٭ڈاکٹر وسیم انور
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہء اردو فارسی،ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونی ورسٹی,ساگر ایم پی 470003
تعلیم معاشرے کی ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے، جو قوم تعلیم حاصل کرتی ہے اورسائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں تربیت حاصل کرتے ہوئے نئے علم کی روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے، وہی ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہوتی ہے اور جو قوم تعلیم و تربیت سے دور ہوکر توہم پرستی اور اندھ وشواسوں میں پڑ جاتی ہے، وہ ترقی کی راہ میں بھی پچھڑجاتی ہے، یعنی تعلیم و تربیت کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں نے ہمیشہ ترقی کی ہے۔ تعلیم کسی بھی شخص کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ جہاں مختلف برادری تعلیم کو خصوصی اہمیت دے رہی ہیں، اس معاملے میں مسلم معاشرہ اب بھی بہت پسماندہ ہے۔ خاص طور پر ہندوستان میں مسلمان خواتین کی حالت بے حد بدتر ہے۔
مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب تلاش کرنے کے لئے ۲۰۰۵ء میں منموہن سنگھ حکومت نیجسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جس کا اصل مقصدپورے ملک کا سروے کرکے مسلمانوں کی معاشی تعلیمی اور معاشرتی حیثیت کا پتہ لگانا تھا۔ جسٹس راجندر سچر نے پورے دیانتداری اور محنت کے ساتھ پورے ملک کا جائزہ لیا۔اس تشخیص کے دوران، مرکزی حکومت ، ریاستی حکومت کے مراکز ، سرکاری و نیم سرکاری ،نجی تعلیمی مراکز اور مدارس وغیرہ کے تحت تمام محکموں کو شامل کیا گیا۔ ان جگہوں پر مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے اور ان کی معاشی اور معاشرتی حیثیت کیا ہے؟ اس رپورٹ میں مسلمانوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن اس مضمون میں، مسلمانوں کی تعلقی حیثیت مقصودہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو سمجھنے کے لئے، یہ بہت ضروری ہے کہ ان کے معاشرتی تانے بانے کو سمجھا جائے۔
مسلمانوں میں ذات پات:
سچر کمیٹی کی رپورٹ میں، مسلمانوں کے اندر ذات پات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسلمانوں میں ذات پات اسی طرح موجود ہے جیسے ہندوؤں میں۔ ذات پات کا یہ نظام مسلم پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں، عرب مسلم تاجر تجارت کی غرض سے بھارت آئے اور بہت سے لوگوں نے ان سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیا، جس میں زیادہ تر ہندو مذہب ترک کرکے مسلمان ہوئے تھے، اس لئے ہندوؤں میں موجود ذات پات کا نظام مسلمانوں میںبھی موجود رہا۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کے تین درجوںکی نشاندہی کی گئی۔
۱۔اشراف
۲۔اجلاف
۳۔ارذال
شادی،بیاہ اور رشتہ داری کے معاملے میں ذات پات اور اونچ نیچ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اشرف ذاتوں میں شیخ ،سید ، مغل اور پٹھان شامل تھے، بعد میں راجپوتوں کوبھی شامل کیا گیا۔ اشرف کی برتری کی وجہ ان کا غیر ملکی ہونا سمجھا جاتا ہے، جو محض افسانوی ہے۔ اجلاف میں محنت کش طبقہ جیسے جلاہے آتے ہیں۔ نائی، دھوبی ،بھنگی، چمار، کنجڑے ،قصائی اور نچلی ذاتیں ارذال ہیں۔
نچلی ذات کو اچھا کھانا کھانے جیسے پلائو یا بریانی بنانے، تعلیم حاصل کرنے ، اسلامی نام رکھنے اور یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں پکے مکانات بنانے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ پردہ صرف اشراف کی خواتین کے لئے مخصوص کیا گیا تھا، اور دوسرے طبقوں کی خواتین کو پردے سے روکاجاتا تھا۔ نچلی ذات کی خواتین اشراف کی خوشنودی اور جنسی تسکین کا سامان تھیں۔ کچھ نچلی ذات کی خواتین جیسے کنجر ذات کی عورتوں کو طواف بنایا جاتاتھا۔
مسلمان فرقے اور اسلامی مسلک:
آج کے مسلم اسلام کو ماننے کے طریقے یعنی مسلک کی بنیاد پرمتعدد فرقوں میں منقسم ہیں۔ بنیادی طور پر دو ہی فرقے سنی اور شیعہ ہیں، لیکن ان فرقوں کو بھی کئی اور فرقوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔
یہاں صرف کچھ اہم فرقوں کے نام لکھے جارہے ہیں۔
اہل سنت الجماعت:۔مقلد : (۱)حنفی: بریلوی ،دیوبندی(۲)شافعی(۳)مالکی(۴)حنبلی
غیر مقلد(۱) اہل قرآن (۲)اہل حدیث(۳)جماعت اسلامی
شیعہ:۔(۱)اثنا عشریہ(۲) فقہ جعفریہ (۳ ) باطنیہ (۴ )علویہ
اس کے علاوہ احمدیہ وغیرہ اور بھی بہت سے فرقے ہیں ۔ جن کے ماننے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
ان تمام فرقوں میں اسلام مذہب کو لے کر بہت زیادہ نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو کافرکہتے ہیں ۔ ان کی مساجد الگ الگ ہیں، آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ان کے قبرستان بھی الگ الگ ہیں۔
مسلمانوں کا عالمی منظرنامہ:
موجودہ دور میں، مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا گراف تشویشناک ہے۔ ۵۷ آزاد خود مختار اسلامی ممالک کی آبادی تقریباً سوا ارب ہے۔ اس آبادی کا چالیس فی صد حصہ ناخواندہ( ان پڑھ) ہے۔
عالمی سطح پر، سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں مسلم عوامی وسائل صرف چار فیصدہیں۔ سائنس سے متعلق ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں اور بیس لاکھ سائنسی تحقیقی مقالے ہر سال شائع ہوتے ہیں جبکہ اسلامی ممالک میں سائنسی کتابوں اور تحقیقی مقالوں کی کل تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔
یہ سب صرف مسلم آبادی کی موجودہ تعلیم سے دوری اور ان کی پریشان کن تعلیم پسماندگی کا ثبوت ہے، اسی طرح دینی تعلیم میں بھی مسلمانوں کی ترقی قابل ذکر نہیں ہے۔
مسلمان دنیا بھر میں کتابیں پڑھنے والوں کی فہرست میں بھی پیچھے ہیں۔
یورپ میں، فی فرد سالانہ 35 کتابیں پڑھی جاتی ہیں۔ اسرائیلی سال میں اوسطا ً40 کتابیں پڑھتے ہیں۔ جبکہ مسلمان سالانہ ایک یا کم کتاب پڑھتے ہیں۔ عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل رپورٹ 2011 کے مطابق، یورپی شہری سال میں 200 گھنٹے پڑھتے ہیں، جبکہ عرب مسلمان سال میں صرف 6 منٹ پڑھتے ہیں۔
تعلیم کی اہمیت سے کسی کو بھی انکارممکن نہیں ہے۔ اگر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر گہری نگاہ ڈالیں تو ہمیں خود بخود اندازہ ہو جائے گا کہ کسی ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی میںتعلیم کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ تمام ترقی یقفتہ ممالک تعلیم بھی سب سے آگے ہیں،جو انھیں نہ صرف بیرونی ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی مضبوط بناتا ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کی حیثیت:
ہمارا ملک ہندوستان تعلیم اور ٹکنالوجی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ آج تقریباً 80 فیصدآبادی کے خواندگی کا دعوے کیے جا رہے ہیں۔ خواندگی کے معاملے میں ہندوستان کی پسماندگی کی سب سے اہم وجہ دلتوں اور پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی تعلیم سے دوری ہے۔
اگر طبقات کے اعتبار سے خواندگی پر نظر ڈالیں تو ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق، اقلیتوں کی آبادی یعنی مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ اور زرتشت اور ان کی خواندگی کی شرح مندرجہ ذیل ہے۔
شمار معاشرہ آبادی کی شرح خواندگی کا فیصد
1 مسلمان 12.4% 59.1%
2 عیسائی 2.3% 80.3%
3 سکھ 1.9% 69.4%
4 بدھ 2.7% 0.8% 7
5 زرتشترین 0.007% 97.9%
جسٹس سچر نے اپنی رپورٹ میں پیش کیا کہ مسلمان اس ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں، نہ تو معاشی طور پر مضبوط ہیں اور نہ ہی معاشرتی طور پر دیگر قوموں کے مقابلے میں اچھی پوزیشن میں ہیں۔ تعلیم کے میدان میں اور بھی انتہائی پسماندہ ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں ہندوستان کے دلتوں اور قبائلی قسم کے پسماندہ طبقات سے بھی پیچھے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کی حالت اور بھی خراب ہوتی جارہی ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میںاور پچھڑتے جا رہے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، 25فیصدمسلم بچے یا تو کبھی اسکول ہی نہیں جاتے ہیں یا جاتے ہیں، توبیچ میں ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے بارے میں عام رجحان ہے کہ وہ بنیاد پرست اور قدامت پسندہوتے ہیں۔ اس لئے اپنے بچوں کو مدرسوں میں دینی تعلیم حاصل کرواتے ہیں، لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ میں اس وہم سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔
مدرسوں میں 4%
سرکاری اسکولوں میں 66%
نجی اسکولوں میں 30%
آج ہندوستان کی مسلم آبادی 14.23 فیصد ہے جبکہ بھکاریوں میں وہ 25 فیصد ہیں۔ سچر کمیشن کی رپورٹ میں پہلے ہی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہوگئی ہے۔
آج بھی، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے چودہ سال بعد بھی، مسلمانوں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں ہوسکی، تعلیم ،ملازمتوں اور انسانی ترقی کے دیگر اشاریوں میں بھی صورتحال ویسے ہی بنی ہوئی ہے، کچھ معاملات میں ان کی حالت اور بھی بدتر ہوگئی ہے۔
2001 سے 2011 کی مردم شماری کے مطابق، مسلم آبادی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن آج بھی مسلم معاشرے کی آمدنی دوسری برادری کے مقابلے میں کم ہے۔ کچھ اشارے درج ذیل ہیں:
فی شخص اوسطا ً خرچ 33 روپیے
سرکاری ملازمتوں میں مسلمان 5 فیصد سے کم ہیں
آئی اے ایس اور آئی پی ایس میں 3 فیصد
فوج اور سیکیورٹی فورس 3.2 فیصد
ریلوے 4.5 فیصد
بینک 2.2 فیصد
ناقص تعلیمی حالات اور مہارت کی کمی کی وجہ سے روزگار کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیم اور روزگار نہ ملنے کی وجہ سے انتہائی غربت ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں، بچے اور بوڑھے لوگ غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مسلمان اقلیتی طبقہ کے تین چوتھائی حصہ ہے۔ ان کی نشوونما کے بغیر، ہندوستان ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
مسلمانوں کی حالت کے اسباب اور اقدامات:
مسلم معاشرہ بہت سارے مذہبی مسالک اور حلقوں میں اس قدر منقسم ہے کہ ان کے مابین کوئی بات چیت نہیں ہوتی ہے۔
ہرمسلک کے لوگ صرف اپنے مولویوں اورمفتیوں کی بات سنتے ہیں۔ عام طور پر مولوی اور مفتی تعلیم پر زور نہیں دیتے ہیں، کیوں کہ تعلیم انسان کو اندھی مذہبیت سے باہر نکال دیتی ہے، اور مولوی نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے پیروکار ان کی گرفت سے باہر نکل جائیں۔ پیروکار جتنے زیادہ ہوں گے، اتنا ہی زیادہ وہ عام انتخابات میںتول مول کرسکتے ہیں۔
تمام مسالک کے بیشتر مسلم مذہبی پیشوا شیخ ،سید ،مغل ،پٹھان یعنی اشراف ہیں اور وہ اجلاف اور ارذال کو تعلیم کا اہل نہیں سمجھتے ہیں،لہٰذا صرف مذہبی رسومات یعنی روزہ ،نماز، حج اور زکوٰۃ کے ہی درس دیئے جاتے ہیں اور دینی تعلیم پر دنیاوی تعلیم کو قربان کر دیا جاتا ہے۔
موجودہ مسلم نسل کے درمیانے طبقے کے اندر ایک خاص قسم کا خود اطمینان، کاہلی اور خود غرضی پیدا ہوگئی ہے۔ وہ خود پسندی میں گرفتارہے اور دوسروں کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ دوسری طرف ایک مسلم تاجر طبقہ ہے جواپنے اپنے مسلک کے مولوی مفتی کے زیر تسلط رہتے ہیں اور صرف کمانے اور دکھاوے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان حالات میں، مسلم معاشرے کو اس صورتحال سے دور کرنا اور آگاہی پھیلانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
قوی امیدہے کہ کچھ عرصے بعد، اسی متوسط اور کاروباری طبقہ میںبیداری آئے گی اور معاشرے میں تعلیم کے پھیلاؤ میں اضافے کے لئے زمین ہموار ہو گی۔ مذکورہ بالا صورتحال شمالی ہندوستان کی ہے۔جنوبی ہند کے مسلمانوں میں مذہبی اور معاشرتی فرق پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اور کچھ ادارے مسلم معاشرے میں کام کر رہے ہیں، لیکن یہ ناکافی ہے۔ مسلم معاشرے میں چلائے جانے والے زیادہ تر پروگرام مذہبی وابستگی سے باہر نہیں نکل پارہے ہیں۔ جدید تعلیم، نئی تربیت کے لئے جو کام مسلم علاقوں میں ہونا چاہئے، وہ نہیں ہو رہا ہے، اور یہ کام مسلمانوں کے تعاون کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے۔
دلت آبادیوں اور مسلم آبادیوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ غریب مسلمان اور دلت لوگ پسماندہ بستیوں میں رہتے ہیں، جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سڑکیں، بجلی، پانی، صحت کے مراکز، اسکولوں وغیرہ نہیں کے برابر ہیں، اور اگرہیں بھی تو ان کی حالت خراب ہے۔
دلت مسلمانوں سے زیادہ بیدار ہیں۔ انہیں جیوتی راؤ پھولے اور امبیڈکر کی میراث حاصل ہے۔ کچھ حکومتی پالیسیوں اور تحفظات کی وجہ سے دلت تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہوچکے ہیں، جس سے مسلمان محروم ہیں۔
غریب مسلم بچوں کے ساتھ اسکولوں میں تفریق اور امتیازی سلوک کرتے ہوئے انہیں بار بارپریشان کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اسکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ زیادہ تر مسلمانوں کی معاشی حالت بھی کمزور ہے جس کی وجہ سے ان کے بچے اسکولی تعلیم اور اعلی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ہیں،اس لئے پڑھائی بیچ میں چھوڑدیتے ہیں۔انہیں خاندان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کمانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ چھوٹے موٹے کام سیکھ کر یا مزدور کی حیثیت سے کام کرکے اپنی زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔
مسلم خواتین کی تعلیم پر عام عقیدہ یہ ہے کہ وہ پردہ کرتی ہیں،گھروں میں قید ہیںاس لئے ان پڑھ ہیں۔ تنگ نظر افراد نے مسلم خواتین کو نئی تعلیم وتربیت سے دور رکھ کر صرف دینی تعلیم پر زور دیا ہے۔ مسلم مذہبی بنیاد پرستوں نے مذہب کا سہارا لے کر خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ اس کی مخالفت کرتے ہوئے، زویا حسن لکھتی ہیں کہ:
\’\’ایک مسلمان عورت کی ہندوستان میں تعلیم نہ لینے کی بنیادی وجہ غربت ہے۔ ان کا مقام شیڈول ذات کے جیسا ہے، جس کی وجہ سے شیڈول ذات کی عورتیں نہیں پڑھ سکتی ہیں۔ مذہب اور پردہ اتنی بڑی وجہ نہیں ہے۔ معاشرتی اور معاشی پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے، مسلمان عورت کی حیثیت کو بخوبی نہیں سمجھا جاسکتا۔ \’\’
ایسا کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ مسلم سماج کے طبقاتی منقسم طبقوں میں معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی، روزگار اور مہارت کی ترقی وغیرہ میں کتنے فیصد اشراف، اجلاف اور ارذال ہیں۔ قیاس آرائی کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اشراف ایک متوسط طبقہ ہے، اجلاف پسماندہ ہے اور ارذال بے حدپسماندہ ہے۔ جسٹس سچر نے جو کچھ کہا ہے وہ مسلم برادری کے ایک بڑے طبقہ اجلاف اور ارذال پر ثابت ہوتاہے کہ وہ دلتوں سے زیادہ پسماندہ ہیں۔
٭٭٭
Dr. Waseem Anwar
Assistant Professor
Department of Urdu & Persian
Dr. H. S. Gour University, Sagar M. P. 470003
wsmnwr@gmail.com, 09301316075