٭محمدثناء اللہ
ریسرچ اسکالر ،
جواہر لعل یونیورسٹی، نئی دہلی۔
ڈراما سے اہل ماریشس کی وابستگی ا وردلچسپی بہت پرانی ہے۔ برطانوی اور فرانسیسی ادوار ہی سے یہاں ڈرامے کی ایک مضبوط روایت قائم رہی ہے۔ فرانسیسی اور شیکسپیئر کے ڈراموں کی روایت کی آبیاری ماریشس کے مختلف حکمرانوں نے کی۔حتمی طور پر یہ کہنا تو مشکل ہے کہ جزیرہ میں فن ڈراما کی ابتدا کب، کیسے اور کن صورتوں میں ہوئی؟۔ البتہ اس بات کے تاریخی شواہد ملتے ہیں کہ اولاً 1754ء میں فرانسیسی عہد حکومت میں مزاحیہ کامیڈی شو اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ جوسف لیگلینJosph Laglain کی سرپرستی میں 45 ممبروں پر مشتمل ایک ڈراما گروپ ماریشس کی سرزمین پر 1780ء میں پہونچا۔یہ وہی جوسف لیگلین ہیں جو جزیرے میں فن ڈراما کی ترویج و ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ فرانسیسی حکمرانوں کی ڈراما سے د ل چسی کے نتیجے میں اس چھوٹے سے جزیرے میں اس فن کی نشو ونما ممکن ہوسکی۔ ماریشس کی اقتدار پر انگریزوں کے قابض ہوجانے کے بعد فن ڈراما کی ترویج و ترقی کی راہیں مزید ہموار ہوئیں۔ برطانوی عہد میں کئی ڈراما کلب اور تھئیٹر ہال کی تعمیر کروائی گئی۔ 1932ء میں The Mouritius Dramatic Club اور 1933ء میں The Plaza Theatre کی ابتدا سے فن ڈراما کی خوب تشہیر ہوئی۔ غرض کہ برطانوی اور فرانسیسی ادوارسے ہی ماریشس میں ڈرامے کی ایک لوک روایت قائم تھی۔ اہل ماریشس ڈرامے کے فن اور اس کی سماجی اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف تھے۔ جب دیگر ہندوستانی زبانوں کے ساتھ اردو کے فروغ کی راہیں ہموار ہوئیں تو سب سے پہلے جس صنف میں اردو ادب کی تخلیق ہوئی وہ ڈراما ہی ہے۔ ماریشس کے تقریباً تمام اہل قلم نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ ڈرامے کے فن نے ہی ماریشس کے اہل قلم کو تخلیق ادب کے لیے راغب کیا۔ اولاً ماریشس کے قلم کاروں نے صنف ڈراما ہی میں طبع آزمائی کی۔ ثانیاً انہوں نے دیگر اصناف ادب کو اپنی رشحات قلم سے مالا مال کیا۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ماریشس کے اولین ڈرامانگاروں نے پہلی جنگ عظیم تا دوسری جنگ عظیم کے عرصے میں جتنے اور جس نوع کے بھی ڈرامے تحریر کیے وہ سب کے سب ہیئت کے اعتبار سے یک بابی ڈرامے تھے۔ستّر کے بعد کے بھی ڈرامے اسی زمرے میں آتے ہیں۔پر سیول وائلڈ کے الفاظ میں ’’یک بابی ڈراما (one act play) اپنے دل فریب حسن اتحاد اور حسن تنظیم کی بنا پر مرکز توجہ بنتا ہے جسے ایک محدود ومقررہ میعادو وقت میں پیش کیا جا سکتاہے۔اور جس میں یہ صلااحیت پنہاں ہوتی ہے کہ وہ اپنا مجموعی تاثرناظرین کے قلب و نظر میں اور فہم و ادراک میں سرایت کردے ‘‘1
اردو ادب میں یک بابی ڈرامے کا باقاعدہ آغاز 1935ء کے بعد مانا جاتا ہے۔ دنیا کے جن ادبوں میں پہلے پہل یک بابی ڈراما نگاری کی ابتدا ہوئی ان میں بھی اس قسم کے ڈراموں کی کوئی ادبی حیثیت نہ تھی ۔ لیکن بدلتے ادبی رجحانات اور وقت کے تقاضوں کے مد نظر یک بابی ڈرامے کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کیا جانے لگا۔ برصغیر کے یک بابی ڈرامانگاروں میں مولا نا محمد حسین آزاد ، اوپندر ناتھ اشک، نور الہی محمد عمر،اثر لکھنوی ،اختر شیرانی اور خواجہ احمد عباس جیسے فن کاروں کے نام اہم ہیں۔1970ء کے بعد ماریشس میں لکھے گیے یک بابی ڈرامے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سبھی ڈرامے ’’سالا نہ نیشنل اردو ڈراما فیسٹیول ‘‘ میں پیش کش کی غرض سے لکھے گیے ۔تخلیق کاروں نے فیسٹیول کی غرض وغایت اورشرائط کے مد نظر ہی مختلف موضوعات پر ڈرامے تحریر کیے لہذا یہ ڈرامے اسٹیج کی ضروریات،لوازمات اور تقاضوں پر مبنی ڈرامے ہیں ۔جسے ادبی فن پارے کی بجائے اسٹیج پر پیش کش کے نقطئہ نظر سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔اب ذیل میں ستّر کے بعد کے اہم ڈراما نگاروں کے فن کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا۔
عنایت حسین عیدنؔ
عنایت حسین عیدن ؔسرزمین ماریشس میں اردو زبان و ادب کے بنیاد گزار اورمربی و سرپرست ہیں۔ عیدن نے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت اور فروغ و ترقی کی راہیں ہموار کیں۔ان کی اردو خدمات ہمہ جہت ہیں ۔وہ بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈراما نگار ہیں۔ کئی عمدہ انشائیے بھی انھوں نے تحریر کیے ہیں۔ نیز مختلف ادبی تنظیموں اور انجمنوں کو اپنی انتظامی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔ جب 1974ء میں علیحدہ طورپر اردو ڈراما فیسٹیول کی ابتدا ہوئی تو مقامی فن کاروں کے مطالبات پر جس ادیب نے سب سے پہلے صنف ڈراما کے لیے اپنے قلم کو وقف کیا وہ عنایت حسین عیدنؔ کی ذات گرامی ہے جنھوں نے ’’زندہ گزٹ‘‘، ’’شادی کا جوڑا‘‘، ’’ضمیر‘‘، ’’چپراسی‘‘،’’ میں کھیت نہیں جاؤں گا‘‘، ’’نیا اگریمنٹ‘‘، ’’قربانی‘‘، ’’شرابی‘‘ اور’’ رام بھروسے چاچا‘‘ جیسے فنی اعتبار سے عمدہ اور کامیاب ڈرامے قارئین و ناظرین کو دیئے۔ یہ ڈرامے اتنے دل چسپ اور مقامی عناصر سے بھرپور تھے کہ قارئین و ناظرین کو ان میں اپنائیت کا احساس ہوا۔ یہ تمام ڈراما فیسٹیول کے لیے اسٹیج کیے جاچکے ہیں اور ان میں کئی انعام یافتہ بھی ہیں۔ عیدن ؔکے ڈراموں میں مقامی رنگ وآہنگ جا بجا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول و حالات، سماجی برائیوں اور انسانی خامیوں کو بڑے ہی خوش اسلوبی کے ساتھ سیدھے سادے لفظوں اور عام بول چال کی زبان میں پیش کردیتے ہیں۔ عیدنؔ نے سماجی و معاشرتی مسائل زندگی اور اس کے نشیب و فراز کو اپنے ڈراموں کا موضوع قرار دیا ۔خاص طور پر وہ دیہی زندگی، اس کے احوال وکوائف، رسم و رواج، دہقانیوں کی عادات و اطوار کو اپنے ڈراموں میں خاص جگہ دی ہے۔ بلاشبہ ’’شادی کا جوڑا‘‘، ’’میں کھیت نہیں جاؤں گا‘‘ اور ’’رام بھروسے چاچا‘‘ جیسے ڈراموں کو دیہی زندگی کا مرقع کہا جاسکتا ہے۔ جس میں عیدن ؔنے دیہی زندگی کی عمدہ منظر کشی کی ہے۔صابر گودڑؔ عیدنؔ کے یک بابی ڈراموں کے موضوعات سے متعلق یوں رقم طراز ہیں:
’’ان کے یہاں اپنے ماحول اور سماج کا گہرا شعور پایا جاتا ہے۔ ان کی حساس طبیعت کو ہمارے گرد و نواح کے مسائل نے بے حد متاثر کیا اور انھوں نے بڑی بے باکی اور تلخ لہجے کے ساتھ ان کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ڈراموں میں وہ کہیں سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں کے آرام طلب اور کام چور ملازمین کا پردہ فاش کرتے ہیں تو کہیں شادی بیاہ کے موضوع پر بے جا اخراجات اور کھوکھلی نمائش پر طنز بھی کرتے ہیں۔‘‘2
عنایت حسین عیدن ؔ ماریشس کے وہ واحد ڈراما نگار ہیں جن کے ڈراموں کے شاہکار آج بھی دوسروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ان کے ڈراموں کے صرف موضوعات ہی اہم نہیں ہیں قصہ و پلاٹ،اسلوب و تکنیک ،چھوٹے چھوٹے جملے، سادہ و سلیس زبان اور عام فہم اسلوب نگارش یہ وہ خصوصیات ہیں جو عنایت حسین عیدنؔ کے ڈراموں کو فنی شاہکار بناتے ہیں۔ وہ اسٹیج کے تقاضوں اور مکالموں کی ادائیگی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے ان کے ڈراموں کو فیسٹیول میں جو مقبولیت ملی شاید ہی کسی اور کو ملی۔ عنایت حسین عیدن ؔسے تحریک پاکر ’’انجمن ادب اردو‘‘ سے وابستہ قلم کاروں نے بھی ڈراما نگاری میں طبع آزمائی کی۔ حنیف کنہائیؔ، محمد طاہر دومنؔ، صابر گودڑؔ، رفیق حسین بخشؔ، فاروق رجل عارفؔ اور رشید نیرواں رازداںؔ وغیرہ حضرات اپنے اپنے ڈراموں کا مسودہ بغرض اصلاح عنایت حسین عیدنؔ کو دکھاتے۔ عیدنؔ ان پر تبصرہ کرتے اور ان میں جو فنی خامیاں ہوتیں ان پر روشنی ڈالتے۔ عیدن ؔان قلم کاروں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے نتیجتاً اچھی خاصی تعداد میں اردو کے ڈرامے معرض وجود میں آئے۔
محمد طاہر دومنؔ
طاہر دومن نے کئی یک بابی ڈرامے فیسٹیول ہی کی غرض سے قلم بند کیے۔ ’’احساس‘‘، ’’دریا دل ساس‘‘، ’’اب دلّی دورنہیں‘‘، ’’اشک ندامت‘‘، ’’منڈی‘‘ اور ’’مفت‘‘ وغیرہ طاہر دومن کے وہ ڈرامے ہیں جن سے ان کو شہرت دوام ملی۔ ’’اشک ندامت‘‘ ان کا شاہکار ڈراما ہے جس میں طاہر دومن کا فن عروج پر ہے۔ مکالمہ نگاری، منظر کشی، واقعات کا ربط و ضبط اور اسلوب بیان ہر اعتبار سے یہ ایک کامیاب ڈراما ہے۔ طاہر دومن کے لکھنے کا اپنا ایک الگ انداز ہے۔ ان کے اکثر ڈراموں میں خواتین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ طاہر دومن ایک کہنہ مشق شاعر و ادیب ہیں۔ انھوں نے مختلف نثری و شعری اصناف ادب میں طبع آزمائی کی ہے۔ اشک ندامت کے نام سے ہی ان کے ڈراموں کا مجموعہ شائع ہوا جس میں متذکرہ بالا ڈراموں کے علاوہ ’’خدا خیر کرے‘‘، ’’اپنی اپنی غلطی کا ازالہ‘‘ اور ’’بے وقوف کون‘‘ وغیرہ ڈرامے شامل ہیں۔ طاہر دومن کے یہاں بھی مقامی رنگ جابجا ملتا ہے۔ آسان زبان اور سہل الفاظ کے ساتھ بسا اوقات مشکل پسندی سے بھی کام لیتے ہیں۔ وہ فارسی داں بھی ہیں۔ بایں وجہ ان کے اسلوب نگارش میں فارسیت کا بھی امتزاج ملتا ہے۔ کریولی (creol)کے برمحل استعمال سے مقامیت بھی اپنی عبارت میں پیدا کردیتے ہیں اور فارسی کے استعمال سے بعض دفعہ عبارت گنجلک بھی بن جاتی ہے۔ باوجود اس کے طاہر دومن کا اسلوب نگارش آسان اور سہل ہے اور ماریشس کے مقامی اردو سے ملتی جلتی ہے۔ طاہر دومن کو شعرو شاعری سے بھی دل چسپی ہے۔ ’’تلاش پیہم‘‘ ان کا شعری مجموعہ ہے جس میں حمد و نعت کے علاوہ نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ طاہر دومن نے ماریشس کے اردو ڈرامے کی روایت کو اپنے ڈراموں سے قوت و مضبوطی عطا کی ہے۔
فاروق رجل عارفؔ
اردو ڈرامے کی جس روایت کو عنایت حسین عیدنؔ نے بنیاد و اساس عطا کی تھی فاروق رجل اور رشید نیروا ںرازداںؔنے اس روایت کو آگے بڑھانے کا کام کیا۔ ماریشس کے اردو ڈراما نگاروں میں ایک اہم اور معتبر نام فاروق رجل کا ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ اب تک ان کے ڈراموں کے دو مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ڈراما نگاری کے علاوہ فاروق رجل افسانہ نگاری اور طنز و مزاح نگاری بھی کرتے ہیں۔ ’’دھنک‘‘ ان کے یک بابی ڈراموں کا مجموعہ ہے جس میں بعنوان ’’جھوٹی‘‘، ’’وہم‘‘، ’’دھنک‘‘، ’’اتنی سی بات‘‘، ’’بی کول‘‘، ’’خوش آمدید‘‘ اور ’’مہمان‘‘ نامی ڈرامے شامل ہیں۔ ’’رشتہ‘‘ ایک طویل ڈراما ہے جس میں کل چار سین ہیں۔ یہ ماریشس کا پہلا طویل اردو ڈراما ہے جس کو پہلی بار 2003ء کے عالمی اردوکانفرنس کے موقع پر ماریشس کے مقامی اداکاروں نے رشید نیروا ں رازداںؔکی ہدایت میں پیش کیا تھا جسے ملک و بیرون ملک کے تمام ناظرین نے دادو تحسین سے نوازا تھا۔ فاروق رجل کا تعلق گاؤں اور دیہی زندگی سے ہے اس لیے ان کی تحریروں میں گاؤں کی زندگی، مسائل و حالات اور خاندانی و انسانی کشمکش کی تصویر کشی کبھی ناصحانہ تو کبھی طنز آمیز لہجے میں کی گئی ہے۔ فاروق رجل طنز و مزاح نگار بھی ہیں۔ وہ سماجی برائیوں اور خامیوں پر طنز کستے ہیں۔ مزاحیہ عنصر پیدا کرکے ناظرین و قارئین کی دل چسپی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔طنز و مزاح کے امتزاج سے ایک ایسا فن پارہ وجود میں آتا ہے جس کے ذریعہ ادیب بہ آسانی اپنے پیغام کی ترسیل میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ’’آئینہ‘‘ کے نام سے ان کے طنز و مزاح کا مجموعہ منظر عام پرآچکا ہے جس میں طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں مختلف موضوعات پر مختصر مگر جامع مضامین شامل ہیں۔ ڈراما نگاری میں بھی فاروق رجل طنزو مزاح کا عنصر برقرار رکھتے ہیں اور جا بجا اپنے اس فن کا استعمال بڑی ہنر مندی سے کرتے رہتے ہیں۔ ’’بی کول‘‘ نامی ڈراما اسی زمرے میں شامل ہے۔ مزاحیہ اسلوب میں لکھا گیا یہ ڈراما فنی اعتبار سے لاجواب اور بے مثال ہے۔ انگریزی کے مختصر لفظوں (Short Words) سے مختلف معانی پیدا کرنا اور لفظوں کے جوڑ توڑ سے معنٰی خیز جملے بنانے کا ہنر بھی انھیں خوب آتا ہے۔ بی کول (Be cool) نامی ڈراما جس کا مرکزی کردار پچیس سال کا نوجوان جمیل ہے۔ سکینہ جمیل کی بڑی بہن ہے جو جمیل کی شادی کرانا چاہتی ہے وہ اپنے بھائی کی لاپرواہ اور بیچلر زندگی کو لے کر فکر مند ہے اس لیے وہ اپنی سہیلیوں میں سے کئی کی شادی کا پیغام لے کر آتی ہے جسے جمیل ریجیکٹ کر دیتا ہے۔ Climax میں سکینہ کی ایک سہیلی اس راز کو فاش کرتی ہے جو جمیل کے تکیہ کلام ’’بی کول‘‘ میں پنہاں تھا۔ دراصل بی بی کلثوم نامی ایک لڑکی سے جمیل کو محبت ہوجاتی ہے لیکن وہ ڈر کی وجہ سے اپنی بڑی بہن کو نہیں بتاتا ہے اور بی بی کلثوم کا شارٹ کٹ، ’’بی کول‘‘ تکیہ کلام بنا لیتا ہے۔ سکینہ کی ایک سہیلی نبیہہ اس راز کو فاش کرتی ہے اس طرح آخر میں جمیل اپنی محبت کا اظہارو اقرار کرلیتا ہے۔ شروع سے آخر تک ڈراما میں مزاحیہ ماحول ہے مگر ڈراما درمیان میں پہنچ کر کشمکش کی جانب بڑھتا ہے پھر انجام پر اس طرح ناظرین کی پوری دلچسپی اس بات کو جاننے میں قائم رہتی ہے کہ آخر جمیل شادی کے پیغام کو ٹالتا کیوں ہے؟
حال ہی میں فاروق رجل نے مجھے بذریعہ میل ’’UP‘‘ نامی ایک ڈراما ارسال کیا ہے۔ انگریزی کے اس دو حرف Uاور P کا سیکڑوں معنی خیزفل فارم تحریر کر کے ڈرامائی ماحول سازی کے ذریعہ جس ذہانت و فطانت کا ثبوت فاروق رجل نے دیا ہے اس پر داد دیئے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا۔ ڈراما کا مرکزی کردار عمر ایک ایسا نوجوان ہے جو اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کر لینے کے بعد بھی بے روزگار ہتا ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کا بوڑھاپے میں سہارا بننے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود اسے ملازمت نہیں مل پاتی۔ صورت حال ایں جاں رسید کہ اس کا گزر بسر مشکل ہوجاتا ہے اس لیے وہ سرکاری پنشن پانے کی غرض سے پاگل بن جاتا ہے۔ دراصل پاگل ہوتا نہیں پاگل ہونے کی اداکاری کرتا ہے اور ہاسپٹل سے سرٹیفکیٹ حاصل کرکے وہ پنشن حاصل کرتا ہے۔(ماریشس میں سرکاری طور پر مصدقہ پاگلوں کو سرکاری معاوضہ دیا جاتا ہے۔) بالآخر ایک دن اس بات کا خلاصہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ہاسپٹل میں ہی ایڈمٹ ہوتاہے جہاں ڈاکٹر اس سے پوچھ تاچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی اثنا کسی کمپنی سے عمر کو ملازمت دینے کا پیغام دیا جاتا ہے اور پھر وہ اپنا سارا جرم تسلیم کرلیتا ہے۔بظاہر یہ ڈراما ایک مزاحیہ ڈراما معلوم ہوتا ہے لیکن عمر کی مدد سے ڈراما نگار نے جس سنجیدہ مسئلہ کو ڈرامے کا موضوع بنایا ہے وہ قابل داد ہے۔ یقینا بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ ہے۔ فاروق رجل کے ڈراموں کی خاص بات یہی ہے کہ وہ ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں بھی سنجیدہ سے سنجیدہ بات کہہ جاتے ہیں جس سے ناظرین و قارئین کے ذہن و دماغ میں ایک اضطراری کیفیت قائم ہوجاتی ہے۔ فاروق رجل کو بات کہنے کا انداز و ہنر خوب آتا ہے۔
رشید نیروا ںرازداںؔ
رشید نیرواں رازداںؔ ماریشس میں اردو ڈراما نگاری کے میدان میں وہ نام ہے جنھوں نے خود کو صرف اور صرف صنف ڈراما کی آبیاری کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے بعد ماریشس کے جن ڈرامانگاروں نے مسلسل ڈرامانگاری کی ہے ان میں رشید نیرواں رازداںؔ سرفہرست ہیں۔ اب تک ماریشس کے شائع شدہ ڈراموں میں سب سے زیادہ تعداد نیرواں کے ڈراموں کی ہے۔ رشید نیرواں رازداںؔ نے مختلف موضوعات پر متنوع اردو ڈرامے تحریر کیے ہیں۔ ان کے ڈراموں کے کل چار مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا ’’اندھا کنواں‘‘ جس میں کل 15ڈرامے شامل ہیں جو 2015ء میں منظر عام پر آیا۔ دوسرا مجموعہ ’’ہماری پہچان‘‘، تیسرا ’’آہ کی گواہ‘‘ اور چوتھا ’’وطن کا قرض‘‘ 2007ء، 2014ء اور 2017ء میں بالترتیب منظر عام پر آیا۔ ان مجموعوں میں مشمولہ ڈراموں کی کل تعداد تقریباً چالیس سے زائد ہیں۔ ’’ہماری پہچان‘‘ میں آزادیٔ نسواں کو ڈرامے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ فرزانہ نام کی عورت جو ڈرامے کا مرکزی کردار ہے، اپنے شوہر کے ظلم و زیادتی سے تنگ آکر ہمیشہ کے لیے شوہر سے آزادہوکر آزادیٔ نسواں کی علمبردار بن جاتی ہے اور عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کے خلاف اعلانیہ بغاوت کا علم بلند کرتی ہے۔ فرزانہ اپنے شوہر کے گھر سے نکل کر اپنی اولاد کی محبت و الفت اور اس کے بچپن کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر نکل جاتی ہے جہاں وہ دنیا بھر میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف تحریک چلاتی ہے۔
’’آہ کی گونج‘‘ میں بھی رازداںؔ نے عورت کو ہی موضوع سخن بنایا ہے۔ بیگم صاحبہ جو بیوہ ہے جس کا شوہر کسی سونامی کا شکار ہو کر مالک حقیقی سے جاملا ہے۔ اس کی موت کے بعد بیگم صاحبہ ہی گھر اور شوہر کے کاروبار کو سنبھالتی ہے اور اولاد کی اچھی پرورش و پرداخت کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے اکلوتے لڑکے کو امریکہ بھیجتی ہے جہاں اس کا بیٹا کسی دہشت گردانہ حملے میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار ہوجاتا ہے اور اسے سزائے موت دی جاتی ہے۔ جس پر بیگم صاحبہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے اور حق کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔ ’’ہماری پہچان‘‘ اور ’’آہ کی گونج‘‘ دونوں میں موضوع سخن عورت ہی ہے لیکن نیرواں کے ان دونوں خواتین میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ’’ہماری پہچان‘‘ کی عورت اپنی انفرادی شناخت و حیثیت کی خاطر اور ذاتی آزادی کے لیے اپنے شوہر اور اپنی اولاد سے جدا ہو کر بغاوت کا علم بلند کرتی ہوئی نظر آتی ہے جب کہ ’’آہ کی گونج‘‘ کی عورت جہاں ایک طرف ممتا کی مورت ہے وہیں دوسری طرف وقت آنے پرعزم و استقلال کی چٹان بن کر دکھا تی ہے۔
’’اندھا کنواں‘‘ میں بھی عورت ہی محور و مرکز ہے۔ توہم پرستی دراصل اس ڈرامے کا موضوع ہے۔ جادو ٹونا اور چڑیلی حرکتوں میں ڈرامے کے کردار ملوث ہیں۔ اس ڈرامے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کے سارے کردار نسوانی ہیں۔ ہمارے سماج میں مردوں کی بہ نسبت عورتیں زیادہ توہم پرست ہوتی ہیں اور بھوت پریت میں اعتماد رکھتی ہیں۔ لیکن اسی ڈرامے میں لیڈی انسپکٹر کے کردار سے عورت کی ایک علاحدہ اور منفرد سیرت نگاری نیرواں نے کی ہے۔ رشید نیرواں کے ڈراموں کی یہی خاص بات ہے کہ وہ کرداروں کے مختلف روپ دکھاتے ہیں۔ دراصل وہ فطری تقاضوں کے مطابق کردار نگاری کرتے ہیں۔ اپنے آخری مجموعہ ’’وطن کا قرض‘‘ پروفیسر کاظم علی نے جس کی تدوین و ترتیب کا کام انجام دیا ہے۔ دہلی کے اسٹار پبلی کیشنز سے حالیہ دنوں میں ہی شائع ہوا ہے۔ اس ڈرامے میں رشید نیرواں نے اپنے ملک عزیز کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
اگر ہم رازداںؔ کے ڈراموں کے موضوعات کی بات کریں تو وہ مختلف اور متنوع ہیں۔ حیات و کائنات کے تقریباً تمام موضوعات و مضامین کا احاطہ انھوںنے کیا ہے۔ سماجی برائیوں، انسانی رشتوں، معاشرتی تعلقات، عالمی بحران اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر انھوں نے اپنا قلم اٹھایا ہے۔ یک بابی ڈرامے کے چھوٹے سے کینوس پر سنجیدہ سے سنجیدہ ملکی و عالمی مسئلے کو اپنے ڈرامے میں رازداں ؔنے جگہ دی ہے۔ مجموعی طور پر رشید نیرواں رازداں ؔکے ڈرامے ماریشس کی ڈراما نگاری کی روایت میں صرف اضافہ ہی نہیں ہیں بلکہ فن ڈراما کو انھوں نے بام عروج بھی عطا کیا ہے اور عالمی شناخت بھی دلائی ہے۔
رشید نیرواں رازداںؔ ایک سلجھے ہوئے ادیب ہیں۔ فن ڈراما کے اسرار و رموز سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ سے ڈرامیٹک آرٹس میں انھوں نے ڈپلوما بھی کیا ہے۔ ہدایت کاری اور اداکاری بھی کرتے ہیں۔ 1981ء میں انھوں نے ایک ڈراما بعنوان ’’ہائے وقت‘‘ تحریر کیا جس میں ایک مونولاگ (Monologue) بھی تھا۔ اس میں رازداں نے خود ادا کاری کی تھی۔ گزشتہ 20سالوں سے وہ وزارت فنون و ثقافت سے وابستہ ہیں اور فن ڈراما کے فروغ و ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی انتھک محنتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ماریشس میں اردو ڈراما فیسٹیول دیگر زبانوں سے کہیں زیادہ عوام میں مقبول ہے۔ فن ڈراما کی ترویج و اشاعت میں رازداںؔ کی خدمات گوناگوں اور ناقابل فراموش ہیں۔
ماریشس میں ڈراما نگاری کی روایت میں بیسویں صدی کی آخری دہائی تک جن ادبا اور تخلیق کاروں نے اپنے قلم سے ڈراما کی نوک ِپلک سنواراہے ان میں قاسم ہیرؔا، حنیف کنہائیؔ، رفیق حسین بخشؔ، صابر گودڑؔ، محمد اشرفی مدنیؔ اور یوسف صبراتی دیوانہؔ ہیں۔ صابر گودڑؔنے چند ہی ڈرامے لکھے ہیں لیکن جو بھی لکھے وہ لاجواب ہیں۔ ’’انقلاب‘‘، ’’نیا زمانہ‘‘ اور ’’نیا خیال‘‘ یہ وہ ڈرامے ہیں جو صابر گودڑؔ کو ماریشس کے کامیاب ڈراما نگاروں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ رفیق حسین بخش نے بھی چندڈرامے تحریر کر کے اس صنف کو ترک کردیا۔ ’’سچی محبت‘‘،’’ لیڈر کی موت‘‘ ’’انوکھا اسکول‘‘، ’’قصوروار کون‘‘، ’’ سیٹھ جی‘‘ اور ’’نوکر‘‘ ان کے لافانی ڈرامے ہیں۔ کاش یہ ڈراما نویسی جاری رکھتے تو شاید آج اس صنف میں ان کا قد و مرتبہ کافی بلند ہوتا۔ محمد اشرفی مدنی ؔخود ڈرامے لکھتے ہیں اور خود ہی اپنے ڈراموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کرتے ہیں۔ انھوں نے اچھی خاصی تعداد میں ڈرامے تحریر کیے ہیں۔ ’’استادوں کے استاد‘‘، ’’نظام قسمت‘‘، ’’تبسم یا اشک‘‘، ’’زخم اعمال‘‘، ’’تشکیل وطن‘‘، ’’درد‘‘ اور ’’ہدایت‘‘ ان کے کامیاب ڈرامے ہیں۔ ان میں کئی ڈرامے انعام یافتہ بھی ہیں۔ موجودہ وقت میں یوسف صبراتی کا نام کافی اہم ہے۔ وہ ایک اچھے اداکار اور ہدایت کار بھی ہیں۔ ’’جورو کا غلام‘‘، ’’پچھتاوا‘‘، ’’ورزش کے کمال‘‘، ’’کون بنے گا میرا داماد‘‘، ’’ماحول نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘، ’’جیسا کروگے ویسا بھروگے‘‘، ’’الجھن‘‘، ’’دادی کی شادی‘‘، ’’تباہی‘‘، ’’یہ ہے میری قسمت‘‘، ’’آخری موقع‘‘ اور ’’آخر کب تک‘‘ یوسف صبراتی کے وہ ڈرامے ہیں جس نے فیسٹیول میں دھوم مچا دی۔ یوسف صبراتی اسکول کے ٹیچر ہیں ۔ صبراتی ماریشس کے ابھرتے اداکار ہیں جو آج کل چھوٹی چھوٹی شارٹ فلموں ، اشتہار کمپنیوں اور ڈاکیومنٹری میں بھی اداکاری کرتے ہیں۔مذکورہ بالا ہم عصر ڈراما نگاروں کے علاوہ اس صنف میں نومشق اور نووارد قلم کا ر بھی طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ ایسے ڈراما نگاروں میں سمیر عبدل کا نام کافی اہم ہے۔ ’’ہم پاگل نہیں ہیں‘‘، ’’شکستہ دل‘‘، ’’شادی نہیں بابا!‘‘، ’’مورڈرن گرلز‘‘، ’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘، ’’بے روزگار نوجوان‘‘، ’’شدت احساس‘‘ ، ’’ملکیت‘‘ اور ’’اتحاد‘‘ جیسے ڈراموں سے اردو ڈرامے کے سرمایے میں اضافہ ہوا ہے۔ شیریں ہمت کے ڈرامے ’’حد کی انتہا‘‘ اور ’’عمل سے زندگی بنتی ہے‘‘ بھی قابل ذکر ہے۔
٭٭٭
حواشی
(1) پر سیول وائلڈِدی ون ایکٹ پلے ٹوڈے،بحوالہ:اردو یک بابی ڈراما،فصیح احمد صدیقی،علوی بک ڈپو محمد علی روڈ بمبئی،1973ء ،ص 12
(2) صابر گودڑ،ماریشس کا اردو ادب،غیر مطبوعہ،بذریعہ میل سوفٹ کاپی،ص:3
مصادر
رازداں،رشید نیرواں،اندھا کنواں،پورٹ لوئیس:دی نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ، 2000۔
ازداں،رشید نیرواں،ہماری پہچان،ماریشس:انجمن فروغ اردو،2007۔
عنایت حسیم عیدن،زندہ گزٹ،دی نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ،1990۔
فاروق رجل،دھنک،انجمن فروغ اردو،2005۔