٭ڈاکٹر سلیم محی الدین
ایسوسی ایٹ پروفیسر، صدر شعبہ اردو
شیواجی کالج، پربھنی۔
غالب ہماری زبان اور شاعری کا تہذیبی محاورہ ہے ۔ جوارد و جانتا ہے وہ غالب کو جانتا ہے اور جو نہیںجانتا وہ بھی غالب کو جانتا ہے ۔اردو والے تک غالب زبان کے حوالے سے پہنچتا ہے اور غیر اردو داں تک اپنی فکر کے حوالے سے ۔ ویسے غالب کو جاننا ان دنوں ایک اسٹیٹس سمبل بھی ہے ۔ کالی داس ، تلسی داس، خسرو، کبیر، میر اور غالب ہمارے ادبی و تہذیبی شعور کا حصہ ہیں ۔ غالب ان سب میں نمایاں اس لئے ہے کہ غالب آخر غالب ہے ۔
غالب نے کتابیں کرائے پر حاصل کرکے پڑھیں اور روزگار پر وظیفہ خواری کو ترجیح دی حتیٰ کہ شراب بھی قرض کی پی۔ اس کے باوجود غالب ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہے ۔ یہی غالب کی عظمت کا راز ہے ۔ غالب اپنے مضامین روزمرہ کی زندگی سے اٹھاتا ہے اور اسے مکاملے کی صورت ہم تک پہنچاتا ہے ۔ ہر چند کہ ان اشعار میں معنی کی کئی پرتیں ہوتی ہیں اور ساتھ ہی ایک گہرا فلسفہ بھی لیکن ان ا شعار کی خوبی یہی ہے کہ وہ سامنے کے معنی سے بھی اپنے قاری کو اپنی گرفت میں لینے کی قدرت رکھتے ہیں ۔
غالب کا کمال ہے کہ وہ نرا شاعر نہیں ۔ وہ نہ جولانی طبع کے جوش میں شعر کہتا ہے اور نہ ہی بیت برائے بیت کا قائل ہے ۔ غالب کی عظمت اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ زندگی کے تئیں اپنی فکر اور اپنا فلسفہ رکھتا ہے ۔
قیدحیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
وقت اور حالات نے غالب کی شخصیت اور فکر کو مانجھ کر اس طرح چمکادیا تھا کہ جس کی دمک غالب کے اپنے عہد سے لے کر آج تک برقرار ہے ۔زندگی اور حالات غالب پر کس قدر نامہرباں رہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی عمر کے چھٹے سال میں یتیم ہوگئے ۔ جس چچا پر کم سن بھتیجوں کی پرورش کا ذمہ تھا ان کا سایہ بھی محض نو سال کی عمر میں غالب کے سر سے اٹھ گیا ۔ سات اولادیں ہوئیں لیکن ان میں سے ایک بھی پندرہ مہینوں سے زیادہ نہیں جیا۔ ایک بیٹا عارف گود لیا جس کا عین جوانی میں انتقال ہوگیا ۔ خود ان کے سگے بھائی یوسف بیگ دیوانگی اور کسمپرسی کے عالم میں فوت ہوئے ۔ ایسے حالات میں عام انسان ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے لیکن غالب نہیں
بازیچۂ اطفال ہے دنیامرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
دنیا کو بازیچۂ اطفال اور حالات وحوادث کو تماشا قرار دینا غالب ہی کا جگر ہے ۔ غالب نے دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھا اور یہ کہا جاسکتا ہے بھرپور نظر سے دیکھا ۔ دنیا کا یہ ایک پہلو بھی ملاحظہ فرمائیں
یارب ہمیں خیال میں بھی مت دکھائیو
وہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے
زندگی سے مایوسی انسانی زندگی کا ایک فطری امر ہے ۔ غالب کے اشعار میں بھی آپ کو جابجا اس کا عکس نظر آئے گا ۔غالب کا کمال یہ ہے کہ وہ زندگی سے اپنی مایوسی سے پورے اعتماد اور مثبت رویے کے ساتھ نبرد آزما ہوتا ہے ۔
کس سے محرومئی قسمت کی شکایت کیجئے
ہم نے چاہا تھاکہ مرجائیں سو وہ بھی نہ ہوا
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
بے شک غالب زندگی سے مایوس ہے مگر موت سے خوف زدہ نہیں
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
یہاں فکر کا محور یہ ہے کہ موت کو تو آنا ہے آہی جائے گی لیکن اس نیند کو کیا ہوا۔ یہاں نیند زندگی کا حوالہ بن کر ابھرتی ہے اور صاف ظاہر ہے کہ شاعر زندگی اور اس کے حقائق کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کررہا ہے ۔ غالب کے اس حوصلے کا عکس حاتم علی بیگ کو لکھے ایک مکتوب میں دیکھنے کو ملتا ہے
’’کسی کے مرنے کا غم وہ کرے جو آپ نہ مرے ‘‘
دراصل غالب کے لئے موت بھی ایک نئی زندگی کا حوالہ ہے ۔ موت انسان کا مادی انجام نہیں بلکہ تعمیر نو کا آغاز ہے
مری تعمیرمیں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقان کا
غالب سے ہماری ملاقات ہندوستانی تاریخ کے اس موڑ پر ہوتی ہے جہاں ایک نظام ، ایک معاشرہ اور ایک تہذیب کی شمع ڈوب رہی تھی اور ایک نیانظام ، نیا معاشرہ اور نئی تہذیب اپنا نقش قائم کررہی تھی ۔ مغلیہ سلطنت یا عرف عام میں مسلم حکومت روبہ زوال تھی ۔ مغل شہنشاہ کی حکومت سمٹ کر لال قلعہ کی فصیلوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی ۔ غالب ان سب واقعات کا عینی شاہد ہے ۔
داغ فراق محبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے کہ اب وہ لذت خواب سحر گئی
ان اشعار میں مغل شہنشاہ کی بے بسی اور معاشرہ کی تبدیلی کیا خوبصورت پیکر تراشی کی گئی ہے ۔غالب کے لئے یہ ایک بڑا صدمہ تھا کہ وہ جو معاشرے اور جس تہذیب کے پروردہ تھے وہ زوال پذیر ہی نہیں بلکہ معتوب ٹھہری تھی ۔ جہاں قصیدے بھی تھے اور ہجویں بھی۔جہاں چہلیں بھی تھیں اور معرکے بھی
آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر اور کھائوں ادھار
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے کہ نوکر نہیں ہوں میں
بنا ہے شہر کا مصائب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
غالب نے اپنی کتاب ’’لہر نیم روز‘‘ میں بہادر شاہ ظفر سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ’’شاہجہاں کے عہد میں کلیم شاعر کوسیم و زر میں تولا گیا تھا۔ مگر میں صرف اس قدر چاہتا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو میرا کلام ہی ایک دفعہ کلیم کے کلام کے ساتھ تول لیا جائے ۔‘‘
یہ اعتماد اور یہ حوصلہ غالب ہی کا حق ہے ۔ لیکن وہ دن تو لد چکے تھے نئے نظام میں اپنی سابقہ حیثیت کی بحالی غالب کے لئے سب سے بڑا چیلنج تھا اور غالب نے اس چیلنج کو بھی مردانہ وار قبول کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری پیغمبری است۔ میں نہیں جانتا کہ شاعری پیغمبر ی ہوتی ہے کہ نہیں لیکن ہر بڑا شاعر اور ہر نابقہ ٔ روزگار فرد کے لئے دوررس نگاہ ، اپنے عہد سے آگے دیکھنے والی نظرضروری ہے ۔ اور غالب کی شخصیت ، فکر اور شاعری میں یہ بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ اس کا ادنی ثبوت یہی ہے کہ انگریز کے دہلی آنے سے پہلے ہی غالب (1829)انگریزوں سے ملنے اور اپنی پنشن کی بحالی کیلئے کلکتہ پہنچ گئے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اپنے ماتھے کا ’’باغی مسلمان‘‘ کا کلنک مٹانے میں ایک عرصہ لگ گیا ۔ اس حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔
’’تمام عمر میں ایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر، اور ایک دفعہ نماز پڑھی ہو تو گنہ گار ۔ پھر میں نہیں جانتا کہ سرکار نے کس طرح مجھے باغی مسلمانوں میں شمار کیا ۔‘‘
باغی تو ہر مسلمان تھا ۔ چونکہ مسلمانوں سے ان کی حکومت چھینی گئی تھی ۔ اس لئے انگریزوں کی نظر میں ہر مسلمان باغی تھا ۔ لیکن غالب کا یہ بھی ایک کمال تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود وہ دونوں حکومتوں کے دربار میں شامل ہوئے اور دونوں ہی سے اعزاز و اکرام پاتے رہے ۔ غالب کو اپنی سابقہ حیثیت کی بحالی میں عرصہ لگا لیکن وہ کامیاب رہے ۔ یعنی پھر وہی غالب تھے اور پھر وہی روز و شب ۔
’’تذکرہ آب حیات میں لکھا ہے کہ ۱۸۴۶ء میں جبکہ دہلی کالج نئے اصول پر قائم کیا گیا مسٹر ٹامسن سکریٹری گورنمنٹ ہند مدرسین کے امتحان کے لئے دہلی میں آئے اور چاہا کہ جس طرح سو روپیہ ماہوار کا ایک عربی مدرس کالج میں مقرر ہے اسی طرح ایک فارسی کا مقرر کیا جائے ۔ سب سے پہلے مرزا صاحب کو بلایا گیا ۔ مرزا پالکی میں سوار ہوکر صاحب سیکریٹری کے ڈیرے پر پہنچے ۔ صاحب کو اطلا ع ہوئی انھوں نے فوراً بلالیا ۔ مگر یہ پالکی سے اتر کر اس انتظار میں ٹھہرے رہے کہ دستور کے موافق سکریٹری ان کو لینے کوآئیں گے ۔ جب بہت دیر ہوئی اور صاحب کو معلوم ہوا کہ اس سبب سے نہیں آئے ۔ وہ خود باہر چلے آئے اور مرزا سے کہا کہ جب آپ دربار گورنری میں تشریف لائیں گے تو آپ کا اسی طرح استقبال کیا جائے گا لیکن اس وقت آپ نوکری کے لئے آئے ہیں اس موقع پر وہ برتائونہیں ہوسکتا۔ مرزا صاحب نے کہا گورنمنٹ کی ملازمت کا ارادہ اس لئے کیا ہے کہ اعزاز کچھ زیادہ ہو نہ اس لئے کہ موجودہ اعزاز میں بھی فرق آئے ۔ صاحب نے کہا ’’ ہم قاعدے سے مجبور ہیں۔‘‘ تو مرزا صاحب نے کہا ’’مجھ کو اس خدمت سے معاف رکھا جائے ۔‘‘ (یادگار غالب ص ۲۷۔۲۶)
میرے نزدیک غالب کی عظمت کا راز ان کے شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی سے زیادہ زندگی کے حقائق ، انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ اور سادگی و پر کاری میں پوشیدہ ہے ۔ بقول فراق گورکھپوری
’’غالب کی ہر بات اس تیر کی طرح ہے جو ٹھیک ٹھیک نشانے پر بیٹھ جائے ۔ غالب کی بندشوں کی چستی اسی سبب سے پیدا ہوئی ۔ اردو کے کسی شاعر کے ہاں اظہار و بیان کی رگیں اتنی حساس نہیں ہیں جتنی غالب کے اشعار میں نظرآتی ہیں۔‘‘
(فراق گورکھپوری ۔ نقوش غالب نمبر ص۷۰۴)
اظہار و بیان کی انہی حساس رگوں کو جب ہماری روزمرہ کی زندگی کی وارداتیں چھیڑتی ہیں تو فضاء میں ایک جل ترنگ سی بج اٹھتی ہے اور شاعری کاوہ انوکھا روپ ہمارے سامنے آتا ہے جہاں شعر نہیں صرف مصرع بھی کسی واردات قلبی کا عکاس بن جاتا ہے ۔
} ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
} ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا
} بہت نکلے مرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
} کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
} نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
} کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
} تم جیو ہزاروں سال سال کے دن ہو ں پچاس ہزار
} حق مغفرت کرے عجب آزاد مر د تھا
یہ مصرعے کہاں ہیں یہ تو آج ہماری روزمرہ کا محاورہ ہے ۔ تلاش کرنے پر غالب کے ہاں ایسے اور بے شمار مصرعے مل جاتے ہیں ۔ غالب کے کلام کی بار بار قرأت پتہ نہیں کیوں مجھے عبدالرحمن بجنوری کے اس قول کی یاد دلاتی ہے کہ
’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ۔ ایک مقدس وید اور دوسری دیوان غالب۔‘‘
اس قول سے اتفاق اور عدم اتفاق کی بحث سے ہٹ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالب ہمارے معاشرے کی نبض پر صحیح جگہ ہاتھ رکھتا ہے اور اس نے ہماری بولی اور ہماری زبان کو زندہ سے زندہ مشکل میں برتا ہے ۔ ۱؎
۱؎ فراق گورکھپوری ۔
……ختم شد………