پنجاب سے ہمالیہ کی چوٹیوں کا نظر آنا اور اوزون تہہ کی بھرپائی خوش آئند باتیں ہیں
اشفاق عمر
ashfaqueumar@gmail.com
صنعتی انقلاب کی وجہ سےاٹھارہویں اور انیسویں صدی کے درمیانی عرصہ میں برطانیہ ، یورپ، شمالی امریکا اور پھر پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر زندگی کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ صنعتی انقلاب نے انسانی تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا ۔صنعتی انقلاب نے ہر شعبے میں مشینوں کو فروغ دیا اور دنیا نے ہر شعبے میں ہونے والی پیداوار کو ایک نئے انداز میں پھلتے پھولتے دیکھا۔صنعتی انقلاب ایک رحمت بن کر سامنے آیا۔
گزرتے وقت کے ساتھ صنعتی انقلاب آلودگی کی صورت میں کرۂ ارض کے لیے باعثِ زحمت بنتا گیا۔ہر سطح پر ہونے والی آلودگیوںنے انسانی زندگی کو ہر محاذ پر نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ یہ آلودگیاں صنعتی آلودگی،زرعی آلودگی ،صوتی آلودگی، فضائی آلودگی، پانی کی آلودگی وغیرہ کے ناموں سے جانی گئیں ۔ یہ آلودگیاں مادے کی تینوں حالتوں (ٹھوس ،مائع اور گیس ) کی شکل میں سامنے آئیں۔
ماحولیات کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں مختلف افراد اور تنظیمیں سرگرم ہیں
۔موجودہ وقت میں اس تحریک میں بچے زبردست پیش رفت کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم نام گریٹا تھنبرگ (Greta Thunberg) کاہے۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی تبدیلی کی اس 16 سالہ کارکن نے اقوام متحدہ میں اس موضوع پر ایک جذباتی تقریر میں کہا،
’’یہ سب غلط ہے! مجھے یہاں نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مجھے سمندر کے پار اپنے اسکول میں ہونا چاہئے تھا۔ اس کے باوجود آپ سب امید کے لیے ہم نوجوانوںکے پاس آتے ہیں۔ آپ کو جرات کیسے ہوئی! آپ نے اپنے کھوکھلے الفاظ سے میرے خوابوں اور میرے بچپن کو چرا لیا ہے لیکن پھر بھی میں کچھ خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوں۔ لوگ مشکل میں ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ ہمارا پورا ماحولیات تباہ ہو رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر معدومیت کا آغاز ہورہاہے اور آپ صرف باتیں کرتے ہیں پیسوں اور ابدی اقتصادی ترقی کی طلسماتی کہانیوں کی۔ آپ کو جرات کیسے ہوئی۔۔۔۔۔ ‘‘
2019 کی ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق گریٹا تھنبرگ اور دنیا کے دیگر 15 بچوںنےگلوبل وارمنگ سے نپٹنے کے لیےمناسب اقدامات نہ کرنے پر اقوام متحدہ میںدنیا کے پانچ اہم ملکوں ارجنٹینا، برازیل ، فرانس، جرمنی اور ترکی کے خلاف پٹیشن فائل کرنے کا فیصلہ کیا جو بچوں کے حقوق سے متعلق ہے۔ ان میں بھارت کی11 سالہ ردھیما پانڈے بھی شامل ہیں۔
انسان تو اس کرۂ ارض کی حفاظت میں ناکام ہورہا ہے ۔موجودہ عالمی لاک ڈاؤن نے انسانی زندگی کو تھما دیا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اس لاک ڈاؤن کےنقصانات کے بارے میں باتیں کررہے ہیں جو غلط بھی نہیں ہیں مگر قدرت اپنا کام کررہی ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے خلا میں مثبت ماحولیاتی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ماہرین ماحولیات نے بتایا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد سے اوزون کی تہہ میں بنا شگاف خود بہ خود بھرنا شروع ہوگیا۔ فیکٹریاں کے بند ہونے اور گاڑیوں کا استعمال کم ہونے کی وجہ سے چند ہی دنوں میں شہروں اور صنعتی مراکز پرسے آلودگی کی سطح کم ہورہی ہے۔صوتی آلودگی اور آبی آلودگی کی سطح بھی کم ہورہی ہے۔
اس لاک ڈاؤن نے وائلڈ لائف کو بھی تحفظ کا موقع فراہم کردیا ہے۔ٹریفک اور ماحولیاتی آلودگی سےجنگلی جانوروں، پرندوں، کیڑے مکوروں اور مچھلیوں کو پہنچنے والانقصان تھم گیا ہے۔
فضائی آلودگی کے چلتے ہندوستان کے باشندوں سے کوہ ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیاں چھپ گئی تھیں مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے فضائی آلودگی میں جو کمی ہوئی تو یہ چوٹیاں دوبارہ نظر آنے لگی ہیں۔جالندھر سے 200 کلو میٹر دور ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹیاںنظر آرہی ہیں۔
اب سب کے سامنے یہ ماحولیاتی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان انہیں قائم رہنے دے گا؟ کیا کرونا وائرس کی وبا ختم ہونے کے بعد دنیا واپس موحولیات دشمنی کےاپنے رنگ میں آجائے گی اور ماحولیاتی تبدیلیاں اپنا اثر کھو دیں گی؟قدرت نے ہمیں ایک موقع دیا ہے۔۔۔۔ اگر ہم اب بھی نہ بدلے تو یقیناً پھر سےیشانیوں کا دور آسکتا ہےجو کبھی نہ ختم ہو۔
کرۂ ارض کو ہر قسم کی آلودگی سے بچانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ لازمی ہے کہ انسانی مصروفیات اور صنعتی سرگرمیوں کو ماحولیاتی قوانین کا پابند بنایا جائے۔ ہر علاقے میں انسانی اور صنعتی سرگرمیاں اس حد سے آگے نہ بڑھیں جہاں سے ماحولیات کو نقصان پہنچنا شروع ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈاؤن نے انسانی زندگی کو بے پناہ کرب دیا ہے مگر ہمیں قدرت نے یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ ہم اپنے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال پر قابو رکھ کر ماحولیات کو برباد ہونے سے بچا سکتے ہیں۔