ماہنامہ’آجکل‘ اورمحبوب الرحمن فاروقی

٭حقانی القاسمی
محبوب الرحمن فاروقی نہ ہوتے تو میں آج دہلی میں نہ ہوتا، ادب اور ادبی دنیا سے میرا رشتہ کٹ چکا ہوتا۔ یہ انہی کی شفقت اور محبت ہے کہ ا رمانوں کی خلد بریں علی گڑھ کو چھوڑنے کے بعد 1995ء سے 2019ء تک دہلی جیسے سفاک اور سنگ دل شہر میں زندہ ہوں نامساعد حالات کے باوجود نہ صرف سانس لے رہا ہوں بلکہ کسی نہ کسی طور پر اردو زبان و ادب سے بھی جڑا ہوا ہوں۔
میں محبوب الرحمن فاروقی کے احسانات کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ دلی کی چلچلاتی دھوپ میں چلتے چلتے جب میں تھک سا گیا تھا، امید کے سارے دیئے بجھ چکے تھے تو ان ہی کی شخصیت روشنی کی ایک کرن بن کر نمودار ہوئی تھی۔ زندگی کی تپتی دھوپ میں وہ میرے لئے شجر سایہ دار بن گئے۔ بے روزگاری کی مسلسل اذیت نے لاتقطنو من رحمۃ اللہ کی جو عبارت میرے ماتھے سے مٹادی تھی، وہ عبارت محبوب الرحمن فاروقی کی محبت سے پھر ابھر آئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ ان مع العسر یسرا۔ ان کے دست شفقت سے راستے روشن ہوتے گئے اور منزلیں ملتی گئیں۔ میری ہر منزل پر ان ہی کی محبت کا نشان ہے۔
فاروقی صاحب تک پہنچنے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن ذرا تاخیر سے ہفت روزہ اخبار نو کے دفتر پہنچا تو پتہ چلا کہ اس اخبار سے میری خدمات معطل کردی گئی ہیں۔ میں ایک بار پھر بے روزگار ہوگیا، کئی دن تک اپنے کمرے میں اداس اور افسردہ رہا، میری ساری قوت جواب دے چکی تھی۔ نہ کسی سے راہ و رسم، ایک اذیت تھی کہ میرے پورے وجو د سے لپٹی ہوئی تھی،میں اس دکھ اور کرب کے عالم میں اپنے چچا محمود عالم سے ملنے ترکمان گیٹ پہنچا۔ وہاں مجھے ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ’ آپ سے کچھ ضروری کام ہے۔ ممکن ہو تو آجکل کے دفتر میں آکر ملیں۔‘ نیچے محبوب الرحمن فاروقی مدیر’ ’آجکل‘‘ کے دستخط تھے۔ میں ایک دن بعد ’’آجکل ‘‘کے دفتر پہنچا۔ فاروقی صاحب بڑی محبت سے ملے، اپنے قریب بلایا اور کہنے لگے کہ ماہنامہ آجکل میں عینی آپا کے کارجہاں دراز ہے جلد سوم کا سلسلہ شروع کرنا ہے۔ انہیں ایک ایسے لڑکے کی ضرورت ہے جو ان سے صحیح صحیح ڈکٹیشن لے سکے۔ میں نے ان سے تمہارے بارے میں بات کر لی ہے تم کل ہی جا کر ان سے مل لو۔ اگلے دن میں عینی آپا کی رہائش گاہ سیکٹر25 جل وایو وہار نوئیڈا پہنچا اور رسمی گفتگو کے بعد کار جہاں دراز ہے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
میں صبح عینی آپا کے گھر جاتا اور دوپہر بعد آجکل کے دفتر آجاتا۔ فاروقی صاحب نے مجھے پروف پڑھنے کی اضافی ذمہ داری بھی دے دی تھی۔ میری بے روزگاری نے جہاں عینی آپا جیسی بڑی شخصیت تک مجھے پہنچایا وہیں آجکل جیسے موقر اور معتبر مجلہ سے بھی میرا رشتہ جوڑ دیا۔جس بے روزگاری نے مجھے شدید تنائو دیا تھا وہی اب میرے لئے ایک نئی توانائی کا ذریعہ بن گئی۔
محبوب الرحمن فاروقی صاحب کی محبت نے مدد کی ایک اور سبیل نکال لی کہ تبصرے کے لئے مجھے کتابیں دینے لگے اور ایک ہی شمارے میں میرے تین چار تبصرے شائع ہونے لگے۔
مجھے اس دفتر میں اتنی محبتیں ملیں کہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی میں آجکل کا ایک حصہ تھا، ڈاکٹر ابرار رحمانی، نرگس سلطانہ، رقیہ زیدی، منیر انجم سبھی میرا بے حد خیال کرتے تھے اور فاروقی صاحب کی محبت کا یہ عالم تھا کہ مجھے چائے پلواتے، کھانے کے لئے پیسے دیتے اور کوئی بڑا ادیب یا قلمکار آتا تو بڑی محبت سے میرا تعارف کراتے اور جب میں ادھر ادھر چھپنے کی کوشش کرتا تو آواز دے کر کہتے: ’’ابے کہاں چھپ رہا ہے‘‘ ان کے لہجے میں بڑی محبت اور شفقت تھی۔
رمضان کے مہینے میں مجھے اپنے ساتھ گھر لے جاتے، افطار کراتے اور رات کا کھانا کھلا کر ہی واپس بھیجتے۔ اور کھلانے میں بھی ان کا ایک خاص انداز ہوتا۔ یہ کھائو، وہ کھائو۔ وہ سچ مچ خلوص اور محبت کا ایک پیکر تھے میری ذات سے نہ ان کی کوئی منفعت وابستہ تھی نہ کوئی مفاد، میں ایک لاچار بے بس ان کے کس کام آتا مگر وہ تھے کہ مجھ پہ اپنی محبتیں نچھاور کرتے رہتے تھے۔فاروقی صاحب کی محبت نہ ملتی تو ادب میں آج میری کوئی پہچان بھی نہیں ہوتی۔ انہو ںنے ہی مجھے صلاح الدین پرویز سے ملوایا تھا اور ان سے کہا تھا کہ میرے پاس ایک ہیرا ہے اسے لے جا کر تراشو تمہارے بہت کام آئے گا۔ ان ہی کے کہنے پر صلاح الدین پرویز نے استعارہ نکالنے کا ارادہ کیا اور مجھے اس رسالہ کا شریک مدیر بنایا۔ اور استعارہ سے ہی مجھے ادبی دنیا میں تھوڑی بہت شناخت ملی۔
میں کہاں تک ان کے احسانات کا ذکر کروں؟ اور صرف میں ہی نہیں بہت سے قلم کاروں پر ان کے احسانات ہیں۔ کیا یہ ان کا کم بڑا احسان ہے کہ جب میں جملے جوڑنے کی مشق کر رہا تھا تو ان کی محبت اور حوصلہ افزائی نے تبصرہ لکھنے کا نہ صرف ہنر سکھایا بلکہ بڑے بڑے ادیبوں سے میرے مراسم قائم کردیئے۔ علی گڑھ میں بھوکا رہ کر میں جو کتابیں خریدتا تھا، وہ مجھے مفت میں ملنے لگیں۔ یہ فاروقی صاحب کا ہی فیض ہے کہ آج میرے پاس بیش قیمت کتابوں کا ذخیرہ ہے۔
اور یہ بھی ان کا احسان ہے کہ جس آجکل میں چھپنے کی خواہش برسوں سے تھی، میری وہ آرزو ان کے دور ادارت میں پوری ہوئی۔ مجھے آجکل کے معیار تک پہنچنے میں پورے سترہ سال لگے اور شاید پھر بھی میرا مضمون شائع نہ ہوتا اگر ان کی نگاہ محبت نہ ہوتی اور نئے قلمکاروں کے تئیں ان کا مشفقانہ رویہ نہ ہوتا۔ فاروقی صاحب اصول پسند تھے، Impartial تھے مگر اصولوں کی جگہ جذبات نباہنا بھی جانتے تھے۔
فاروقی صاحب کے اندر انا بھی تھی اور کجکلاہی بھی مگر وہ فرعون نہیں تھے جب کہ آجکل سطحی قسم کے مدیران بھی خدا کے لہجے میں بولنے لگتے ہیں۔ ان کے ہاں مصلحت اور ڈپلومیسی بھی نہیں تھی، جو کہنا ہوتا تھا، بے لاگ، بے خوف و خطر کہتے تھے۔ سرکاری اداروں کے بجٹ کے بے دریغ استعمال اور بدعنوانی پرانہوں نے لکھا اور کسی کی پرواہ نہیں کی کیوں کہ وہ دریوزہ گر نہیں تھے اور نہ ہی ہاتھ میں کشکول لیے پھرتے تھے۔ انہو ںنے آجکل کو اپنی شہرت، نام و نمود، پبلسٹی یا PR کا ذریعہ بھی نہیں بنایا۔
فاروقی لکیر کے فقیر نہیں تھے اس لیے انہو ںنے ادارتی سطح پر نئے تجربے کئے، زندہ شخصیات پر گوشے اور شمارے شائع کئے، آجکل میں باضابطہ اداریہ نویسی کا آغاز انہوں نے ہی کیا، اور ہر شمارے میں نئے موضوع اور مسائل پر اداریے لکھے اور ورنہ آجکل تو زیادہ تر رسائل کے مدیران گرامی برسوں سے ایک ہی اداریہ لکھ رہے ہیں ۔ فا روقی صاحب نے بہت ہی موثر اور منطقی انداز میں اداریے تحریر کئے ہیں۔ ایسے hard hitting اداریے لکھے کہ ان کے خلاف اکیڈمک مافیا نے مورچہ سنبھال لیا۔ نصابی اور اتالیقی نوعیت کی تحریریں لکھنے والوں نے محاذ کھڑا کر دیا۔ ترقی درجات کے لئے مضمون، مقالے لکھنے والے برافروختہ ہوگئے، انہوں نے جب اردو میں تحقیق کی افادیت یا Utility پر سوالات کھڑے کئے تو ایک بڑا حلقہ ان کے خلاف ہوگیا۔ مگر فاروقی صاحب نے پرواہ نہیں کی اور اپنی روش خاص پر قائم رہے۔ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اس کی پاداش میں ان کا تبادلہ بھی ہوا مگر فاروقی صاحب کی کجکلاہی قائم رہی۔
فاروقی صاحب نے آج کل کو بلند معیار عطا کیا۔ معیار سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جوش ملیح آبادی اور دیگر مدیران نے آجکل کو جو بلندی عطا کی تھی، اسے قائم رکھا۔
فاروقی صاحب میں بے پناہ ادارتی صلاحیت تھی، ان کی نظر اردو کے علاوہ دیگر ادبیات پر تھی۔ خاص طور پر انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ اور اپنی اس اہلیت کا انہوں نے استعمال بھی کیا۔ فاروقی صاحب بے نیاز اور مستغنی قسم کے انسان تھے اس لئے ان کا دامن اعزازات سے خالی رہا۔ وہ گیلی زمین کھود کر فرہاد بننے والوں میں سے نہیں تھے، بلکہ انہوں نے سنگلاخ زمین کو شاداب بنانے کے لئے بڑی جد و جہد کی ۔ یہی وجہ ہے کہ محبوب الرحمن فاروقی آج بھی قارئین کے ذہنوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ادبی صحافت میں محبوب الرحمن فاروقی کا جو نقش ہے اسے تناسخی گردشیں بھی مٹا نہیں پائیں گی۔ وہ اردو کے سچے جاںنثار تھے۔ ان کے دل میں صرف ایک درد تھا، اور وہ تھا اردو کا درد۔

Leave a Comment