لفظ ومعنی کی جستجو

فیاض احمد وجیہہ
خوشبو،رنگ،روشنی‘احساس واظہارکی نئی کتاب ہے۔اس میںزماں ومکاںکے ازلی ،عصری اور آئندہ کی سائیکی کا تخلیقی نوحہ ہے۔حقانی القاسمی کا یہ اظہاریہ در اصل لفظ اور معنی کی حرمت کو بچائے رکھنے کی سنجیدہ کوشش ہے۔کائنات لفظ-یعنی لفظ کی وسعت اور اس کی پنہائیاںجہان معنی کے اکثر سراغ میںبھی ہماری ناکامی کا ہی عجزونیازہے۔لیکن اس عہد میںانسان کا مصنوعی چہرہ بھی اس میں شامل ہو گیاہے۔شاید اسی لیے احساس واظہار کی اس نئی کتاب میںیہ لکھا گیا ہے’لفظ جدااورمعنی معدوم ہوتے جارہے ہیں‘(ص؛۱۱)۔لفظ اور معنی ایک ہی چہرہ کا وصل وفراق ہیں،لیکن اس کی ہم آہنگی اور وحدت کونئے موسم نے چھین لیاہے،اس لیے حقانی القاسمی لفظوں کی موت پر ماتم کناں ہیں۔انہوں نے اپنے متفرق مضامین کے درون میںاحساس کی اس سائیکی کو ڈھال دیاہے۔یہاں کوئی کردار ماضی کی روشن آنکھوںمیںنہ صرف زندہ ہے بلکہ اس عہد کی محرومیت کو بھی بینائی عطا کرنا چاہتا ہے۔محرومی اس کردار کاازلی دکھ نہیںذہنی مقدر ہے،اس لیے حقانی القاسمی لکھتے ہیں’میرے یہ مضامین دراصل ایک طرح کا نوحہ ہیں‘(ص؛۱۱)۔ذہن واحساس کی سائیکی دو الگ شئے ہے ایسے ہی جیسے اس عہد کے باطن پرظاہرغالب ہے،اس خلاء کے پیش نظر ان مضامین کامطالعہ ناگزیرعمل ہے۔خوا جہ معین الدین چشتی کے افکاروخیالات میں مذہب انسان کا فلسفہ اوراس میں حضرت امام حسین کی حق پرستی کا جذبہ ان کے پہلے مضمون کی Thesisہے،اس میں انہوںنے باطنی وجودکے دائرہ اثرات کوواضح کیاہے۔دوسرا مضمون بھی اسی فکری تناظر کا حصہ ہے،اس میں حقانی القاسمی نے حضرت شمس تبریزاور مولانا رومی کے واقعات کو نقل کرکے’ زندہ کتاب‘ کا استعارہ وضع کیاہے اورخواجہ غریب نوازکی زندگی کواسی زندہ لفظ کے معنی میںمسلسل پڑھاہے۔اسی لیے ان کی یہ تعبیر کہ خواجہ کا تصور عشق ہی مرجع خلائق کی وجہ ہے،ایک اہم نقطہ ہے چوں کہ آج مغربی دنیا بھی رومی کی روحانیت میں پناہ لے رہی ہے۔مجھ ایسے قاری کے خیال میں حقانی القاسمی لفظ ومعنی کی جس وحدت کو موسم ہجر میںڈھونڈ رہے ہیں،وہ دراصل بعض ایسی ہی زندہ کتابوںمیں قائم ودائم ہے۔ان مضامین کا متفرق مطالعہ اور ان کے درون کاوصل و فراق قاری سے یک گونہ التفات کا طالب ہے،ورنہ لفظ ومعنی کی وحدت سے محرومی یقینی ہے۔مجھے عرض یہ کرنا ہے کہ ان کے ہاںPersonal idiosyncracy of expressionہے،لفظوں کا آہنگ اور محاورہ بھی ہے،لیکن اس عہد کی محرومیت اپنی بینائی کے لیے درون کا مسلسل احساس بھی چاہتی ہے۔چنانچہ ان متون کے روحانی کیف کواپنی آنکھوں میں روشن کرنا ضروری ہے۔
حقانی القاسمی اپنے وجودیاتی تناظر کومرتب نہیں کرتے،تخلیق کرتے ہیں۔اس Digital Ageمیںیہ ایک اجتہادی رویہ ہے۔اسی کے باعث ان کے ہاں جذبات ومحسوسات کی قوس وقزح زندہ اور متحرک صورت میں ہے۔ان کی اس نئی کتاب میںآزادی کے۶۰برسوں میںمسلمان ہو نے کی سائیکی کابیان بھی لفظ و معنی کی اسی صورت کا گیان ہے۔لیکن اس گھپ اندھیرے میں تھوڑی سی روشنی بھی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہب انسان کے بعض نمائندہ افراد یہاں بستے ہیں۔ان کا اندرون کتنا زخمی ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر ہر لفظ میں ایک انسان کا لہو لہان وجود چیخ رہاہے۔’کالا پانی‘کے سزا یافتگان میں اس کردار کا اندرون ملاحظہ کریںتو اندازہ ہو گا کہ لفظ و معنی کی حرمت میں نفر ت و تعصب کا رنگ کتنا گہرا ہے(؟)،اور ماضی کی اس تصویر سے عصری سماج کا کیا رشتہ ہے؟حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
’’۱۸۵۷کیاہے اور کیا نہیں-یہ جاننے کے لیے اس نفسیات اور سائیکی کوسمجھنا ضروری ہے جس کا سلسلہ آج سے بھی جڑا ہواہے۔‘‘(ص؛۲۸)
حقانی القاسمی عصری حادثات وواقعات کے آئینے میں ۱۸۵۷کا چہرہ دیکھتے ہیں ،تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں بلکہ ان متون کی بیہودہ گوئی کی تفہیم کا زندہ لفظوں میںاس سے بہتر وجودی حوالہ شاید ممکن نہیں ہے۔دہشت گردی،جہاد اور سر سیدمیں انہوں نے ۱۸۵۷کے بعد کی یہ تصویر پیش کی ہے ’’مسلمان حکومت کے لیے موجب خطر اور باغی ہیں‘‘(ص؛۳۶)اور یہ مقدمہ قائم کیا ہے کہ’وقت بدل گیا ہے مگر تصویر نہیں بدلی ہے‘۔اس مضمون میں انہوں نے سر سید کی ان کوششوں کا اعتراف کیا ہے ،جس میں انہوں نے اس مفروضہ کی سختی سے نفی کی ہے۔ان کی شخصیت کے مجموعی آہنگ کو خاطر نشان رکھتے ہوئے انہوں نے عصری صورتحال میں بھی سرسید ایسے مفکراور دانشورکی ضرورت پر زور دیا ہے۔یہاں یہ نقطہ بے حد روشن ہے کہ ذہنوں میں جو جالے بن دیے گئے ہیں،اس کو صاف کرنا نہایت ضروری ہے اور کہیں نہ کہیں عشق کے اس تصور کی تبلیغ بھی جو انسان کا فطری چہرہ ہے۔ اسی فکری تسلسل میں انہوں نے سرسید اور غالب کا مطالعہ اس نہج سے بھی کیا ہے کہ یہ دقیانوسی سماج کے اینٹی ہیرو تھے،دراصل اس وقت کا معاشرہ خواب پسند تھا،جبکہ سرسید اور غالب کے پاس فیوچر وژن تھا۔اس لیے مابعد سوسائٹی میں ان کی حیثیت ہیرو کی ہے۔حقانی القاسمی کا یہ تجزیہ عصری تاریخ کے تسلسل میں فکر وشعور کاصحت مند رویہ ہے کہ ’غالب اور سرسید کی سوچ اپنے زمانے کے بر عکس تھی،مگراس سوچ میں معاشرے کی تعمیر مضمرتھی۔‘(ص؛۴۴)فکر وشعور کی اس منطق میں نئے عہد کی صورتحال کا گہرا عکس موجود ہے۔
حافظ کی شعری جمالیات اور مولانا تھانوی کا نقد و نظرشعر وادب میں گراں قدر اضافہ ہے،اس باب میں حقانی القاسمی نے اس پہلو کو خاطر نشان رکھا ہے کہ’حافظ کا طرز احساس اوران کی تخلیقی سائیکی الگ ہے۔‘اشرف علی تھانوی نے اس طرز احساس کی باطنی ساخت کو اپنی تنقید میں پیش کیا،جو صحیح معنوں میں ان کے شعری جمالیات کی تفہیم ہے۔اسی طرح امام خمینی کی شعری جہات کوبھی حقانی القاسمی نے اپنے مخصوص اسلوب میں دریافت کیا ہے۔اس کے بعد کے مضامین میں بھی لفظ ومعنی کی وسعت ہے،دراصل انہوں نے پٹنہ اور دہلی کی تخلیقی افق کے علاوہ خدابخش لائبریری اور رامپور رضا لائبریری کے جہاں معنی کی سیر کی ہے،اس سلسلہ کے اور مضامین جو ’بزم سہارا‘ میں شائع ہو رہے ہیں ان کے تحقیقی تفردات کی مثال ہیں۔اس نوعیت کے مضامین میں بھی ان کا تخلیقی اسلوب اپنی فکری صلابت کے ساتھ موجود ہے۔ادب سے گم ہوتا گائوں،میڈیا کامیٹامورفوسس،گلوبل معاشرہ اور ادبی رسائل اور مدارس کے ادبی مجلات ایسے مضامین بھی لفظ ومعنی کے عصری تناظرات کو روشن کرتے ہیں۔مقصود الہی شیخ،قیصر تمکین،حمایت علی شاعراور منور راناکے تعلق سے لکھاگیا مضمون قاری اساس قرأت کی خوشبوسے معطر ہے۔فضا اعظمی کی مثنوی کے رگ وپے میں مشرقی تہذیب وثقافت اور اس کے اساطیری حوالے کو انہوں نے برصغیر کی سائیکی سے ہم آہنگ کرکے لفظ ومعنی کے تخلیقی ردعمل کو بہ خوبی پیش کیا ہے۔احساس واظہار کی یہ نئی کتاب اپنے مندرجات کے اعتبارسے لفظ ومعنی کی موت کا شخصی نوحہ ہی نہیں ہے،بلکہ ایک باغی انسان کے باطن کے اس اسلوب کا مظاہرہ بھی ہے،جس کے درون میںلا تعداد زندہ کتابیں دفن ہیں۔
٭٭٭٭

Leave a Comment