مترنم لب و لہجے کی مشہور شاعرہ سائرہ بانو

سائرہ بانوؔ شخصیت اور فن

\"Dr
٭پروفیسر ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ
صدر شعبۂ اردو، جی ایس کالج کھام گائوں ضلع بلڈانہ ،صوبہ مہاراشٹر، انڈیا
مدیر اعلیٰ سہ ماہی عالمی اُردو ادب
مدیر اعلیٰ سہ ماہی اسکالرز امپیکٹ جرنل
www.scholarsimpact.com
9422926544  91+
ای میل۔  ragibdeshmukh@gmail.com
ragibdeshmukh@yahoo.co.in

\"05\"
اُردو ادب کی تاریخ کی بنیاد شاعری ہے جس کے سبب نثر پروان چڑھی پھر افسانے ، انشایہ نگاری ، سفر نامے اور مرثیہ نگاری کے شہ پارے منظرِ عام پر آئے ۔دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اُردو ادب کی تمام تر بنیاد شاعری ہے اور اسی شاعری کی اول اول اینٹ غزل ہیںآہ و بقا سے لرزاں ، جذبوں سے سرشار ، کوک مارتی ، دل کی سوزکاریوں کو مرصع کرتی یہ غزل دو سو سال سے زیادہ عرصہ لے چکی ہے۔ لیکن جذبوں اور دِل کے ارمانوں کو چین ہی نہیں آتا۔ گُل و بلبل کی باتیں ہوں یا غمِ دوراں کا قصہ ہوںغمِ جاناں کا تذکرہ ہویا حیاتِ جاویداں کی کہانی ہو کیا کچھ اِس میں نہیں آتااِس لئے غزل ایک مضبوط رابطہ حوالہ اور طریقہ ٔ اظہار کے طور پر ابھرتا ہے اور صنفِ نازک سے برتائو بھی اسی صنفِ سخن سے ممکن ہو چلا ہے۔ اور اگر دیکھا جائے تو اِسی شکوے کو مزید احسن طریقے سے برتنے کے لئے صنفِ نازک بھی اپنی طبع آزمائی کے لئے طبع زاد شاعری لئے کئی عرصے سے میدانِ عمل میں سرگرداں ہے۔ بہت سے نام ہیں خواتین کے غزل کی شاعری میں جو ایک مسلسل جہدو جہد اور اظہار پر یقین رکھتی ہوئی غزل کہتی رہیںاور بہت نام پایا نیز اُردو ادب کو کافی سرمایہ دیا۔ اسی سرمایۂ ادب کی ترویج کے لئے پاکستان اور باالخصوص خطۂ پوٹھوہار کہیں بھی پیچھے نہیں رہا۔ سنگلاخ اور بل کھاتی پہاڑیوں اور ندی نالوں کو سیراب کرتی پگڈنڈیوں کے حوالے سے یہاں کی خواتین جب شاعر ی کرتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جذبہ اور عشق کسی صنف کا محتاج نہیں، کسی فرد کی ملکیت نہیں بلکہ یہ تو آفاقیت ہے کہ جس نے شدت سے محسوس کر لیا اُس نے شاعری کی بنیاد رکھ لی۔ شاعری کی اس بنیاد میں\"01\" راوالپنڈی کی ایک شاعرہ شاعرات کی نمائندگی کرتی ہوئی ہونہار، جذبوں سے سرشار خوبصورت ، سادہ اور مرصع شاعری کی شاعرہ سائرہ بانوؔ ان دنوں آسمانِ ادب پر چمکتے ہوئے اپنی شاعری کے چراغ جلائے بیٹھی ہیں۔ اُن کے والدِ گرامی مرزا محمد پرویز(مرحوم) مغل گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور والدہ محترمہ زرینہ ملک کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سائرہ کی جائے پیدائش راوالپنڈی اور تاریخ پیدائش ۱۱نومبر ۱۹۸۳؁ء ہے۔ اِن کے شوہر عدیل عباس مغل باذوق تو ہیں ہی لیکن اِن کے بچوں شائمان عظیم ، حسان عظیم اور رُومان عظیم میں بھی جمالیاتی حُسن موجود ہے۔ ابھی طفلِ مکتب ہیں، دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ سائرہ بانوؔ آج کل وفاقی اُردو یونیورسٹی سے ایم فِل اُردو کر رہی ہیں۔وقت گزرتا جا رہا ہے اور محترمہ کی شعوری کیفیت بھی اپنے عروج پر جارہی ہے۔ (شوق اور ذوق)اگر یکسوئی کے ساتھ ہمسفر ہو جائیں تومنزل تک رسائی بہت آسان ہو جاتی ہے یہی حال سائرہ بانوؔ کا ہے۔ راستے کی دشواریوں نے اُس کا کچھ بھی نہیں بگاڑا اُس کا رفیقِ حیات جو اُس کا رفیقِ سفر بھی ہے ۔ ہمیشہ کی طرح معاونِ ذوق ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ تین بچوں کی ماں ہوتے ہوئے سائرہ بانوؔ ماں ہی نہیں بلکہ اُردو ادب کی ایک طالبہ ہیں اور پھر ایک خوبصورت جذبوں کی مالک متحرک شاعرہ محسوس ہوتی ہے۔ اِس نے اپنے اِرد گرد چند گُلوں اور پیڑوں سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ جن میں ڈاکٹر احسان اکبر، جلیل عالی ، نوشی گیلانی ، جمیل یوسف ، نسیمِ سحر ، نجف علی شاہ بخاری، ڈاکٹر محمد\"08\" فرحت عباس اور وفا چشتی جیسے لو گ اِس کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ ڈاکٹر ناہید قمر ، ڈاکٹر وسیم انجم ، ڈاکٹر منور ہاشمی ،ڈاکٹر عون ساجد نقوی، ڈاکٹر عابد سیال اور ڈاکٹر شفیق آصف کو اپنا استاد تسلیم کرتی ہے۔ فیض الاسلام میں کلیدی سطح ُپر پڑھاتے ہوئے خود پڑھنے کے عمل سے دوچار ہوئی اور ایم اے (اُردو) کرنے کے بعد ایم فِل اُردو کے حصار میں چلی گئی۔ اِس کا سبب اُردو اور اُردو زبان سے محبت کے ساتھ ساتھ شاعری سے پیار ہے۔ سائرہ اِس کی نشو ونما میں اپناخون صرف کرتی ہے اور پھر اِس کی تروتازگی کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے ، ناز کرتی ہے، اور محسوس کرتی ہے کہ اِس نے کوئی تعمیری کام سرانجام دیا ہے۔ اسے شاعری کا شوق ہے۔ اسے ادب سے لگائو اور پڑھائی سے اُنسیت ہے اور اِس کا سبب اسکی شاعری کے وہ استادِ محترم ہیں جو اِسے اِس دشت میں لائے۔ اِسے دشت سے گلِ گلزار بنانے کے عمل سے دوچار کیا اور پھر آبلہ پائی کے اِس سفر میں اُسے رونے بھی نہیں دیا۔ سائرہ بانوؔ کی شاعری کے اُستاد فرحت عباس ہیںجو اِس کی آبیاری کرتے آرہے ہیں۔ اُ ن کا خیال ہے کہ \”سائرہ بانوؔ کے اندر ایک پیدائشی شاعرہ موجود ہے۔ اس کے خدوخال کو سنوارنے ، نکھارنے اور تراشنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے سائرہ بانوؔ کو دِن رات محنت کرنی چاہئے\”۔اِس لئے اسے بڑے شعراء کا مطالعہ کرنا چاہئے اور ہمہ وقت کرنا چاہئے اُن کا خیال ہے کہ سائرہ بانوؔ میں یہ عالمی شاعرہ بننے کی اہلیت موجود ہے۔ اگر کہیں کسی پتھر نے اِسے نہ گرایا تو یہ شاعری کی پہاڑی سر کر کے دم لے گی۔ اِس کے استاد ڈاکٹر فرحت عباس جو کہ پینتالیس پچاس سالہ ریاضت یافتہ ہیںاسے بھی اِسی تجربے سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
سائرہ بانوؔ کی شاعری میں تکلف ، تصنع ، اہتمام اور آورد کا کوئی وجود نہیں ۔ اِسکی شاعری میں جذبات کی ترجمانی موجود ہے۔ وہ غمِ دوراں کے ساتھ کھیلتی ہوئی غمِ جاناں کو اپنا سرمایۂ حیات سمجھتی ہے۔ ایک مشرقی عورت کے جذبات بلا شبہ غمِ جاناں کی مرصع کاری کے لئے بہت موزوں نظر آتے ہیں۔ اسکے ہاں داخلیت اور خارجیت بدرجہ اُتم موجود ہے۔ اسے اپنے عہد کے سیاسی خلفشاروں اور تذبذب سے کیا لینا۔ فرصت ہی کم کم ہے اِدھر اُدھر دیکھنے کو ۔
\"07\"
یہ ستارہ شناس بھی بانوؔ
کہکشائوں میں اب چمکنے لگی
سائرہ بانوؔ کی شاعری مصورانہ شاعری ہے ۔ بہت کم تشبیہات اور استعارات کا سہارا لتی ہوئی یہ شاعرہ اپنے تجربات اور احساسات کا اظہار کرتی ہے اور انتہائی سادگی سے بڑی سے بڑی باتی کہہ جاتی ہے۔
سائرہ بانوؔ کا شعر قابلِ فہم، مانوسیت کا حامل اور قابلِ قبول ہے اسے ادراک ہے کہ افلاک تک پہنچنے کے لئے کون سی راہ اختیار کرنی ہے۔اس کا مسئلہ زبان دانی نہیں بلکہ زبان درا زی ہے۔ اس کا مسئلہ سخن تراشی نہیں بلکہ سخن نوائی ہے۔ اسے سخن ور ہونے سے زیادہ سخن طرز ہونا اچھا لگتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سہلِ ممتنع شاعری کرتے ہوئے شاعرات میں بالخصوص اپنا مقام بنائے چلی جارہی ہے۔
وہ کہتی ہے!
عزم و ہمت کا میں ستارہ ہوں
آپ اپنا میں خودسہارا ہوں
اپنی محفل میں کیوں بُلائیں گے
میں کہاں اب انہیں گواراہوں
\"03\"
سائرہ کے کلام میں فارسیت بہت کم ہے اور وہ محاوراتی شاعری کو بھی قریب الفہم کرنا چاہتی ہے۔ اسکی شاعری اُسکی عمر کے تجربے کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور اُسکی عمر کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ سائرہ بانوؔ نے اپنی شاعری کا آغاز تقریباً سولہ برس کی عمر میں کیا اور اب تک اِسکا شاعری تجربہ بھی لگ بھگ سولہ برس کا ہے۔ سولہ کا سن ویسے بھی تھرتھراہٹ کے عمل سے دوچار رکھتا ہے۔ اس لئے شاعری میں بانکپن ، نکہت ، سرور اور جواں جذبوں کی عکاسی ہے۔ اسکی شاعری میں شاعرانہ تھرتھراہٹ سائرہ کے س کی سرسراہٹ اور بانوؔ کے ب کی طرح بانکپن سے آراستہ ہے۔ سائرہ کی شخصیت متاثر کُن اور سیماب صفت ہے۔ اُسے ٹکرائو سے نفرت اور سے اُلفت ہے۔ وہ نفرت سے انکار اور خواہشات کو مارکر اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ عدیل جذبوں کی عکاس ہے۔ اور پرویزیت کی سرشاری میں گُم سُم اُسے اپنے مشن ، اپنے عہد، اپنے وَچن، اپنے دیس، اپنی زبان،اپنے ماحول اور اپنے اطراف کے ساتھ ساتھ اپنی ذات سے بھی بہت پیار ہے۔ وہ کہتی ہے۔
زمیں والے فسادی ہو گئے
فلک کی سمت آنا چاہتی ہوں
۔۔
بہت سکوں بہت قرار پایا ہے
تیرے وجود کا صدقہ اُتار کر میں نے
لٹا دیئے ہیں وہ خواہش کے جو خزانے تھے
وہ سب حسین سے جذبوں کو مار کر میں نے
الغرض سائرہ بانوؔ کی شاعری اُن کی شخصیت اور اُن کے حالات کے ساتھ ساتھ اُن کے اندرونی جذبات اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔ جس میں شعور ، محبت، چاہتیں، بے چینی، فساد، آسمان ، زمین خوشبو ، ہوا اور زندگی کے تسلسل کی کہانی موجود ہے۔اور لمحۂ موجود کے ساتھ رہتے ہوئے مستقبل کی آئینہ داری میں مصروفِ عمل ہے۔
میں نے بانٹی ہیں چاہتیں بانوؔ
میں محبت کا استعارہ ہوں
آئیے سائرہ بانوؔ کے چند اشعار دیکھتے ہیںاور اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ شاعری اور بالخصوص اُردو غزل میں کہاں تک انصاف کر پائی ہیں۔ غزل بتائے گی کہ غزالہ یعنی سائرہ بانوؔ ؔ کیا کیا کہتی ہیں۔ اور مستقبل میں کیا کیا کہنے اور سنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ہیں کمالات یہ تخیل کے
شعر ہوتا ہے جب شعور آئے
۔۔
جلا ہے آشیاں میرا، کٹے ہیں میرے بازو بھی
میری نسبت حسینی ہے مجھے پیاسا ہی رہنے دو
۔۔
آج موسم رفو گری کا ہے
آج سینے کا زخم سِلنا ہے
۔۔
اپنے منصف کو کر دیا مصلوب
کیسی خلقت ہے ، کیا وکالت ہے
۔۔
اب ترے شہر سے نکلنا ہے
اور مجھے راستہ بدلنا ہے
۔۔
جتنے منظر تیری آنکھ سے ہیں اوجھل
میں نے وقت کی آنکھ میں لکھے دیکھے ہیں
۔۔
سائرہ کی شاعری میں داخلیت اور خارجیت دونوں پائے جاتے ہیں۔ وہ غمِ جاناں کا تذکرہ غمِ دوراں کے ساتھ ساتھ کرتی ہے۔ اُسکی شاعری میں اُسکی ذات سے وابستہ کرب کے لمحات بھی جھلکتے ہیں اور خوشی کے بھی ۔ وہ کہتی ہے

عزم وہمت کا میں ستارہ ہوں
آپ اپنا میں خود سہارا ہوں
اپنی محفل میں کیوں بلائیں گے
میں کہاں اب انھیں گوارا ہوں
میں تجھے راہ کیسے دِکھلائوں
خود میں بھٹکا ہوا ستارہ ہوں
تیری محفل میں جب سے آئی ہوں
میں حوالہ ہوں، میں اشارہ ہوں
میں نے بانٹی ہیں چاہتیں بانوؔ
میں محبت کا استعارہ ہوں
\"02\"
اس کی شاعر ی میں عہدو پیماں کے ادھورے پن کا قصہ بھی ہے اپنوں کی جفائوں کی باتیں بھی۔ لوگوں کے تلخ لہجے جو تازیانہ بن کے اُس پر برستے رہے اُس کا بیان بھی ۔
وفا کمزور پڑ جاتی ہے جذبے ہار جاتے ہیں
انا کی جنگ میں جنمو ںکے رشتے ہار جاتے ہیں
اپنی ایک غزل میں وہ کہتی ہے ۔۔۔!
لوگ وعدے وفا نہیں کرتے
ورنہ دُنیا میں کیا نہیں کرتے
تیری چاہت ہے وجہہ رنج و الم
دیکھو ایسے جفا نہیں کرتے
لفظ تیرے تو تازیانے ہیں
ہم تو پھر بھی گِلہ نہیں کرتے
دِل کو شاید لگا لیا ہے کہیں
روگ ایسے لگا نہیں کرتے
بانوؔ اُس کے یہ ناروا سے سلوک
پیار کا حق ادا نہیں کرتے
سائرہ بانوؔ آئے روز کے خلفشار اور ملک کے بگڑتے ہوئے حالات سے پریشان نظر آتی ہے۔ ایک شاعرہ ہونے کے ناطے چھوٹی سے چھوٹی پریشانی کو محسوس کرتی ہے اور اُسے اپنی شاعری کا حصہ بناتی ہے۔
سچ اور جھوٹ کا ہے بانوؔ ادراک مجھے
لمحہ لمحہ سچے جھوٹے دیکھے ہیں
سائرہ کی شاعری میں خوشی اور کہیں کہیں رومانیت کے عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔
تیرے دِل کے قریب ہو جائوں
کاش میں خوش نصیب ہو جائوں
حساس طبیعت کی مالک ہونے کی وجہ سے وہ بھی دوسرے شعراء کی طرح دسمبر سے متاثر نظر آتی ہے۔ دسمبر سائرہ کو اُداس کرتا ہے۔ دسمبر پر کہی ایک غزل میں وہ کہتی ہے
دسمبر کس طرح گزرا کبھی تُم نے یہ سوچا ہے
مِرا دِل کس طرح تڑپا کبھی تُم نے یہ سوچاہے
مجھے تو وصل موسم کے تقاضوں نے رُلا ڈالا
مجھے کس سے پڑا پالا کبھی تُم نے یہ سوچا ہے
مجھے اِس کی خبر کیاہے رواں کب سے ہوا کیسے
مِرا نم ناک یہ نالا کبھی تُم نے یہ سوچا ہے
تمہاری یاد میں لکھا تمہیں جو گیت میں گایا
کوئی بھُولا کوئی بسرا کبھی تُم نے یہ سوچا ہے
دسمبر جا چکا بانو مری تنہائی میں لیکن
کوئی اپنا نہیں آیا کبھی تُم نے یہ سوچا ہے
سائرہ کی شاعری کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُس کی شاعری غم اور خوشیوں کے ان گنت رنگوں سے بھرپور ہے ۔ اُس کی شاعری نہایت سادہ اور سہل ہونے کے باعث ہر ایک کو با آسانی سمجھ میں آتی ہے اور دِلوں پر اثر کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تیزی سے کامیابی کی منازل طے کر رہی ہے اور عنقریب وہ اُردو ادب میں اپنا نمایاں مقام بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
\"04\"

Leave a Comment