قبرستان وغیرہ میں میلہ ٹھیلہ کی شکل اختیار کرنا ،تقریر وبیان کی لمبی لمبی مجالس کاانعقاد نا جائز

موٹر سائیکل وغیرہ پر سوار ہوکر گھومتے پھرناجائز نہیں بلکہ حرام:دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ
\"12115456_505012496331942_2360095722524148796_n\"
سمیر چودھری
دیوبند،18؍ مئی دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام نے آج جاری فتوے میں شب برأت کے موقع پر قبرستان میں مجمع جمع کرنے اور لمبی لمبی مجالس کو ناجائز قرار دیتے ہوئے غیر قانونی طورپر نوجوانوں کے ذریعہ موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر موج مستی کرنے کو حرام قرا ردیاہے۔ دہلی کی جعفرآباد کے ائمہ و علماء کے ذریعہ دارالعلوم دیوبند مفتیان کرام کو تحریر دیتے ہوئے کہاکہ گیا تھاکہ ’ شب برأت میں تقریر وبیان کی لمبی لمبی مجلسیں قائم کرنا ،قبرستان میں میلے کی شکل اختیار کرنا،رات بھر گھومتے پھرنا،یا پھر مسجد میں جمع ہونا ،نوافل ا ور دیگر عبادات کا اہتمام کرنا شرعا ان امور کی کیا حیثیت ہے ؟
دہلی و دیگر شہروں میں چار چار نوجوان موٹر سائیکل پر سوار ہوکر بڑی تعداد میں خلاف قانون سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں جس کی وجہ سے حوادثات بھی پیش آتے ہیں ان جیسے امور کی اصلاح کے لئے دہلی مصطفی آباد وغیرہ کے ائمہ وعلماء نے یہ طے کیا ہے کہ شب برأت میں دو تین دن پہلے وعظ وبیانات ہوجائیں اور خاص شب برأت میں کوئی مجلس وعظ وتقریر کی نہ ہو اور مسلمان بھائیوں سے گزارش کی جائے کہ شب برأت میں جس قدر بشاشت سے ہوسکے اپنے اپنے گھروں میں عبادت کا اہتمام کریں ،سڑکوں ،گلیوں ا ور قبرستان وغیرہ میں ہرگز نہ گھومتے پھریں نہ ہی مسجد میں جمع ہوں اصلاح کی خاطر یہ صورت اختیار کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟
اس کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام نے کہاکہ اس رات (شب برأت)کی فضیلت میں متعد روایات منقول ہیں جن کی سندی حیثیت یہ ہے کہ اکثر وہ روایات ضعیف ہیں اور بعض حسن درجہ کی بھی ہیں جن کے مجموعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اپنے گھروں میں بشاشت اور طبیعت کے نشاط کے موافق عبادت کا اہتمام کرنا مستحب ہے،یعنی نوافل ،تلاوت ،تسبیح درود شریف وغیرہ جس میں طبیعت زیادہ لگے اور جتنی دیر تک لگے اتنی دیر اس عبادت میں مشغول رہیں اور جب کسل اور سستی ہو یا نیند کا غلبہ ہو تو آرام کرلیں ،پوری رات جاگ کرگزارنے کا اہتمام ضروری نہیں اور عبادت یا تقریر وبیان کے التزام کی خاطر اس رات میں مساجد وغیرہ میں جمع ہونا خلاف سنت ہے اگرچہ ایک مرتبہ حضرت نبی اکرم محسن اعظم ﷺ سے قبرستان میں جانا ثابت ہے مگر اس کو سنت مستمرہ قرار نہیں دیا جاسکتا ،نہ ہی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین اور سلف صالحین نے اجتماعی طور پر عبادت یا قبرستان جانے کو اختیار فرمایا ،حضرت سید الاولین والآخرین احمد مجتبیٰ محمد مصطفیﷺ کی عادت شریفہ نوافل ادا فرمانے کی حجرئہ مبارکہ میں تھی حالانکہ حجرہ مقدسہ سے قدم مبارک باہر نکالتے تو مسجد نبوی میں پہنچ جاتے مگر اس کے باوجود نوافل تہجد وغیرہ حجرہ مبارکہ ہی میں ادا فرماتے تھے پس اتباع سنت اور حضرت نبی کریم ﷺ سے محبت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ شب برأت وغیرہ جیسی راتوں میں نفلی عبادات کا اہتمام اپنے اپنے گھرو ں میں کیا کریں اور خلاف سنت کاموں سے اپنے کو بچاتے رہیں رات بھر گھومتے پھرنا اور قبرستان وغیرہ میں میلہ ٹھیلہ کی شکل اختیار کرنا ،تقریر وبیان کی لمبی لمبی مجلسیں قائم کرنا جائز نہیں ،ان جیسے امور میں تو بہت سے مفاسد اور خرابیاں متحقق ہیں جو واجب الترک ہیں۔(۲)خلاف قانون موٹر سائیکل وغیرہ پر سوار ہوکر گھومتے پھرنا کہ جس کی وجہ سے حوادثات کے پیش آنے کا اندیشہ ہو جائز نہیں بلکہ حرام ہیں،مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو ان جیسی قبیح وشنیع اور بری حرکتوں سے کوسوں دور رہنا چاہئے آپ حضرات (ائمہ وعلماء کرام )نے مسلمانوں کی اصلاح کیلئے جو قدم اٹھایا ہے جس کی صورت یہ اختیار کی ہے کہ خاص شب برأت میں کوئی مجلس تقریر وبیان کی نہ ہو اور دو تین دن پہلے مسلمانوں کو سمجھایا جائے تاکہ مسلمان اس رات میں مطابق سنت اپنے اپنے گھروں میں عبادات کا اہتمام کریں ۔اور رسمی ورواجی امور سے الگ تھلگ رہیں،ہی قدم بہت مبارک ہے،امید ہے کہ عام مسلمان اس مستحن طریقہ کا خلوص نیت کے ساتھ خیر مقدم فرمائیں گے ۔اور پھیلے ہوئے مفاسد وخرابیوں کے ازالعہ ودفعیہ میں پورا پورا تعاون کریں گے ۔البتہ دو تین دن پہلے کی تخصیص کو لازم نہ کریں ،بلکہ شب برأت سے پہلے ایک دو جمعوں میں ائمہ حضرات وعلماء کرام سمجھانے کا نظام بنالیں ۔

Leave a Comment