لیکچرار ڈاکٹر انوار احمد خان سپردِ خاک

٭ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ

شیگائوں،بلڈانہ (مہاراشٹر ) لیکچرار ڈاکٹر انوار احمد خان کو بتاریخ ۱۰؍ فروری بعد نماز عشاء نماز جنازہ کی ادایئگی کے بعد شیگائوں ضلع بلڈانہ کے مقامی قبرستان میں پر نم آنکھوں سے سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کی تدفین میں ڈاکٹر طالب دیشمکھ ،ڈاکٹر انجم تاجی ، پروفیسر سید قیوم ، ڈاکٹر اقبال خان ،سمیت بلڈانہ ضلع اوردیگر مقامات کی تعلیمی، سماجی، سیاسی، مذہبی حلقہ کے ہزاروں سوگوار موجود تھے۔ ۱۰؍ مئی کی دوپہر ۴؍ بجے کے قریب مختصر علالت کے بعد ۶۴؍ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ لیکچرار ڈاکٹر انوار احمد خان کی عمر۶۴؍ سال تھی۔ ان کے پسماندگان میں بیوی،چار بھائی دو بہنیں، چار فرزند ہیں ۔
ڈاکٹر انوارا حمد خان مقامی جی بی مرار کا کالج شیگائوں میں بطوراردو فارسی لیکچرار کے طور پر فائز تھے۔اور ۶؍ سال قبل سبکدوش ہوچکے تھے۔ وہ ایک اچھے اور کامیاب استاد ہونے کے ساتھ علم و فضل کے اعتبار سے بھی منفرد شناخت رکھتے تھے۔ دانشورانہ فکر و شعور، علمی بصیرت اور آگہی ان کا خاص امتیاز تھا۔ ان کی ذات اور شخصیت شرافت اور اعلی قدروں کا مجموعہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طلبہ ، رفقاکے ساتھ اہل علم و نظر میں اعتبار اور عزت و وقار کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔
مرحوم ۳۰؍ جنوری ۱۹۵۴؍ میں شیگائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ڈاکٹر انوار احمد خان ابتدا ہی سے کلام اقبال ؔاور فکرِ اقبالؔ سے متاثر رہے ہیں۔ شاید اقبال کے اس مصرع سے اثر لیکر کہ ـ’’ جو ہے راہِ عمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے‘۔ پرائمری اسکول سے تدریس سفر کا آغاز کرکے جی بی مرار کا کالج شیگائوں ضلع بلڈانہ میں اردو فارسی کے لیکچرار کے عہدے تک پہنچے اور چھ سال قبل اس عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔ تدریسی خدمات کو ایک ہمدرد ، قوم اور فرض شناس مدرس کی حیثیت سے ادا کرتے ہوئے ایم اے(اردو، فارسی، انگریزی) ، بی ایڈ اور ۱۹۸۶ء میں ’’اردو میں تدریسی ادب‘‘ پر مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی کی سندیں حاصل کیں۔ اس سے آپ کے علمی ذوق اور شوق مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ انوار احمد خان نہ صرف مطالعہ کا شوق رکھتے تھے بلکہ اس مطالعہ سے جو روشنی انھیں حاصل ہوتی ہے اسے وہ تحریری شکل میں پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے کئی تنقیدی مضامین روز نامہ انقلا، اردو ٹائمز، قومی راج ، ممبئی وغیرہ میں شائع ہوئے اور آکاش وانی سے بھی نشر ہوئے۔ ان کا ایک کتابچہ ’’اردو رسمِ الخط اور علم ہجاـ‘‘، اور تین تصانیف ’’اردو میں آپ بیتی نگاری‘‘، ’’انواراتِ اقبال ــ‘‘اور’’ اشعات اقبال‘‘ زیور طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر محمد طالب دیشمکھ (سابق صدر شعبۂ اردو جی ایس کالج کھام گاوں ) نے ڈاکٹر انوار احمد خان کی وفات پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک مثالی رفیق کار قرار دیا۔انھوں نے کہا مرحوم ایک خلیق، ملنسار اور صاحب مطالعہ شخصیت کا یوں اٹھ جانا برار کی علمی، ادبی، مجالس کا بڑا نقصان ہے ۔جس کی بھر پائی شاید ہی ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء کرے۔ اور پسماندگان کیلے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔
لیکچرار ڈاکٹر انوار احمد خان ایک ایسی ممتاز شخصیت کے حامل تھے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

Leave a Comment