٭صا ئمہ آفتاب لاہور
عبث وجود کا دکھ، تنگئ حیات کا دکھ
کہ دل نے پالا ہوا ہے ہر ایک ذات کا دکھ
تلاشِ جنت و دوزخ میں رائیگاں، انساں
زمیں پہ روز مناتا ہے کائنات کا دکھ
کئ جھمیلوں میں اُلجھی سی بد مزہ چائے
اُداس میز پہ دفتر کے کاغذات کا دکھ
گئے دنوں کا کوئی خواب دفن ہے شاید
کہ اب بھی آنکھ سے رِستا ہے باقیات کا دکھ
میں آل سے ہوں شہِ کربلا کی سو مجھ کو
چناب سے بھی ملا ہے وہی فرات کا دکھ
نہ جانے مالکِ \”کُن\”، کس طرح نبھاتا ہے
یہ دسترس کی سہولت، یہ ممکنات کا دکھ