لال قلعہ آگرہ میں کتب خانہ کا نظام عہد بابر تاجہانگیر

اخترانساء قریشی
صدر شعبۂ فارسی
منگسا جی مہاراج مہاودیالیہ،
دارواہ ضلع ایوت محل، مہاراشٹرا
مسلمانوں میں ہندوستان آنے سے قبل یہاں علمی اور کتابی ذوق عام نہ تھا۔بلکہ علم ذات پات کے جال میںپھنس کر ایک مخصوص طبقے کی ملکیت بن گیا تھا ۔مسلمانوں کی آمدکے بعدسیاسی وحدت کے ساتھ لسانی وحدت اور ذہنی بیداری کے سامان فراہم ہوئے جس کے نتیجے میںایک نئی تہذیب ظہور میں آئی۔ڈاکٹرپی سی را نے اپنے خطبہ میںکہا تھا۔ \” یہ صحیح نہیں ہے کہ مسلمان ہندوستان میں آکرصرف بس گئے بلکہ انھوں نے یہاں کے فنون لطیفہ ادب او ر ملک رانی میں بیش بہا اضافے کئے ہیں۔ہندوستان کی تہذیب و تمدن کی پیچ در پیچ لچھی میں رنگ رنگ کے جو بہت سے دھاگے نظر آتے ہیںوہ ذہانت اسلامی ہی کا نتیجہ ہیں۔عروس ہند کو مسلمانوں نے لباس زر تار پہنایا ہے اگر اتار لیا جائے تو وہ ایک حقیر لاغر اندام نظر آنے لگے۔
مسلمانوں کے قدم سر زمین ہند پر جس مقام پڑے وہاں مسجدیں تعمیرہوئیں جن کے ساتھ ساتھ مدد سے بھی کھلے اور ہر مدرسے میں چھوٹا یا بڑا کتب خانہ بھی ملحق ہوتا تھا۔
کتب خانوں کی تحریک کے جو پودے سلطنت دہلی میںلگائے گئے تھے وہ مغلیہ عہدمیں نشوونما پاکر تناور درخت بن گئے۔انکا علمی ذوق جمالیاتی شعورً ذہانت وذکاوت نفاست پسندی اورفیاضی نے ہندوستانی معاشرے کے ہر گوشہ میں چار چاند لگادیئے۔ علوم و فنون ادب۔ خطاطی۔مصوری۔موسیقی۔تعمیرات۔ صنعت و حرفت وغیرہ کی اس عہد میں ایسی پرورش ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی۔
مغل بادشاہوں کی حسن سیات گری۔ تدبر اور رواداری سے ہندوستان کو ایسی پرسکون فضا ملی جو علم و ہنر کی ترقیوں کے لیئے درکار تھی۔ ملک بھر میں تعلیمی چرچے ایسے عام ہوئے کہ سماج اور علم کے رشتے گہرے اور مضبوط ہوگئے اور ذوق کتب بینی پیدا ہوا ‘نتیجہ یہ ہوا کہ بے شمار کتب خانے منظر عام پر آ گئے جن کی رونق وترقی کا خاص زمانہ اکبر سے لیکر عالمگیر تک ہے۔لیکن ہماری حدود لال قلعہ کا کتب خانہ جو بابر سے جہانگیر تک ہے۔ آگرہ گنگا جمنی تہذیب کا مرکزاکبر کے خوابوں کی تعبیرکا شہر سیاسی زیروزبر کا اکھاڑہ رہا ہے۔ بابر نے ہندوستان کا شمالی حصہ فتح کرنے کے بعدآگرہ کو اپنا دارالسلطنت بنایا اور لال قلعہ کو اپنا مسکن ‘گو کہ بابر کو بطوربادشاہ بہت کم عرصہ نصیب ہوا یعنی پانچ سال لیکن اس میں بھی اس نے حکومت سازی کے ساتھ ساتھ آگرہ شہر اور قلعہ کو سجانے سنوارنے میں کوئی کسرباقی نہ رکھی۔ بابر کے بعد ہمایوں کو شیر شاہ سے مقابلہ رہا جس کی وجہ سے وہ طوائف الملکی میں سرگرداں رہا اور جب راحت میسر ہوئی اور حکومت ہاتھ آئی تواس نے بھی اپنے اجداد کی روش اختیار کی لیکن اکبر کا عہد سب سے بہترین عہد رہا۔اس نے آگرہ قلعہ میں اپنے آباء و اجدادکی طرز پر کتب خانہ ترتیب دیا اوراس میں بے پناہ اضافے کیئے۔آگرہ شہر اور قلعہ۔ میں گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھانے کی کو ششیں کیں۔ آگرہ میں لوگوں کی آسائشوں اور ضرورتوں کے مطابق ا پنی حکمت عملی بنائی ۔ شہر میں نئے محلے جیسے دھرم پورہ‘ خیرپورہ اور جوگی پورہ کو آباد کیا۔محلات بنائے غرض اسکی خوبصورتی میں اضافے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔جہانگیرخود اپنے باپ سے متاثر تھا‘اسکی سیاسی وانتظامی حکمت عملی کو پسند کرتا تھا‘ اسی لیئے بادشاہ بنتے ہی انہی پر عمل کرنے کا اعلان کردیا۔ جہانگیر نے کتب خانے پر خصوصی توجہ دی۔ جس کاذکر آگے آئے گا۔شہر میںقلعہ‘۔حویلیاںوغیرہ اورخصوصًااعتمادالدولہ کامقبرہ جواس وقت شہرکی خوبصورتی میںگل سرسبد
بابر:۔مغلیہ سلطنت کابانی ظہیرالدین محمد بابرایک زبردست فاتح اور عالم ہونے کے ساتھ ساتھ کتابیںجمع کرنے کا بڑاشائق تھااور اپنی لائبریری میںخصوصی دلچسپی رکھتا بابر خودصاحب تصنیف تھا’’تزک بابری‘‘ کے نام سے اپنی سوانح عمری لکھی جو آج ایک اہم ما خذ کا کام دیتی ہے۔ اس کے دور حکومت میں محکمئہ تعمیرات عامہ کے فرائض بھی شامل تھے کہ اس نے مکاتب اور مدارس بنوائے اور ایسی ہر درسگاہ کی اپنی لائبریری بھی ہوتی تھی
ہمایوں :۔ہمایوں بھی اپنے والد کی طرح ادب اور سائنس کا سرپرست تھا۔اس بادشاہ نے نجوم ریاضیات ، شعروشاعری کے ،میدا ن میں اہم رول ادا کیا۔وہ علوم جغرافیہ اورنجوم کے مطالعے کا خاص شوق رکھتاتھا۔حتی کہ جنگ و جدول میں بھی اپنے ساتھ کتابیں رکھتا۔بنگال اورگجرات کی مہمات کے دوران وہ اپنا ذاتی کتب خانہ اپنے ساتھ لے گیا۔اس نے بابر کے قائم کردہ کتب خانے کو وسعت دی اوردہلی میں شیرشاہ سوری کی بنائی ایک عمارت شیر منڈل کو کتب خانہ میںتبدیل کردیا۔ اس کتب خانہ کا ناظم الملقب بہ باز بہادر تھا۔ہمایوں نے قلعئہ آگرہ میں بھی ایک عالیشان عمارت خانہ طلسم کے نام سے بنوائی ‘اس کے بالائی کمرے میں کتب خانہ تھا جس میںبا تصویر کتابیں اور خوبصورت خطاطی کے نمونے رہا کرتے تھے۔
اکبر:۔ ہمایوں کے جانیشن اکبر کا عہد کتب خانوں کی تاریخ میں نشان میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور میں ان کے استحکام اور ترقی کے لیئے بہترین اسباب فراہم ہوئے۔ گوکہ خودان پڑھ تھا لیکن علمی مجالس آراستہ کرنے اوراس میں شامل ہونے کا ذوق رکھتا تھا۔اسے کتب خانہ باپ سے ور ثہ میں ملا تھا۔ جس کو اس نے اپنی علم دوستی اور کتب نوازی کی بدولت کافی وسعت دی۔ بزم تیموریہ کے مصنف کا بیان ہے کہ قلعہ آگرہ میں مثمن برج کے بغل میں جو لمبا کمرہ ہے اس میں شاہی کتب خانہ تھا۔کتب خانہ میں کتابوں کی باقاعدہ درجہ بندی کی گئی تھی۔ پہلے حصے میں شاعری، طب ،نجوم اور موسیقی‘ دوسرے حصے میں تصوف ، فلسفہ،علم الانسان اور ہندسہ‘ تیسرے حصے میں تفسیر،حدیث اور فقہ کی کتابیں تھیں۔
شاہی کتب خانے کے ذخیرہ میں ذیادہ تر کتابیںدوسری ذاتی کتب خانوں سے حاصل ہوئیں۔ مثلاً گجرات،جونپور،کشمیر،بہار،بنگال اور دکن کے کتب خانوں سے فتح گجرات کے دوران اعتماد خاں کا کتب خانہ شہنشاہ نے حاصل کرکے شاہی کتب خانہ کا حصہ بنالیا۔ اسی طرح فیضی کے انتقال کے بعد اس کے کتب خانے کے ۴۳۰۰مخطوطے بھی شاہی کتب خانے میں شامل کرلیئے گئے۔اکبری عہد میں کتب خانے کی ترقی کا سب سے بڑا سبب وہ محکمہ تھا جو ترجمہ کے لیئے قائم کیا گیا تھا۔ اس زمانہ میں سنسکرت اور دوسری زبانوں کی اہم تصانیف فارسی میں ترجمہ کی گئیں۔ اکبر کے کتب خانہ کا ناظم ملا پیر محمد تھا۔
شاہی کتب خانہ کے علاوہ اس عہدمیںاوربھی بہت سے کتب خانے تھے جو وزراء ‘نوابین،عمائدین،شہزادوں اورشہزادیوں کی ذاتی ملکیت تھے۔اکبرکی ایک ملکہ سلیمہ سلطانی بیگم کی اپنی ذاتی لائبریری تھی۔اسکے علاوہ گلبدن بانو بیگم کی بھی اپنی ذاتی لائبریری تھی جس میں کافی کتابیں جمع تھیں۔
امراء کے کتب خانوںمیںعبدالرحیم خان خاناں کا ذاتی کتب خانہ تھا جو کہ اتنا بڑا تھا کہ اس میں ۹۵ ملازمین تھے ۔
اس میںنگراں،جلدساز،خطاط اورمترجم شامل تھے۔ مولاناابراھیم کتابدار کے عہدہ پر‘ میر باقی ناظم کے عہدہ پر اورنعمت اللہ نگراں کے عہدہ پر فائزتھے
جہانگیرکے عہدمیں کتب خانوںکا سلسلہ اور وسیع ہوگیاکیونکہ یہ بادشاہ علوم کا سرپرست تھااور کتابیں جمع کرنے کا ذوق اور مطالعے سے دلچسپی رکھتا تھا۔ورثے میں ملے کتب خانہ میں اس نے اپنے ذوق کے مطابق قابل قدر اضافے بھی کیئے۔اس کے ساتھ ہی ایک تصویر خانہ بھی بنوایا جس میں تقریباً ۶۰۰۰۰(ساٹھ ہزار)کی تعداد میں علم وادب،شعروشاعری،آرٹ کی کتابوں اور مرقعوں کا بیش بہا سرمایہ جمع کیا۔کتب خانہ اور تصویرخانہ دونوں کا نگراں مکتوب خاں تھا۔
مغلیہ عہد میں کتب خانوں کا نظام

یوں تو ہندوستان کے مسلم عہد میں کتب خانوں کی ترتیب و نظام کی طرف بھی توجہ کی گئی لیکن اس سلسلہ میں باقاعدہ محکمے مغلوں کے زمانے میں قائم ہوئے اس دورمیںجو مختلف لائبریری افسران وعملہ وجود میں آیا۔ ان کے فرائض حسب ذیل ہیں۔

۱۔ ناظم:۔ دور مغلیہ میں یہ لائبریری کا افسر اعلی ہوتا تھا جسے موجودہ دور میں لائبریرین کہتے ہیں۔یہ علمی اور انتظامی قابلیت رکھنے کے ساتھ ساتھ صحیح کتابی ذوق بھی رکھتا تھا۔ملا پیر محمد اور شیخ فیضی یکے بعد دیگرے اکبر کی شاہی لائبریری کے ناظم بنے۔ مکتوب خاں ٗجہانگیرکے عہدمیں ناظم رہا اور یہ تمام حضرات دربار شاہی میںنہایت اہم افراد تھے۔

۲۔ مہتمم:۔ مہتمم یا داروغہ دوسرے درجہ پرہوتا تھا۔یہ تکنیکی کام اور نظم ونسق کا ذمہ دار ہوتا تھا۔یہ کتابوں کی خریدٗانتخاب اور درجہ بندی کا ذمہ دار ہوتا تھا۔
۳۔ صحاف اور وراق:۔ داروغہ کے زیر ہدایت کام کرتے تھے ان کا کام تھا کتابوں کا اجرا کریں بعداز استعمال ان کو ٹھیک جگہ پرواپس رکھ دیں۔وراق کا کام کتابوں کو نمی اور چوروں سے محفو ظ ر کھنا تھا۔

۴۔ مصحح:۔ ان کا کام تھا مخطوطوں کی غلطیوں کی درستی اور ان کی دیکھ بھال کرنا۔کتابوں کو اگر کیڑے نقصان پہنچاتے تووہ ان ٹکڑوں کو بدل دیتے تھے۔ان لوگوںکاعالم ہونا ضروری تھا اور تکنیکی کام کے ماہر ہونا بھی۔

۵۔ مترجم: ۔ مغلیہ عہد میںکتب خانوں کی ترقی کا ایک سبب وہ محکمہ بھی تھاجوکتابوں کے ترجمے کا کام کرتا تھا۔بالخصوص اکبر کے عہد میں ان کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔

۶۔ کاتب:۔ عہد مغلیہ میںاس فن کو خوب ترقی حاصل ہوئی۔کاتب کا کام نادرمخطوطات کو نقل کرنا تھا۔

۷۔ مقابلہ نویسی:۔ ان کا کام تھا کہ وہ کاتب اور خوش نویسی کے کام کو اصل سے مقابلہ کرکے تصدیق کرے۔

۸۔ جلد ساز اور حاشیہ نگار:۔ عہد مغلیہ میں جلد سازی کو ایک فن کی حیثیت حاصل تھی اور یہ لوگ کتب خانہ کا لازمی جز تھے۔ہر کتب خانہ میںدیگر عملہ کے ساتھ ساتھ جلد ساز اور حاشیہ نگار مقرر کیئے جاتے تھے اور قابل جلد ساز بڑے بڑے افسران کی طرح تنخواہ دار ہوتے تھے‘ یہ لوگ جلدسازی کے ساتھ ساتھ کتابوںکی تزئین بھی کرتے تھے۔حاشیہ نگار کتابوں کے سرورق اور ان کے اندرونی صفحات کے حاشیے طرح طرح کے گل بوٹوں سے سجاتے،ازکاری اور میناکاری سے مزین کرکے دیدہ زیب بنادیتے تھے۔

۹۔ مصور:۔ شاہان مغلیہ کے کتب خانوںمیں کاتبوں کے سا تھ ساتھ مصوربھی نظرآتے ہیں۔جو کتابوں میں تصویر بناتے،مرقع اورشبیہیں تیارکرکے ان میںنقرئی اورزرین رنگ بھر کر اپنی فنکاری کے جوہر د کھاتے تھے۔اس میں ہندوستان سے ہی نہیں بلکہ بیرونی ملک سے خواجہ عبدالصمدشیرازی،میر معصوم قندھاری اور سید علی خان تبریزی جیسے صاحب کمال مصور آئے۔بابرسے بہادرشاہ ظفر تک اس فن کو بڑاعروج حاصل ہوا۔

۱۰۔ محرر:۔ مغلیہ عہد میں کتب خانوں میں ایک ایسا عملہ تھاجو کتابوں کا شمار رکھتا تھا اور حسابات بھی بناتاتھا وہ محرر کہلاتا تھا۔

۱۱۔ خدمت گار:۔ تمام کتب خانوں میں خدمت گار ہوا کرتے تھے۔ ان لوگوں کا کام صفائی اور گرد جھاڑنا ہوتا تھا۔

غرض فتح پور سے آگرہ تک اور خصوصاًآگرہ میں تہذیبی حلاوت گھل مل چکی تھی۔ اکبر کی گنگا جمنی تہذیب کا خواب تعبیر پارہا تھا۔
حوالہ جات

۱؎ ۔اسلامی تہذیب اور قومی تعلیم۔ص ۲۲
۲؎ ۔Society& Culture in Mughal Age m.P.N. Chopra 1963 P-162 . ؁ُ
ٔٔ۳؎ ۔Promotion of learning in India during the Muhammad rule by
N.N Law- London, Longman 1916 P.127
۴؎ ۔Libraries during the Muslim rule in India by S.A.Zafar,P.332
۵؎ ۔Rogers and Beveridge: Tuzk-e-Jahangiri.
Munshi Ram Manohar Lal,1968, P. 21
۶؎ ۔Islamic Culture 33.1, 1959, Jan. P.55
۷؎ ۔بزم تیموریہ۔صباح الدین عبدالرحمان۔ ۱۹۴۸ع ص ۱۲۴، دارالمصنفین اعظم گڑھ۔
۸؎ ۔Libraries during the Muslim Rule in India by
S.A Zafar, Islamic Culture 19-4- 1945 Oct. P.332
۹؎ ۔Elliot : Tareek-e-Badayuni. P. 519
۱۰؎ ۔ Blochmarm: Ain-e-Akbari, Oriental Book, New Delhi, P-550
۱۱؎ ۔Journal of Indian History V.31, P-165
۱۲؎ ۔ Beveridge : Humayun Nama, P-36
۱۳؎ ۔ Niamatullah\’s History of Afghan P.V. by N.B.Roy
۱۴؎ ۔Rogers and Beveridge: Tuzkre Jahangiri,P-12
۱۵؎ ۔Mandelslo – Harris Travels Vol II, P-18
۱۶؎ ۔History of Shahjahan by D.P. Saksena , P-277

Leave a Comment