ماہ نامہ معارف ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ یہ دائرۃ المعارف ہے ۔:پروفیسر اشتیاق احمدظلی

معارف ملت کا عظیم ترین سرمایہ ہے ۔:عزیز قریشی
ایک صدی کی علمی،ادبی اور فکری تاریخ کا مجموعہ ہے ۔:پروفیسر اخترالواسع
\"dsc_0106\"

نجیب آباد ۳،اکتوبر (اسٹاف رپورٹر) معارف ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ یہ دائرۃ المعارف ہے ۔یہ علم کا خزانہ ہے ۔اس کے مطالعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کے کیا مسائل تھے اور انھوں نے کہا ں سے سفر شروع کیا تھا او راب کہاں ہیں ۔ان خیالات کا اظہار شبلی اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے شفیق احمدانصاری ٹرسٹ کے زیر اہتمام نجیب آباد میں منعقد معارف صدی تقریبات کے تحت ’’معارف کا سوسالہ سفر:اردو صحافت کا سنگ میل ‘‘کے عنوان سے منعقد سمپوزیم کے صدارتی خطاب میں کیا ۔اتراکھنڈ ،میزورم اور یوپی کے سابق گورنر جناب عزیز قریشی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے ۔پروگرام کاآغاز شاہ نواز فیاض نے تلاوت کلام پا ک سے کیا ۔اس موقع پر معارف کے شذرات پر مشتمل دو خصوصی شماروں کی رسم اجرا انجام دی گئی ۔ سمپوزیم کے روح رواں جناب نوشاد انصاری کو شبلی اکیڈمی کی طرف سے سیرت النبی کا ڈیلکس ایڈیشن پیش کیا گیا ۔سمپوزیم کی نظامت ڈاکٹر شارق عقیل نے فرمائی ۔
پروفیسر ظلی نے صدارتی خطاب کے دوران کہا کہ ماہنامہ معارف سخت سے سخت حالات کے دوران بھی شائع ہوتا رہا۔انھوں نے کہا کہ ملی دردمندی علامہ شبلی کی بنیادی خصوصیت تھی اور اسی جذبے کے تحت انھوں نے کوشش کہ مسلمان احساس کمتری سے نکل جائیںشکست خوردگی کے بجائے وہ اپنے ماضی پر فخر کرسکیں اسی جذبے نے شبلی کو ایک تحریک کی شکل دی اور ماہنامہ معارف شبلی کی انھیں دردمندیوں کا اشاریہ ہے ۔
مہمان خصوصی جناب عزیز قریشی نے کہا کہ منتظمین کو اس اہم پروگرام کے لیے مبارک باد دی اور کہا کہ ماہنامہ معارف ملت کا عظیم سرمایہ ہے ۔انھوں ملی امور کے لیے کام کرنے پر زور دیا۔اس موقع پر انھوں نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ ہمیں سماجی اور فلاحی کاموں کے لیے خاص توجہ دینا چاہیے اور حالات سے گھبرانے کے بجائے جمہوری طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔مہمانان اعزازی اور ماہر اسلامیات اور مولانا آزاد یونی ورسٹی جودھ پور کے وائس چانسلر پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ شفیق احمد انصاری میموریل ٹرسٹ نے علم و دانش کے اس فرض کفایہ کو ادا کیا ہے جو پوری علمی دنیا پر فرض تھا۔انھوں نے کہا کہ ماہنامہ معارف ہماری سوسال کی علمی ،ادبی اور فکری تاریخ کا مجموعہ ہے ۔پروفیسر واسع نے مزید کہا اس نے عصری مسائل کو اور اپنے عہد کے مسائل جو جس طرح پیش کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے ۔مہمان اعزازی پروفیسر ہمایوں مراد نے کہاکہ شبلی اکیڈمی اور معارف دونوں نے علم و دانش کے میدان میں ہمارا سر بلند کیا ہے اور ایک تحقیقی اور علمی مزاج پیدا کیا ہے ۔شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر پروفیسر خالد محمود نے کہا نے کہاکہ اہل نجیب آباد نے آج معارف شناسی کا ثبوت دیا ہے ۔انھوںنے مزید کہا کہ غالب شناسی اور اقبال شناسی کی کوئی تاریخ معارف کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ۔پروفیسر خالد محمود نے شبلی اکیڈمی اور بھوپال کے علمی اور تاریخی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حوالہ جاتی رسالہ ہے اور علم و ادب کے بیشمار موضوعات کا معارف نے احاطہ کیا ہے ۔ڈاکٹر عمیر منظر نے کہا کہ معارف نے علم و تحقیق کے میدان میں اعتدال و توازن کی جو راہ دکھائی ہے وہ ادبی صحافت کا مینارہ نور ہے ۔انھوں نے کہا کہ معارف کا ایک اہم امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے ادب اور مذہب دونوں طرح کے مضامین شائع کیے اور یہ رسالہ اسی لیے دونوں حلقوں میں مقبول ہے ۔عمیر منظر کے بقول جس زمانے میں علامہ شبلی کی مخالفت میں لکھنے والوں نے طوفان اٹھا رکھا تھا معارف نے اس وقت بھی علم و تحقیق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس نے تنقید کے بجائے تحقیق کے رویے کو اختیار کیا اور اسی لیے معارف کا یہ سوسالہ سفرعلم و تحقیق کے لیے قابل فخر ہے ۔ابتدا میں نوشاد انصاری نے مہمانوں اور حاضرین کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ معارف کی طویل علمی اور ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری تھا کہ اس کی صدی کا شایان شان استقبال کیا جائے اسی لیے ہم نے اس شہر کا نہ صرف انتخاب کیا بلکہ شہر کے وسیع ہال کو بھی منتخب کیا اور اہم علمی اور ادبی شخصیات کو مدعو کیا ۔جناب شہزاد انصاری نے شکریے کے کلمات ادا کیے ۔اس موقع پر حافظ رئیس احمد ،سید ہاشم ،محمد عارف خاں،ہر پال سنگھ ایڈوکیٹ،کامریڈ رام پال ،قاضی ارشد مسعود(نگینہ )اور محمد ضیغم نے جلسے سے خطاب کیا اور معارف کی طویل علمی اور ادبی خدمات کا تذکرہ کیا۔مقررین نے یہ بھی کہا کہ رسالہ کے تعارف کے لیے باقاعدہ مہم چلای جانی چاہییے۔

Leave a Comment