غزل

\"\"
٭ڈاکٹر نبیل احمد نبیل

دلِ خراب مرا دھڑکنوں میں گم ہو جاے
نگاہ ایسے کبھی موسموں میں گم ہو جاے
وہ ایک چہرہ جسے ڈھونڈتا ہوں برسوں سے
نکل کے عکس سے وہ آئنوں میں گم ہو جاے
کچھ ایسے رونقِ دُنیا میں کھو گئے ہیں ہم
کہ جیسے بچّہ کوئی قافلوں میں گم ہو جاے
ہُوا ہے جس کی تمنّا میں تار تار بدن
نظر چُرا کے سدا خوشبوؤں میں گم ہو جاے
کسی دیے میں سمٹ جائے انتظار کی شام
شبِ فراق کبھی جگنوؤں میں گم ہو جاے
سسک رہی ہے وہ جس سلسلے میں حسرتِ دل!
یہ سلسلہ بھی اُنھی سلسلوں میں گم ہو جاے
نشانِ منزلِ ہستی پہ دُھول پڑ جائے
ہر اِک نشان سدا راستوں میں گم ہو جاے
ہم اشک بار دِکھاتے ہیں داغ دامن کے
امیرِ شہر مگر قہقہوں میں گم ہو جاے
بپا جو ہوتا ہے بستی پہ حشر کی صورت
وہ سانحہ بھی کئی سانحوں میں گم ہو جاے
لرزتے دیکھ کے ڈرتا ہوں بام و در اپنے
تمام شہر نہ اب زلزلوں میں گم ہو جاے
فلک سے ہوتی رہی اِس طرح جو سنگ زنی
عجب نہیں کہ جہاں پتھروں میں گم ہو جاے
یہ تخت و تاج اگر مرکزِ نگاہ رہے
ہماری ذات نہ اِن حاشیوں میں گم ہو جاے
کچھ ایسے آنکھ ہے اپنی روانیوں پہ نبیل
تری طلب بھی کہیں آنسوؤں میں گم ہو جاے

Leave a Comment