غیر ملکی مندوبین اور فنون لطیفہ سے متعلق اجلاسوں کا احوال

پچھلے برسوں کے مقابلے میں بہتری آئی لیکن ابھی بہت کچھ اور کرنا باقی ہے، چند بے لاگ باتیں اور تجاویز

\"KHURRUM-SUHAIL\"
٭ خرم سہیل

کراچی میں گزشتہ 10 برسوں سے ہونے والی کانفرنس میں کیا غلطیاں ہوتی رہیں، کن ادیبوں اور شعرا کو بار بار شامل کیا گیا، کہاں کس کی حق تلفی ہوئی، ماضی کی تحریروں میں ان نکات پر بہت کچھ لکھا۔ پچھلے برس اس موضوع پر مزید نہ لکھنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ حسن اتفاق دیکھیے، کراچی آرٹس کونسل نے اس بار کچھ تجاویز مانگیں، مخلصانہ طور پر اپنے مشورے دیے، حیرت ہوئی ،جب ان پر عمل بھی کر لیا گیا، اس طرح یہ کانفرنس واقعی عالمی رنگ میں رنگی گئی، جب ایشیا کے ایک ایسے ملک سے دانشور کو مدعو کر لیا گیا، جس کی سرزمین پر گزشتہ 110 برسوں سے اردو زبان کی خدمت ہو رہی ہے۔ یہ ملک جاپان ہے۔ اس اقدام کے باوجود نہ لکھنے کا فیصلہ برقرار تھا، انکار کے باوجود جاپانی دانشور کے ساتھ مکالمے کے لیے نظامت کی ذمے داری دی گئی جس کی وجہ میراجاپان سے ادبی تعلق اور کام ہے۔
اس کے بعد مجھے لگا کہ بات ختم ہوگئی، لیکن اصل بات تو اس کے بعد شروع ہوئی۔ کانفرنس کے چھپے ہوئے کتابچے میں میرانام دیکھ کر کئی لوگ چونکے، اکثریت نے یہ تصور کیا، مک مکا ہو گیا ہے، کسی نے مجھ سے رو برو کچھ کہا، تو کسی نے پیٹھ پیچھے۔وہ لوگ جو فیس بک وال پر بھی اپنی رائے کا اظہار کھلے عام نہیں کرتے کہ کہیں ان کے تعلقات آرٹس کونسل کی انتظامیہ سے خراب نہ ہوجائیں، وہ مجھ سے اس بار فرمائش کرتے آئے کہ کانفرنس کے خلاف میں کب لکھ رہا ہوں، تو مجھے اندازہ ہوا کہ اب میری ایسی تحریروں کو اصلاحی مقصد سے دیکھنے کی بجائے، اپنی محرومیوں کے مداوے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ کانفرنس کے پانچوں دن کڑوے کسیلے جملے اور مطالبے سماعت پر برستے رہے، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ گزشتہ کئی برسوں سے انتظامیہ پر سخت تنقید کرتے کرتے، کبھی اس طرف خیال نہ گیاکہ کانفرنس میں شریک ہونے والے مندوبین بھی اتنے بھولے نہیں اورنہ ہی ان کانفرنسوں کے شرکاء اتنے سادہ ہیں۔ بہتری کی گنجایش تو ہمیشہ رہتی ہے اور اس بار بھی تھی۔ انتظامیہ کو مزید بہتری کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہیں، ان پر بھی ایک نگاہ طائرانہ ڈالنی ہوگی۔
آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیراہتمام ہونے والی کانفرنس کا رواں برس، بقول انور مقصود’’دسواں‘‘ تھا، یعنی اردوزبان وادب کاسلسلہ اپنے ہونے کے دس برس پورے کر چکا ہے۔ اس سال کانفرنس کی سب سے بہترین بات وہ انتظام و انصرام تھا، جس کی باگ ڈور نوجوانوں نے سنبھال رکھی تھی، یہ صرف راقم کی رائے نہیں، لوگوں سے بھرا ہوا آڈیٹوریم اس بات کا گواہ ہے۔ دوسری قابل تعریف بات کھانے کا عمدہ انتظام تھا، تیسری اور آخری اہم بات، مہمانوں کی دیکھ بھال، ان کی آمدوروفت کاخیال اور تمام سیشنزکامعمولی تاخیر کاشکار ہونے کے باوجود وقت پرمنعقدکیا جانا تھا۔آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی انتظامیہ اور احمد شاہ کو یہ بات سمجھنا ہوگی، یہ ایک ادبی کانفرنس ہے، جس طرح اس کو بہتر بنانے کے لیے، انہوں نے اب راقم سمیت دیگرکئی دوستوں کی تجاویز پر عمل در آمد شروع کر دیا ہے، اب انہیں چاہیے کہ چھانٹی بھی کریں، کیونکہ کانفرنس میں ایک جیسے چہرے اور ایک جیساخاکہ، متن سے شائقین ادب اکتاہٹ کا شکار ہو جائیں گے۔ رواں برس کسی ایک فنکار یا ادیب کو اس کی زندگی بھر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اعزاز دیے جانے کی نئی روایت قابل تحسین ہے، اس مرتبہ انور مقصود کو اس انعام کے لیے حق دار ٹھہرایا گیا، جو برحق تھا۔ ایک بات جو تشویش ناک ہے، زبان و ادب کے نام پر ہونے والی اس کانفرنس میں دیگر اجزائے ترکیبی کا تناسب زیادہ ہونے لگا ہے، جس کی حدمقرر نہ کی گئی، تو پھر یہ کانفرنس فنون لطیفہ کاجلسہ تو بن سکتی ہے، ممکن ہے، ادبی نہ رہے۔
اس بار ایک نیا پہلو کھل کر وہ روش تھی جس پر مندوبین کی اکثریت اتری ہوئی نظر آئی۔ میں ایسے کئی سیشنز کاچشم دید گواہ ہوں، جس میں مندوبین ایک دوسرے کی جان لینے کو درپے تھے، اس رویے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال دے رہا ہوں، انور مقصود کے ساتھ جب شام منائی گئی، تو انہوں نے اس موقع پر اپنی ایک شاندار تحریر پڑھی،جس میں ملکی حالات پر بہت سیر حاصل اور بے باک گفتگو کی گئی، پھر ان کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیاگیا،تواس موقع پر اسٹیج پر موجود مندوبین میں سے اکثریت ان کے احترام اور پذیرائی کی غرض سے اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑی ہوئی، معروف شاعرہ کشورناہید بھی اپنی نشست سے اٹھنے لگیں، تو معروف ڈراما نگار حسینہ معین نے ہاتھ پکڑکرواپس نشست پر بٹھا دیا کہ اس کے احترام میں کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ لمحات بھی ریکارڈ پرہیں،اس کی تصدیق بھی ہوسکتی ہے۔یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے، کچھ مندوبین جوکئی برسوں سے اندرون ملک یا بیرونی ممالک سے آرہے ہیں، ان میں سے چند ایک، جن کے نام کا سکہ چل رہا تھا، اب لوگ انہیں ہر سال دیکھ دیکھ کراکتا چکے ہیں،اس لیے ان کو وہ پذیرائی نہ ملی ،توانہوں نے بھی قسم کھالی،مجال ہے،کسی سیشن میں ان کے چہرے پر رونق آئی ہو۔
کانفرنس کے تیسرے دن’’جاپان اور پاکستان کے ادبی رشتے‘‘ اہم سیشن تھا، اسے بہت پسند کیا گیا، اس کا عملی اظہار سوشل میڈیا اور اخبارات میں شایع ہونے والی میڈیا کووریج میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جاپان کے شہر ٹوکیو کے نزدیک موجود، ایک نجی جامعہ’’دائتو بنکا‘‘ سے تشریف لائے ہوئے’’پروفیسر ہیروجی کتائوکا‘‘ کی اردو زبان سے وابستگی کا عرصہ تقریباً 50 برس پر محیط ہے۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں غالب، اقبال، فیض اور منٹو کے علاوہ دیگرکئی معروف ادیبوں اور شعرا کے کام کو، اردو زبان سے جاپانی زبان میں منتقل کیا، چونکہ ان کا سارا کام تحقیق اور لکھنے پڑھنے کا ہے، اس لیے وہ روانی سے اردو نہیں بول پاتے اس پر پاکستانی ادیبوں کی اکثریت اسٹیج کے سامنے بیٹھی کرسیوں پر ان کے بولنے کے اندازکا مذاق اڑاتی رہی، بلکہ فقرے بھی کسے، جن کا میں عینی گواہ ہوں۔
ان کے دوسرے سیشن میں وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنا مقالہ پورا نہ پڑھ سکے، جبکہ اس سیشن میں چار خواتین، جو برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، فرانس اور ڈنمارک سے تشریف لائی ہوئی تھیں، انہوں نے صرف اپنی تنظیمی کارروائیاں اورمصروفیات سنائی،نہ ہی کسی نے کوئی مقالہ لکھانہ پڑھا،نہ کوئی تراجم کی صورتحال پربات کی، اس سیشن کا جو موضوع تھا، انتظامیہ کو چاہے جو حقیقی غیرملکی دانشور مدعو کیے جاتے ہیں، ان کے سیشن جداگانہ ہونے چاہیں، کیونکہ وہ باقاعدہ مقالہ لکھ کر آتے ہیں، انہیں پورا وقت ملنا چاہے، جس طرح کہ مصر سے آئے ہوئے ابراہیم محمد ابراہیم نے اس بات کی طرف واضح اشارہ بھی کیا۔ اسی سیشن میں جن مقررین نے خوبصورت گفتگوکی، وہ رضا علی عابدی تھے، ورنہ جرمنی، فن لینڈ، امریکہ، ،ڈنمارک اور برطانیہ سے آئے ہوئے مندوبین نے صرف میں میں کی تسبیح پڑھی، اکثریت کے مقالے ندارد، حتیٰ کہ کئی ایک تو اس بات پر غصہ کررہے تھے کہ میں نشست پر بیٹھ کر کیوں بات کروں، میں تو ڈائس پر کھڑا ہو کر بات کروں گا۔ شاید ہی کوئی مقرر ہوگا، جس کو اس سیشن کی ناظم نے ٹوک کر روکا نہ ہو۔
پہلے دن کے اختتام پر معروف قوال جوڑی ایازفرید اورابومحمد نے قوالی پیش کی،جس نے سماں باندھ دیا۔دوسرے دن مصوری اوررقص کے موضوعات پر اہم نوعیت کے سیشن ہوئے،جس میں مصوری کے تناظر میں پاکستان کے معروف مصوروں نے اپنے خیالات کا اظہار خیال کیا، مصوری کے ارتقائی سفر پر بات کی اور مختلف جہتوں، امکانات اور مستقبل کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کیا۔ اس سیشن میں مہر افروز، شہزاد شرجیل اور دیگرشامل تھے، جبکہ شاہد رسام نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔اسی دن کے ایک اورسیشن میں ،رقص کے تین اہم نام شیماکرمانی، نگہت چوہدری اور مانی چائو نے اپنے خیالات کااظہار کیا اور پرفارمنس بھی دی۔
کانفرنس کے تیسرے دن، ٹی وی ڈرامے کے سیشن میں حسینہ معین، امجداسلام امجد، سیما غزل، ایوب خاور اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈرامے کو درپیش مسائل اور مختلف رجحانات پر کھل کر بات کی۔ اسی دن بشری انصاری سے مکالمہ بھی تھا، جس میں اس نے ادھرادھر کی باتیں زیادہ اور کام کی بات کم کی۔ یہ ایک بھرتی کا سیشن تھا۔ چوتھے دن منعقد ہونے والے اردو فلم کے سیشن میں اچھی اور بے باک گفتگوہوئی،جس میں نئی نسل کے ہدایت کار نبیل قریشی ، سید نور، منور سعید، قوی خان نے اپنے اپنے رخ سے بات کی، فلمی صنعت کے مسائل کو اجاگر کیا، اس سیشن کی نظامت کرنے والے کاشف گرامی کا موضوع چونکہ فلم نہیں، اس کے باوجود فلم کی ابتدا، سفر، حال اور ماضی کے حوالوںکے ساتھ پرمغز گفتگوکروانے میں کامیاب رہے۔اسی دن موسیقی کے سفر پر رکھے جانے والے سیشن میں حامد علی خان، ارشد محمود، عمران شامل تھے، مگر وہی پرانی کھوکھلی باتیں کیں، ملاحت اعوان نے کچھ اہم سوالات کیے، جس سے کچھ موضوع میں سنجیدگی پیدا ہوئی، محفل موسیقی کے موقع پر استاد نفیس خان نے، استاد بشیر خاں کے ہمراہ اپنے فن کا مظاہرہ کیا، حامدعلی خان نے بھی اپنی گائیکی کا جادو جگایا، اس سیشن کی نظامت ارشد محمود کر رہے تھے۔
پاکستان میں تھیٹر کی صورتحال میں بہت سنجیدہ اور عمدہ گفتگو ہوئی،جس میں نعیم طاہر،ثمینہ احمد،زین احمد ،قاضی واجد اور دیگر تھے۔تھیٹر کے لیے لکھنے والے کون تھے،انہوں نے کیاجدوجہد کی،اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔کراچی آرٹس کونسل کی عمارت میں عوام کو جہاں کھاناکھلانے کا انتظام کیا گیا، وہاں خوراک کی بے حرمتی اور زیاں دیکھنے لائق تھا، دس برس کی ادب کانفرنس ان معززین شہر کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ انتظامیہ کی کوتاہیوں پربہت بات ہوئی، کیامندوبین اور حاضرین بھی خود کو بدلنے اور باشعوربننے کے لیے تیار ہیں ؟اس کا جواب ہر ایک نے خود کو دینا ہوگا۔

Leave a Comment