شعبہ اردو برائے خواتین،جامعہ ازہرقاہرہ مصر میں یک روزہ سیمینار میں مختلف ممالک کے مندوبین کی شرکت
قاہرہ ،مصر(اسٹاف رپورٹر )دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ ازہر میں شعبہ ٔاردو نہ صرف متحرک ہے بلکہ یہاں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کا کام بھی بخوبی انجام پا رہا ہے۔ مصر میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے جن جامعات کا شعبہ ٔاردو فعال ہے ان میںجامعہ ازہرقاہرہ نمایاں نظر آتا ہے اور ان شعبوںمیں بھی شعبہ اردو برائے خواتین زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔ مصر میں موجود شعبہ ہائے اردو کے کارناموں کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جاتی ہے کہ مصر میں اردو زبان و ادب کا مستقبل روشن ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے شعبہ اردو برائے خواتین ، جامعہ ازہر اور ورلڈ اردو ایسو سی ایشن ، دہلی کی جانب سے منعقدہ یک روزہ سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔ خواجہ اکرام نے اردو زبان سیکھنے کے آسان طریقے اور ڈیجیٹل مواد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اب انٹر نیٹ پر اس قدر مواد موجود ہے کہ اسے سن کر اور اس کا مطالعہ کرکے کم دنوں میں اردو زبان سیکھی جا سکتی ہے۔ واضح ہو کہ ان دنوں خواجہ محمد اکرام الدین کی قیادت میں ہندوستان اور برطانیہ کا ایک وفد مصر کے علمی و ادبی دورے پر ہے۔ اس وفد میں جمو ںیونیورسٹی سے پروفیسرڈاکٹر شہاب عنایت ملک، دہلی یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد کاظم ، ڈاکٹر محمد محسن اور لندن سے جناب فہیم اختر، مہ جبیں غزل انصاری پاکستان شامل ہیں۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد کاظم نے ہندوستان کی جامعات میں اردو زبان و ادب کی صورت حال پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں اسکول کی سطح سے اردو زبان کی تعلیم کا انتظام ہے اس لیے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر زبان کے بجائے ادب کی تعلیم کا بہتر نظام ہے جبکہ دوسرے ممالک بہ شمول مصر میں صورت حال مختلف ہے۔ یعنی یہاں کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی زبان کی تدریس پر ہی زور دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کاظم نے کہا کہ ہندوستان میں کم و بیش تمام یونیورسٹیوں میں شعبہ اردو موجودہے جہاں زبان و ادب کی تعلیم کا نظام ہے۔ انھوں نے مصر کی جامعات میں اردو زبان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا یہاں کے طالب علموں کو اردو بولنے ،سننے پر زیادہ زور دینا چاہیے۔انھوں نے اپنی تقریر میں مصر ی اردو اساتذہ کی خدمات کو بھی سراہا۔پروفیسر شہاب عنایت ملک نے جمو ںو کشمیر میں اردو کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی دفتری زبان اردو ہے اس لیے وہاں اسکول اور کالجوں میں اردو کی تعلیم کا بہتر انتظام ہے۔ اور وہاں اردو زبان و ادب کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے نوکری کے مواقع بھی موجود ہیں۔لندن سے تشریف لائے افسانہ نگار اور کالم نویس جناب فہیم اختر نے برطانیہ میں اردو زبان و ادب کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں برطانوی ادیب و مفکر نے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہاں تعلیم کے انتظام کے ساتھ ساتھ کئی ادبی تنظیمیں بھی فعال رہی ہیں۔ حالانکہ ان دنوں تنظیمیں اتنی فعال نہیں رہیں لیکن وقفے وقفے سے ادبی و ثقافتی پروگرام کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ انھوں نے زور ڈالتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اردو زبان و ادب کی ترویج میں بی بی سی لندن کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر محمد محسن نے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے اردو زبان و ادب اور ماس میڈیا کے حوالے سے کہا کہ ان دنوں میڈیا کو نہ صرف اردو کی ضرورت ہے بلکہ ان کی مجبوری بھی ہے۔ انھوں نے اردو میڈیا میں زبان کے استعمال میں کی جانے والی بے توجہی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ الفاظ کو اس کے اصل معنی کے بجائے مختلف معنی میں استعمال کرنے کا چلن بڑھا ہے۔ اردو والوں کو اس جانب توجہ دیتے ہوئے اس کی اصلاح کرتے رہنا چاہیے۔
مندوبین کی گفتگو کے بعد مولانا عطیف قادری بدایونی نے جامعہ ازہر کے حوالے سے ایک خوب صورت نظم سے سامعین کو محظوظ کیا۔ مندوبین کی گفتگو کے بعد شعبہ اردو برائے خواتین ، جامعہ ازہر کے صدر شعبہ پروفیسرڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے شرکا کو سوال کرنے یا اپنے مسائل کو رکھنے کی دعوت دی۔ان کی اس دعوت پرسیمینار ہال میں موجود اساتذہ اور طالب علموں نے سوالات کی شکل میں اپنی پریشانیوں کو مندوبین کے سامنے رکھا۔ ان کے سوالات کا تفصیل سے جواب دیتے ہوئے پروفیسر خواجہ اکرام نے بتایا کہ اردو زبان کی ادائیگی اور تلفظ کو درست کرنے کی غرض سے کوشش کی جانی چاہیے کہ اردو زیادہ سے زیادہ سنی جائے خواہ وہ مکالمے کی صورت میں ہو یا گیت کی صورت میں۔ وہ گفتگو کی شکل میں ہوں یا ویب پر موجود مواد کی صورت میں۔ شرکاکے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے دوسرے مندوبین نے زبان و ادب کی تفہیم کے لیے کئی مفید مشورے دئے۔ سیمینارکے آخر میں کئی طالب علموں نے اردو زبان میں اپنے خیالات پیش کیے۔ آخر میں صدر شعبہ پروفیسر ابراہیم محمد ابراہیم نے تمام مندوبین کا شکریہ ادا کرتے ہوئےسیمینار کی کامیابی پر اظہار خیال کیا۔سیمینار کے خاتمے پر شرکا اور طالب علموں کا جوش دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ یہاں اردو سے محبت کرنے کا جذبہ بہت نمایاں ہے۔