از قلم : احمد نثارؔ
شہر ممبئی کا جنوبی علاقہ، ہاربر لائن پر ایک ریلوے اسٹیشن ہے جس کا نام ہے’ مسجد بندر‘۔ اس علاقے اور اس ریلوے اسٹیشن کو یہ نام یہاں کی ایک مشہور مسجد کی وجہ سے موسوم ہوا۔ جب مشہور مسجد کاذکر ہو تو اکثر و بیشتر لوگوں کے ذہن میں لمبے مینارے، گنبد، اسلامی طرز میں نقش و نگار اور موذن کی اذان آئیں گے۔ لیکن یہاں ایک نہایت ہی خوبصورت اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاں یہاں ایک مشہور مسجد ضرور ہے مگر یہ مسجد یہودی برادران کا ایک سیناگوگ ہے۔ چونکہ یہ مسجد بنی اسرائیل کی مسجد ہے اوراور یہودی مسجد یا بنی اسرائیل کی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ آج بھی اس سیناگوگ کو مسجد ہی کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس علاقے کو یہ نام کیوں اور کیسے آیا۔ جب اس بات کا پتہ چلتا ہے تو حیرت بھی ہوتی اور خوشی بھی۔
اس مسجد کی تاریخ کے صفحات کو اگر الٹ کر دیکھیں تو ٹیپو سلطان کا نام ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اور روایات یہ بھی ہیں کہ اگر ٹیپو نہیں تو یہ مسجد بھی نہیں۔ در اصل بات یہ ہے کہ ٹیپو کے دور میں اینگلو میسور جنگیں ہوئیں۔ ٹیپو نہیں چاہتے تھے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ملک اور اپنی سلطنت میں پنپے اور آباد ہو۔ اس تسلسل کی جنگوں میں ٹیپو سلطان نے کئی انگریزی جنگجوئوں کو قید کرلیا، جن میں دو بہادر فوجی تھے انہیں ٹیپو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا۔ان کو سزائے موت سنائی جانے والی تھی۔ لیکن کچھ یوں ہوا کہ ٹیپو سلطان بڑے دانا تھے، ان دو بھائیوں کی شکل و شباہت دیکھ کر ان سے بڑے اشتیاق سے پوچھاکہ ’تم کس مذہب کے پیرو کار ہو؟‘، دونوں بھائی بھی ذہین و دلیر تھے، نہایت سوجھ بوجھ کے ساتھ بڑی دلچسپ بات کہی، شاید اس خیال سے کہ یہود و نصارا کا نام لیں تو ٹیپو انہیں نہیں بخشیں گے، اس لیے کہا کہ’’ ہم بنی اسرائیل سے ہیں‘‘، ٹیپو کو اس جواب پر بڑی حیرت ہوئی، غالباً ان کو بنی اسرائیل کے متعلق معلومات کم تھی۔ یہ بات ٹیپو کی ماں صاحبہ تک پہنچی ۔بنی اسرائیل کے نام کو سن کر ٹیپو کی ماں صاحبہ کا دل بیچین ہوا اور سوچا کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو ایک دور میں بڑی فضیلت بخشی تھی اور مداخلت کرتے ہوئے ٹیپو سے کہا کہ ’’انہیں معاف کرکے جاں بخشی کی جائے‘‘۔ ٹیپو نے ماں کی بات کا احترام کرتے ہوئے انہیں بخش دیااور مہ مال و دولت آزاد کردیا۔
وہ دونوں بھائی ممبئی آئے اور۱۷۹۶ء میںیہاں ایک سیناگوگ کی تعمیر کی۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس سیناگوگ کو’’ شار ہراحمیم‘‘ رکھا جسے انگریز ی میں Gate of mercy Synagogue ’گیٹ آف میرسی سیناگوگ‘ کہتے ہیں۔ دنیا کے اکثر مقامات پر اس طرز کے گیٹ آف میرسی سیناگوگ دیکھے جاسکتے ہیں، جس کے معنی ہیں باب الرحم سیناگوگ یا بابِ رحمت سیناگوگ۔ اس علاقے کے لوگ اس کو ’’جونی مسجد‘‘ (پرانی مسجد) کے نام سے بھی جانتے اور پہچانتے ہیں۔
ان دونوں بھائیوں میں سے ایک تھے سیمیول یزکیل دِویکر، انہیں مقامی لوگ اپنی بولی کی طرز میں ’سماجی ہساجی دویکر‘ کہتے تھے، اور انہیں کے نام سے اس مسجد والی گلی کانام سیمیول دویکر گلی رکھا گیا ہے۔
یہ مسجد یہود برادری کے لئے کھلی رہتی ہے۔ سنیچر کو یہاں یوم شبات کے لئے بنی اسرائیل شریک ہوکر مذہبی رسومات و عبادات ادا کرتے ہیں۔ہر شبات کو تقریباً ۵۰ یہودی اس مسجد میں حاضر ہوتے ہیں۔ ان کی عبادتوں میں ، شبات کی تیاری، غسل، الٰہی کی توصیف میں گیت گانا، ثنا خوانیاں، اور تورات کی تلاوت شامل ہیں۔
ہندوستان میں یہودیوں کی ایک خاص تعداد بھی ہے۔ حال ہی میں ہندوستان کی حکومت نے اس قوم کو اقلیت کا درجہ بھی دیا ہے۔
٭٭٭٭
تحقیق و تحریر : احمد نثارؔ
مہاراشٹر، بھارت
E-mail : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in
Mob : 9325811912