٭نورالنساء محمد سعد الدین صدیقی
پی۔ ایچ ڈی ریسرچ اسکالر،
شعبۂ اُردو یشونت مہاودیالیہ، ناندیڑ، مہاراشٹر
Noorunnisa Md. Saduddin Siddiqui
Ph.D. Research Scholar,
Dept. Of Urdu, Yeshwant Mahavidyalaya,
Nanded, Maharashtra
سر زمین دکن میں حیدرآباد کو ابتداء ہی سے اہم مقام حاصل رہا ہے۔ قطب شاہی دور سے ہی یہ شہر علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ اس شہر کو آزادی کے بعد بھی شعر و ادب کے گہوارے کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔ آصف جاہی دور میں ریاست حیدرآباد کی سرکاری زبان اُردو ہی تھی۔ اُردو ذریعۂ تعلیم کی واحد یونیورسٹی حیدرآباد میں ۱۹۱۸ء میں جامعہ عثمانیہ کی حیثیت سے شروع کی گئی۔ جس کا سلسلہ ۱۹۵۰ء تک رہا۔ جس کے بعد یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم انگریزی قرار دیا گیا۔ غرض حیدرآباد کی سرزمین نے اُردو زبان کی ترقی و ترویج میں بڑے عروج و زوال دیکھے ہیں۔ ریاست میں نہ صرف نوجوان بلکہ خواتین بھی اُردو شعر و ادب کی شمع جلاتی نظر آتی ہیں۔
شہر حیدرآباد میں آزادی سے لے کر اب تک کئی تخلیق کاروں نے ادب کے ایوان سجائے ہیں۔ ایسے ہی تخلیق کاروں میں قمر جمالی کا شمار ہوتا ہے۔ جو دکن کی نامور خاتون افسانہ نگار ہیں۔قمر جمالی کا اصل نام قمرسلطانہ ہے۔ وہ ادبی دنیا میں قمر جمالی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد قمر جمالی نے عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔اے۔ کیا۔ اس کے بعد محکمہ مال گزاری میں ان کا تقرر ہوگیا۔ محکمہ مال گزاری میں ۳۱ ؍سال اپنی خدمات بحسن و خوبی انجام دینے کے بعد قمر جمالی بحیثیت تحصیلدار اپریل ۲۰۰۶ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ اس کے بعد ۲۰۰۸ء میں ایم۔ اے (فارسی) عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے درجہ اوّل میں کامیاب ہوئیں۔
قمر جمالی نے باضابطہ طور پر اپنے ادبی سفر کا آغاز ماہنامہ ’بیسویں صدی‘ نامی رسالہ سے کیا۔ اِس رسالے میں ان کا پہلا افسانہ ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ افسانہ کے علاوہ قمر جمالی نے ڈرامہ ، مضامین ، انشائیہ ، رپورتاژ، سفر نامہ ، کالم نگاری ، و فاتیہ وغیرہ تمام نثری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن اِن میں شاعری کی چاہ اَدھوری رہ گئی ہے۔ اب تک کے ادبی سفر میں قمر جمالی کے چار افسانوی مجموعے ’’شبیہ‘‘ (۱۹۹۰) ، ’’سبوچہ‘‘ (۱۹۹۲ء)، ’’سحاب‘‘ (۲۰۰۱)،’’زہاب‘‘ (۲۰۰۷ء) ، ’’صحرا بکف‘‘ (۲۰۱۵ء) ، ایک ڈراموں کا مجموعہ ’’سنگ ریزے‘‘ (۱۹۹۳) ایک ناول ’’آتش دان ‘‘ (۲۰۱۴ء) شائع ہوکر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ اِن اعزازات میں آندھراپردیش اُردو اکادمی ایوارڈ (۱۹۹۲ء)، امتیاز صبر(۱۹۹۷ء) لکھنو کے علاوہ بیسٹ رائٹر ایوارڈ (۱۹۹۷ء) منجانب ہندومسلم یوتھ فورم حیدرآباد شامل ہیں۔ حال ہی میں قمرجمالی کو مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی اور راجستھان اُردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ’’پروفیسر قمر رئیس فکشن ایوارڈ۲۰۱۸ء‘‘ سے بھی نوازا گیاہے ۔ قمر جمالی کے افسانوں کا انگریزی، اڑیا، ہندوی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ اِن سب کے علاوہ اور ایک قابل امتیاز بات یہ ہے کہ قمر جمالی کی تمام کتابیں امریکہ کی چودہ لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔
قمر جمالی کے ادبی سفر کی ابتداء بچپن ہی میں ہوگئی تھی۔ انہیں لکھنا جنون کی حد تک پسند تھا۔ بچپن میں ان کی ٹیچر جب انہیں کسی موضوع پر مضمون لکھنے کو کہتی تو وہ اِس مضمون میں ایک کردار شامل کرکے کہانی بنادیا کرتی تھیں۔ دراصل یہیں سے ان کی افسانہ نگاری کی ابتداء ہوئی ہے۔ وہ خود اپنی افسانہ نگاری کی ابتداء کے بارے میں کہتی ہیں :
’’اسکول میں استانی مضمون لکھنے کو کہتیں تو میں اس میں ایک کردار کا اضافہ کرکے کہانی بنادیتی تھی۔ بعض اوقات استانی ناراض ہوجاتیں۔ ’’یہ کیا لکھا ہے؟‘‘ تو میں اس کا جواب نہیں دے سکتی تھی کیونکہ مجھے مضمون، انشائیہ ، کہانی اور افسانہ میں تمیز کرنی نہیں آتی تھی۔ غالباً اپنی عمر کے چودھویں سال ایک کہانی لکھی۔‘‘
(شاہین سلطانہ مقالہ برائے ایم فل صفحہ نمبر ۴۲،حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی)
قمر جمالی کے افسانے انفرادی نوعیت کے حامل ہیں ۔انھوں نے جن مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے وہ مسائل دورِ حاضر کے چبھتے اور سلگتے مسائل ہیں۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ عام طور پرمختلف مسائل سے اپنے قارئین کو روشناس کراتے ہیں۔ پلاٹ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پلاٹ وہ واقعات ہوتے ہیں جو کسی کردار کی زندگی میں پیش آچکے ہوتے ہیں۔ کسی کردار و واقعات کی فنی ترتیب اور قارئین کو ان سے جوڑے رکھنے کی دلچسپی کو پلاٹ کہا جاتا ہے۔ پلاٹ کے تعلق سے مجنوں ؔگورکھپوری فرماتے ہیں :
’’کسی افسانے میں سب سے پہلے جو چیز ہمارے ذہن کو اپنی طرف منتقل کرتی ہے وہ چند واقعات ہوتے ہیں جن پر ہر افسانے کی بنیاد ہوتی ہے۔ ان ہی واقعات کی ترتیب کو ماجرا یا پلاٹ کہتے ہیں۔‘‘
(مجنوں ؔگورکھپوری، افسانہ اور اس کی غایت صفحہ ۲۰)
مندرجہ بالا خیال سے اِس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کسی افسانے کے لئے چند واقعات کا رونما ہونا ضروری ہے۔ یہ واقعات کردار کی زندگی میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس پر افسانے کی بنیاد ہوتی ہے۔ عام طور پر پلاٹ کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ (۱) سادہ یا منظم پلاٹ (۲) پیچیدہ یا غیر منظم پلاٹ۔ وقار عظیم پلاٹ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ہر کہانی کیلئے عموماً تین چیزوں کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ یا تین عناصر ہیں جن سے کہانی بنتی ہے اور مکمل ہوتی ہے۔ پلاٹ، کردار اور وقت اور مقام کی موجودگی یا زماں و مکان کا پس منظر۔‘‘
(فن افسانہ نگاری، وقار عظیم ایجوکیشنل بک ہائوس)
قمر جمالی کے افسانوں میں تینوں عناصر نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان عناصر کی قمر جمالی کے افسانوں میں شمولیت قاری کیلئے ایک پیغام ہے۔اپنے افسانوں کے سادہ اور منظم پلاٹ کو وہ شعور کی رو کی تکنیک یا فلیش بیک (Flashback) کے ذریعے پیچیدہ بناتی ہیں۔ جس کی وجہ سے کبھی کبھی کہانی میں بے ضابطگی اور تسلسل کی کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ افسانوں میں جو واقعہ، تجربہ یا خیال ، افسانے کی بنیاد بنتا ہے قمر جمالی اُنھیں اپنی فنی مہارت کے ذریعے اس میں مناظر ، کردار ، مکالموں اور کبھی کبھی خود کلامی (Monologue) کے ذریعے رنگ بھرتی ہیں۔ زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے یا غیر اہم واقعات کو پلاٹ کے روپ میں ڈھال کر افسانہ بنانا قمر جمالی کی حساس طبیعت کا نتیجہ ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانے عام لوگوں کی زندگی میں پیش آنے والے اَلم ناک واقعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ چونکہ بچپن ہی سے انھوں نے اپنی ذاتی زندگی میں دکھ درد، صعوبتیں جھیلی ہیں۔ یہی عناصر ان کے افسانوں میں اُبھر کر پلاٹ کے ذریعے کردار کی شکل میں نظر آتے ہیں ۔ ان کے افسانے وقار عظیم کی رائے پر کھرے ثابت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وقار عظیم کہتے ہیں :
’’واقعات کا ابتداء سے لے کر منتہاء تک پہنچنا اور اس کے بعد ایک موزوں نتیجہ پر ختم ہونا، اسی ترتیب و تنظیم کا نام پلاٹ ہے۔‘‘
(فن افسانہ نگاری ، وقار عظیم، صفحہ نمبر ۶۵)
درج ذیل افسانے قمر جمالی کے کامیاب پلاٹ کے آئینہ دار ہیں۔
عنوان :
افسانہ’’عنوان‘‘ کا پلاٹ سادہ اور منظم ہے جو ایک پٹھان باپ بیٹی اور ایک عورت کے اِرد گرد گھومتا ہے۔ پٹھان باپ اور بیٹی ایک پہاڑی کے دامن میں رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ ہندوستان میں مقیم ہیں مگر ہندوستانی نہیں ہیں۔ ایک عورت جس کا نام و پتہ معلوم نہیں ہے ان کے گھر پناہ لیتی ہے۔ عنقریب اُس کی زچگی ہونے والی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ سفر کرنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ ایک لڑکے کو جنم دیتی ہے ۔پٹھان کی لڑکی اُس نومولود بچے کے باپ کے بارے میں دریافت کرتی ہے تو وہ اجنبی عورت اُسے کچھ نہ بتاکر صرف یہ کہتی ہے کہ وہ مرد اُسے دھوکہ نہیں دے گا ۔وہ ہر مہینے کی ۲۰؍ تاریخ کو آتا ہے۔ بچہ کا باپ افغان مہاجر ہے اور وہ ایک آرٹسٹ ہے، وہ دھوکہ نہیں دے سکتا اور وہ اپنے بچے کو لینے ضرور آئے گا۔ پٹھان اسے اپنی بیٹی تسلیم کرلیتا ہے اور اُس عورت کو یقین دلاتا ہے کہ اگر وہ اُس بچے کو باپ کا نام نہ دِلوا سکا تو کم سے کم اس ملک کی شہریت دلادے گا تاکہ وہ مجبور زندگی گزارنے سے بچ جائے۔ اس دوران اُس عورت کی طبیعت بگڑتی جاتی ہے اور اس کی موت ہوجاتی ہے۔ پٹھان کی لڑکی اُس مقررہ تاریخ پرپہاڑی پر جاتی ہے تاکہ اس بچے کے باپ کی تلاش ہوسکے اور بچہ اُسے سونپ سکے۔ اتفاق سے ایک ادیبہ کا بھائی سیر کرتا ہوا وہاں پہنچ جاتا ہے اور پٹھان کی لڑکی غلط فہمی کا شکار ہوکر اُسے اپنے ساتھ گھر لاتی ہے ۔تمام حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ ساری روداد جاننے کے بعد اس ادیبہ کا بھائی بچے کو اپنانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور بچہ اپنے ساتھ گھر لے آتا ہے۔ ادیبہ بہن کو تمام کہانی سناتا ہے ۔جب ادیبہ اُس لڑکی کا نام پوچھتی ہے تو وہ کہتا ہے :
’’وہ جو تم کہتی تھیں کہ اولادِ آدم کی ہر کڑی کہیں نہ کہیں سے اسی نسل آدم سے ملتی ہے چاہے نام کچھ ہوں۔ عنوان کچھ؟‘‘
(شبیہ صفحہ نمبر ۴۳، خورشید پریس حیدرآباد)
افسانے کا پلاٹ قارئین کی توجہ اپنی طرف مرکوز کیے رکھتا ہے۔ شروع سے آخر تک قارئین کا تجسس برقراررہتا ہے یہ جاننے کیلئے کہ آگے کیا ہوگا۔ غرض افسانے کا پلاٹ جامع اور موثر ہے۔ قمر جمالی نے اس پلاٹ کے ذریعے نہ صرف قصہ بیان کیا بلکہ اس کے توسط سے انسان کی سوچ کے دائروں کو بھی نمائندگی دی ہے۔
روشنی :
افسانہ ’روشنی‘ کا آغاز منظر نگاری کے ذریعے کیا گیا ہے۔ جس میں ایک قحط زدہ گائوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ افسانے کے پلاٹ سے پتہ چلتا ہے کہ گائوں میں قحط پڑا ہے اور لوگ مجبوراً شہر منتقل ہورہے ہیں۔ صفدر خان گائوں کا ایک مہذب، معتبر اور ذمہ دار شخص ہے۔ جسے گائوں کے سبھی لوگ عزت سے جھک کر سلام کرتے ہیں۔ گائوں کا ماحول خوشگوار ہے اور ہمہ مذاہب کے لوگ مل جل کر بھائی چارہ سے رہتے ہیں۔صفدر خان اپنے بیوی اور بیٹے مجید خان کے ساتھ تعلیم کی غرض سے شہر مقیم ہوجاتا ہے۔اس دوران فساد پھوٹ پڑتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات سنگین ہوتے چلے جاتے ہیں اور اچانک گائوں میں پولیس کی سیٹیوں اور شوروغل کی آواز گونجنے لگتی ہے۔ اُپیش کی ماں کملا صفدر خاں کے گھر چھپ کر اپنی جان بچاتی ہے اور بتاتی ہے کہ شہر کے بیچ ایک نوجوان کا قتل ہوگیا ہے۔ قتل کی واردات لالہ مکند لال کی گلی میں ہوتی ہے۔ جہاں مجید خان پڑھنے جایا کرتا تھا۔ صفدر خان یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے بیٹے کا قتل ہوا ہے اور وہ غصے میں ٹھان کر نکلتے ہیں کہ راستے سے گزرنے والے ہر ایک کو قتل کردے گا۔ پس منظر میں اللہ اکبر کے ساتھ ساتھ جئے بجرنگ بلی کی آوازیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ فسادی دو مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسے تیسے صفدر خان لاش تک پہنچتا ہے، جو کوئی لمبے تڑنگے نوجوان کی معلوم ہوتی تھی،اُس پر میلا سا کپڑا اُڑایا گیا تھا اور قریب ہی ایک کاپی اور پین پڑا تھا۔ صفدرخان کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ لاش کا چہرا دیکھتا۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کا سب کچھ لٹ گیا ہے۔ خون کے دھبے لالہ مکند لال کے گھر کی نشاندہی کررہے تھے۔ غصے میں وہ لالہ کے گھر انتقام کی نیت سے بند دروازوں کو توڑتا ہوا اندر گھس جاتا ہے۔ اُسے لالہ کے بیٹے اروند کی تلاش تھی جسے قتل کرکے وہ اپنا انتقام لینا چاہتا تھا۔ جیسے ہی لالہ مکند لال سامنے آتا ہے۔ صفدر خان پوری قوت سے اُس پر حملہ کرتا اس سے پہلے ہی دوسری زبردست طاقت اُسے گرفت میں لے لیتی ہے۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا بیٹا مجید خان تھا جو اُسے انسانیت سوز حرکت سے روک دیتا ہے۔ اپنے بیٹے کو زندہ دیکھ کر مجید خان کو خوشی سے زیادہ شرمندگی کا احساس ہوتا ہے کہ جس شخص نے اُس کے بیٹے کی جان بچائی وہ اُسے ہی قتل کررہا تھا۔ وہ لاش کسی اور کی نہیں بلکہ لالہ مکند لال کے بیٹے اروند کی تھی۔مجید خان نے لالہ کے جذباتی کیفیت اور طیش میں انسان کے رویے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ غصہ میں انسان اپنی عقل کھودیتا ہے اور صحیح فیصلہ نہیں لے پاتا۔ کہانی بڑی دلچسپ اور قارئین کو جکڑے ہوئے رکھتی ہے۔
اس افسانے کے پلاٹ کے ذریعے قمر جمالی نے نہ صرف انسانی فطرت بلکہ ہندوستانی روایات و رواداری کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ افسانے کا پلاٹ منظم اور سادہ ہے۔ قمر جمالی نے اپنی فنی صلاحیت سے واقعات کو ترتیب وار سلسلے سے بیان کیا ہے۔ کہانی میں کہیں بھی کوئی خامی نظر نہیں آتی۔
فاصلے مٹ گئے :
اس افسانے کا پلاٹ بھی دیگر افسانوں کی طرح مکمل و منظم ہے۔ کیپٹن عاکف جو ایک غازی تھا۔ اب اپاہج کی زندگی گزار رہا ہے۔ اپنی اپاہج زندگی سے وہ مغموم ہے اور اُسے اس زندگی سے موت بہتر لگتی ہے۔بنگلہ میں صرف عاکف اور اس کی بیمار ماں رہتے ہیں۔ بیمار ماں کچھ دنوں بعد چل بستی ہے۔ ماں کی جدائی کے غم سے کیپٹن عاکف کی دلخراش چیخیں بھی قابو میں نہیں تھیں۔ مختلف رپورٹرس کے فون عاکف کو انٹرویو کیلئے وصول ہوئے۔ کیپٹن عاکف جھلاہٹ کا شکار ہے کہ اس کی تفصیلات رپورٹرس کو کیسے معلوم ہوئیں۔ اسی دوران ایک زنانہ رپورٹر کی کال پر عاکف انٹرویو کے لئے مان جاتا ہے ۔وہ چاہتی تھی کہ اس کے انٹرویو سے لوگوں کوحوصلہ اور زندگی جینے کا سلیقہ ملے۔ عاکف کہتا ہے کہ جب سے وہ میدان جنگ سے غازی بن کر لوٹا ہے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ وہ رپورٹر کوئی اور نہیں بلکہ ریشمی ہے جو اُس کی محبوبہ رہ چکی تھی۔ عاکف اس سے شادی کا وعدہ کرکے جنگ میں چلا جاتا ہے ۔ اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے وہ اپنی محبت کو بھول جاتا ہے۔ اس لیے ریشمی عاکف سے ناراض ہے ۔اس کے طنزیہ مکالمے سن کر عاکف بے ہوش ہوجاتا ہے۔ ریشمی عاکف کی مجبوری سمجھ جاتی ہے اور اُسے معاف کردیتی ہے۔اور کہتی ہے :
’’وہ فرشتہ نہیں عورت ! عورت جو زندگی میں ایک بار کسی کو اپنا مان لے تو پھر مشکل ہی سے اُسے فراموش کرسکتی ہے۔‘‘
(شبیہ صفحہ نمبر ۷۳، خورشید پریس حیدرآباد)
اور دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں ۔اس طرح افسانے کا پلاٹ اختتامیہ میں خوشگوار ہوجاتا ہے۔ دو بچھڑے پریمی مل جانے سے ان کے درمیان فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ اس طرح افسانے کا عنوان بھی معنی خیز اور موزوں ہے۔
آخر کیوں ۔۔۔۔ ؟ !! :
افسانہ ’آخر کیوںـ۔۔۔۔؟!!‘ کا پلاٹ ہندوستان کی قدیم تہذیب کا مظہر ہے۔ اس کے ذریعے قمر جمالی نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم رواداری اور ثقافت کی نمائندگی کی ہے۔ افسانے کا بیانیہ میں ایک بچے کے ذریعے مسلم گھرانے پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ بچہ عیدکی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ افسانے میں عید کی نماز سے قبل کی گہما گہمی اور عید کی تیاریوں میں خود کے علاوہ گھر کے بزرگ افرادِ خاندان جیسے دادا ابا، بڑے ابا ، بڑی اماں ، رامو کاکا، رحیم چاچا اور ریڈی انکل کی مصروفیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ بچہ بزرگوں کی طرح پگڑی باندھنے کی ضد کرتا ہے ۔کامیاب بھی ہوجاتا ہے لیکن اُس سے پگڑی سنبھل نہیں پاتی تب رامو کاکا کہتے ہیں :
’’بیٹا ! پگڑی نہیں گرائی جاتی ، بھلے ہی سر کٹ جائے۔‘‘
(سحاب ۹۳، و سنتا گرافکس حیدرآباد)
رامو کاکا کا یہ جملہ پگڑی کی اہمیت کا غماز ہے۔
عیدگاہ پر گائوں کے سبھی ہندو مسلم پہنچتے ہیں ۔عید کی نماز ختم ہوتے ہی عید مبارک کا شور بلند ہوتا ہے۔ اِس منظر نگاری کے ذریعے قمر جمالی نے آپسی بھائی چارہ قدیم تہذیب اور رواداری کے عناصر کی نشاندہی کی ہے۔ صرف عید ہی نہیں بلکہ دیوالی بھی جوش و خروش سے بلا لحاظ مذہب منائی جاتی تھی۔ تہوار چاہے کسی مذہب کا ہو صرف خوشیاں ہی بٹورے جاتی تھیں۔ بیانیہ کا وہی بچہ جب بڑا ہوجاتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں گائوں، ویران اور شہر آباد ہونے لگے برسوں بعد بڑی اماں شہر آتی ہیں تو انھیں بتایا جاتا ہے کہ اس دن دیوالی ہے تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور بے شمار جھریوں میں لرزش پیدا ہوتی ہے۔ پٹاخے کی زوردار آواز پر بڑی اماں اچھل پڑتی ہے اور انھیں گمان ہوتا ہے کہ کیا جنگ چھڑ گئی۔ بڑی اماں اپنی صحت کے تعلق سے فکر مند ہیں۔ بڑی اماں کے کردار کے ذریعے قمر جمالی نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کسی کو تکلیف پہنچا کر تہوار کی خوشی نہیں منائی جاسکتی۔ تہوار کی اصل خوشی ایک دوسرے کو اپنے سکھ میں شامل کرنے میں ہوتی ہے۔ بھائی چارہ کی جگہ تعصب اور نفرت نے لے لی ہے۔ قمر جمالی نے اس پلاٹ کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ ایک دور میں لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے قریب ہوتے تھے لیکن آج کے دور میں مذہب کے نام سے ایک دوسرے سے دور ہونے لگے ہیں۔ اس طرح یہ افسانہ اتحاد کی اہمیت اور بھائی چارے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
لائف لائن :
افسانہ ’لائف لائن‘ کا پلاٹ ایک دولت مند لڑکی اور اس کے بے چارگی کے اطراف گھومتا ہے۔ اس کی ماں بسترِ مرگ پر ہے۔ اُسے اپنے بیٹی کی فکر کھائی جارہی ہے۔ موت کے آغوش میں جانے سے پہلے ماں کو اپنا داماد دیکھنے کی تمنا ہے۔ نوجوان لڑکی ایک شخص سے منت و سماجت کرتی ہے کہ اس کے حال پر رحم کھاکر کچھ وقت کے لیے وہ اس کے شوہر کا رول ادا کرے جس کے لیے وہ باضابطہ کچھ رقم کی پیشکش کرتی ہے۔ وہ شخص کہتا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار رپورٹر ہے ۔لیکن لڑکی کی کیفیت اور مجبوری میں اس کی مدد کا اِرادہ رکھتا ہے اور اس کے شوہر کا رول ادا کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ جب دونوں ہسپتال پہنچتے ہیں تو اس لڑکی کی ماں اپنی آخری سانس گن رہی ہوتی ہے۔ لڑکی ماں سے کہتی ہیکہ یہ شخص وہی ہے جسکا اسے انتظار تھا۔ماں اپنی آنکھوں سے ہی اپنی خوشی کا اظہار کرتی ہے اور ہیرے کی انگوٹھی اسے تحفتاً دے کر دارِ فانی کو کوچ کرجاتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد نوجوان اس لڑکی کو اپنانے کا اِرادہ کرلیتا ہے لیکن لڑکی نہیں مانتی۔ سیماب خود کو Most eligible bachelor کہتا ہے جبکہ وہ کنوارہ ہے۔ جبکہ لڑکی کہتی ہیکہ وہ شادی نہیں کرسکتی۔ بہت اصرار کے بعد وہ اسے کہتی ہے :
’’ وہ چند سکوں کے عوض امیرزادوں کا دِل بہلانے والی طوائف کی بیٹی ہے اور زندگی اس کے لئے ناسور بن چکی ہے۔‘‘
(’’زُہاب‘‘ تناظر پبلی کیشن،۲۰۰۷ صفحہ ۹۷)
یہاں پر قمر جمالی افسانہ کے پلاٹ کونیا موڑ دیتے ہوئے دونوں کی زندگی کو بچپن کی طرف موڑ دیتی ہے۔ لڑکی بتاتی ہے کہ جب وہ پانچ برس کی تھی تب اس کی منگنی اِس کے خالہ زاد بھائی ،جو آٹھ برس کا تھا ،سے ہوچکی تھی۔ کچھ ناگہانی حالات کی وجہ سے دونوں بچھڑ جاتے ہیں اور لڑکی آج بھی اس کا انتظار کرتی ہے کیونکہ وہ کہتا تھا کہ لڑکی کی ہتھیلی پر اس کی لائف لائن مڑ کر ملتی ہے۔ تبھی سیماب بھی کہتا ہے کہ اس کا انتظار ختم ہوا وہ کوئی اور نہیں بلکہ اُس کا خالہ زاد سیماب ہی ہے۔ اس طرح قمر جمالی نے افسانہ میں خوشگوار اختتام دے کر افسانہ کو رومانیت بخشی ہے۔بقول مقبول فاروقی :
’’ قمر جمالی کی کہانیوں میں موضوعات کا جو تنوع ہے وہ ان کے تجربات و مشاہدات کی وسعت اور ان کی تخلیقی توانائی کا مظہر ہے۔ قمر جمالی کے اسلوب کی انفرادیت ان کی خود اعتمادی اور افسانے کے فن پر اِن کی گرفت کا ثبوت ہے۔‘‘ (’’زُہاب‘‘ ۲۰۰۷ء صفحہ نمبر ۱۲۴)
قمر جمالی اپنے افسانوں کے تئیں کہیں بھی غافل یا بے توجہی برتتے ہوئے نظر نہیں آتیں۔ جسکی وجہ سے وہ افسانے میں تاثیر کی گہرائی پیدا کرپاتی ہیں۔ ان کے افسانے ، واقعات کے ارتقاء اور ان کی رو کے فطری نتائج ہوتے ہیں۔ غرض ان کے افسانے ایک مثالی پلاٹ کی پانچ خصوصیات سادگی ، حقیقت پر مبنی ، تجدیدیت سے گریز، منتہا یا Climax اور دلچسپی سے مزین ہوتے ہیں۔ افسانے ’’روشنی‘‘، ’’لائف لائن‘‘ ، ’’آخر کیوں‘‘ ، ’’فاصلے مٹ گئے‘‘، ’’لہو پکارے گا‘‘ اور ’’عنوان‘‘ اِن خصوصیات سے مالا مال ہیں۔
حوالہ جات :
۱۔ شاہین سلطانہ مقالہ برائے ایم فل، حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی، ۲۰۱۲ء(غیر مطبوعہ)
۲۔ مجنوںؔ گورکھپوری ، ’’افسانہ اور اُس کی غایت‘‘
۳۔ وقار عظیم، ’’فنِ افسانہ نگاری‘‘ ، ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ، ۲۰۱۵ء
۴۔ قمر جمالی ’’شبیہ ‘‘،خورشید پریس حیدرآباد، ۱۹۹۰ء
۵۔ قمرجمالی ،’’سحاب‘‘، وسنتا گرافکس ، حیدرآباد، ۲۰۰۱ء
۶۔ قمر جمالی، ’’زُہاب‘‘ تناظر پبلی کیشن، حیدرآباد، ۲۰۰۷ء