٭ڈاکٹر محمد اشرف کمال
صدر شعبہ اردو،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بھکر۔
ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض ۲۸جوئی ۱۹۴۵ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔وہ ایک ترقی پسند شاعرہ تھیں۔وہ حقوق انسانی کے لیے لکھتی رہیں اور بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے انھوں نے شاعری کی۔پہلی نظم فنون لاہور میں شائع ہوئی۔پہلا مجموعہ پتھر کی زبان ۱۹۶۷ء میںسامنے آیا۔بدن دریدہ ۱۹۷۳ء میں ،امرتا پریتم کی شاعری ۱۹۸۴ء میں،ادھورا آدمی ۱۹۸۶ء میں،آدمی کی زندگی ۱۹۹۹ء میں،ان کی کتابوں میں گوداوری، خطِ مرموز۲۰۰۲ء میں،خانۂ آب وگل،حلقہ مری زنجیر کا، ہم رکاب،اپنا جرم ثابت ہے،میں مٹی کی مورت ہوں، کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گی، مشہور ہوئیں۔ان کی کلیات سب لعل وگہر کے نام سے ۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے مثنوی جلال الدین رومی کا فارسی سے اردو میں ترجمہ بھی کیا۔
فہمیدہ ریاض کا انتقال ۲۱نومبر ۲۰۱۸ء کولاہور میں ہوا۔
سندھ یونیورسٹی سے انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ایم اے کے بعد فلم ٹکنیک میں لندن سے ڈپلوما کیا۔
نیشنل بک کونسل اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں۔۱۹۶۷ء میں انگلینڈ چلی گئیں اور بی بی سی میں کام کرنے لگیں۔۱۹۷۳ء میں واپس آکر ’’آواز‘‘ کے نام سے رسالے کا اجراء کیا۔
ایوب خان کے دور میں انھوں نے سیاسی شاعری بھی کی۔فہمیدہ ریاض ضیاء الحق دور میں پاکستان سے بھارت چلی گئی تھیں اور وہ ضیاء الحق کے انتقال کے بعد واپس پاکستان آگئیں۔
وہ فنکار کو ہر حوالے سے آزادی دینے کی قائل تھیں۔وہ ایک بے باک خاتون تھیں جنھوں نے بڑی بے باکی سے جنسی معاملات کے حوالے سے لکھا۔وہ ہر بات بیان کردینے کو اہمیت دیتی ہیں کسی قسم کی پابندی کی قائل نہیں تھیں۔
اپنی عملداری اور محبت میں ایک عورت دوسری عورت کو برداشت نہیں کرسکتی ۔یہ وہ تخت ہے جس پر ایک ہی ملکہ بیٹھ سکتی ہے دوسری کو بیٹھنے کے لیے وہ کبھی بھی بخوشی اجازت نہیں دے سکتی۔فہمیدہ ریاض کی یہ نظم’’وہ لڑکی‘‘ ملاحظہ کیجئے:
جن پر میرا دل دھڑکا تھا ، وہ سب باتیں دہراتے ہو
وہ جانے جیسی لڑکی ہے تم اب جس کے گھر جاتے ہو
مجھ سے کہتے تھے ، بن کاجل اچھی لگتی ہیں مری آنکھیں
تم اب جس کے گھر جاتے ہوکیسی ہوں گی اس کی آنکھیں
تنہائی میں چپکے چپکے نازک سپنے بنتی ہوگی
تم اب جس کے گھر جاتے ہو وہ مجھ سے اچھی ہوگی
(فہمیدہ ریاض، پتھر کی زبان،کراچی، مکتبہ دانیا، ۱۹۸۱ء،ص۶۳)
عورت کو وفا کی تصویر کہا جاتا ہے۔ مگر یہ سو فیصد درست بھی نہیں ہے ۔ عورت ہی وہ ذات ہے جو بے وفائی پہ اتر آئے تو مردوں کو بہت پیچھے چھوڑ جاتی ہے مگر زیادہ تر شاعرات نے عورت کی وفا کا ایک ہی پہلو مد نظر رکھا ہے۔
فہمیدہ ریاض عورت کی اہمیت اور اس کی معاشرتی حیثیت سے بخوبی واقف ہیں ۔عشق کی طلسماتی دنیا کا سب سے اہم کردار خود عورت ہی ہے۔ ان کی نظم’’ ایک لڑکی‘‘ دیکھئے کہ کس طرح عورت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے:
تو ہے وہ زن زندہ
جس کا جسم شعلہ ہے
جس کی روح آہن ہے
جس کا نطق گویا ہے
بازؤں میں قوت ہے
انگلیوں میں صناعی
ولولوں میں بیباکی
لذتوں کی شیدائی
عشق آشنا عورت
(فہمیدہ ریاض، دھوپ، کراچی، مکتبہ دانیال، ۱۹۷۶ء،ص۲۲)
ماضی میںمردوں کے تخلیق کردہ نسوانی کرداروں اور نسوانی تصورات کے حوالے سے اب رد تشکیل کی بات کی جارہی ہے کہ جس انداز میں مرد ادیبوں نے عورت کو پیش کیا ہے وہ انداز آج کی عورت کو پسند نہیں ہے بلکہ اب اس انداز کو تبدیل کیا جانا چاہئے ادب میں جو کام ہو چکا ہے اس کی بھی رد تشکیل کی ضرورت ہے۔بقول فہمیدہ ریاض:
’’کتنی طویل مدت سے عورتوں نے اپنے جسم اور اپنی بایالوجی کے لیے مقتدر ادیبوں کے یہ لغو اور بے معنی جملے پڑھے ہیں ۔کتنے برسوں سے ایک دبا ہوا اور کچلا ہوا غصہ ان کے سینوں میں کھولتا رہا ہے۔ مبارک ہے وہ دن اور وہ ساعت جب صدیوں سے اہانت کا شکار یہ مخلوق لب کشائی کر رہی ہے۔ آج دانشور عورت خوفزدہ نہیں۔ وہ پر اعتماد ہے اور چند نہایت نامور ادیبوں کی تحریروں کو خود اپنے ہاتھ میں آئینہ کی طرح اٹھا کر دنیا کو دکھا رہی اور ان تمام مقامات پر سرخ نشانات خود اپنے ہاتھ سے لگا رہی ہے جہاں مرد ادیب اپنی انسانی اقدار کا مضحکہ اڑاتے نظر آسکتے ہیں۔‘‘(فہمیدہ ریاض، رد تشکیل ۔آخر کیوں، مشمولہ ادب کی نسائی رد تشکیل، کراچی، وعدہ کتاب گھر، ۲۰۰۶ء،ص۱۲،۱۳)
فہمیدہ ریاض نے ن م راشد کے تصور عورت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاں عورت کا تصور ایک گوشت کی گٹھڑی سے کبھی آگے نہ بڑھا۔۔۔ن م راشد ایسے شاعر ہیں جن کے کلام میں تصور زن سے صرف افسوس ہوسکتا ہے۔( ادب کی نسائی رد تشکیل، ص۳۵)
اردو ادب کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اردو شاعری میں تانیثی فکر کے آثار اردو فکشن کے مقابلے میں کافی دیر سے نمایاں ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود یہ اثرات خاصے دور رس اور گہرے ہیں۔
اردو شاعرات میں فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، کشور ناہید، سارہ شگفتہ، عذرا عباس،فرخندہ نسرین، شفیق فاطمہ شعریٰ ،شاہدہ حسن، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، شائستہ حبیب،رفیعہ شبنم عابدی، بلقیس ظفیرالحسن، عذرا پروین، زہناز نبی ایسے اہم نام ہیں جن کی تخلیقات میں ہمارے نمایاں طور پر مرد اساس معاشرہ کے خلاف عورت کی احتجاجی آواز اور مزاحمتی رویوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔(ارتضیٰ کریم‘ڈاکٹر(مرتب)،احتجاج اور مزاحمت کے رویے، دہلی، اردو اکادمی ، ۲۰۰۴ء ، ص۳۴۵)
تانیثیت کے حوالے سے اردو شاعری بالخصوص اردو نظم میں فہمیدہ ریاض کا نام اہمیت کا حامل ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں توانا نسائی لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ان کی نظم ’’وہ لڑکی‘‘ کے چند مصرعے ملاحظہ کیجئے:
جن پر میرا دل دھڑکتا تھا،وہ سب باتیں دہراتے ہو
وہ جانے کیسی لڑکی ہے تم اب جس کے گھر جاتے ہو
مجھ سے کہتے تھے بن کاجل اچھی لگتی ہیں مری آنکھیں
تم اب جس کے گھر جاتے ہو کیسی ہوں گی اس کی آنکھیں (پتھر کی زبان،ص۵۳)
مرد اور عورت کے آپس میں رویے بعض اوقات ایسی سردمہری کو جنم دیتے ہیں جن سے کوئی وصال کا لمحہ جنم پذیر نہیں ہوتا ایسے میں عورت نفسیاتی طور پر ڈسٹرب ہوجاتی ہے یا مکمل فرارچاہتی ہے۔
پتھر سے وصال سے مانگتی ہوں
میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں (فہمیدہ ریاض)
ان کی شاعری میں نسائی احتجاج بڑے سخت الفاظ میں ملتا ہے ، وہ مردوں اور ان کے عورت کے حوالے سے رویوں کے بارے میں شدید تحفظات کا شکار ہیں۔
فہمیدہ ریاض کی نظم ’’چادر اور چاردیواری‘‘کے چند مصرعے ملاحظہ کیجئے:
یہ لونڈیاں ہیں
کہ یرغمالی حلال شب بھر رہیں
دمِ صبح دربدر ہیں
یہ باندیاں ہیں
حضور کے نطفۂ مبارک کے نصف ورثہ سے معتبر ہیں
یہ بیبیاں ہیں
کہ زوجگی کاخراج دینے
قطار اندر قطار باری کی منتظر ہیں
یہ بچیاں ہیں
کہ جن کے سر پر پھرا جو حضرت کا دستِ شفقت
تو کم سنی کے لہو سے ریش سپید رنگین ہوگئی ہے
حضور کے حجلۂ معطر میں زندگی خون روگئی ہے
پڑا ہوا ہے جہاں پر لاشہ
طویل صدیوں سے قتل انسانیت کا یہ خوں چکاں تماشا
اب اس تماشہ کو ختم کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔
میں کہ آدم نو کی ہم سفر ہوں
کہ جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت (فہمیدہ ریاض،اپنا جرم ثابت ہے، لاہور، نگارشات،ص۱۶،۱۷)
یہ دنیا کی مرد کی دنیا ہے جسے ہر زاویے سے مرد اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور عورت کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ مرد کی آنکھ سے اس دنیا کے ہر منظر کو دیکھے، سمجھے اور نشان زد کرے۔ اب عورت ایسا کرنے سے معذوری کا اظہار کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، وہ ہر منظر کو اپنے تناظر میں دیکھنا چاہتی ہے ۔۔۔۔ نسائی تناظرمیں۔۔
فہمیدہ ریاض بلا شبہ ایک ایسی شاعرہ تھیں جنھوں نے نسائی حوالے سے اردو شاعری کے موضوعات کو وسعت اور تنوع عطا کیا۔ ان موضوعات پر قلم اٹھایا جنھیں چھوتے ہوئے بڑے بڑے شاعر ہچکچاتے ہیں۔