ منظرعام پر آئی تو پتہ چلا کہ غالب کی گتھی تو وہ گزشتہ کئی دہوں سے سلجھانے میں مصروف تھے۔ مشکل پسندی محض غالب ہی کا شیوۂ خاص نہ تھا، جناب نارنگ بھی کم مشکل پسند نہیں ہیں۔ اس کتاب کے مشتملات سے ا ندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اگر غالب کو ازسرِ نو خلق کرنے میں کئی دہائیاں صرف کردی ہیں تو آخری شمار میں جس غالب سے ہم متعارف ہورہے ہیں وہ کتنا نیا، کس قدر اَن چھوا، تازہ آمدہ اور نودیدہ ہے۔ ہم یک لخت ایک نئے حیرت ناک احساس سے دوچار ہوتے ہیں اور یہ سوال بھی ذہن کے دریچوں سے بار بار جھانکتا ہے کہ نارنگ نے غالب کو نودریافت کیا ہے کہ غالب نے نارنگ کو یقینا یہ تصنیف غالب ہی نہیں ایک نئے نارنگ سے بھی متعارف کراتی ہے۔ انیسویں صدی کے آخری دہے اور اکیسویں صدی کے جاری مہ و سال میں جس تیزی کے ساتھ تھیوری نے دماغوں میں نقب لگائی ہے۔ متنی تجزیاتی طریق ہائے کار میں ایک انقلاب سا واقع ہوگیا ہے۔ نارنگ کی تصنیف ہٰذا کو بھی اسی انقلاب کے تناظرمیں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭
غالب تنقید کے سوا سو برسوں پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو غالب کو موضوعِ بحث بنانے والوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اتنے بہت سے ناموں کی موجودگی میں یہی کہنا درست ہوگا کہ غالب تنقید کو کبھی تنگ دامنی کی خفت نہیں اٹھانی پڑی۔ بلاشبہ غالب تنقید ثروت مند ہوئی اور اس نے مجموعاً اردو تنقید کو بھی ثروت مند کیا۔ تکرار سے وہ بھی نہیں بچ سکی۔ عہدِ غالب کی پرچھائیوں میں شعر غالب کے جواز تلاش کیے گئے۔ایک شخص، ایک مجموعۂ اضداد فرد کے طور پر بھی اسے نشان زد کیا گیا۔ غالب تحقیق، غالب تنقید سے آگے نکل گئی اور کبھی غالب تنقید نے اسے بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ تشریحات غالب نے ان مشکلات کو بڑی حد تک رفع دفع کرنے کی کوشش کی جو غالب فہمی کی راہ میں اکثر مانع آجاتی ہیں۔ اس طرح غالب ایک سے ہزار میں تبدیل ہوگیا۔ بعض تشریحات میں غالب پر علم کا بار اس قدر ڈال دیا گیا کہ شاعری کا سارا لطف جاتا رہا۔ کسی کسی کے لیے تشریح ا ٓزاد مکالمے اور آزاد لطف انگیزی کی راہ کو مسدود بھی کردیتی ہے۔ تفہیم و تشریحِ غالب کی ساعتیں بہرحال غالب تنقید کی مجبوری اور تقاضہ بھی ہیں۔ حالی، نظم طباطبائی اور بجنوری نے اپنے اپنے طور پر شعرِ غالب کی گرہ کشائی کے ضمن میں شرحیات کو چراغِ راہ بنایا ہے۔نارنگ نے بھی غالب کے آئینہ خانۂ شعر میں اپنے طور پر جھانکنے اور نئی نئی جھلکیوں اور تہہ بہ تہہ گہری ساخت سے اس جوہر کو کسب کرنے کی سعی کی ہے جو ہماری قرأتو ںکے تجربے سے خصوصاً ورا رہا ہے۔
٭٭٭
بجنوری کو میں نے اردو کے پہلے بین العلومی نقاد کا نام دیا تھا، لیکن بجنوری کے وقتوں تک علم اللسان کس طور پر فلسفۂ لسان میں بدلتا جارہا ہے اس کا علم ہمارے دانش وروں کو نہیں تھا۔ تاہم بجنوری مختلف علوم و فنون اور قدرے نئے طرزِ احساس اور احساسِ جمال کو اپنی تفہیمات میں بروئے کار لائے ہیں۔ ظاہر ہے نارنگ کی حسیت کی جس دورانیے میں پرداخت ہوئی ہے اور اس نے ایک خاص شکل بنائی ہے اس کے عوامل کا منظرنامہ یکسر مختلف اور انتہائی پیچیدہ اور انتہائی انقلاب آفریں ہے۔ نارنگ اپنے ذہن اور آموزش کے دریچوں کو ہمہ وقت کھلا رکھتے ہیں۔ فلسفۂ لسان، فلسفۂ معنی، فلسفۂ و نفسیات اور دیگر علوم نے نارنگ کی فہم اور نارنگ کے ذوق کو صیقل کیا ہے۔ نارنگ نے محض تعقل کو اپنے استدلال کی بنیاد نہیں بنایا ہے۔ ان کے وجدان کی سرگرمی اور خوش ذوقی نے تفہیم غالب کی حدوں کو عرفانِ غالب سے ملا دیا ہے۔ تنقید، تخلیق ہی کی طرح وہاں انکشاف کا درجہ اختیار کرلیتی جہاں علم، غیاب کا احساس دلانے لگتا ہے۔ نارنگ کا طریقِ رسائی بین العلومی ہے لیکن علم کی حیثیت ان کے عمل میں جوہر کی طرح ہے۔ اسی لیے علوم مکمل طور پر ایک آہنگ کی شکل اختیار کرتے اور وابستۂ یکدگر کا احساس دلاتے ہیں کیونکہ شعر غالب خود ایک ایسا مرکب ہے جس کی تحلیل بہ یک وقت ایک سے زیادہ علوم کے جوہر کا تقاضہ کرتی ہے۔ میں نے نارنگ کی شرحیات کو اسی بنا پر انکشاف کا نام دیا ہے جو ایک نئے غالب سے ہمیں متعارف کراتی ہے۔ نارنگ اپنے دیباچے ہی میں یہ سوال قائم کرتے ہیں۔
’’حالی اور متبعین حالی کے زمانے تک عمومی تنقید برحق تھی لیکن اکیسویں صدی تک آتے آتے غالب تنقید پر سوال اٹھانے میں حق بجانب ہے کہ طرفگیِ خیال اور ندرت و جدتِ مضامین جس پر بہت سر دھنتے ہیں وہ غالب کی تشکیل شعر میں قائم کیسے ہوتی ہے؟‘‘
اس کا جواب قائم کرنے کے لیے انھیں تقریباً سات پونے سات سو صفحات سیاہ کرنے پڑے:
’’غالب کی معنی آفرینی کے یوں تو کئی ابعاد، کئی پہلو ہیں (بسیار شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست) تخلیقی عمل یوں بھی بھید بھرا بستہ ہے۔ تنقید اس کی تھاہ پانے کا دعویٰ نہیں کرسکتی فقط قرأت کی بنا پر قیاسات قائم کرسکتی ہے وہ بھی صرف ان عوامل کے بارے میں جو تخلیقی عمل کی خصوصیات خاصہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ تو کیا جس افتاد ذہنی یا فکری نہاد کا ہم ذکر کررہے ہیں وہ غالب کے تخلیقی عمل کی خلقی خصوصیت کا لازمہ نہیں، اور کیا غالب اکثر و بیشتر جس شعری منطق کو اضطراری یا اختیاری طور پر کام میں لاتے ہیں اس کا کچھ نہ کچھ تعلق اُس جدلیاتی وضع یا حرکیات نفی سے نہیں جس کے سوتے ان کی لاشعوری گہرائیوں میں پیوست ہیں؟‘‘ (ص 39-40)
ظاہر ہے تنقید کا کام کلیے یا دعوے قائم کرنے سے زیادہ موانست اور رغبت پیدا کرنا ہے۔ تنقید اگر کوئی نیا نکتہ فراہم نہیں کرتی، کسی نئی تعبیر سے ہمیں دوچار نہیں کرتی، کسی نئے انکشاف کا باب ہم پر وا نہیں کرتی تو اس کے جھوٹ کا بھرم ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ بڑی تنقید ہمیشہ رد و انکار کی جرأتوں کو آزماتی اور قاری یا خود کو دھوکا دینے سے باز رہتی ہے۔
٭٭٭
گوپی چند نارنگ نے چار بنیادی تصورات یعنی معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات کو تفاعلِ غالب کی کلید کے طور پر اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ شعریات یعنی غالب کی شعریات، وہ شعریات جسے سینکڑوں نام دیے گئے ہیں پھر بھی یہ سلسلہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہا ہے اور نہ کہیں اس کا کوئی اختتام ہے۔ وہ شاعری جو حرکت آفریں، خودگر اور خودشکن ہوتی ہے اس کی وضع کو ’جدلیاتی‘ کی اسم صفت کے سابقے کے بغیر کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ ہر بڑا شاعر ہم سے جس قدر قریب ہوتا ہے یا اپنی قربت و قرابت کا احساس دلاتا ہے وہ اسی قدر ہم سے کئی گنا فیصلہ پر بھی ہوتا ہے۔ اپنی پہلے سے قائم کردہ وفاداریوں کے بتوں کو مسمار کرنے، اپنے انا اور اپنی خودی کے بھرم کو تہس نہس کرنے، اپنے عقائد، اپنے اعتماد و ایقان کے محلے دو محلے کو زمیں بوس کرنے کے بعد ہی ایک نئے غالب کو ایک نئے معنی کے ساتھ آپ متشکل کرسکتے اور اسی عمل کے ذریعے ہم شعر غالب کے ساتھ روحانی یگانگت پیدا کرسکتے ہیں۔
نارنگ نے ایک لوک کہانی کے حوالے سے یہ واضح کرنے کی سعی کی ہے کہ نئے غالب کی دریافت اگر ہمارا مقصود ہے تو کس طور پر گذشتگان کے قائم کردہ غالب کے واہمے Phantom سے بچ کر ہم ایک نئے، انوکھے، پہلے سے زیادہ حیرت خیز اور سریت سے معمور اور معنی سے مالامال اس غالب کی شعریات کی تشکیل کرسکتے ہیں جو کم ہی ہماری دسترس میں آتی ہے، دسترس میں آتی ہے اور پھر چھوٹ جاتی ہے۔ غالب تنقید اسی طرح کا چھپا چھپی کا کھیل ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں:
’’ایک پرانی لوک کہانی ہے کہ ایک بڑھیا رات کے وقت چوک پر کچھ ڈھونڈھ رہی تھی۔ کسی نے پوچھا اماں کیا ڈھونڈھ رہی ہو۔ کہنے لگی گھر کی چابیاں کھوگئی ہیں ان کو ڈھونڈھ رہی ہوں۔ اس نے کہا، چابیاں کہاں کھوئی ہیں۔ بڑھیا نے کہا گھر میں لیکن وہاں اندھیرا ہے کچھ سجھائی نہیں دیتا، یہاں روشنی میں ڈھونڈھ رہی ہوں۔ غالب تنقید کا سارا معاملہ یہی ہے۔ بالعموم غالب کو ہم وہاں ڈھونڈھتے ہیں جہاں روشنی ہے، جہاں سب معلوم ہے۔ غالب شعریات میں سب کچھ روشنی میںہو ایسا نہیں ہے۔‘‘
(غالب : معنی آفرینی،جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات، ص 14)
نارنگ نے غالب کی تشکیل کردہ شعریات تک پہنچنے میں عنوانات و ذیلی عنوانات کا ایک جنگل سا کھڑا کردیا ہے جس میں بڑی خاموشی سے غالب کے سوانح اور اس کی شخصیت کے بعض ایسے پہلوؤں کی نارنگ نے پردہ دری بھی کی ہے جنھیں ہم غالب فہمی کے چور دروازوں سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
٭٭٭
حالی اور ان کے بعد تواتر کے ساتھ جن بدیعی و شعری محاسن کو ہمارے نقاد غالب شناسی کے ضمن میںا ستعمال کرتے آئے ہیں۔ نارنگ نے انھیں بھی نئے معنی دینے کی کوشش کی ہے۔ عموماً ان محاسن کو اس قدر دہرایا گیا ہے کہ اب نئی نسلوں کے لیے ان کی حیثیت کلیشے یعنی پٹے ہوئے یا پیش پا افتادہ الفاظ و تراکیب کی ہوگئی ہے لیکن ہم جنھیں متروکات کے خانے میں دھکیلتے چلے آرہے ہیں، انھیں معنی کا نیا تناطر بھی دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہے یہ مشکل کام۔ گوپی چندنارنگ نے اپنے مباحث میںا ن پامال شدہ یا فراموش کردہ قدیم کسوٹیوں Touchstones کا احیا ہی نہیں کیا ان کا جابجا اطلاق بھی کیا ہے۔ نارنگ عمر کی جس منزل پر ہیں، ان ہی کے لیے نہیں کسی کے لیے بھی یہ بھاری پتھر اٹھانا کارِ دارد تھا۔ نارنگ نے خیر و خوبی سے یہ منزل بھی اس لیے سر کرلی کہ جدید فہمی ہی نہیں قدیم فہمی کا ان کا پورا ایک طویل پس منظر ہے۔ ان کی فکر جو زندگی بھر کے تجربات کا حاصل ہے۔ ان کے طریقِ استدلال اور طریقِ اطلاق میں عیاں و پنہاں ہے۔
نارنگ نے جن بدیعی و شعری محاسن کو معنی کا نیا تناظر مہیا کیا ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں: معنی آفرینی/ طرفگیِ خیالات(خیال بندی، تراکیب خیالی، باریکیٔ خیال)/ جدت و ندرتِ مضامین (مضمون آفرینی)/ طرفگیِ بیان (نادرہ کاری، دقیقہ سنجی، نکتہ رسی)/ استعارہ سازی/ تشبیہ کاری/ کنایہ و تمثیل۔ ذہنی میلانات میں حاضر جوابی و بذلہ سنجی، دقت پسندی، غیرمقلدانہ روش یعنی مردہ پروری سے گریز، نامانوس کاری، لامحدودیت کی جستجو، نفی واسترداد کا عمل۔ حیات و کائنات سے انبساط اخذ کرنا اور اسے ہیچ قرار دینا، سادیت کے برخلاف مسوکیت یعنی آزار میں لذت محسوس کرنا یا باور کرانا۔ دین و دنیا فہمی میں کائناتی وژن جو ان کی آزادگی اور شانِ قلندری کا مظہر ہے۔
٭٭٭
غالب کا نام آتے ہی، ایک ایسے شاعر کا تصور ابھرتا ہے جو ہم سب سے بے نیاز، ہم سب سے بے پرواہ، اپنی دھن میں مست الست، رہنے والا شخص ہے جب کہ ایسا نہیں ہے وہ اپنے مخصوص و منتخب سماجی رابطوں کو تازہ دم بھی رکھتا ہے۔ جو قواعد شکن اور ایک نئے قواعد شعری کا بنیاد گر بھی ہے۔ اسے یہ پرواہ ہی نہیں ہے کہ کسی نے اس پر ’گوشِ شنوا‘ دھرے کے نہیں۔ غالب کی شاعری کیا ہے۔ روایتی کارگہوں کے درمیان ایک نئے سانچے ڈھالنے والی کارگہہ شعری زبان کے سانچے،معنی و فکر کے سانچے، محسوسات کے سانچے ڈھالنے والی کارگاہ جس کے وسیلوں سے وہ جتنا قائم کرتا ہے اس سے زیادہ رد کرتا ہے۔ یہ ہیگل کا نفی کا نفی قانون The law of negation of negationنہیں ہے جس کے تحت ایک شئے کی دوسرے میں تقلیب ہوجاتی ہے اور اسی کے متوازی سابقہ کا اخراج، لیکن اخراج ہی میں ایک اثباتی امکان بھی مضمر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسا غیرمختتم سلسلہ ہے جو تضادات کے باہمی تصادم اور بعدازاںایک وحدت کی تشکیل کا مظہر ہوتا ہے۔ مارکس نے جدلیات کے اس عمل کو ٹھوس بنیاد فراہم کی تھی۔ دونوں نے اپنے اپنے طور پر جدلیت کو تصورِ ارتقا سے وابستہ کیا ہے۔نارنگ نے بھی ہیگل اور مارکس کے تصورِ جدلیات نفی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مارکس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ہیگل کی جدلیات کوجو سر کے بل کھڑی تھی پیروں پر کھڑا کرکے اس کی کایا پلٹ کردی، اسی طرح بودھی فکر بالخصوص ناگارجن نے اپنشدوں کی ماورائی جدلیات کو مایااور آتما پرماتما کے چکر سے نکال کر غیرماورائی ارضیت اساس ’شونیتا‘ میں بدل دیا ،جو انسانی آگہی و دانش کا نقطۂ انتہا ہے اور جس کی رو سے کسی بھی شئے کا وجود بالذات طور پر ثابت نہیں، ہر ہر شئے چونکہ قائم بالغیر ہے، اس لیے ’شونیہ‘ یعنی محتاجِ اصل ہے۔ نفی در نفی کا یہ فلسفہ اس حد تک بے لوث، منزہ اور انکاری ہے کہ اس میں کسی نوع کے جوہر یا ذاتِ مطلق کی گنجائش نہیں (تفصیل کے لیے دیکھیے باب چہارم)۔ دوسرے لفظوں میں جہاں ہیگل کی جدلیات ذہنی تفوق پر استوار ہے یا مارکس کی جدلیات مادیت اساس ہے، یا اپنشدوں کی جدلیات ماورائیت اساس ہے اور یہی کیفیت متصوفانہ جدلیاتی رویوں کی ہے جو سب کے سب ماورائیت اساس ہیں، ان سب کے مقابلے میں بودھی شونیتا نہ ماورائیت اساس ہے نہ مادیت اساس۔ یہ اس حد تک منزہ اور ریڈیکل ہے کہ اپنی جدلیاتی سوچ کی تیز دھار سے ہر تعین کوکاٹ دیتی ہے، کسی قضیہ کو بند نہیں کرتی اور طرفوں کو کھلا رکھتی ہے۔‘‘ (ص 474-75)
جب معنی کا قائم ہونا ہی محض ایک التباس ہے اور معنی ہمیشہ روبہ افزائش ہوتے ہیں۔ معنی کے اندر سے معنی کی نمو ہونے اور پھر anti-thesis کے طور پر اس کے رد ہونے کے معنی، معنی کے نئے انکشاف کے ہیں۔ انکشاف کے ہیں مگر ترکیب اور کسی منطقی دلیل پر استوار نتیجے کے نہیں ہیں۔ نارنگ نے بودھی فکر سے شونیتا کے جس تصور کا شعرِ غالب پر اطلاق کیا ہے اس کا نچوڑ انھیں کے لفظوں میں یہ ہے: شونیتاسے مراد کسی نوع کا دھیان گیان یا سلوک و عرفان نہیں ہے، بلکہ فقط وہ نفی اساس جدلیاتی طریقۂ کار جو حقیقت متناقضہ کی طرفوں کو کھول دے‘‘
٭٭٭
شونیتا کا مادّہ شونیہ یعنی صفر یا Zeroہے۔ جو ایک عددی علامت ہے۔ شونیہ کے ایک معنی تو یہی ہے ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘، ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں، ہے‘‘ ہے۔ حیات و کائنات، علم و عمل، ذات و صفات، وجود و موجود، انا و انائے دیگر سب معدوم ہیں۔ سب پر ناموجودگی و غیاب کا پردہ پڑا ہے۔ حقیقت کی اصل محض واہمہ ہے۔ اثبات کچھ نہیں اور اثبات مطلق شونیہ کے مصفّا تصور کو آلودہ اور محدود کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ یہ سوال صدیوں سے مسلسل اور مستقلاً کیا جاتا رہا ہے کہ حیات و کائنات کے وجود کی اصل کیا ہے اس کے معرضِ ظہور میں آنے کے پیچھے کیا کوئی مابعدالطبیعیاتی منطق کارفرما ہے اور یہ اگر اپنا ایک وسیع تر مظہر رکھتی ہے تو یہ رونما کیسے ہوگیا؟ ایک ریاضیاتی نظام سے ارض و سما مربوط نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی blindly نشو و نمو کا تاثر بھی فراہم کرتے ہیں۔ گویا اسباب و علل کی جستجو انسانی منطق کا قدیم ترین وظیفہ ہے اور کسی بھی حقیقت یا حواسی حقیقت کے ادراک کے معنی اس سیاہی، darkness کا ادراک ہوجانا ہے جو ایک پریشان کن سوالِ لاجواب ہے اور حیرتوں کا سرچشمہ بھی۔ نارنگ نے بودھی فلسفہ کی رو سے شونیتا کو منتہائے دانش سے موسوم کیا ہے کہ :
’’اس کے بغیر نہ تو حقیقت کا علم ممکن ہے نہ اس علم کی ترسیل، اور نہ ہی دنیا کی سچائی کو اس کے بغیر جانا جاسکتا ہے۔ اپنی مطلق حیثیت سے شونیتا انسانی وجود میں (جو عارضی وجود ہے) عدم وجودیت یا آزادی مطلق کاا حساس ہے۔ یہ نفی محض نہیں بلکہ وجود یا وجود کے احساس سے ورا جو وجود کا احساس ہے، اس کی نفی ہے۔ شونیتا کے تصور کو منفی طورپر ہی سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ تمام مثبت پیرائے نہ فقط شونیتا کو محدود کردیتے ہیں بلکہ اس کی مطلقیت کو خالص نہیں رہنے دیتے۔‘‘ (ص 87)
ہمیں یوں سمجھنا چاہیے کہ حقیقت یا وجود اپنی جگہ ہے لیکن شونیتا کی فہم کے بغیر نہ تو اس کا علم ممکن ہے نہ اس کی سچائی سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں حالانکہ سچائی بھی ایک اضافی قدر ہے۔ لیکن سچائی کی اضافیت کے احساس کے معنی ہی یہ ہیں کہ مطلق کچھ نہیں ہے۔ نارنگ کا کہنا ہے کہ شونیتا انسانی وجود میں (جو عارضی وجود ہے) عدم وجودیت یا آزادیِ مطلق کاا حساس ہے۔ اس کے بعد وہ اس مغالطے کو رفع کرتے ہیں کہ شونیتا نفیِ محض نہیں بلکہ وجود یا وجود کے احساس سے ورا جو وجود کا احساس ہے، اس کی نفی ہے، یہاں پہنچ کر ہم اس تصور کو ماورائیت یا مابعدالطبیعیات سے منسلک کرسکتے ہیں۔ یا اس کے سرے عینیت میں تلاش کیے جاسکتے ہیں یا صوفیانہ تجربے سے بھی اسے وابستہ کرکے دیکھا جاسکتا ہے لیکن جہاں وجود اور احساسِ وجود کا صیغہ استعمال کیا گیا ہو اس کے معنی ہی احساسِ حقیقت کے ہیں اور حقیقت کبھی حقیقتِ محض نہیں ہوتی وہ ایک مظہر ہوتی ہے، حواسی تجربہ ہوتی ہے باوجود اس کے ہر حقیقت کا ایک غیاب بھی ہوتا ہے جو ہماری نظر یا بصارت کی محدود صلاحیت اور ذہن و فہم کی محدود صلاحیت کی گرفت سے ہمیشہ پرے ہوتا ہے یہی ’’احساس سے ورا وجود کا احساس‘‘ ہے۔ شونیتا کی آگہی کے معنی اندر از وجود اور ورائے وجود کی آگہی کے ہیں۔ چونکہ یہ ایک بے حد پیچیدہ منطق ہے اس لیے نارنگ نے ایک مثال دے کر اس گتھی کو یوں سلجھانے کی کوشش کی ہے:
’’فرض کیجیے ایک شخص نے چوری کی ہے۔ ایک دوسرا شخص جس نے چور کو چوری کرتے نہیں دیکھا، وہاں سے گزرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’چور یہی شخص ہے‘‘ اس لیے کہ وہ اس شخص کو ناپسند کرتا ہے۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے جس نے واقعتاً پہلے شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا ہے، وہ کہتا ہے کہ ’’چور یہی شخص ہے‘‘ دیکھا جائے تو پہلے اور دوسرے نے چوری کی واردات کے بارے میں ایک ہی بات کہی ہے کہ ’’چور یہی شخص ہے‘‘ لیکن دونوں کی سچائی میں جو فرق ہے، وہ بنیادی نوعیت کا ہے یعنی اک شخص جھوٹ بول رہا ہے اور ظاہر کررہا ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے، اور دوسرا شخص سچ بول رہا ہے کیونکہ اس نے چور کو چوری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کسی سچ کو قائم کرنے میں یہی فرق سب سے بنیادی فرق ہے۔ اگر ہم اس فرق کو نگاہ میں رکھیں جو پہلے اور دوسرے شخص میں ہے تو ہم شونیتا (آگہی) اور اودیا (عدم آگہی) میں گرفتار عام آ دمی کے فرق کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ بودھی مفکر چندرکیرتی کی اس حکایت کو بمل متی لال نے نقل کیا ہے۔ جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اودیا میں گرفتار عام آدمی اس شخص کی مثال ہے جس نے سچائی کو نہیں دیکھا مگر سچائی کو جاننے کا مدعی ہے جبکہ شونیتا کی آگہی رکھنے والا شخص اس شخص کی مثال ہے جس نے حقیقت کو دیکھا ہے، اس سے گزرا ہے اور اپنے تجربہ کی بنا پر جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔‘‘ (ص 87-88)
گویا شونیتا کا سروکار محض نفیِ محض سے نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ راست یا ناراست اثبات سے ہے۔ اثبات ختمہ بھی ہے اور جو کچھ ہے وہ سلسلۂ رواں ہے اور بصارت کی حدمیں اسی طرح محض جھلکیاں ہیں جس طرح لفظ کے اندر معنی کی پوری سمائی ممکن نہیں ہم معنی کی جھلک دیکھتے ہیں، معنی کے واہمے یا معنی کے قیاس پر مبنی معنی سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے جس طرح دنیا مسلسل ہونے becoming کی حالت میں ہے۔ اسی طرح معنی بھی محض ’ہونے‘ کی حالت میں ہوتا ہے۔ نارنگ نے معنی کے اس ’ہونے‘ کی حالت کو ایک مسلسل جدلیاتی تفاعل کے تجربے کے ساتھ مشروط کرکے دیکھا ہے۔
٭٭٭
غالب کی شاعری میں زندگی اور دنیا کے بارے میں وہ تصور کم ہی ملتا ہے جو فہم عامّہ سے مطابقت رکھتا ہے یاجسے بار بار دہرایا گیا ہے اور جس نے شاعری میں ایک مستقل مضمون کی صورت اختیار کرلی ہے۔ بعض تصورات آفاقی صداقتوں سے موسوم کردیے جاتے ہیں کیونکہ ان کی حیثیت عقائد و رسوم کی ہوجاتی ہے ورنہ آفاقی صداقت خود ایک بھرم ہے۔ ہم آنکھیں بند کرکے ان صداقتوں کو قبول کرلیتے ہیں کہ فہم عامہ سے بھی ان کی توثیق ہوتی ہے۔ غالب کی فکر میں جس عدم یقین سے ہمیں بار بار سابقہ پڑتا ہے وہ محض تضادات و تناقضاتِ عالم اور اشیائے مدرکہ کی فریب دہی اور عدم استقلالی، ایک وسیع تر خالی پن اور اس کے احساس پر منتج ہے جسے ہمارے نقادوں نے ہر دور میں مختلف نام دیے ہیں۔ تنقید بھی ایک لحاظ سے فنِ تسمیہ یانام زدگی کا فن ہے۔ غالب کے اس مخصوص ذہنی شعار کو جو اپنی بیش تر صورتوں میں ’انکار‘کی طرف مائل رہتا ہے اور جو اپنے قاری کے سامنے سوالات کا دفتر کھول کر اسے الجھائے رکھنے اور بار بار قرأتوں کے آدھے ادھورے تجربے کو رد کرنے اور ہمیشہ قرأت کے عمل میں کچھ نہ کچھ چھوٹ جانے پر اپنی ترجیحات کی بنیاد رکھتا ہے۔ نارنگ نے اسے شونیتا سے تعبیر کیا ہے جس کی بنائے فکر عدم یقین پر استوار ہے اور جس سے ایک راہ حقائق کے اندر حقائق کے جہانانِ دیگر کے عرفان کی طرف بھی جاتی ہے جسے نارنگ نے منتہائے دانش سے تعبیر کیا ہے۔ گفتگو کے اس مرحلے پر مجھے کولمبس سے متعلق ایک واقعہ یاد آگیا : کولمبس (1446-1506) اسپین کا باشندہ تھا، بحری سیاحت کے شوقِ فراواں اور طبیعت کی جولانی اور بلا خوفی نے اسے کئی ایشیائی ممالک کے سواحل تک پہنچایا، وہیں اس کا سب سے بڑا کارنامہ جنوبی امریکہ کی دریافت بھی تھا۔ جب وہ ایک فاتح کی حیثیت سے واپس اپنے وطن لوٹا تو اس کی وسیع پیمانے پر پذیرائی ہوئی، اتنے اہم اور بڑے کارنامے کی سرانجامی پر اسے انعامات سے نوازا گیا ۔ اسی سلسلے میں ایک تقریب کے موقع جب وہ اپنے چند احباب کے ساتھ محو گفتگو تھا ایک شخص کولمبس سے مخاطب ہوااور کہنے لگا۔ ’یہ تو کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔ کوئی بھی بحری سفر کرکے وہاں جاسکتا ہے۔ کولمبس زیرِ لب مسکرایا اور ایک انڈاہاتھ میں لے کر اس سے کہا جناب من کیا آپ اس انڈے کو سیدھا ہتھیلی پر کھڑا کرسکتے ہیں۔‘ ہاں کیوں نہیں لائیے ابھی کردیتے ہیں۔ ان حضرت نے جواب دیا اور انڈا اپنی ہتھیلی پر دائیں بائیں گھماتے ہوئے سانس روک روک کر کھڑا کرنے کی کوشش کرتے رہے بالآخر انھوں نے یہ کہہ کر کولمبس کو انڈا واپس کردیا کہ ’نہیں یہ ممکن نہیں ہے‘ کولمبس نے انڈا لیا پاس کی میز سے ذرا سا ٹخ کرکے پھوڑا اس میں سے ذرا سی سفیدی نکلی، کولمبس نے اسے ہتھیلی پر رکھا اور انڈا سیدھے کھڑا ہوگیا۔ وہ حضرت بولے ’’ارے یہ تو میں بھی کرسکتا تھا۔‘‘ کولمبس نے کہا محترم! آپ اور مجھ میں بس یہی فرق ہے کہ میں نے اپنی سوجھ بوجھ سے اسے ہتھیلی پر چپکانے کی راہ ڈھونڈ لی اور آپ یہ نہیں کرسکے۔ اب جب کہ میں نے یہ کردکھایا تو آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں دراصل کہنے اور کرنے میں یہی فرق ہے۔
نارنگ نے بھی انڈے کو ہتھیلی پر سیدھا چپکا دیا ہے جو دوسرے نہیں کرسکے۔ انھوں نے اِس بھرم کو بھی توڑنے کی کوشش کی ہے کہ اردو شاعری ہی نہیں فارسی کے شعرا نے بھی محض فارسی شعری روایات اور عرب و عجم کی فکر سے اپنے فکر کو متمول نہیں کیا، ہندوستانی دانش اور تصوراتِ جمال سے بھی جو کچھ اخذکیا اور اپنے محسوسات اور تجربے کا حصہ بنایا ہے اسے بیدل و غالب نے ایک نئی شعری قوت بدل دیا۔ یہ مضامین ہماری شعری روایت میں بھی اپنی چمک دکھا رہے تھے لیکن غالب کا میدان ایک رزمگاہ کے مماثل ہے۔ غالب کے لیے تعقل اور وجدان، صناعی اور تخلیقیت میں کوئی حدِ فاصل نہیں ہے۔ وہ تو حدودِ شکنی کا دعوے دار ہے۔بقول نارنگ ’تعین‘ اس کی فرہنگ میں ایک لفظِ بے معنی ہے۔ اسی معنی میں لامحدودیت اس کا اصلی کھیل کا میدان ہے۔نارنگ کا کہنا ہے کہ:
’’غالب کی شعریات اجتہاد، انحراف اور آزادی کی شعریات ہے۔ اس کا وظیفہ تغیر، تبدل اور تجسس ہے۔ آج کے منظرنامہ میں یہ مماثلت معنی خیز تو ہے ہی، حیران کن بھی ہے کہ جدلیاتی فکر اور متناقضات کی زبان جو غالب کی تخلیقیت کی خاص پہچان ہے، عہد حاضر کی تکثیریت اور عدم تیقن کے محاورہ سے گہری مناسبت رکھتی ہے۔‘‘ (ص 546)
٭٭٭
ہم غالب کی شاعری کو ایک ایسے میوزیم سے تعبیر کرسکتے ہیں جو بیش بہا نوادرات و عجائب سے معمور ہے۔ نارنگ غالب کے حقیقی کمال اور جوہر تک پہنچنے اور اس کی سریت کی تھاہ لگانے اور اس کے یہاں جو blind spots ہیں انھیں نام دینے کے لیے حالی اور بجنوری سے لے کر سبکِ ہندی کے شعرا اور خصوصاً بیدل کو کچھ اس طور پر بحث کا موضوع بناتے ہیں کہ غالب تنقید کی پوری تاریخ کے پیچ و خم کو سمجھنے کی جیسے کلید فراہم کرنا ان کا مقصد ہے۔ اتنا ہی نہیں، فارسی شعرا اور بالخصوص بیدل کو جس طور پر نارنگ نے بحث کا موضوع بنایا ہے، اس کا مقصد بھی غالباً یہی ہے کہ غالب کی شعریات کا ادراک ان رشتوں کی فہم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ غالب نے ارادۃً یاغیر ارادۃً گزشتہ اردو شعرا سے کوئی اثر لیا ہونہ لیا ہو، بیدل اور دوسرے فارسی شعرائے ہند جیسے صائب، کلیم، ظہور اور عرفی وغیرہ کی طرف ان کی رغبت زیادہ تھی،حالانکہ خسرو کے علاوہ کسی اور کو وہ مشکل ہی سے گردانتے ہیں۔ بیدل کے طرز نے ابتدائے عمر ہی سے انھیں اپنا اسیر بنالیا تھا، گویا بیدل کی شاعری ان کے لیے جادو گھر تھا۔ وہ اس سے متاثر ہوئے مرعوب بھی۔ جتنے ہوئے اس سے کم تسلیم کیا۔ کیونکہ ان کی انانیت انھیں بہت کم اعتراف و تسلیم کی اجازت دیتی ہے۔ نارنگ نے صحیح کہا ہے کہ :
’’اگرچہ غالب ، جلال اسیر، شوکت بخاری، غنی کاشمیری، ناصر علی سرہندی وغیرہ سے بھی متاثر ہوئے، لیکن جو شاعر پچیس تیس برس کی عمر تک مرزا کے دل و دماغ پر حاوی رہا بلکہ جس کا نقش ان کے لاشعور میں مرتسم ہوگیا اور زندگی بھر جس کے اثر سے وہ پیچھا نہیں چھڑا سکے، وہ بیدل اور صرف بیدل تھا۔‘‘ (ص 135)
غالب کے کلام میں جو ’حرکیت‘ حوصلہ مندی اور آزادگی کا نظریۂ حیات ہے۔ نارنگ نے اسے عرفی و بیدل کا ورثہ بتایا ہے لیکن غالب نے ورثے کو من و عن ورثے کے طور پر اپنی جاگیر نہیں بنایا بلکہ بقول نارنگ:
’’غالب نے اپنے جدلیاتی رویے سے اس پر جلا کی اور اس ذہنی رویہ کو اس حد تک تخلیقی زندگی کا لازمہ بنالیا ہے ان کی طبیعت کسی طرح کی روایتی و رسومیاتی تحدید یا پابندی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ وہ اول و آخر اپنے عہد اور مقتدرہ کے باغی ہیں، شعریات میں بھی، فکر و خیال میں بھی اور رسومیات و عقائد میں بھی۔ اپنے عہد سے ان کا شدید ذہنی و تخلیقی تصادم زندگی بھر جاری رہا۔‘‘ (ص 143)
دراصل اس باغیانہ شعور کے پیچھے اس ’خاطر آگاہ‘ کی علت کارفرما ہے جو شروع ہی سے غالب کو اضطراب میں رکھتی ہے۔ ہیرلڈ بلوم نے جسے تشویش اثر anxiety of influenceکانام دیا ہے۔ اس طرح کی کشمکش ہر اہم اور بڑے شاعر کا مقدر ہوتی ہے۔ غالب کو شعری روایت سے محسوس یا غیرمحسوس طور پر جو کچھ ملا تھا اس کے اعتراف کے معنی ان کے نزدیک غالباً ان کی اوریجنلٹی کو جھٹلانے کے تھے اسی لیے مزاحمت بھی ان کے کردار کا ایک خاصہ ہے۔ اپنے ایک شعرمیں ان کایہ دعویٰ ہے کہ پہلے کے شعرا کے کسی خیال کی گونج اگر ان کے یہاں سنائی دیتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انھوں نے اسے چرایا ہے بلکہ نہاں خانۂ ازل میں وہ عطیہ الٰہی کے طور پر پہلے ہی سے ان کے نام سے محفوظ تھا ان سے پہلے پیدا ہونے والوں ہی نے اسے چرا کر پہلے استعمال کرلیا۔ پہلے استعمال میں آنے کے باوجود سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا غالب کے یہاں وہ خیال یا مضمون جوں کا توں در آیا ہے یا اسے ایک نیا پیرایہ ایک نیا اسلوب ایک نئی قوت حاصل ہوئی ہے۔ خیال اور مضمون پسپا نہیں ہوتا اس کے ازسر نو تجربے اور پھر اس کی ادائگی میں کوئی فی یا کمی واقع ہوجائے یا شاعر میں صلاحیت اظہار کا فقدان ہو یا استعمالاتِ لفظ کے متنوع طریقوں پر اس کاتحکم نہ ہو تو اعلیٰ، بلند اور انوکھا مضمون اور خیال بھی مٹی میں مل جاتا ہے۔ نارنگ نے غالب کے یہاں اس تقلیبی بصیرت کی جابجا نشاندہی کی ہے کہ کس طرح غالب اپنے تخلیقی عمل میں نئے نئے انضمامات قائم کرنے اور ان سے جہانِ نو پیدا کرنے کی طرف مائل رہتے ہیں۔ نارنگ نے جدلیاتِ نفی یعنی شونیتا سے وابستہ کرکے معنی آفرینی کا تہہ بہ تہہ تجزیہ کیا ہے۔ ایک جگہ انھوں نے ہندوستانی فکر کے ایک موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’حقیقت علم سے باہر بھی وجود رکھتی ہے، یہ زبان کے نظام سے آگے کی منزل ہے، یعنی بے صدا آواز یا سکوتِ کامل یا خاموشی جو ام اللسان یا جو زبانوں کی زبان ہے۔ خاموشی یا مون ¼ekSu½کو ہندستانی روایت میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہ زبان کا اصل الاصول یا سرچشمہ ہے۔ خاموشی بطور اصل زبان یا زبان کی کنہ کے حرکی تصور کا احساس سبک ہندی کے شعرا بالخصوص بیدل و غالب کے یہاں بہت گہرا ہے۔‘‘ (ص 79)
٭٭٭
نارنگ نے بیدل اور بیدل اور غالب کے معنوی تعلق پر جو طویل بحث کی ہے اس میں ایک سرمستی کی کیفیت ہے جیسے غالب کے لیے بیدل ایک نشہ ناتمام تھے اسی طرح غالب کی گفتگو کے دوران نارنگ کا قلم بھی انبساط کی ترنگ میں اُن سرّی اور وجدانی کیفیات کو رقم کرتا جاتا ہے جن سے ہماری قرأتوں کو تاہنوز سابقہ نہیں پڑا ہے۔ نارنگ نے یہی انوکھے مناظر اپنی تشریحات میں بھی دکھائے ہیں۔
غالب کا ابتدائی کلام جس بداعتِ تخیل اور مرکب استعارہ سازی، دقت کوشی اور لطافت و رعنائی کا مظہر ہے اسے طرزِ بیدل ہی کی کرشمہ سازی کہنا چاہیے۔ غالب نے بادِ مخالف میں بیدل کے لفظوں میں بیدل کو سپہر بلند اور خود کو کفِ خاک سے تعبیر کیا تھا۔ بیدل کی مثنوی عرفان میں یہ شعر یوں ہے:
من کفِ خاک و اُو سپہر بلند
نبرد خاک بر سپہر کمند
غالب نے مصرع ثانی میں تصرف کرکے اسے اس طور پر تبدیل کردیا ہے:
’خاک را کی رسد بچرخ کمند‘
نارنگ نے بیدل کی شخصیت، زندگی، حالات و کوائف کا جن لفظوں سے نقشہ کھینچا ہے اس میں ایک آمد کی سی کیفیت ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ غالب کو بھول جاتے ہیں جب پلٹ کر آتے ہیں تو اپنے مطالعے کا نچوڑ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
’’جتنا بھی غالب پر لکھا گیا اتنے ہی نئے امکانات کا در بھی وا ہوا ہے۔ غالب کو جہاں داد دیے بغیر نہیں رہاجاسکتا، یہ احساس بھی برابر ہوتا ہے کہ مبہم استعاروں اور ترکیبوں میں لپٹا ہوا یہ کلام گرہ در گرہ ہے، اس کی کوئی تعبیر مطلق نہیں اور ہر تعبیر کچھ نہ کچھ تشنہ رہ جاتی ہے۔ غالب کی معنی بندی اور تہہ داری کے رازکو پانا جتنا آسان نظر آتا ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ یہی معاملہ بیدل کا بھی ہے۔ بیدل کی شعریات بھی گرہ در گرہ، پیچیدہ، سریت زدہ اور الجھی ہوئی ہے۔بیدل کی شہرت و مقبولیت کا گراف بھی غالب کے گراف کی طرح زیر و زبر ہوتا رہا ہے۔‘‘ (ص 191-92)
بیدل اور غالب کی تخلیقی سرشت کی مماثلت کے جواز ڈھونڈنے والوں نے دونوں کے اشعار کو پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھنے کی زیادہ کوشش کی ہے لیکن عبدالغنی اور وارث کرمانی نے اس طریقہ کار کے برعکس ان کی تخلیقی جہتوں اور ان کے اندر اور باہر کی ناآہنگیوں اور مختلف ذہنی و جذباتی صدمات اور شاعری کو ’چیزے دیگر‘ کی فہم سے وابستہ کرکے دیکھا ہے۔ نارنگ کو یہ سب تسلیم لیکن بیدل کے لیے ہندی فکر بھی ایک سرچشمۂ فیضان تھا۔ نارنگ کا موقف ہی یہ ہے کہ غالب ہی نہیں ان کے رنگِ بہار ایجاد استادِ معنوی بیدل کو حیات و کائنات فہمی کا جو ایک مختلف طور ملا ہے اس کی جڑیں ہندوستانی فکر میں دور تک چلی گئی ہیں۔ واگیش شکل کا کہنا ہے کہ سنسکرت یوگ وششٹھ کے جو ترجمے، طورِ معرفت اور محیط اعظم میں مثنوی کے پیرائے میں دستیاب ہیں،بیدل کی مثنوی عرفان میں ان کی گونج جابجا سنائی دیتی ہے۔ اتنا ہی نہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ (غالباً) ’یوگ وششٹھ‘ تا زندگی ان کے ساتھ رہی، بین الاخذ و قبولیت کا یہ سلسلہ غالب تک پہنچتا ہے۔ نارنگ نے غالب کے کئی ذہنی رشتوں کی طرف اشارے کیے ہیں اور اپنے تھیسس کی تصدیق میں بھی انھوں نے کہیں کوئی نکتہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ غالب کے ساتھ مربوط کرکے نہ صرف بیدل بلکہ سبک ہندی کے تمام شعرا کو اپنی بحث کا جز بنالیا ہے۔ جہاں تک ہندوستانی فکر و دانش کی روایت اور ہندو مسلم باہمی تعامل کا سوال ہے۔ نارنگ نے غالباً اپنے تھیسس کی بنیاد ہی اس نکتے پر رکھی ہے کہ اردو شاعری ہی نہیں سبک ہندی کی شاعری نے بھی محض عرب و عجم یا وسطِ ایشیا کے رنگ و آہنگ سے استفاضہ نہیںکیا بلکہ ذہنی اور فلسفیانہ سطح پر ہندوستانی فکر و ثقافتی روایت سے بھی محسوس و غیرمحسوس طور پر اخذ و اکتساب کیا ہے اور اپنے ذوقِ جمال کو جلا بخشی ہے۔نارنگ نے ساختیات اور پس ساختیات کے تحت لسان،متن، اور حقیقت کے تعلق سے انھیں کو حوالہ نہیں بنایا بلکہ جن نئے تصورات نے فکر کے روایتی اور فرسودہ ڈھانچوں کو تاخت و تاراج کیا ہے اور ماضی یاماضی بعید کی ان امثلہ کی بازیافت بھی کی ہے اور ان کا اطلاق بھی کیا ہے۔ جو نہ صرف بیدل و غالب بلکہ آج کو کل سے بھی جوڑتی ہیں۔ بیدل اور غالب اگر کل ہی نہیںا ٓج کے بھی شاعر ہیں تو اس کا ایک مطلب یہی ہے کہ دونوں کی شاعری وقت کی قید سے ورا ہے۔ دونوں کی کنہ یا تھاہ تک رسائی کے انداز بدلتے رہیں گے اور ہر رسا بالآخر نارسا ہی ثابت ہوگی۔ نارنگ نے بیدل پر ایک طویل فلسفیانہ اور جمالیاتی بحث کے پہلو بہ پہلو غالب کے ساتھ اس کے معنوی رابطے اور ترجیحات کو کئی نام دیے ہیں۔ ان کے اس خیال کو ساری بحث کا خلاصہ کہنا درست ہوگا کہ:
’’بیدل کافکری نظام سریت آلود اور حرکیاتی تھی۔ غالب کی جدلیاتی گردش نے اس کے تمام رنگوں کو نہ صرف چوکھا کردیا بلکہ معنی کو برقیا کر دائمی طور پر اضطراب آشنا کردیا۔ یہ شعریاتی معجزہ سے کم نہ تھا۔ غالب کا متن معنی کی تند و تیز شراب کی تلخی سے بدمست ہے۔ آج اگر غالب کا ’ایک ایک شعر دشتِ امکاں کو اپنے نقشِ پا کے نیچے دبائے ہوئے ہے‘ یا غالب کی آواز ’زودِ فہم‘ نہ ہونے کے باوجود جنتِ نگاہ اور فردوسِ گوش بنی ہوئی ہے تو وہ متن کی قوت کی وجہ سے ہے جو زماں کے محور پر معنی آفرینی میں مصروف ہے۔‘‘ (ص 249)
٭٭٭
نارنگ نے غالب کی جدلی فکری کشاکش ذہنی اور باخبری کے اضطراب کی کئی مثالیں تواتر کے ساتھ ان کے اشعار سے مہیا کی ہیں اور اپنے دعوے کو اور مضبوط کرنے کی غرض سے ان کی جو تشریحات کی ہیں وہ روایتی تشریحات سے ایک علیحدہ طریقۂ کار وضع کرتی ہیں، جیسے بجنوری کا وضع کردہ بین العلومی شرحیات کا اسلوب۔ بجنوری اپنی شرحوں پر علم کا بوجھ کچھ زیادہ ہی ڈال دیتے ہیں لیکن اکثر وجدان کی آزادہ روی کو بھی بروئے کارلاتے ہیں۔ نارنگ شعری لسان شناس ہیں وہ اس قدیم ثقافتی ورثے کے ساتھ بھی وفا نبھاتے ہوئے چلتے ہیں جس کی قدامت اسے ناکارگی، لاحاصلی اور بے وقعتی کے غار میں نہیں دھکیل سکی بلکہ ہر دور نے اس کے تخیلات کے خزانوں سے کسب فیض کیا ہے۔ نارنگ نے خصوصاً دورِ حاضر کے اس فکری میلان سے اس کی مطابقت اور توافق کی نشاندہی پر زیادہ بنائے ترجیح رکھی ہے جو بزبانِ نارنگ جدلیات نفی اور حرکیاتِ نفی کے ساتھ مشروط ہے اور جو پس ساختیاتی فکر کی بنیاد بھی ہے۔
٭٭٭
یہاں ایک غزل اور اس کی تفہیم کے اسلوب کی مثال سے نارنگ کے اندازِ نظر اور طریقِ رسائی کو سمجھنا نسبتاً آسان ہوگا۔ میں نے خصوصاً اس غزل کا انتخاب اس لیے کیا کہ اس کے اشعار نسبتاً سہل اور فارسی تراکیب اور اضافت یا توالی اضافت سے عاری ہیں، ہمارے شارحین نے ان اشعار پر بڑی مغز ماری کی ہے جنھیں عام طور پر مشکل کہا جاتا ہے۔ نارنگ نے یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ غالب اپنے بہ ظاہر سہل و سادہ اشعار میں بھی اتنا سہل نہیں ہے۔غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ شعرکا عندیہ تو کچھ اور ہی ہے، وہ ابلاغ کم کرتا ہے الجھاتا زیادہ ہے۔ ہم اقرار وانکار، اثبات و نفی، رد و قبولیت کے مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جب زبانِ شعر گنگ ہوجاتی ہے۔ اسی کو نارنگ نے خاموشی کی زبان کہا ہے۔ شعر کیا ہوتا ہے ابھی منیو کا چکرویو ہوتا ہے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ گویا غالب کی شاعری ایک رزم گاہ ہے جہاں دفاع کا رویہ کام نہیںا ٓتا، ہمیں اس سے دو دو ہاتھ کرنے پڑتے ہیں۔ غالب سیدھے چلتے چلتے ایک دم پلٹ وار کرنے سے باز نہیںا ٓتے۔ اب ذرا مذکورہ غزل کی تفہیم دیکھیں۔ نارنگ نے بظاہر آسان شعروں میںسے کتنے نکتے برآمد کیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ غالب کے شاعری کو ہم کتنے رخوں سے دیکھ سکتے یں اور لطف انگیزی کے گوشے کہاں کہاں چھپے ہوئے ہیں۔
اقتباس اگرچہ طویل ہے لیکن انبساط انگیز اور قرأت نواز ہے:
’’ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
(م)
کس منہ سے شکر کیجیے اس لطفِ خاص کا
پرسش ہے اور پاے سخن درمیاں نہیں
(م)
ہم کو ستم عزیز ستمگر کو ہم عزیز
نامہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
(م)
بوسہ نہیں نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم گر دہاں نہیں
(م)
زیرنظر اشعارمیں حرکیات نفی کا تخلیقی تفاعل اتنا نمایاں ہے کہ کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ غالب کی تشکیل شعر کی طرفگی کا ایک شیوہ یہ ہے کہ دو خیالی پیکروں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکر ان میں بیچ کا عرصہ خلق کرکے معنی کو برقیا دیتے ہیں مثلاً معشوق کے لیے کہ اگر مہرباںنہیں تو نامہرباں بھی نہیں، یہی کشاکش چھیڑ اور امتحان میں ہے یا زباں اور دہاں میں ہے کہ بوسہ نہیں تو گالی ہی سہی اس لیے کہ دونوں کا تعلق دہاں سے ہے۔ دوسرا شعر نسبتاً بہت بلند ہے۔ محبوب کی غفلت شعاری اور کم نگہی بمنزلہ روایت کے ہے جسے غالب نے پلٹ دیا ہے اور اس حد تک کہ پائے سخن یعنی زبان کے عمل ہی کو بیچ سے نکال دیا ہے اور اسے اس کی آخری حد یعنی خاموشی تک پہنچا دیا ہے، سبحان اللہ، ’پرسش ہے‘ میں پوچھنے، بات کرنے کا عمل زبان کاعمل ہے لیکن پائے سخن درمیان نہیں،کی حرکیاتِ نفی سے پرسش کے لیے قرینہ استعارہ کا پیدا کردیاہے۔ شعر بیشک زبان سے بنتا ہے، لیکن یہ زبان نہیں سحر و اعجاز ہے۔‘‘ (ص 406-07)
نارنگ نے اپنی تفہیمات میں اسی طرح معنی در معنی کے گچھوں سے زیادہ معنی رد معنی کے سلسلۂ غیرمختتم کو معنی آفرینی کے اس عمل سے وابستہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے جو سرّی ہے اور جس کے سانچے بیدل و غالب جیسے شعرا کی ذہنی کارگہ کے خلق کردہ ہیں۔ نارنگ نے بارہا مقامات پر استعارہ سازی کے خلاقانہ عمل سے بھی نئی نئی نسبتیں فراہم کی ہیں۔ ظاہر ہے استعارہ شعری زبان کی روح اور سب سے بڑی قوت بلکہ زبان کاجوہر ہے۔ غالب اور بیدل کا کمال یہ ہے کہ ان کے بیش تر استعارے لفظی خوشوں کی صورت میں واقع ہوتے ہیں۔ دراصل اضافتوں کا بار شاعری ہی زیادہ سنبھال سکتی ہے نثر کے توفیق میں نہیں۔ قدیم نثر میںا س سے محض آرائش و تزئین کا کام لیا گیا جو ایجاز کے بجائے طوالت کا باعث ہوا کرتا تھا۔ اس کے برعکس شاعری میں وہ ایجاز کا وظیفہ اور تخیل کی رسائی کی مقیاس ہے۔ غالب ایک زبردست صناع ہی نہیں تھے۔ الفاظ کے نئے نئے تلازموں سے وضع کردہ زمروں میں محسوسات اور افکار کے شرارے ٹھونس ٹھونس کر بھر دینے کاا ن کا اپنا ایک منفرداسلوب تھا۔ شعری زبان حسی زبان کہلاتی ہے اور حسی زبان شاعر کے باطن کی زبان ہوتی ہے جسے معدوم اور نارنگ نے جسے غالب کے محاورے میں خاموشی کی زبان قرار دیا ہے جو ہمیشہ اظہار کی انتہا پر ہوتی ہے۔ دراصل غالب نے کہا ہے کہ وہ اپنے شعروں میں محذوفات سے کام لیتے ہیں جہاں جہاں محذوفات واقع ہوتے ہیں ان عرصوں spaces میں silences سکوتیے بھی ساتھ ساتھ واقع ہوجاتے ہیں۔ نارنگ نے شعر غالب میں جابجا واقع ان عرصہ ہائے سکوت میں جو ’ان کہا‘ رہ گیا ہے اسے جن معانی سے بھرا ہے وہ توقع کے برخلاف توقع شکن اور قاری کو ایک نئے معنی کی جستجو کے لیے مہمیز کرتا ہے، نارنگ کا تھیسس بھی یہی ہے کہ تنقید و تفہیم کا کام محض معنی سازی نہیں قاری کو نئے معنی کی دریافت کے لیے اکسانا بھی ہے۔نارنگ کی کتاب اس معنی میں جہاں اپنے اختتام پر پہنچی ہے وہاں سے غالب فہمی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔