لکھنؤ(اسٹاف رپورٹر) نادر شاہ کے حملے کے بعد دلی اجڑ گئی تھی لیکن لکھنؤ آباد ہونے لگا تھا۔یہاں کی تہذیبی خوب صورتی پوری د نیا میں ممتاز ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ وہ لکھنؤ آج مجھے نظر نہیں آرہا ہے مگر میں نے اس کے باطن میں جھاکنے کی کوشش کی ہے۔ رومی دروازہ ، بڑا امام باڑہ اور اس طرز کی جو عمارتیں ہیںان کو دیکھئے اور ان کے نقش و نگار کو دیکھئے۔ صرف انسان ہی کہانی نہیں سناتے بلکہ دیواریں بھی کہانی سناتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار ممتاز مورخ اور خطیب علامہ اعجاز فرخ نے یہاں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں ’اودھ کی ثقافت اور ادب کے موضوع پر توسیعی خطبہ کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ میں لکھنؤ کیمپس میں مستقبل کے ہندوستان کو دیکھنے آیا ہوں ۔ میں طلبہ میں اپنا ماضی اور مستقبل دیکھتا ہوں اور یہی کشش مجھے یہاں کھینچ کر لائی ہے۔
کیمپس کے انچارج ڈاکٹر عبدالقدوس نے خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر عشرت ناہید نے نظامت اور تعارف کا فریضہ انجام دیا۔ کیمپس کے طالب علم محمود الحسن نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔ ڈاکٹر عبدالقدوس نے خیر مقدمی کلمات میں آج کے دن کو ایک تاریخی موقع قرار دیا اور کہا کہ علامہ کی آمد اور خطاب سے ہمارے طلبہ کو بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملے گا۔ انہوں یہ بھی کہا کہ تاریخ کے ایک سنہرے دور کو آج ہم علامہ اعجاز فرخ کے الفاظ میں دیکھنے کی کوشش کریں گے ۔
علامہ اعجاز فرخ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یوںتو حیدر آباد اور دلی بھی ایک تہذیبی شہر ہیں مگر نزاکت اور کیفیت کی شان جو لکھنؤ سے عبارت ہے وہ اور کہیں نہیں۔ انہوں نے اس موقع سے لکھنؤ کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اس انداز سے پیش کیا کہ سننے والوں کے سامنے وہ چیزیں ایک متحرک پیکر کی صورت میں دکھائی دینے لگیں۔ انہوں نے اس بات کا خاص طورپر ذکر کیا کہ لکھنؤ نے بہت سی تہذیبوں کو پروان چڑھایا۔اس تناظر میں شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان بالخصوص لکھنؤ اپنی تہذیبی خوبصورتی کی وجہ سے ہی پوری دنیا میں ممتاز ہے۔
علامہ اعجاز فر خ نے کہا کہ لکھنؤ میں پاندان کو تہذیبی علامت حاصل تھی بیگمات کے خرچ کا اندازہ ان کے پاندان سے کیاجاتا تھا۔یہاں کبھی سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے تھے اور سائل بھی ایسے تھے جو ہر دروازے پر صدا نہیں لگاتے تھے۔ یہاں کے لوگ غریبوں اور کمزور لوگوں کی مدد اور تعاون کر کے اپنے ہاتھ اور پائوں کی زکاۃ نکالا کرتے تھے انہوں نے کہا کہ اس وقت کا لکھنؤ آج کے لکھنؤ کی طرح روشنی کا جنگل نہیں تھا مگر پھر بھی چہرے صاف دکھائی دے رہے تھے یعنی روشنی انسان کے اندر ہوتی ہے۔ انہوں نے چوک اور حضرت گنج کا ذکر کرتے ہوئے لکھنؤ کی شادیوں کی مختلف رسموں کا ذکر کیا ۔
علامہ اعجاز فرخ نے پان کھانے ، دلہن کی حنا بندی اورشادی کی دیگر رسوم کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کے بانکوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لکھنؤ میں کباب کے بغیر کھانے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ 30 ، 32 ورق کے پراٹھے ہوا کرتے تھے ۔ اس شہر میں پہلے بریانی نہیں تھی بلکہ پلائو ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ان تمام تر تہذیبی اور ثقافتی رویوں میں لکھنؤ کی سب سے بڑی عظمت یہ تھی کہ اس نے کبھی کسی کو برا نہیں کہا۔اب آج ان چیزوں کو میں تلاش کرتا ہوںتو کوئی چیز مجھے نظر نہیں آتی۔ علامہ اعجاز فرخ نے گومتی ندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں اس ندی کی لہروں میں موتیوں کی آب و تاب تھی مگر اب دیکھتا ہوں تو لگتاہے کہ یہ اپنے گناہوں کی چادر اوڑھ کر سیاہ پوش ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس شہر نے میرؔ کی پروش ہی نہیں کی ہے بلکہ ایک پورے ادبی رویے کو فروغ اور استحکام عطا کیا ہے۔انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ ملک پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد تاریخ کو بیان کرنے میں روای مخلص نہیں رہے اور اسی وجہ سے ایسی بہت سی باتیں ہماری تہذیب کا حصہ بنا دی گئیں جن کا کہ وجود ہی نہیں تھا ۔