کھام گائوں ضلع بلڈانہ صوبہ مہاراشٹر میں تحفظ شریعت کمیٹی کے بینر تلے ہزاروں فرزندان توحید نے جلسے میں شرکت کی
تحفظ شریعت کانفرنس میں عوام کا جمِ غفیر ، مسلم پرسنل لاء کی پر زور تائید اور یکساں سول کوڈ کی شدید مخالفت
٭ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ
کھام گائوں،۰۸؍نومبر،موجودہ حالات میں مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت نیز مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوششوں، یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی تیاری کیخلاف ملک بھر میں احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔ اسی سلسلہ کی کڑی کو جاری رکھتے ہوئے کھام گائوں ضلع بلڈانہ مہاراشٹر میں تحفظ شریعت کمیٹی و اراکین کھام گائوںکی جانب سے مقامی بھارت رتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نگر پریشد میدان پر آج بروز منگل ۸؍نومبر کو صبح ۹ ؍ بجے سے دوپہر ۱؍ بجے تک عظیم الشان احتجاجی اجلاس کا انعقاد کیا گیا ہے۔جس میں مقررین نے شریعت میں مداخلت کی جم کر مخالفت کی۔ تمام مکاتب فکر کے علماء نے خطاب کے دوران کہا کہ’’مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کیلئے شرعی قوانین میں ترمیم کرنے کی ناپاک کوشش ہورہی ہے جسے مسلمان قطعی برداشت نہیں کرسکتے۔ حکومت شریعت میں مداخلت نہ کرے اور سپریم کورٹ میں دائر تین طلاق کا حلف نامہ فوراً واپس لے۔‘‘ اس جلسے میں شریک مظاہرین اپنے ہاتھوں میں جھنڈے اور یکساں سول کوڈ کے خلاف تحریر کردہ بینر تھامے ہوئے تھے۔ جلسہ گاہ میں نعرہ تکبیر اور ہندوستان زندہ باد کے نعروں سے میدان گونجااٹھا تھا۔
مفتی اشفاق قاسمی آکولہ نے کہا مسلمانوں کے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑھتا ہے کہ شریعت ہمیں جان سے پیاری ہے اس میں مداخلت برداشت نہیں۔ہندوستان کو آزاد کرانے میں علمائے کرام نے بہت قربانیاں دی ہے ۔آج سے ڈیڑھ سو سال قبل یعنی ۱۱؍ سو سال سے ڈیڑھ سو سال پہلے تک ہمارے ملک میںلاء آف لینڈ قانون شریعت ہی تھا۔ مغلیہ سلطنت اور دوسری سلطنت کے وقت بھی ہمارے یہاں شریعت قانون ہی تھا۔ کسی بھی بادشاہ نے شریعت میں مداخلت نہیں کی۔ انھوں نے مسلم پرسنل لاء کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ڈیڑھ سو سال حکومت کی اس وقت یہاں پر اسلامی قانون تھا۔ اس کے بعد انگریزوں کے دور حکومت ہی سے نکاح ،مہر، طلاق، خلع، وراثت، ہبہ، اوقاف، ظہارا، ایلا، کفالت، نان و نفقہ،حق پرورش جیسے معاملات کا فیصلہ شریعت کے مطابق ہی کیا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد بھی مسلم پرسنل لاء کو آئین میں باقی رکھا گیا اور آج تک عدالتیں ان امور میں مسلمانوں کا فیصلہ شریعت کے مطابق کر رہی ہیں۔ مگر اب آئین ہند کی دفعہ ۴۴؍ کی آڑ میں پرسنل لاء کو ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے جبکہ آئین کی دفعہ ۲۵؍ اور ۲۶؍ کے تحت ملک میں بسنے والی ہر قوم کو اپنے مذہب کے مطابق جینے ،مذہب پر عمل کرنے، رسم و رواج کی ادائیگی اور اس کی اشاعت کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ مگر اب دفعہ ۴۴؍ کے بہانے یہ آزادی سلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حضرت مولانا سید ظہیر الاسلام ذکی میاں خانقاہ نقشبندی بالاپور نے مسلم پرسنل لاء میں ترمیم کی کوشش میں حکومت کو منہ کی کھانی پڑے گی جبکہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ اصل مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کے لئے حکومت نے ایک حربے کے طور پر اپنایا ہے۔ اسی طرح سکھوں کو ٹو وہیلر چلاتے وقت پگڑی کے سبب ہیلٹ سے مستثنیٰ قراردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرات مولانا سید شاہنواز آکولہ ،حضرات مولانا طفیل احمد صاحب ندوی امام و خطیب نگینہ مسجد آکولہ، مولانا عمران خان صاحب اشرفی صدر جمعیتہ علماء بلڈانہ ضلع، مولانا محمد سہیل صاحب نظامی، مولانا خلیل صاحب اشرفی، حافظ عظمت اللہ خان صاحب، مولانا محسن رضا صاحب، مولانا عمران صاحب ندوی، نعت خواں حافظ سرفراز خان صاحب، محمد ضیا ء الدین صاحب امیر جماعت اسلامی کھام گائوں،نے بھی اجلاس سے خطاب کیا۔
صدارتی خطاب سے قبل کانفرنس کی جانب سے قراردا دیں پیش کی گئی۔
۱۔ مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجلاس قانون شریعت میں حکومتی مداخلت پر غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے نیز سپریم کورٹ میں داخل شدہ حلف نامہ کو واپس لینے کا حکومت سے مطالبہ کرتا ہے۔
۲۔ مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجلاس بھوپال میں ہوئے ۸؍ مسلمانوں کے فرضی انکائونٹر کی مذمت کرتا ہے اور جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کرتا ہے۔
۳۔ مسلمانو ں کا اجلاس یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ قانون کی دفع ۴۴؍ کو ختم کیا جائے یا مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا جائے۔
۴۔ یہ اجلاس تمام حاضرین سے عہد لیتا ہے کہ وہ خود شریعت کی مکمل پابندی کرینگے۔
ہر ایک قرار داد پر ہجوم نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرہ بلند کئے۔
طلاق ثلاثہ میں ترمیم اور یکساں سول کوڈ مسلمانوں کو ہر گز برداشت نہیں ہے۔ اگر حکومت نے اس طرح کا کوئی قانون بنایا تو ہم اسے ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا حضرت مولانا محمد یونس صاحب ندوی امام و خطیب مرکز مسجدنے اپنے صدارتی خطبہ میں کہی۔ موصوف نے کہا کہ موجود بی جے پی حکومت آئین ہند کی دفعہ ۴۴؍ کا حوالہ دے کر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی سازش رچ رہی ہے اگر ایسا ہوا تو ہم مسلمان ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ مولانا نے مزید کہا کہ سرکار جان بوجھ کر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہے تاکہ ووٹوں کا پولرئزیشن ہوسکے لہٰذہ ہمیں بیدار ہونے کی سخت ضرورت ہے اگر ہم خاموش رہیں تو آنے والے دن سنگین ہوںگے۔ کانفرنس میں کھام گائوں کے علمائے کرام کے ساتھ قرب و جوار سے بھی علمائے کرام وائمہ مساجد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس کے آخر میں مولانا حضرت مولانا محمد یونس صاحب ندوی امام و خطیب مرکز مسجد کی دعا کے ساتھ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ پروگرام کی نظامت محترم جناب شریف الحسن اور اظہار تشکر ڈاکٹر وسیم احمد نے کیا۔
اجلاس کے بعدصدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کے نام تحریر کردہ مکتوب کی نقل مقامی ایس ڈی او کھام گائوں کو پیش کی گئی۔ مکتوبہ پر تحفظ شریعت کمیٹی و اراکین کھام گائوں کے دستخط ہیں۔