فانی بدایونی : غم جاناں سےغم دنیا تک

\"\"\"\"
٭ڈاکٹر سلیم محی الدین

ایسوسی ایٹ پروفیسر، صدر شعبہ اردو
شیواجی کالج، پربھنی۔

فانی کا غم ، غم کی آفاقیت کی بہترین مثال ہے ۔ان کی شعری کائنات ہی حزن ویاس سے عبارت ہے ۔ شاید اسی لئے انہیں یاسیت کا امام بھی مانا جاتاہے ۔ فانی سے قبل بھی غزل میں حزن و یاس کے مضامین شامل رہے ہیں لیکن فانی نے پہلی بار ’’غم ‘‘ کو ایک مکمل پیکر بلکہ ایک کردار کے طور پر متعارف کیا ۔ بقول فانی
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا ۱؎
کسی نے ان کی شاعری کو موت کی انجیل کہا تو کسی نے غم عشق اور غم روزگار کا امتزاج۲؎۔ کسی نے کہا کہ فانی ایک زندہ جنازہ ہیں جن کو یاس و الم اپنے ماتمی کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں ۳؎ ۔ تو کسی نے ان کی شاعری کی تخلیق اشک شبنم اور خون حنا سے ہونے کا اعلان کردیا۴؎ ۔جوش نے انہیں بیوئہ عالم اور قسطوں میں مرنے والا کہا تو اقبال سہیل نے انھیں لکھنو کا چپ تعزیہ قرار دیا۔ غرض یہ کہ غم فانی کی شعری کائنات کا سب سے اہم کردار بن کر ابھرتا ہے ۔ ایسا کردار جو ان کے فکر و شعور کا نہایت فطری حصہ لگتا ہے ۔ بقول مجنوں گورکھپوری
’’جدید اردو غزل کے معماروں میں فانی کے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا جس کی شاعری اس تکرار و تسلسل کے ساتھ ایک مستقل فکری میلان کا پتہ دیتی ہو۔ اور جس کے مطالعے ہم یہ نتیجہ نکالنے کے لئے مجبور ہوں کہ شاعر حیات و کائنات کے بارے میں ا یک سوچا ہوا نظریہ رکھتا ہے جو وہ چاہے یا نہ چاہے اس کے کلام میں ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘۵؎
فانی نے غم کو اپنی فکری و فنی اساس کے طور پر برتا ہے ۔ ان کا غم محض ان کا ذاتی غم نہیں ہے ۔نہ ہی ان کی شاعری عشق میں ناکامیوں اور آلام روزگار کا مرثیہ ہے ۔ دراصل یہ اپنے عہد اور اپنے ماحول کے تئیں ایک فکریہ رویہ ہے بقول زبیر رضوی
’’فانی نے غم کو ایک فلسفے کے طور پر برتا ہے ۔ سوز و گداز کی دھیمی آنچ ان کے شعری وجدان کا غالب عنصر بن کر ان کی غزل میں اپنی جگہ بناتی ہے ۔ فانی کا غم کئی طرح کے محسوسات کا امتزاج ہے ۔ اس میں ضبط غم بھی ہے اور اظہار غم کا امڈا ہوا سیلاب بھی ہے ۔ شاید اسی لئے یہ تاثر عام ہوا تھا کہ ان کی شاعری کی زیریں لہرحزنیہ سے زیادہ ماتمی ہے اور یہ بھی کہ ان کی شاعری زندگی اور اس کی رونقوں اور ہماہمی سے فرار کی شاعری ہے۔‘‘۶؎
فانی کا عہد بیسویں صدی کے اوائل کا عہد ہے ۔ سیاسی و سماجی سطح پر معاشرہ انتشار کا شکار ہے ۔ زندگی کی قدریں بدل رہی ہیں ۔ایک سیاسی نظام کا ملبہ بکھرا پڑا ہے اور دوسرا جبرو استحصال کی نئی تاریخ رقم کرنے کے درپے ہے ۔ گویا زندگی بیمار کی رات ہوگئی ہے ۔ کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فانی نے زندگی کی اس صورت کو فراق سے بہت پہلے محسوس کرلیا تھا۔ جس طرح ناصر کاظمی نے کہا تھا کہ’’ میر کے عہد کی رات ہمارے عہد سے آملی ہے ۔ ‘‘کیا آج کے حالات کے پیش نظر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فانی کے عہد کا غم ہمارے عہد کے غم سے آملا ہے ۔
یہ زندگی کی ہے روداد مختصر فانی
وجود درد مسلم ، علاج نامعلوم
فانی کے حالات زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو ان کی زندگی غم سے عبارت نظر آتی ہے ۔ معاشی مشکلات، عشق میں ناکامی، عزیزوں کی بے وفائی، غریب الوطنی، خاندان میں اموات، اولاد کی بیروزگاری گویا غم کی کوئی صورت ایسی نہ تھی جس سے فانی نبرد آزما نہ تھے ۔ ان کے ہاں غم عشق اور غم روزگار ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں فانی یہ کہتے حق بجانب ہی نظر آتے ہیں کہ
جی ڈھونڈتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
اس آپ کی زمیں سے الگ آسماں سے دور
ویسے غم کو اختیار کرنے کا فانی کے پاس ایک اور خوبصورت اور دلچسپ جواز یہ بھی ہے کہ
غم بھی گزشتنی ہے خوشی بھی گزشتنی
کر غم کو اختیار کہ گزرے تو غم نہ ہو
بے شک غم بھی گزر جاتا ہے اور خوشی بھی ۔ خوشی کے گزرنے کا غم بھی زیادہ ہوتا ہے لہذا شاعر نے یہ تیر بہدف نسخہ دریافت کیا ہے کہ غم کو اختیار کیا جائے جس کے گزرنے کا غم نہیں ہوتا ۔ غم کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور بقول فانی
دنیا کی بلائوں کو جب جمع کیا میں نے
دھندلی سی مجھے دل کی تصویر نظر آئی

اگر غم جاناں کے حوالے سے بات کی جائے تو دل کی اس دھندلی سی تصویر میں دنیا کی بلائوں کی کم از کم تین شبیہیں صاف نظر آتی ہیں جنہیں فانی کے سوانحی حوالوں سے تقن جان، نورجہاں اور ستارا کے نام سے پکارا جاسکتاہے ۔ ویسے فانی کے اولین عشق کا انجام بھی المناک تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی عم زاد کے عشق میں مبتلا تھے جس سے ان کی شادی نہ ہوسکی اور وہ بھی اپنی شادی کے بعد جلد ہی انتقال کرگئیں۔ فانی کے غم جاناں کے باب میں اسی قدر حوالے پائے جاتے ہیں ۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تصوف پسند ہونے کے باوجود فانی عشق کے باب میں بڑے صوفی و صافی نہیں تھے اور انھوں نے عشق کے ہاتھوں بھی کچھ کم غم نہیں اٹھائے
فانی کف قاتل میں شمشیر نظر آئی
لے خواب محبت کی تعبیر نظر آئی

یہ بعد وصل کھلا انتظار میں کیا تھا
مزا تڑپ ہی میں پایا، قرار میں کیا تھا

عشرت بے خلل بھی ہے ، راحت لازوال بھی
اس کی خوشی ہے غم تو پھر‘ کیا غم یار میں نہیں

بقول مسعود حسین خان
’’عمر کے ساتھ ساتھ ’’دل فانی کی تباہی ‘‘ اور ’’الم لامتناہی‘‘ کے تجربات بڑھتے گئے ابتداء میں یہ ’’میت‘‘ ،’’کفن اور کافور‘‘ کے روایتی علائم میں ظاہر ہوتے رہے لیکن جوں جوں فانی آہنگ غالب سے قریب تر ہوتے گئے واردات شاعرانہ ، فکر شعری میں ڈھلتی گئی اور غم ذات شاعرانہ مسلک میں تبدیل ہوگیا۔‘‘۷؎
غم جانا ں سے غم دنیا تک کا سفر فانی اسی شاعرانہ مسلک کے حوالے سے طئے کرتے ہیں۔ غم ان کی شاعری کا محور ہے ۔ مسلک ہے اور بنیادی فلسفہ بھی ۔ غم ہستی فانی کے ہاں اظہار کے ایک فطری وسیلے کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے ۔ ڈاکٹر مغنی تبسم کے مطابق
’’ فانی نے غم ہستی کی اصطلاح، غم ذات اور غم دنیا دونوں سے وسیع تر مفہوم میں استعمال کی ہے ۔ زندگی کی ناپائیدار اور بے مقصدیت کا احساس اور بقاء کی خواہش اس غم کی اساس ہے ۔‘‘ ۸؎
کیفیت ظہور فنا کے سوا نہیں
ہستی کی اصطلاح میں دنیا کہیں جسے
کلیات فانی پر نظر دوڑائی جائے تو غم دنیا کے حوالے سے ایسے فلسفیانہ اشعار بکثرت ملتے ہیں جن میں دنیا کی بے ثباتی ، زندگی کی ناپائیداری اور فنا میں بقاء کے تصور کے مضامین پائے جاتے ہیں ۔ان مضامین کو اس قدر خلاقانہ اور فنکارانہ طور پر نہ فانی سے پہلے برتا گیااور نہ ہی ان کے بعد۔
غم مجسم نظر آیا تو ہم انساں سمجھے
برق جب جسم سے وابستہ ہوئی جاں سمجھے

یہ کوچۂ قاتل ہے آباد ہی رہتا ہے
اک خاک نشیں اٹھا، اک خاک نشیں آیا

یہاں اب ایک دل بھی درد کے قابل نہیں ملتا
لہو بن کر جو آنکھوں سے بہے وہ دل نہیںملتا

غم جاناں اور غم دنیا کی یکجائی کا یہ خوبصورت مظاہرہ بھی ملا حظہ فرمائیں۔

دل کیا غم دنیا کیا اس درد محبت نے
اک ایک حقیقت کو افسانہ بنا ڈالا

خیال یار ہے اک حسن و عشق کی دنیا
مری نگاہ میں ہیں گردش زمانے کی

کسی کے جلوئہ طاقت ربا کو کیا دیکھوں
شکست رنگ رخ کائنات نے مارا

یہ کہا جاسکتا ہے کہ موت سے عشق کرنے والا فانی دراصل زندگی کا عاشق تھا ۔ نا مساعد حالات، محرومیوں اور مایوسیوں کے باوجود اس نے بطور فنکار زندگی کے ہر لمحے سے نشاط و انبساط کشید کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ بظاہر خود کو غم کے دائرے میں اسیر کرلیا لیکن اسی غم کے حوالے سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز کو بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بے شک یہ ایک وسیع موضوع ہے اور یہ گفتگو تشنہ ہے اس پر سنجیدہ گفتگو ہونی چاہئے ۔ اپنی بات فانی ہی کے اس شعر پر ختم کروں گاکہ
مرکے ٹوٹا ہے کہیں سلسلہ قید حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

حوالہ جات :
۱؎ مجنون گورکھپوری ۔ فانی بدایونی ۔ غزل سرا ۔ ۱۹۳۴ء۔ ص ۲۵۲۔
۲؎ خواجہ احمد فاروقی ۔ فانی کی شاعری کا ایک روشن پہلو۔’’فانی‘‘ مرتبہ ۔ عبدالشکور۔ دہلی ۱۹۴۷ء ص ۱۲۲
۳؎ آمدی۔
۴؎ ڈاکٹر سلام سندیلوی۔
۵؎ مجنوں گورکھپوری۔ فانی بدایونی۔ غزل سرا۔ ۱۹۲۴ء۔ ص ۲۵۴۔
۶؎ زبیر رضوی ۔’’فانی اور تنقیدی مفروضات‘‘۔ مضمون شمولہ ۔ ایوان اردو۔ جنوری ۲۰۰۴ء ۔ص ۶
۷؎ مسعود حسین خان۔ پیش لفظ ’’فانی بدایونی۔ حیات شخصیت اور شاعری ‘‘۔ مصنف مغنی تبسم ۔ص۱۰
۸؎ ڈاکٹر مغنی تبسم۔ ’’فانی بدایونی ۔ حیات شخصیت اور شاعری ‘‘۔قومی کونسل ۔۲۰۰۶ء۔ص ۲۱۸
…… ختم شد ……

Leave a Comment