قومی کونسل کو متنازعہ بننے سے بچا یاجائے:رحمن عباس

\"1625796_1135401396472899_5913573835110655450_n\"
ممبئی: (پریس ریلیز) قومی کونسل کے ڈائریکڑ جناب ارتضی کریم ایک غیر جمہوری اور غیر آئینی فارم پر اردو ادیبوں کو دستخط کرنے پرمجبور کرنے کی اپنی حکمت علمی کو درست قرار دینے کی کوشش میں قومی کونسل جیسے اہم ادارے کو غیر ضروری طور پر متنازعے بنا رہے جس پر اظہار افسو س ظاہر کرتے ہوئے اردو ناول نگار رحمن عباس نے کہا کہ اس طرح کے فسطائی عمل سے ماضی میں بھی اقلیت اور اردو کے مفاد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ رحمن عباس نے کہا ہے کہ کونسل کاـ’ اقرار نامہ‘ نہ صرف قابل اعتراض بلکہ آئین کے خلاف ہے جس کی سماجی اور سیاسی سطح پر مذمت ہر ادیب اور فن کار پرفرض ہے۔ اگر کونسل کے ڈائریکڑ اس اقرار نامے پر دستخط کرنے پر اردو والوں کو مجبور کرنا چاہتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے حکومت سے اس با ت کی استدعا کرنا چاہیے کہ ہندستان کی تمام زبانوں حتٰی کہ ساہتیہ اکادمی کے ذریعے شائع ہونے والی کتابوں پر بھی یہ شرط عائد کی جائے جس طرح آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن کی شرائط صرف اردو کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے نہیں بلکہ ملک کی تمام زبانوں کے لیے ہیں ۔ سرکاری ذرائع ابلاغ ملکی مفادات کے خلاف مواد کی اجازت نہیں دیتے جس کی یہ تشریح ممکن نہیں جس طرح قومی کونسل کے ڈائریکڑ کر رہے ہیں کہ ادیبوں کو حکومت ِوقت کی پالیسی کی پاسداری کرنا چاہیے۔رحمن عباس نے ارتضٰی کریم سے اپیل کی ہے کہ ہٹ دھرمی کی راہ اختیار نہ کریں اور غیر آئینی اقرار نامے کو واپس لیں کیونکہ یہ اقرار نامہ ادبیوں کی انسانی اور جمہوری آزادی کے خلاف ایک اشتعال انگیز قدم ہے دوسر ی طرف بی جے پی کی ’سب کا ساتھ سب کا وِکاس‘ پالیسی کے خلاف ہے۔ اگر یہ غلطی پہلی سے جاری تھی تب بھی سابق حکومت کی غلطی کو جاری رکھنا کسی طرح سے جائز نہیں ہے۔ اگر ماضی میں کسی کتاب پر تنازعہ ہو ا تھا تو اسے جواز بنا کر تما م اردو ادیبوں کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے مجبور کرنا دراصل اردو کے ادیبوں کو شک کی نظر سے دیکھنا ہے ۔کونسل کے اس عمل نے ادیبوں کو گہرے صدمے اور دکھ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ڈائریکڑ خود یہ کہہ چکے ہیں کہ قومی کونسل ایک ’ـخودمختار ادارہ‘ ہے جس پر حکومت کا کوئی دباؤ نہیں ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر انھیں ایسے اقدام کی حمایت محض ہٹ دھرمی کے طور پر نہیں کرنا چاہیے جس سے اردو کے ادیب ملک کے مختلف حصو ں میں خود کو مجرم سمجھنے لگیں ہوں۔
قومی کونسل کے ڈائریکڑ کو ادیبوں کی آواز پر کان دھرنا چاہیے اور سیاست سے گریز کرناچاہیے اور خودکو حکومت کا ملازم کہنے کے بجائے اردو کا خادم کہنا چاہیے اور اردو والوں کے مفادات کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اگر انھوں نے اس مسئلے کو دانشمندی سے حل نہیں کیا تو یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہوگا اور ان کی ہٹ دھرمی وزات برائے فروغ انسانی وسائل کی تضحیک کا سبب بن سکتی ہے۔ غیر آئینی اور غیر جمہوری اقرارنامے کو برقرار رکھنے کے لیے غلط اور خام خیالی پر مبنی وجوہ پیش کرنے سے بہتر ہے چیئرمین ملک کے ادیبوں اور زبان سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس اقرارنامے کو واپس لے لیں۔ چیئرمین کو معلوم ہونا چاہیے کہ یوں بھی ادب کا دائرہ کارشاعری، تنقید، فکشن اور علمی کتا بیںہیں جن کا حکومت کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ خوامخواہ اردو والوں کو شک و شبہات کے گھیرے میں کھڑا نہ کیا جائے۔قومی کونسل اگر اس غیر انسانی اقرارنامے پر اصرار کرتی ہے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کونسل نہ صرف ادیبوں کو ـ’پابند سلاسلـ ـ‘ کرنا چاہتی ہے بلکہ ’رسوا ‘بھی کرنا چاہتی ہے۔

Leave a Comment