کلیم عاجز کی شاعری میں حب الوطنی

\"\"
٭ڈاکٹر بسنت محمد شکری
طنطا يونيورسٹی
فیکلٹی آف آرٹس
ڈپارٹمنٹ آف اورينٹل لینگویجیز قاہرہ،مصر۔

كليم عاجز کی زندگی(ولادت اور تعليم)
كليم عاجز ولادت 11، اكتوبر 1926ء كو بہار كے ايک گاؤں تيلہا ڑا كے ايک معزز خاندان ميں ہوئى جہاں علم دين ودنيا اور مسلم معاشره كى اعلى تہذيب وروايات زنده تهيں –كليم پڑهنے لكهنے ميں بچپن سے ہى بہت تيز تهے – مكتبى تعليم كے دوران قرآن كريم اور اردو فارسى كى استعداد بہت جلد حاصل كر لى تهى- ان كى نسبى روايات ميں دودهارائيں تهيں – ان كا نانيہال صوفياء اور علماء دين كا گهرانہ تها جبكہ داديہال ديہاتى زمينداروں، كاشتكاروں اور مرنے مارنے پر تيار غيرت مند بہادروں كا خاندان تها جہاں سپہ گرى ، تلوار بازى اور بنوٹ وغيره كے فنون كوہى اوليت حاصل تهى- كليم كے نانا مكتب كے استاذ تهے – عربى وفارسى كے عالم ، جن سے انہوں نے گلستاں بوستاں، رقعات ِ عزيزى وغيره فارسى كى كتابيں پڑهيں – پڑهنے كا بے حد شوق تها اس لئے ان كى معلومات اور زبان پر دسترس ہم عمر بچوں سے بہت زياده تهى- انہوں نے سات آٹھ سال كى عمر ميں ہى قصص الانبياء، مرآة العروس، بنات النعش اور توبة النصوح جيسى كتابيں پڑھ ڈالى تهيں( )-
كليم عاجز كے والد كلكتہ ميں تجارت كرتے تهے – اگرچہ وه پڑهے لكهے اور با ذوق انسان تهے مگر اپنى خاندانى روايات كے تحت نہيں چاہتے تهے كہ وه اپنے نانا، ماموؤں وغيره كى طرح مولوى يا صوفى بنيں چنانچہ انہيں كلكتہ بلواليا گيا جہاں اسكول ميں بهرتى كرانے كے ساتھ ساتھ اكهاڑے ميں لے جا كر كسرت اور پہلوانى بهى سكهائى جانے لگى- كلكتہ ميں اسكولى تعليم كے ساتھ ساتھ انہيں مطالعے كا موقع خوب ملا، طلسم ہوش ربا اور الف ليلى سے لے كر انہوں نے اس زمانے ميں گهر گهر مقبول قلمكاروں كو دل كهول كر پڑها جن ميں پريم چند، پنڈت سدرشن، خواجہ حسن نظامى، مرزا شفيع دہلوى، مرزا فرحت اللہ بيگ، شوكت تهانوى، عظيم بيگ چغتائى اور اشرف صبوحى وغيره كى تحريريں اس دور كے مشہور رسالوں ميں پڑهيں- اس وقت جوش مليح آبادى كا رسالہ ،كليم ،اختر شيرانى ، كارومان، شاہد احمد دہلوى كا ، ساقى، اردو اشرافيہ كے پسنديده رسالے تهے كليم اسكول اور كالج كى تعليم ميں ہميشہ اوّل آتے رہے- تعليم كى وجہ سے وه كلكتہ ميں رہے ليكن گاؤں سے بچهڑنے كا غم انہيں ہميشہ ستاتا رہا – اسى اندرونى كرب كو بهلانے كے لئے سنيما اور تهيڑ ميں دلچسپى بڑهى جن كے افسانوى اثرات نے ذہن ميں رومانى جذبات جگا ديے – شاعرى كى بنياد اسى دور ميں پڑى – مطالعہ غضب كا تها – شاعرى كا ذوق بڑها تو تمام بڑى مثنوياں پڑھ ڈاليں- مصحفى ، انشا ، ناسخ، رند ،داغ اور امير مينائى سب كے كلام كو پڑھنے اور سمجهنے كى كوششيں شروع ہوگئيں- تذكرهء گل ِ رعنا اور تذكرهء نساخ وغيره شعراء كے مختلف تذكرے ، ادب كى تاريخ، پورا ادبى منظر نامہ ذہن ميں بس گيا- وه شعر وادب كى فضاؤں ميں جو ان ہوئے –مشاعروں اور ادبى جلسوں ميں جانے كا شوق تبهى سے ہوا تها 
والد كے اچانک انتقال كا صدمہ كسى طرح برداشت كيا اور پهر پٹنہ آگئے يہاں تعليم كا سلسلہ شروع ہوا ، پٹنہ سے گاؤں آنا جانا اور و بہن بهائيوں سے ملنے كى آسانى تهى، 1944ء ميں انہيں اپنے چهوٹے بهائ عليم كى موت كے جانكاه صدمہ نے ہلا كر ركھ ديا- اب وہى غم زده ماں دو چهوٹے بهائيوں اور بہنوں كا سہارا تهے ، وه پٹنہ ميں پڑھ رہے تهے ، ان كى پيارى ماں اور چهوٹى بہن پٹنہ آئى تهيں ، كچھ دن ره كر واپس گاؤں كے لئے روانہ ہوئيں- يہ 26 اكتوبر 1946ء كا دن تها وه انہيں چهوڑ نے اسٹيشن گئے تهے، ليكن وه آخرى ملاقات تهى كيونكہ 28 اكتوبر كو چهپر ااور تيلہاڑا پر ہندو مسلم فساد كا قہر ٹوٹا ، كليم سے ماں كا سايہ اور بہن كا پيار بے رحم قاتلوں نے لوٹ ليا، بہت سے قريبى بزرگ بهائى بہنيں ہمجولى موت كے منہ ميں چلے گئے- شاعروں كو ان كى زندگى كے حادثات نے متاثر كيا ہے ، زندگى كے دكهوں نے ان كى شاعرى بن كر دنيا كو احساس غم كى لذت سے ہمكنار كيا ہے، ليكن اردو شاعرى كى تاريخ ميں كليم عاجز جيسا كوئى نظر نہيں آتا جس نے اپنوں كے خون كا دريا ڈوب كر پار كيا ہو، اپنے گاؤں كے كنويں كو ماؤں بہنوں اور بچوں كى لاشوں سے بهرا ديكها ہو جو اپنى عصمت وعفت كى حفاظت كے لئے خود كشى كر كے شہيد ہوگئيں- تيلہاڑا كا كنواں گنج ِ شہيداں بن گيا- علم وعرفان كى قوت نے سہارانہ ديا ہوتا تو تبهى مرگئے ہوتے، غموں كا لاوا اشعار ميں ڈهل كر پهوٹ پڑا:
درد مند ِ عشق ہيں غم سے نہ گهبرائيں گے ہم
شاعرى كرتے رہيں گے اور مرجائيں گے ہم
اب كے پهر برسات ميں گنج ِ شہيداں پر چليں
آسماں روئے گا اور اپنى غزل گائيں گے ہم
ان کے اہم ادبی کارنامے:
1- وه جو شاعرى كا سبب ہوا
2- جب فصل ِ بہاراں آئى تهى
3- كوچہء جاناں جاناں
4- پهر ايسا نظاره نہيں ہوگا
5- ہاں چهيڑوں غزل عاجز
ان کی شاعری میں مؤثر کردار ادا کرنے والی شخصیات :
كليم عاجز اپنى كيفيات تغزّل ميں مير كے فرماں بردار پيرو تو ہيں، ليكن يہ نہ سمجهئے كہ اُن كے دائرهء فكر وفن ميں مير كى تقليد كے سوا اور كچھ نہيں ہے- نہيں ہرگز نہيں – ہميں ان كى غزلوں ميں تغزّل جديد كا پرتو بهى ملتا ہے – ان كے اندازِ بيان ميں نہ سہى، اُن كے اندازِ فكر ميں بهر پور ندرت اور بهر پور جدّت ہے – اندازِ فكر ميں جدّت اور اندازِ بيان ميں قدامت كليم عاجز كے تغزّل كا مخصوص آرٹ ہے جو سينكڑوں شعرا كے ہزاروں اشعار كے ہجوم ميں جانا اور پہچانا جا سكتا ہے – ان كى غزلوں ميں ان كے عہد كے سماجى اور سياسى تصوّرات بڑے سليقہ فن كے ساتھ اپنے كو نماياں كرتے ہيں- ان كا يہ دعوى اپنى جگہ حرف بحرف صحيح ہے
تجهے بهى ہم اے غم ِ جاناں غزل كے سانچے ميں ڈهال ديں گے
اُنهوں نے بلا شبہ غم زمانہ ہو يا غم روزگار ، غم ِ وطن ہو يا غم ِ كائنات سب كو تغزّل كا نازک شبنمى پيرايہء لطيف ديا ہے جس ميں غزل كى فنى نزاكت كا اس طرح احترام ملحوظ ركها ہے كہ بے ساختہ عرفى كا يہ شعر ياد آ جاتا ہے 
در دل ِ ما غم دُنيا غم ِ معشوق شود
باده گر خام بود پختہ كند شيشہء ما 
سلسلہء بيان ميں كليم عاجز كا ايک مصرع جب قلم كى زبان سے ٹپک ہى پڑا تو آئيے اس غزل كے تين مطلعے آپ كو سنا كر خود بهى محفوظ ہوں اور آپ كو بهى محفوظ كروں:
حقيقتوں كا جلال ديں گے صداقتوں كا جمال ديں گے
تجهے بهى ہم اے غم ِ زمانہ غزل سانچے ميں ڈهال ديں گے
تپش پتنگوں كو بخش ديں گے لہو چراغوں ميں ڈهال ديں گے
ہم اُن كى محفل ميں ره گئے ہيں تو اُن كى محفل سنبهال ديں گے
نہ بندهء عقل وہوش ديں گے نہ اہل ِ فكر وخيال ديں گے
تمهارى زُلفوں كو جو درازى تمهارے آشفتہ حال ديں گے
يہ عقل والے اسى طرح سے ہميں فريب ِ كمال ديں گے
جنوں كے دامن سے پهول چُن كر خرد دامن ميں ڈال ديں گے
ہمارى آشفتگى سلامت سُلجھہى جائے گى زُلف ِ دوران
جو پيچ و خم ره گيا ہے باقى وه پيچ وخم بهى نكال ديں گے
جناب ِ شيخ اپنى كيجے كہ اب يہ فرمان ِ برہمنہے
بُتوں كو سجده نہيں كرو گے تو بُت كدے سے نكال ديں گے
آپ كہيں گے كہ اِن مطلعوں كے اندر جديديت كا آہنگ ہے – ٹهيک ہے ليكن ان كى تہہ ميں ذرا اُتر كر ديكهيئے تو مير كى روح تغزّل ان ميں بهى كار فرما نظر آئے گى- اب رہى جدّت ِ اساليب كى بات تو كليم عاجز كل تک نوجوان ہى تهے، بيسويں صدى كى دوسرى دہائى كے بعد جوش كى رہنمائى ميں اُردو شاعرى نے جو اسلوب بدلا اور جديديت كے نئے امكانات سامنے آئے اُن سے اِن كا كچھ نہ كچھ متاثر ہونا لازمى تها- ليكن دوسرے نوجوان شعرا نے صرف انداز بيان ميں جدّت پيدا كى، ليكن كليم عاجز كا كمال يہ ہے كہ اُنهوں نے تركيب ِ خيال ميں بهى ندرت آفرينى كے كرشمے دِكهائے
ليكن اِن جدت طرازيوں كے باوصف ان كے ذوق سخن كا ذہنى جهكاؤ مير ہى كے رنگ تغزّل كى طرف اُن كى شاعرى كے ہر دور ميں رہا، اور اب تو مير كے رنگ سخن ميں ايسے اشعار كہنے لگے ہيں كہ مير كے ديوان ميں كوئى اُنهيں شامل كردے تو بڑے مدعيان فكر ونظر كو يقين ہوجائے كہ مير كے شعر ہيں – اِن اشعار كى غمناک لہجگى كو آپ كيا كہيں گے :
ميں روؤں ہوں رونا مجهے بهائے ہے كسى كا بهلا اِس ميں كيا جائے ہے
كوئى دير سے ہاتھ پهيلائے ہے وه نا مہرباں آئے ہے جائے ہے
دل آئے ہے پهر دل ميں درد آئے ہے يونہى بات ميں بات بڑھ جائے گى
خموشى ميں ہر بات بن جائے ہے جو بولو ہے ديوانہ كہلائے ہے
…………
موسم گل كى كچھ باتيں ہيں ليكم تم سے كون كہے
تم تو بس سنتے ہى عاجز ديوانے ہوجاؤ ہو
……………
پتهر كى طرح تيرى ہر اک بات لگے ہے دل اوڑ كے ناصح تجهے كيا ہاتھ لگے ہے
ہم نے جو ديا ہے وه ہميں جان رہے ہيں سرمايہء غم مفت كہاں ہات لگے ہے
ہاں رہيو الگ صحبت ِ ارباب خرد سے وه بزم ہے يہ دن بهى جہاں رات لگے ہے
……………
ان اشعار كو پڑهيے اور انصاف سے كہيے كہ مير كے رنگ سخن ميں ايسى كاميابى كسى دور ميں كسى كو نصيب ہوئى؟ اگر آج كسى كے تغزل ميں اِس رنگ كى ہلكى سى پرچهائيں بهى ہو تو ميرى لا علمى كو اُس نام سے محروم نہ ركهيے-
كليم عاجز كا دماغ مير كى كيفيات سخن سے اتنا مسحور ہوا كہ اُنهيں مير كے عہد كى پرانى زبان بهى اچهى لگنے لگى – ناسخ نے اس قديمى لب ولہجے ميں تصرفات كيے اور اُن كے قصيده پسند سامع نے ُاردو كى لسانياتى تركيبوں ميں مقامى بهاشاؤں كى خوش آہنگى سے زياده فارسى كى بلند آہنگى كو پسند كيا – نتيجہ يہ ہوا كہ زبان كا لب ولہجہ بدلنے لگا- اِسے بدلنا كہيے يا بگڑنا- كچھ لوگ كليم عاجز كى زبان كى اس قدامت پسندى پر ناک بهنوں چڑهاتے ہيں- يہ اپنا اپنا لسانياتى ذوق ہے
جب ذہن بدلتے ہيں تو اُس كے ساتھ حواس ِ خمسہ كا مزاج بهى بدلنے لگتا ہے – مير سے پہلے اُردو شعرا معشوق كے ليے پريتم اور سجن استعمال كرتے تهے اور آئينے كى جگہ آرسى بولتے تهے، ليكن جوں جوں فارسيت كا غلبہ اُن كے ذہنوں پر بڑهتا گيا اُنهيں مقامى بهاشاؤں كے رسيلے الفاظ پهيكے لگنے لگے- ناسخ نے زبان كے ڈهانچے ميں واضح تبديلياں كيں-
عاجز كے ذہن كا سانچہ مذہبى ہے فلسفيانہ نہيں- اس ليے عموما ان كے يہاں فكرى بغاوت نہيں ملتى، ليكن شاعر شاعر ہے ،كہاں تک مذہبى زنجير اُسے اسير ركھ سكتى ہے- چنانچہ كبهى كبهى اس تسلط سے كاندها جهٹكتے نظر آتے ہيں:
فتوائے شيخ يا دعائے برہمنيہ بهى ديوانہ پن وه بهى ديوانہ پن
ان کے بارے میں ناقدین کی آراء :
پروفيسر كليم عاجز كى شاعرى اور ان كے شعرى اسلوب پر علامہ جميل مظہرى نے تبصره كرتے ہوئے لكها تها:
\” مير كى پيروى كرتے ہوئے عاجز كو ايک اور سليقہء فن بهى قدرت سے عطا ہوا ہے – مير كى غزليت كى ايک نماياں خصوصيت يہ ہے كہ وه عارفانہ اور فلسفيانہ افكار كو بڑے سليقے كے ساتھ غزل كا پيرايہ دے ديتے ہيں- وه فلسفہ وتصوف كے مضامين بهى بيان كرتے ہيں ليكن اس طرح كہ نہ فلسفہ كى ثقالت باقى رہتى ہے اور نہ تصوف كى عارفانہ خشكى ، يہ سليقہ انہيں حافظ سے نہيں (كيونكہ يہ سليقہ خود حافظ ميں موجود نہيں)عراقى اور فغانى سے ملا تها – غالب نے ہر چند مير كى پيروى كى مگر يہ سليقہ غالب كو نہ آتا تها نہ آيا ، غالب كے مدرسہء فكر كے عظيم نمائند ے اقبال بهى اس سے ہميشہ محروم رہے – يہ فنكار انہ چابک دستى اگر آئى تو كچھ داغ كے بعد عظيم آباد كے ايک فن كار يگانہ چنگيزى ہيں – بيسويں صدى كے نصف آخر ميں اگر كسى كا نام ليا جا سكتا ہے تو وه نام كليم عاجز ہيں جو بڑے بڑے مسائل كو گهلا كر غزل كا ميٹها رس بناديتے ہيں، ميں بڑى ذمہ دارى سے اعلان كرتا ہوں كہ مجهے آج اس سليقہء فن ميں كوئى ان كا شريک نظر نہيں آتا\”
ملاحظہ ہوں سليقہء فكر وفن كى چند مثاليں:
اُميد ايسى نہ تهى محفل كے ارباب بصيرت سے گناه شمع كو بهى جرم پروانہ بناديں گے
…….
سنے گا كون ميرى چاک دامانى كا افسانہيہاں سب اپنے اپنے پيرہن كى بات كرتے ہيں
……
سب آئينے سب آئينہ خانے اُنهيں سے ہيں
ميں سنگ وخشت كيسے كہوں سنگ وخشت كو 
علّامہ جميل مظہرى كا يہ ادّعا محض ايک ہم عصر شاعر كى دلنوازى يا تحسين كا تحفہ نہيں ، عصرى ادب كے مقتدر نا قدين اس صداقت كا اعتراف كرتے ہيں كہ كليم عاجز اس دور جديد كے منفرد ، اوريجنل اور فطرى سخنور ہيں 
اردو غزل كے سب سے بڑے مخالف اور اردو ادب كے اہم ترين نقّاد پروفيسر كليم الدين احمد جو ايک وحشى صنف شاعرى قرار دے كر غزل كو سرے سے رد كرتے ہيں – ان كى تنقيد كى دو دهارى تلوار كى كاٹ سے اساتذه سے لے كر متقدمين ومعاصر شعراء ميں سے كوئى نہيں بچ سكا- وہى كليم الدين احمد جو مغربى ادب وفلسفہ كى عينک سے اردو شاعرى كو جانچتے پر ركهتے تهے – كليم عاجز كے كلام پر نظر پڑتے ہى تهوڑى دير كے ليے ہى سہى ان كى غزل دشمنى تهم سى گئى- كليم كے كلام كا حسن اس سخت گير نقاد كو مسحور كر گيا، فرماتے ہيں:
\” ان كےشعروں ميں غم ِ جاناں بهى ہے اور غم ِ دوراں بهى اور وه غم ِ جاناں كو غم ِ دوراں بنا ديتے ہيں اور دونوں اس طرح گهل مل جاتے ہيں كہ وه ايک دوسرے سے الگ نہيں كہے جا سكتے ، وه ہونے والے واقعات كى طرف كهلے يا چهپے طنزيہ اشارے كرتے ہيں جو فورى طور پر اثر انداز ہوتے ہيں اور يہ ہونے والے واقعات ہوں يا نجى واقعات ہوں ، ان كے شعروں ميں ايک قسم كا تسلسل پيدا كر ديتے ہيں-
مرى شاعرى ميں نہ رقص ِ جام نہ مئے كى رنگ فشانياں
وہى دكھ بهروں كى حكا يتيں وہى دل جلوں كى كہانياں
يہ جو آه ونالہ ودرد ہيں كسى بے وفا كى نشانياں
يہى ميرے دن كے رفيق ہيں ، يہى ميرى رات كى رانياں
كبهى آنسوؤں كو سكهاگئيں مرے سوز ِ دل كى حرارتيں
كبهى دل كى ناؤ ڈبو گيئں مرے آنسوؤں كى روانياں
پروفيسر كليم الدين احمد كہتے ہيں : \” ان كى غزلوں ميں دكھ بهروں كى حكايتيں اور دل جلوں كى كہانياں ہيں – اور وه كوشش كرتے ہيں كہ ان كى غزلوں ميں انمل اور بے جوڑ باتيں نہ آنے پائيں\”- آگے كہتے ہيں، \” كليم كو بات كہنے كا سليقہ ہے اور ان كى غزلوں ميں ترتيب كا بهى خيال ہے – وه ترتيب وخيال تو نہيں جو قطعہ بند غزل يا مسلسل غزل ميں ہوتا ہے ، ليكن ان كے جذبات وخيالات ايک ہى نہج پر بہتے ہيں اس ليے شعروں ميں تسلسل سا پيدا ہوجاتا ہے –
تجهے سنگدل يہ پتہ ہے كيا كہ دكهے دلوں كى صدا ہے كيا
كبهى چوٹ تو نے بهى كهائى ہے ، كبهى تيرا دل بهى دكها ہے كيا
تو رئيس شہر ستمگراں ، ميں گدائے كوچہء عاشقاں
تو ا مير ہے تو بتا مجهے ، ميں غريب ہوں تو برا ہے كيا
يہ كہاں سے آئى ہے سرخرو، ہے ہر ايک جهونكا لہو لہو
كٹى جس ميں گردن ِ آرزو ، يہ اسى چمن كى ہوا ہے كيا 
كليم الدين احمد كو كليم عاجز كى يہ غزل اس قدر پسند آئى كہ اپنى تحرير ميں اسے كوٹ كرنے سے خود كو باز نہيں ركھ سكے
بڑى طلب تهى بڑا انتظار ديكهو تو
بہار لائى ہے كيسى بہار ديكهو تو
يہ كيا ہوا كہ سلامت نہيں كوئى دامن
چمن ميں پهول كهلے ہيں كہ خار ديكهو تو
لہو دلوں كا چراغوں ميں كل بهى جلتا تها
اور آج بهى ہے وہى كا روبار ديكهو تو
يہاں ہر اك رسن ودار ہى دكهاتا ہے
عجيب شہر ، عجب شہر يار ديكهو تو
نہ كوئى شانہ بچا ہے نہ كوئىآئينہ
دراز دستى گيسوئے يار ديكهو تو
كسى سے پيار نہيں پهر بهى پيار ہے سب سے
وه مست ِ حسن ہے كيا ہوشيار ديكهو تو 
كليم الدين احمد كا تاثر يہ ہے كہ عاجز كى غزلوں ميں دل كى باتيں بهى ہيں اور سياسى باتيں بهى اور سياسى باتيں غزل كى زبان ميں – ان كے شعروں ميں پهول بهى ہيں اور پتهر بهى اور پهول پتهر بن جاتے ہيں اور پتهر پهول بن جاتے ہيں اس كام كے ليے بهى سليقے كى ضرورت ہے-
\”اردو ادب كى تاريخ ميں، دلى لكهنو اور دكن كو اردو شعر وادب كے اسكول قرار ديا گياہے ليكن يہ بهى حقيقت ہے كہ سر زمين ميں بہار بهى شروع سے لے كر اب تک شعر وسخن كا نظريہ ساز اسكول نہ بهى رہى ہو مگر مركز شعر وادب ضرور رہى ہے – راسخ عظيم آبادى ، شاد عظيم آبادى ، مبارک عظيم آبادى سے لے كر ڈاكٹر كليم عاجز تک زنده رہنے والى شاعرى تخليق كرنے والوں كى ايک طويل فہرست ہے جن ميں خواجہ مير درد كا رنگ ِ تصوف ، غالب كا فلسفيانہ آہنگ ، ناسخ كى شوخياں ، آتش كا سوز اور عصر جديد كے اساتذه كى جدت طرازياں خوب نماياں ہو كر نظر آتى ہيں- بہار كى مردم خيز سر زمين نے ہى اردو شاعرى كو كليم عاجز جيسا آفتاب صفت سخنور اس دور ميں پيدا كيا جب اردو شعر وادب كے كلجگ ميں تخليقى زوال كا عروج نصف النہار پر ہے – ايسے ميں ہميں كليم عاجز اتنى وسعتوں اور بلنديوں پر دِكهائى ديتے ہيں جہاں تک ان كا كوئى معاصر نہيں پہنچ سكا- اجمالا بس يہى كہا جا سكتا ہے كليم عاجز قديم فكريت اور بزرگوں كے رنگ وروايات اور عہد جديد كى تمام حسيات ومشاہدات كا ايسا علمى اور تخليقى آميزه ہيں جس نے ان كے فن وشخصيت كو تاريخ ساز پكرز ميں ڈهال كر زمانے كے سامنے ايستاده كر ديا ہے جس كى بلندى، جس كا حسن اور جس كے فنى خدوخال كى موزونيت دنيائے ادب كو دعوت نظاره دے رہى ہے – كليم عاجز كا پورا سرمايہء كلام ديكھ جائيے مير كا تتبع ان كے يہاں نماياں ضرور ہے مگر اس پيكر سخن كے جلو ميں اتنے رنگ چمكتے اور بولتے دكهائى ديتے ہيں كہ نگاه ادراک ٹهہر نہيں پاتى كيوں كہ ان سب رنگوں اور آہنگوں پر بهارى ہے خودان كا اپنا رنگ جس ميں اساطير اور عصريات كا شعورى تال ميل اور ان زخموں سے ٹپكتے ہوئے لہو كا رنگ شامل ہے جو ستم ظريفى ِ روزگار اور حادثات ِ زمانہ نے ديے ہيں – كليم عاجز كا كلام ان كے لہو لہو وجدان كى آواز ہے ، ان كے شعروں ميں مير كا رنگ تو سوز وغم كے بہتے ہوئے دودهاروں كى طرح آن ملا ہے اس ميں ان كى شاعرانہ رياضت كا دخل نظر نہيں آتا ، كليم نے وہى كچھ بيان كرديا ہے جو ان كے دل پرگزرى، زمانے نے انہيں جو كچھ ديا وہى اپنے شعروں ميں سجا كر لوٹا ديا- اپنى سرگزشت كى صورت ميں:
ہميں اچها ہے بن جائيں سراپا سر گزشت اپنى
وگرنہ لوگ جو چاہيں گے افسانہ بناديں گے

يقينا كليم عاجز دور جديد كے پہلے شاعر ہيں جنهيں مير كا انداز نصيب ہوا ہے – ان كى غزلوں كے تيور نہ صرف مير كى بہترين غزلوں كى ياد دلاتے ہيں، بلكہ ہميں اُس سوز وگداز سے بهى روشناس كراتے ہيں جو مير كا خاص حصہ تها- مثال كے طور پر ان كى يہ غزل ملاحظہ فرمائيے:

بياں جب كليم اپنى حالت كرے ہے غزل كيا پڑهے ہے قيامت كرے ہے
بهلا آدمى تها پہ نادان نكلاسنا ہے كسى سے محتے كرے ہے
كبهى شاعرى اس كو كرنى نہ آتىاُسى بے وفا كى بدولت كرے ہے
چهرى پر چهرى كهائے جائے ہے كب سےاور اب تک جئے ہے كرامت كرے ہے
كرے ہے عداوت بهى وه اِس ادا سے لگے ہے كہ جيسے محبّت كرے ہے
يہ فتنے جو ہر اِک طرف اُٹھ رہے ہيں وہى بيٹها بيٹها شرارت كرے ہے 
كليم عاجز روايت اور انفراديت كا ايک محير العقول امتزاج ہيں، اُن كے خوں ميں اُن تمام شعرا كا سليقہ پايا جاتا ہے جو ولى سے لے كر اقبال تک ہوئے ہيں ليكن اِس كے باوجود اُن كا اپنا رنگ ہے ، اپنى آرزو ہے – وه كسى دوسرے كے نہيں اپنے دماغ سے سوچتے ہيں اور ان كے سوچنے كا ڈهنگ اتنا انفرادى ہے كہ ان كى غزل ہزاروں غزلوں كے ہجوم ميں پہچانى جاتى ہے – اكثر ايک سُکى اور لطيف طنزان كے اشعار كى دلكشى كو دو بالا كرتا ہے- مثال كے طور پر

نہ وه محفل جمى ساقى نہ پهر وه دور ِ جام آيا
ترے ہاتهوں ميں جب سے ميكده كا انتظام آيا
……
نكلے ہم بے آبرو ہى آبروئے ميكده
ويسے كہنے كو جو چاہے پير ميخانہ كہے
……
سيد على عباس نے كہا:\”كليم كى غزلوں ميں آپ گل وبلبل تو پائيں گے اور سرو وسمن بهى –گيسووشانہ كا بهى ذكر ملے گا اور بہار وخزاں كا بهى تذكره- مگر ان كے گل وبلبل، بہار وخزاں، گيسووشانہ، ساغروساقى، كھ اور ہى ہوتے ہيں –پورے طور سے لطف اندوز ہونے كے ليے آپ كو ان كى غزلوں كى تہو تک پچنا ہوگا جس طرح موتى نكالنے كے ليے سمندر كى تہ تک پانے ضرورى ہوتا ہے – مگر ان كى غزلوں كو سمجهنے كے ليے اتنى كاوش اور دماغ پر زور دينے كى بهى ضرورت نںين جتنا كہ آجكل كے موڈرن آرٹ يا جديد شاعرى كو سمجهنے كے ليے ہوتى ہے اس ليے كہ ان كى غزلوں ميں بڑى سادگى ہوتى ہے ، الفاظ بہت عام فہم ہوتے ہيں- ہلكے پهلكے اشاروں ميں بڑى سے بڑى بات كہہ جاتے ہي

حب الوطنى(شہريت)
شہریت کا شمار ان اہم مشکلات میں ہےجن سے سماج ومااشرے دوچار ہیں کیونکہ اس شہریت پر دلالت کرنے والے مفاہیم کی کثرت ہے اور شہریوں اور ان مذکورہ سماج ومعاشرے کے ذمہ داروں کی حکمت عملی کے درمیان پیچیدگی ہے،وطن صرف وہ جگہ نہیں ہے جہاں انسان پیدا ہوکر نشا ونما پاتا ہے بلکہ یہ ایسی جگہ ہے جس سے انسان کا روحانی تعلق ہوتا ہے کیونکہ انسان اور اس وطن کے درمیان بڑا گہرا ربط ہوتا ہے۔
لہذا شہریت اس عمدہ احساسات وجذبات کا نام ہے جو انسان کے وجود کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، اسے اپنے تعلق کا احساس دلاتا ہے اور اس کے اندر اہل وعیال اور قوم وملت کے ساتھ تعلق کے احساس وشعور کو تقویت فراہم کرتا ہے ۔
جب ہم ہندوستان جیسے مختلف ادیان ومذاہب اور تشخصات والے سماج ومعاشرہ کے سلسلہ میں غور وفکر کرتے ہیں تو ہمیں کلیم عاجز رحمۃ اللہ علیہ جیسے شاعرکی شخصیت سامنے آتی ہے جنہوں نے شہریت کے اقدار، وطن سے محبت اور اہل وطن کے دلوں میں وطن سے تعلق کے احساس وشعور کو اپنے ان اشعار کے ذریعہ بیدار کرنے کی کوشش کی ہے جن میں انہوں نے اس ملک کے مسائل اور ان کی اہمیت کا تذکرہ کیا ہے، وہ اپنے اشعار کے ذریعہ اپنے اس گاؤں کا تذکرہ کرتے ہیں جسے صفحۂ ہستی سے بالکل مٹا ہی دیا گیا اور اپنے\” وہ جو شاعری کا سبب ہوا\” نامی دیوان کے مقدمہ میں ان تکلیف دہ واقعات کا ذکر کیا ہے اور یہی واقعات ان کے اشعار کہنے کا سبب بنے ہیں۔
اس کے بعد موصوف گرامی مسلسل کئی سالوں تک اس غم واندوہ اور حزن والم کی داستاں کو اپنے اشعار میں بیان کرتے رہے ہیں اور وہ اپنے ملک سے وفاداری کا تلخ گھونٹ پی کر لوگوں کے دلوں میں شہریت کے مفاہیم اور اس کے اقدار کو بیدار کرنے کی کوششکرتے رہے ہیں ، وہ اپنے مندرجہ ذیل اشعار میں کہتے ہیں اگرچہ یہ اشعار غزل نہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے غم واندوہ سے بھرے دیوان \”وہ جو شاعری کا سبب ہوا \” کا آغاز انہیں اشعار سے کرتے ہیں۔

دُعا
اور اِک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے
تاج مانگا ہے نہ دستار و قبُا مانگی ہے اور وہ چیز نہ دولت نہ مکان ہےنہ محل
اور نہ سرپہ کلہِ بال ہمامانگی ہے نہ تو قدموں كے تلے فرشِ گہر مانگا ہے
نہ صدائے جرس و بانگِ درا مانگی ہے نہ شریک ِ سفر و زادِ سفر مانگاہے
اور نہ مانندِ خضر عمر ِ بقا مانگی ہے نہ سکندر کی طرح فتح کا پرچم مانگاہے
نہ کسی خدمت ِقومی کی جزا مانگی ہے نہ کوئی عہدہ نہ کرسی نہ لقب مانگا ہے
اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی ہے نہ تو مہمان خصوصی کا شرف مانگاہے
جام و ساغر نہ مئے ہوش رُبا مانگی ہے میکدہ مانگا نہ ساقی نہ گلستاں نہ بہار
نہ صحت بخش کوئی آب و ہو ا مانگی ہے نہ تو منظر كوئى شاداب وحسيں مانگا ہے
چاندنی رات نہ گھنگهور گھٹا مانگی ہے محفل عشق نہ سامان طرب مانگا ہے
نہ کوئی مطربۂ شیریں نوا مانگی ہے بانسری مانگی نہ طاؤس نہ بربط نہ رباب
بخت ِ بيدار نہ تقدير رسا مانگى ہے چين كى نيند نہ آرام كا پہلو مانگا
اور نہ اپنے مرض دل کی شفا مانگی ہے نہ تو اشکوں کی فراوانی سے مانگی ہے نجات
نہ ترنم کی نئی طرز ادا مانگی ہے نہ غزل کے لئے آہنگ نیا مانگاہے
آخرش کون سی پاگل نے دعا مانگی ہے سن کے حیران ہوئے جاتے ہیں ارباب چمن
سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے کیا مانگی ہے آ ترے کان میں کہدوں اے نسیم سحری
وہ سراپائے ستم جس کا میں دیوانہ ہوں
اس کی زلفوں کے لئے بوئے وفا مانگی ہے
وطن اور ذمہ داری کا احساس دلانے کے سلسلہ میں اشعار کہنے کے ساتھ ساتھ وہ سامعین اور قارئین کے جذبات واحساسات کو ابھارنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، وہ ملک کے سلسلہ میں انسانی ضمیر کو حرکت دینے، سچا احساس وشعور پیدا کرنے اور شہریت کے جذبات کو راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم ان معانی کا مشاہدہ ان اشعار میں کر سکتے ہیں جن میں انہوں نے صداقت وحقیقت کے جذبات کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور ان میں مقابلہ کرنے اور تحمل وبرداشت کرنے کی دعوت دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔حقيقتوں كا جلال ديں گے صداقتوں كا جمال ديں گے
تجهے بهى ہم اے غم ِ زمانہ غزل سانچے ميں ڈهال ديں گے

تپش پتنگوں كو بخش ديں گے لہو چراغوں ميں ڈهال ديں گے
ہم اُن كى محفل ميں ره گئے ہيں تو اُن كى محفل سنبهال ديں گے

نہ بندهء عقل وہوش ديں گے نہ اہل ِ فكر وخيال ديں گے
تمهارى زُلفوں كو جو درازى تمهارے آشفتہ حال ديں گے

يہ عقل والے اسى طرح سے ہميں فريب ِ كمال ديں گے
جنوں كے دامن سے پهول چُن كر خرد دامن ميں ڈال ديں گے

ہمارى آشفتگى سلامت سُلجھہى جائے گى زُلف ِ دوران
جو پيچ و خم ره گيا ہے باقى وه پيچ وخم بهى نكال ديں گے

جناب ِ شيخ اپنى كيجے كہ اب يہ فرمان ِ برہمن ہے
بُتوں كو سجده نہيں كرو گے تو بُت كدے سے نكال ديں گے

اسی طرح وہ اپنے اشعار میں حب الوطنی اور شہریت کے صحیح مفاہیم اور اقدار کو فروغ دینے کی دعوت دیتے ہیں اور وہ ثقافت وآزادی کے نام کے ذریعہ ہجرت کرنے جیسے غلط مفہوم سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں اور بیان فرماتے ہیں کہ یہی وہ امیدیں ہیں جو انسان کو ہجرت کرنے اور ملک بدر ہونے پر آمادہ کرتی ہیں جہاں انسان ہمیشہ حزن والم اور انفرادیت کے احساس کےساتھ جھوجھتا رہتا ہے، وہ شہریت کے روح کو فروغ دیتے ہیں اور ملک کو چھوڑ کر ہجرت کرنے والے لوگوں کو اپنی زندگی میں جن پریشانیوں اور حزن والم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح یہ لوگ حزن والم کے احساست وجذبات کے ساتھ زندگی کے خوشگوار لمحات سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے ہیں اور وہ ذلت آمیز ہجرت کی زندگی کے احساسات کا مقابلہ کرنے والے اور زندگی کی لذت کو کھونے والے ایک شخص کی زبانی بیان کرتے ہیں:۔۔۔۔۔۔۔
خوشى كيا ہے كيا كسى آوارهء وطن كے ليے
بہار آئى تو آيا كرے چمن كے ليے
نہ لالہ و گل ونسريں نہ نسترن كے ليے
مٹے ہيں ہم كسى غارت گر چمن كے ليے 
اس طرح کی زندگی اگر بدشگونی کی زندگی ہوتی ہے تو بہت سارے لوگوں کے دل انس ومحبت کے لیے دھڑکتے رہتے ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ وطن اور اس کی محبت سارے لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہو جائے اور ہم یہ نہ بھولے کہ یہ افکار خیالات بہت سارے اردو شعراء کی شاعری میں واضح انداز میں جھلکتی رہتی ہے۔
ان کے بہت سے قصائد ایسے ہیں جن میں شہریت کے مفاہیم واقدار اور حب الوطنی سے آراستہ ہونے کی دعوت دی گئی ہے کیونکہ یہی ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا ذریعہ ہے اور ان کے اشعار میں یہی معانی براہ راست اسلوب میں نظر آتے ہیں لیکن ان کا اسلوب اور طرز بیاں شعر کی روح سے خالی نہیں ہوتا ہے اور اسی سلسلہ میں وہ یہ کہتے ہیں:
غريب الوطن كا رہا كيا وطن ميں بہار آ رہى ہے تو آئے چمن ميں
ہر اك پهول خنده بلب ہے چمن ميں ميں كيا كہہ گيا اپنے ديوانہ پن ميں
نہ اشكوں نے موقع ديا گفتگو كا زبان ره گئى آرزوئے سخن ميں
كبهى ہم غريبوں كى خلوت ميں آتى بڑى دهوم ہے شمع كى انجمن ميں
مرے سننے والے مجهے ديكهتے ہيں ميں بے پرده نكلا نقاب ِ سخن ميں
اِدهر ميں سناتا رہا دردِ نپہاں
اُدهر شمع روتى رہى انجمن ميں

شائد کہ یہ مسئلہ ہندوستانی سماج ومعاشرہ کے مسائل میں سے ایک ہے جسے اردو شعراء کے کلام میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور ان اشعار میں مختلف پہلؤوں سے اس پر گفتگو کی گئی ہے اور ایک پڑھنے والا یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اکثر وبیشتر جن شعراء نے اس مسئلہ پر گفتگو کی ہے ان کا تعلق مہاجر شعراء میں سے ہے یا ان کا تعلق ان لوگوں سے ہے جنہوں نے شعر وشاعری یا ادبی یا تعلیمی یا تربیتی میدان میں خدمت انجام دی ہے اور اس سے ان کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے اور ان کی زندگی میں ایک حقیقی تجربہ بھی سامنے آیا ہے اور اسی تعلق سے شاعر کلیم عاجز رحمۃ اللہ کے چند قصائد ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اہل وطن کو یہ دعوت دینے میں گزار دی تاکہ وہ اس شرافت وعزت کی زندگی کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں امید کا طریقہ اختیار کریں اور ساری رکاوٹوں کو ختم کر کے ترقی اور عروج کے راستے طے کریں۔
سماجى شعور
سماجی یکجہتی کا مفہوم یہ ہے کہ سماج ومعاشرے کے سارے افراد عاماور خاص مفادات کی حفاظت کرنے میں شریک ہوں اور اس کی وجہ سے ہر فرد یہ محسوس کرے کہ اس کے اوپر ان دوسرے لوگوں کے سلسلہ میں چند حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے ہیں اور ایسا ان کا تعاون کرنے اور ان سے نقصان کو دور کرنے کی وجہ سے ہے۔

لغت میں تکافل کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کا کسی کا ذمہ دار ہونا یا کسی کو اس کا ذمہ دار بنانا اور کافل کا مطب یہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کی ذمہ داری ادا کرنے والا ( )یا کسی یتیم کی ضرورت کو پورا کرنے والا ہو خواہ وہ اس کا رشتہ دار ہو یا کوئی اجنبی شخص ہو اور اللہ رب العزت کا ارشاد ہے(وکفلہا زکریا) یعنی انہوں نے ان کی ذمہ داری اٹھائی
اصطلاح میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ سماج ومعاشرہ اس میں رہنے والے ہر شخص کی ذمہ داری ہر اعتبار سے اٹھائے خواہ اس کا تعلق معیشت سے ہو یا سماج ومعاشرہ سے ہو یا تذخیب وثقافت سے ہو یا صحت سے ہو
بلاشبہ سماج ایک ایسا ڈھانچہ ہے جس میں ہر فرد ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور وہ اس معاشرہ کے جزہ لایتجزی ہیں اور اسی طرح جس سماج ومعاشرہ میں یکجہتی اور مدد وتعاون کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور جس کے کمزور وناتواں افراد کو مدد ملتی رہتی ہے تو اس سماج ومعاشرہ میں محبت اور بھائی چارگی اور خوشحالی ہوتی ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی معاشرہ ایسا ہوتا ہے جس میں رہنے والے افراد کے درمیان یہ معانی اور مفاہیم نہیں پائے جاتے ہیں تو اس معاشرہ میں بغض وحسد اور ناپسندیدگی کے جذبات سامنے آتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر ایسے افراد جنم لیتے ہیں جو فقر وفاقہ، جہالت اور بیماری سے جھوجھتے رہتے ہیں۔
اسی وجہ سے شاعر نے سماج ومعاشرہ کے افراد کے درمیان یکجہتی اور آپس میں تعاون کرنے کی دعوت دی ہے اور اسی وجہ سے ایک سماج ومعاشرہ شرافت کی زندگی گزارتا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اس کے اصل مسائل رونما کیے جاتے ہیں اور ان کا سب سے بڑا مسئلہ فقر وفاقہ اور محتاجیو کا مسئلہ ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس سے کوئی بھی معاشرہ خالی نہیں ہے خواہ وہ کیسا ہی معاشرہ کیوں نہ ہو اور اس مسئلہ کا علاج وہ تعلیم ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے کہ انسان صدقہ اور زکوۃ کی ادائیگی کرتا رہے اور اگر صحیح انداز میں زکوۃ اور صدقات کو نکالا جاتا تو مسلمان کے ملکوں میں کوئیبھی فقیر ومحتاج نہیں رہتا اور خاص طور پر اس زمانہ میں جب کہ مال ودولت کی بہتات وفراوانی ہے اور یہ مفہوم بھی ہمیں شاعر کلیم عاجز رحمۃ اللہ کے کلام میں ملتا ہے۔

اب كسى كو ہم غريبوں كا خيال آتا نہيں مدّتيں گزريں كوئى پُرسان ِ حال آتا نہيں
دوستوں سے بهى محبت دُشمنوں سے بهى وفا ہم كو اس كے ما سوا كوئى كمال آتا نہيں
خشك ہو جاتے ہيں جب آنسو تو آتا ہے لہو غم وه دولت ہے كبهى جس پر زوال آتا نہيں

ان کے اشعار میں اس مالدار سماج کے سلسلہ میں قدرے سختی پائی جاتی ہے جو سماج فقیر ومحتاج لوگوں سے لاپراہی اختیار کرتا ہے یا ان کی طرف اس وقت حقارت کینگاہ سے دیکھتا ہے جب وہ کسی سے مدد طلب کرنے کا محتاج ہوتا ہے اور ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ یہ منظر تہذیب وثقافت کے منافی ہے، اس طرح کے معانی کے علاوہ ان کے اشعار میں دیگر معانی بھی پائے جاتے ہیں جیسے کہ وہ اپنے اشعار میں فقیر ومحتاج کے پاس جو عزت نفس اور شرافت ہے اسے اجاگر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر محتاج دست دراز نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس نے اگرچہ مالکھو دیا ہے لیکن اس نے دفاداری اور محبت کے مفہوم کو نہیں کوںیا ہے، شاعر کا کہنا ہے کہ:۔۔۔۔
ہم فقيروں كے يہاں بٹتى ہے خيراتِ وفا كون پهيلائے ہوئے دستِ سوال آتا نہيں ؟
اُن كے گلشن سے كبهى جاتى نہيں فصلِ بہار اور يہاں پهولوں كا موسم كوئى سال آتا نہيں
ہم تو اس دور جفا ميں بهى ہيں اتنے وضع دار خواب ميں بهى بے وفائى كا خيال آتا نہيں
كيسے كيسے سُرخ رو آتے ہيں تيرى بزم ميں
ہاں مرے جيسا كوئى آشفتہ حال آتا نہيں
شاعر فقراء کے سلسلہ میں ازسر نو گفتگو شروع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیکولر مالدار سماج فقراء کو حقارت کینگاہ سے دیکھتا ہے اور انہیں ہمیشہمورد الزام ٹھہراتا ہے اور اسی طرح وہ فقراء کے دلوں میں زندگی اور زندہ لوگوں سے متعلق جو احساسات وجذبات پیدا ہوتے ہیں ان کا بھی تذکرہ کرتے ہیں کتنے فقیر ہیں جو اپنے فقر وفاقہ کے باوجود روحانی بلندی، بلند پروازی اور روشن مستقبل سے ہمکنار ہوتے ہیں جیسا کہ شاعر کہتے ہیں۔۔۔۔
ہم غريبوں پہ تو الزام ہے بيجا تيرا
اب تو اغيار بهى كرنے لگے شكوا تيرا
كهيل معلوم ہے سب اے ستم آرا تيرا
بيٹهے ہم ديكهتے رہتے ہيں تماشا تيرا 
اس مسلمان فقیر کی ان صورتوں کے برخلاف سکشت خوردہ فقیر کی صورت بھی سامنے ہے جو فقر کے سامنے گھٹھنے ٹیک دیتا ہے اور بے بسی ومحتاجگی کی حالت میں ذلیل وخوار ہوتا ہے۔ شاعر کا کہنا ہے:۔۔۔۔۔۔۔
بے زبان جيتے ہيں بے نام ونشاں مرتے ہيں
ہم تو ركهتے ہيں ہر اَك حال ميں پردا تيرا
عافيت جهوٹى تسلّى سے نہيں ہوسكتى
زخم ِ دل پر كبهى ٹهہرا نہيں پهاہا تيرا
جوش ِ وحشت ميں بهى ركهتے ہيں گريباں محفوظ
يہ ہوا چاك تو كهل جائے گا پردا تيرا
پہلے اتنا ہوس جوش ِ جنوں عام نہ تها
اب تو بازار ميں بِكنے لگا سودا تيرا
رِند كرتے ہيں شكايت تو غلط كرتے ہيں
ميكده تيرا ہے، مَے تيرى ہے، مينا تيرا
معاشرہ کی یکجہتی کی مثال فقیر کا اہتمام کرنا اور اس کی طرف رحمت وشفقت کی نگاہ سے اس طرح دیکھنا ہے کہ وہ سماج کے افراد کے درمیان اپنی ذات کو محسوس کرنے لگے اور بلاشبہ شاعر نے اس عمدہ مقصد کا اہتمام کیا ہے۔ ہمارے شاعر ذکی الحس ہیں وہ اثرانداز ہونے والے انسانی مواقف کو سمجھ جاتے ہیں، اسی لیے وہ اپنے اشعار کے ذریعہ فقیر ومحتاج کے دلوں کے اندر پوشیدہ رنج وغم کے جذبات کو اجاگر کرکے قوم وملت کے افراد کو ان کی نگہبانی کرنے، ان کا تعاون کرنے، ان پر خرچ کرنے اور ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
ہم نے بے فائده چهيڑى غم ايام كى بات كون بيكار يہاں ہے كہ سنے كام كى بات
شمع كى طرح كهڑا سوچ رہا ہے شاعر صبح كى بات سُنائے كہ كہے شام كى بات
ہم غريبوں كو تو عادت ہے جفا سہنے كى ڈهونڈه ہى ليتے ہيں تكليف ميں آرام كى بات
فقراء کے بے بسی، ان کی پریشانی و ظلم وزیادتی اور حکومت کی طرف سے لاپرواہی برتنے کے ان کے احساسات وجذبات کے ذریعہ سماج ومعاشرہ کی یکجہتی کی تصویریں یہ امید کرتے ہوئے پیش کرتے ہیں کہ مالدار طبقوں کی طرف سے ان کو تعاون مل جائے، سماجی اداروں کی طرف انہیں مدد حاصل ہو جائے اور وہ اپنے قصائد کے ذریعہ سماج ومعاشرہ کے فقیر کی پریشانی کو مجسم طور پرپیش کرتے ہیں گویا کہ کہ یہ قصیدے اس فقیر کے جذبات کے ساتھ کہے گیے ہیں جو دنیاوی زیب وزینت سے محروم ہے۔
اسی طرح ہم ان کے اشعار میں فقیر ومحتاج کی پریشانی کے مشاہدہ کےساتھ اس بات کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ دیگر افراد کس طرح عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، ایک طرف رقص وسرور کی محفلیں ہیں اور دوسری طرف چند لوگ بھوک سے کراہ رہے ہیں لہذا وہ کہتے ہیں کہ یہ شراب وکباب اس بھوکے شخص کو کیا فائدہ پہنچائے گی جو ہر چیز سے محروم ہے اور وہ اس کے ذریعہ وطن سے متعلق غیر معمولی رنج وغم کی صورت کی تصویر کشی کرتے ہیں۔

دُهوپ ميں خاك اُڑا ليتے ہيں سائے كے ليے پياس لگتى ہے تو كرتے ہيں مئے وجام كى بات
اب تو ہر سمت اندهيرا ہى نظر آتا ہے خوب پهيلى ہے ترى زُلف ِ سيہ فام كى بات
صبح كے وقت جو كليوں نے چٹك كر كہہ دى بات چهوٹى سى ہے ليكن ہے بڑے كام كى بات
كوئى كہہ دے كہ محبت ميں بُرائى كيا ہے يہ نہ تو كفر كى ہے بات نہ اسلام كى بات
گرچہ احباب نے سر جوڑ كے ڈهونڈها عاجز
نہ ملى ميرى غزل ميں روش ِ عام كى بات 

میں نے دیکھا ہے کہ کلیم عاجز رحمۃ اللہ علیہ بڑے حادثات، ظالمانہ معاملہ ، سماجی انقلاب اور ظلم وزیادتی سے متاثر ہو کر اس طرح شعر کہتے ہیں کہ جو بھی ان کے اشعار کو پڑھے گا وہ یہی محسوس کرے گا کہ یہ صرف عشقیہ اشعار ہیں لیکن جو باریک بینی کے ساتھ اس کا مطالعہ کرے گا وہ سمجھ جائے گا کہ یہ اس میں رثاء کامعنیپوشیدہ ہے اور میں کلیم عاجز کے اشعار سے متاثر ہوں کیونکہ یہ احساسات وجذبات سے پرہیں اور یہ اشعار ان کی زبانی ہیں انہوں نے شعر کے باب میں کسی کی تقلید نہیں کی ہے ان کے افکار اور ان کی شعر وشاعری دوسروں سے مختلف ہے اور کوئی شخص ان کی تقلید نہیں کر سکتا ہے ان کے اشعار کا طرز ہی مختلف ہے کیونکہ وہ سخت حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں اور اپنےاشعار کے ذریعہ ظالموں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور وہ ظالموں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ظلم وزیادتی اور عداوت گناہ ہے اور یہ دشمن کے لیے بھی جائز نہیں ہے

خاتمہ
شعر وشاعری سماج کے اندر سماجی مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ مںت بہت ہی اہم رول ادا کرتا ہے اور یہ مردا مقالہ اسی پر مشتمل ہے اور شعر وشاعری کے ذریعہ اس کردار کو با ن کرنا ایک بناادی ذمہ داری ہے کو نکہیہ شعر وشاعری ایک آئنہ ہے جو سماج ومعاشرہ کی پریشانومں اور اس کے مسائل کو پش کرتا ہے۔
اس بات کا اہتمام کلمر عاجز کی شاعری مںر واضح انداز مںہ نظر آتا ہے، انہوں خاص طور پر ایسے قصداے اور اشعار کہے ہں جن مںں انہوں نے سماج کے ان مختف مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور انہوں نے اس موجودہ شعر وشاعری کو جسم عطا کاا ہے جس نے مختلف عمر اور مختلف طبقات کے لوگوں کے درما ن رائے عام کو روشن کرنے اور اسے مہذب بنانے کے سلسلہ مںم بڑا اہم کردار ادا کاے ہے۔
اسی وجہ سے سماج مںو شعر وشاعری کو بڑا مقام حاصل ہوا ہے کوننکہ شعر وشاعری اور زندگی کے سارسی، دیی ، سماجی اور معاشی پہلؤوں کے درمامن بڑا گہرا تعلق ہے اور بلا شبہ اردو ادب کا مطالعہ کرنے والی قوم کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور اس مںس اثرانداز ہونے کے سلسلہ مںں سماج ومعاشرہ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

مصادر اور مراجع
• ابوالليث صديقى(ڈاكٹر)، آج كا اردو ادب، مطبوعہ فيروز سنز ليمٹڈ، لاہور، پاكستان1990ء-
• انور سديد (ڈاكٹر)، اردو ادب كى مختصرترين تاريخ، لاہور، باكستان، 1988ء-
• جميل جالبى(ڈاكٹر)، ميراجى ايكـ مطالعہ، سنگ ميل پبلى كيشنز، لاہور، 1999ء-
• سليم اختر(ڈاكٹر)، اردو ادب كى مختصرترين تاريخ آغاز سے 2000ءتك،سنگ میل پبلى كيشنز،لاہور2000ء.
• سيد عاشور كاظمي، قمر رئيس(ڈاكٹر): ترقي پسند ادب پچاس سالہ سفر، ايجوكيشينل ہاوس، دہلی، 1994م.
• عنوان جشتى (ڈاكٹر)، اردو شاعرى ميں ہیت كے تجربے، انجمن ترقى اردو، هند، دلى، نئى دهلى، جولائى 1975ء.
• فرمان فتح بورى، اردوكا شاعرى كا فنى ارتقا، الهند1994ء.
• فاروق ارگلى(مرتب)، كليات كليم عاجز، \”ايس ايف پرنٹرس، پٹودى ہاوس دريا گنج، نئى دہلى2016م-
• وزير اغا(ڈاكٹر)،اردو شاعرى كا مزاج، لاهور، باكستان، 1999ء-
• إبراهيم محمد إبراهيم/ أحمد محمد أحمد (دكتور)، الشعر الأردي الحديث والمعاصر، ط 1، جامعة الأزهر، القاهرة 2003م.
• انتونى غيلدز، علم الاجتماع، ترجمة وتقديم: فايز الصباغ (دكتور)، المنظمة العربية للترجمة، مؤسسة ترجمان، 2015م.
• بيار ف. زيما، النص والمجتمع آفاق علم اجتماع النقد، ترجمة: انطوان أبوزيد، المنظمة العربية للترجمة، مركز دراسات الوحدة العربية، 2015م.
• دنيس كوش، مفهوم الثقافة في العلوم الاجتماعية، ترجمة: منير السعيدي(دكتور)، المنظمة العربية للترجمة، مؤسسة ترجمان، 2015م.
• رضوان ضاضا، مدخل إلى مناهج النقد الادبي، الكويت د ط، 1997.
• صايل حميدان، قضايا النقد الأدبي ، دار الأمل الأردن ، ط1 ، 1991م.
• محمد أبو زهرة (دكتور)، التكافل الاجتماعي في الإسلام، دار نهضة مصر، القاهرة 2004م.
• محمد الرابع الحسيني الندوي، الغزل الأردي محاوره ومكانته في الشعر، مكتبة رابطة الأدب الإسلامي بالهند 2006م.
• وليد قصاب، مناهج النقد الأدبي ، وليد قصاب ، دار الفكر ، دمشق، ط1 2007.

Leave a Comment