٭پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن
ابن سینا اکاڈمی، تجارہ ہاؤس دودھ پور، علی گڑھ ،انڈیا
صغیر افراہیم نے اپنی کتاب ’’غالبؔ ، باندہ اوردیوان محمدعلی‘‘ کے پیش لفظ میں جمیل الدین عالیؔ کے حوالہ سے کائناتِ غالبؔ کی وسعت پذیری اور اس پر انجام دیے گئے تحقیقی کام اورافہام وتفہیم کو حرفِ آخر شمار کرنے کے برخلاف، نئے نئے زاویوں اور گوشوں کے انکشاف پر جس تعجب خیزی کا اظہار کیاہے، وہ کچھ غالبؔ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہر مضمون کے اعاظم رجال کے ساتھ اس علمی وتحقیقی کارفرمائی کاکسی تامل کے بغیر مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔ ہومر، ارسطو، فارابی، ابن سینا،شیکسپیئر، برنارڈشاہ کسی بھی علم وفن کے کاملین کے بارے میں سیکڑوں برس گزرنے کے باوجود، آئے دن نئے نئے انکشافات اور دریافتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایک کلیہ کے طور پر یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ تحقیق ہمیشہ جاری رہنے والا ایک عمل ہے، جسے کبھی نہیں ختم ہوناہے۔
غالبؔ اقلیم سخن کا تاجدار ہے۔ اردو شاعری پر اس کی حکمرانی ہمیشہ قائم رہے گی۔ اس کی شاعرانہ عظمت، دوسرے اردو شعراء کی طرح کسی ایک وصفِ خاص اورکسی ایک صنف خاص تک محدود نہیں ہے۔ بہت سے سخنوروں کی شاعری کے امتیاز میں صرف نظم کاشمار کیا جاتا ہے، غزل کے شعراء جن کے یہاں محض مضامین حسن وعشق ادا کے گئے ہیں۔ بعض شعراء کوقصیدہ نگاری میں خصوصیت حاصل ہے تو بعض رثائی شاعری میں یگانہ ہیں۔ کسی کے یہاں تصوف مابہ الامتیاز ہے تو کوئی مثنوی میں فرد ہے، کسی کے یہاں فکر وفلسفہ ہے تو کسی کے یہاں قومی یا وطنی شاعری ہے۔ ا ن کا مطالعہ انہی مخصوص موضوعات کے لحاظ سے کیا جاتاہے۔ ان کے یہاں وسعت وتنوع کاوہ بڑا اظہار نہیں ہے جو کسی شاعر کو تخیل کی فراوانی اور مختلف الجہات حیثیتوں کی وجہ سے رفعت ومنزلت کا درجہ عطا کرتا ہے۔
غالبؔ ایک ایسا شاعر ہے جو ذہن وخیال کی کسی ایک سمت میں بند نہیں ہے۔ اس کے یہاں تفکر وتخیل کی پرواز اور شعری اصناف کا ایسا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے جسے پڑھ کر نہ صرف فرحت اور تازگی محسوس ہوتی ہے، بلکہ زندگی کی وہ حقیقتیں سامنے آتی ہیں جن سے ہمیں مفر نہیں ہے اور جو ہمارے دامن سے لپٹی ہوئی ہیں۔ غالبؔ نے زندگی کو جس طرح قریب سے دیکھا اور برتا ہے اور جس قدر تلخ وشیریں اور خوشگوار وزہر ناک تجربوں سے وہ گزرا ہے، ان سب کو اس نے شعری پیرہن میں اس خوبصورتی سے ڈھالا ہے کہ ایک معمولی آدمی سے لے کر بڑے سے بڑے ذی رتبہ کے لیے اس میں مسرت اور دلچسپی کاسامان ہے۔
غالبؔ بلا کا ذہین اور حساس طبع تھا۔ اس کی تیز نظر اور قوت مشاہدہ نگاری سے وہ باتیں چھُپی نہیں رہیں، جو ایک عام آدمی کی نگاہ سے اوجھل رہتی ہیں۔ ذکاوت، درّاکی اور دوربینی اس کی شاعری میں معکوس ہے۔ وہ زندگی کے ہر موڑ اور خوشی وغم کے ہر مرحلہ میں ہمارا ساتھ دیتا نظر آتاہے۔ کسی بھی موقع ومحل کے لحاظ سے ہم اس کے یہاں مضمون تلاش کرلیتے ہیں۔ یہ غالبؔ کی ایسی بڑی خوبی ہے، جو دوسرے شاعروں کے یہاں اس طرح دکھائی نہیںدیتی۔ اسی لیے اس کا کلام کبھی ’بے رنگ‘ نہیں ہوگا اور ہمیشہ اسے قدر اور دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔ اس کے اشعار فرحت وشادمانی سے سرشار کرتے رہیں گے۔ اور ان کے نئے نئے معانی ومفاہیم سامنے آئیں گے۔
غالبؔ کا جن شخصیتوں اور شہروں سے تعلق رہا ہے، ان پر اردو محققین نے بڑی تلاش و تحقیق سے کافی مواد فراہم کیا ہے۔ شہروں میں جہاں کلکتہ، مرشدآباد، بنارس، الٰہ آباد، باندہ، آگرہ ، بھوپال ، حیدرآباد، بدایوں، رامپور، الور، راجستھان اور ہریانہ کے حوالہ سے کتابیں شائع ہوئی ہیں، وہاں متعلقہ اشخاص بیدلؔ، قتیلؔ، میاں داد خاں سیاحؔ، سرورؔ، وحشتؔ، آغا محمدحسین ناخداؔ، غمگینؔ ، تفتہؔ، صفیرؔ بلگرامی جیسے شناسانِ غالبؔ ، تحقیق کا موضوع رہے ہیں۔
غالبؔ کی جان کوجومسئلہ زندگی بھر لگا رہا اور جس سے وہ کبھی پیچھا نہیں چھڑا سکے اور مسلسل پریشاں اورسرگرداں رہے، وہ پنشن کا قضیہ ہے۔ لیکن اس قضیہ نامرضیہ سے اُبھرنے والے کچھ ایسے عنوان بھی ہیں، جنھوں نے ان کی نارسائیوں کے باوجود، ان کی شخصیت میں گیرائی وگہرائی اور ان کے فکروفن میں روشنی اور جلاء پیدا کی ہے۔ اس قضیہ کے وہ دلچسپ حادثے اور ادبی پہلو جو اس کے سبب، کلکتہ کے سفر میں، مختلف شہروں میں پیش آئے اور اس دوران بیماری، امیدوبیم، مالی پریشانیوں ، رقابتوں، مخالفتوں، ناخوشگوار اور خوشگوار صورتوں سے جس طرح وہ گزرے، محققین کے لیے شروع سے تحقیق کا موضوع رہے۔
کلکتہ کا ادبی معرکہ بجائے خود ان کی زندگی کا ایک اہم عنوان ہے۔ اگر یہ سفر درپیش نہ آتا تو ا ن بہت سے شہروں میں انھیں جانے کا اتفاق نہیں ہوتا۔ خاص کر کلکتہ جہاں ایک نئی دنیا اور سائنس کی جدید ترقیات وایجادات کے مشاہدہ کاانھیں موقع ملا۔ علاوہ ازیں دوسرے شہروں کی ممتاز شخصیتوں سے ملاقاتوں، تجربوںاور ان شہروں کے حسن وجمال نے غالبؔ کے احساسات وخیالات میں جو رنگینی ورعنائی پیدا کی، وہ دہلی اور آس پاس کی بستیوںکے قیام سے ان کے ذہن ودماغ میں نہیں پیدا ہوسکتی تھی۔
غالبؔ اس قضیہ کی داد رسی کے لیے چارلس مٹکاف سے ملاقات کی خاطر دہلی سے کانپور گئے۔ وہاں پہنچتے ہی بیمار پڑگئے۔ معقول علاج اور مناسب طبیب نہ ملنے پر لکھنؤ جانا ضروری سمجھا۔ لکھنؤ یونانی طب کادہلی کے بعد دوسرا سب سے بڑامرکز تھا۔ بڑے گرامی منزلت حاذق طبیب وہاں موجود تھے۔ لکھنؤ میں پانچ مہینہ سے زیادہ قیام رہا۔ انھیں معتمد الدولہ آغا میر سے مالی معاونت کی امید تھی۔ آغا میر کے نام ایک عرض داشت تیار کی تھی اور ان کی مدح میں ۱۱۰؍اشعار کا قصیدہ بھی لکھاتھا، مگر آغا میر کے رویہ نے انھیں دل برداشتہ کیا اور انھوں نے وہ دونوں تحریریں آغا میر کو نہیں پیش کیں۔ وہ آغا میر سے اس قدر ناراض ہوئے کہ جہاں پہلے ان کے لیے کہا تھا ؎
لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
جادۂ رہ ،کشش کاف کرم ہے ہم کو
وہاں انھیں ’’نو دولتیہ‘‘ کہہ کر ان کی تحقیر میں کوئی کمی نہیں کی۔ انھوں نے معتمد الدولہ کی شان میں جو قصیدہ کہا تھا، اس کی ایک نقل نواب باندہ کو دی تھی، بعد میں اُنھیں ڈر لگا کہ یہ قصیدہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہ پڑجائے۔ چنانچہ اس کی حفاظت کے لیے انھیں خط لکھا۔ غالبؔ نے یہی قصیدہ ہمایوں جاہ، نواب مرشدآباد کے نام کرنا چاہا۔ اور آخر میں اس قصیدہ کے ممدوح نواب نصیر الدولہ قرار پائے۔
لکھنؤ سے وہ ۲۱؍جون ۱۸۲۷ء کوباندہ کے لیے کانپور روانہ ہوئے۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے یہ واضح کیا ہے کہ غالبؔ نے لکھنؤ سے باندہ کے لیے پُروا،موراواں کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے نیوتنی والا راستہ اختیار کیا اور کانپور آئے۔ کانپور میں مختصرقیام کے بعد باندہ گئے۔ کلکتہ کے بعد باندہ وہ جگہ ہے جہاں غالبؔؔ کا سب سے زیادہ تقریباً ۶ مہینے قیام رہا۔
باندہ جانے کی اصل وجہ نواب باندہ، ذوالفقار علی خاں سے ملاقات اور وہاں رہ کر بیماری کا علاج اورکلکتہ کے سفر کے اخراجات کے لیے مناسب رقم کی فراہمی تھی۔ نواب ذوالفقار علی خاں سے غالبؔ کی کچھ رشتہ داری بھی نکلتی تھی۔ غالبؔ کی ممانی نواب ذوالفقار علی خاں کی سگی خالہ تھیں، اس سے سوا یہ کہ وہ غالبؔ کے دودھ شریک بھائی بھی ہوتے تھے۔ غالبؔ نے اپنی ممانی اور ذوالفقار علی خاں نے اپنی پھوپھی کا دودھ پیا تھا۔ باندہ میں ممانی کے بیٹے یعنی غالبؔ کے دوسرے دودھ شریک بھائی مرزا اوزبک خاں بھی موجود تھے۔ یہ رشتہ بھی ان کے سفر باندہ کا ایک محرک تھا۔ اوزبک خاں سے یقینا قیام باندہ میں غالبؔ کو سہولت ملی ہوگی۔ نواب ذوالفقار علی خاں کا خاندان صاحبِ حیثیت اور صاحبِ ثروت تھا۔ ان کی تباہ حال حویلی کے کھنڈر سے آج بھی ان کی امارت کانشان ملتاہے۔
باندہ کے زمانہ قیام میں غالبؔ کے مرض بول الدم کا علاج رہا۔ بول الدم کو غالبؔ پر لکھنے والے تقریباً سبھی حضرات نے بشمول خلیق انجم ’’بو الدم‘‘لکھا ہے، جب کہ یہ لفظ بول الدم ہے۔بول بمعنی پیشاب اور دم بمعنی خون۔ یہاں میں ایک بحث چھیڑنا نہیں چاہتا، میرایہ خیال یقین کی حد تک ہے کہ در اصل غالبؔ کو سوداوی یااور کوئی مرض نہیں تھا۔ انھوں نے ڈومنی یا زنان بازار میں کسی سے آتشک کا آزار لگالیا تھا۔ اس ایک طرح سے لاعلاج مرض میں وہ آخر عمر تک، اس کی اور اس سے متعلقہ شکایات وعوارضات کاشکار رہے۔ ان کی ساری تکلیفیں اسی مرض کی دین تھیں۔
باندہ کے ادبی وشعری حلقے غالبؔ کے طویل قیام سے، ظاہر ہے بے خبر نہیں رہے ہوں گے۔ وہ اگرچہ بیمار تھے، مگر ایسے معذور بھی نہ تھے کہ کسی تقریب یاشعری محفل میں شرکت نہ کرسکیں۔ وہاں کے عام شائقینِ ادب کے حوالہ سے اگرچہ تفصیل نہیں ملتی، لیکن نواب ذوالفقار علی خاں، رئیس باندہ کے تعلق سے تفصیلی طور پراور دیوان ریاست (وزیر) محمدعلی خاں کے حوالہ سے مختصراً اطلاعات فراہم ہیں۔ یہ تفصیلات بھی سید اکبر علی ترمذی کے کلکتہ سے دیوان محمدعلی کے نام لکھے گئے دریافت شدہ خطوط سے پہلے دستیاب نہیں تھیں۔ ’’نامہ ہائے فارسی غالبؔ‘‘ کی شکل میں ترمذی کی مساعی سے ادبی دنیا پہلی مرتبہ ان سے متعارف ہوئی۔
محمدمشتاق شارق کے مضمون ’’غالبؔ اور بندیل کھنڈ‘‘ مشمولہ سہ ماہی رسالہ تحریر ، نئی دہلی (مدیر مالک رام) شمارہ اپریل تا جون ۱۹۷۷ء اور صالحہ بیگم قریشی کی کتاب ’’باندہ اور غالب‘‘ؔ (۱۹۹۴ء) سے باندہ کے سفر، وہاں کے قیام اور نواب باندہ سے تعلق کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں۔ غالبؔ اور کلکتہ، غالبؔ اور بنارس،غالبؔ اور الٰہ آباد جیسی کتابیں بھی ان شہروں کی روئداد پیش کرتی ہیں۔
باندہ میں غالبؔ کی وہاں کے ایک ذی علم اور ذی ثروت دیوان محمدعلی (وفات۱۸۳۱ء) سے ملاقات دراصل اِس سفر کے حاصلات میں ہے۔ ادبی وشعری نیرنگیوں کے علاوہ مالی لحاظ سے بھی یہ ملاقات، ان کے لیے ہرطرح بہت سود مند رہی۔ صغیر افراہیم نے اپنی تحقیق میں یہ ثابت کیا ہے کہ دیوان محمدعلی بلند ادبی ذوق کے حامل تھے۔ فارسی میں شاعری کرتے تھے۔ فارسی کے علاوہ ان کی انگریزی لیاقت بھی اچھی تھی۔ باندہ سے پہلے وہ لکھنؤ میںانگریزی ملازمت میں تھے اور انگریزی حکومت سے وظیفہ پاتے تھے۔ انگریزی حکومت نے ہی انھیں باندہ میں تعینات کیا تھا۔ غالبؔ اور ان کی عمر میں اگرچہ بڑا تفاوت تھا۔ غالبؔ ۲۸-۲۹؍برس کے اور وہ پچپن کے قریب کے بزرگ تھے، مگر وہ غالبؔ کے مداح وقدر داں تھے۔ انھوں نے غالبؔ کی آڑے وقت میں مالی معاونت کی۔ اورکلکتہ میں بھی دومرتبہ دو دو سو روپیہ بھیج کر ان کی مالی پریشانیوں کو کم کیا۔ صغیر افراہیم نے صحیح نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دیوان محمدعلی سے تعلق خاطر ہی کی بناء پر غالبؔ کا باندہ میں اتنا عرصہ قیام رہا۔ ورنہ وہ شاید اتنی مدت وہاںنہ ٹھہرتے۔
غالبؔ سے ان کی قربت کا اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ صرف ساڑھے تین برس کی مختصر مدت میں ان کے نام غالبؔ کے لکھے ہوئے ۳۷؍خط اب تک دریافت ہوچکے ہیں۔ مزید کی گنجائش اپنی جگہ ہے۔ دیوان محمدعلی کے تعلق سے کلکتہ میں بھی غالبؔ کو فائدہ پہنچا۔ محمدعلی کے بڑے بھائی کلکتہ میں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز تھے۔ گوکہ وہ غالبؔ کے کلکتہ پہنچنے سے قبل وفات پاچکے تھے، لیکن دیوان محمدعلی نے اپنی بھاوج کے نام تعارفی خط دیا تھا، جس کو لے کر غالبؔ ان سے ملے۔
غالبؔ کی دیوان محمدعلی سے شیفتگی کایہ عالم تھا کہ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشی ورنج کی خبر سے انھیں مطلع کرتے تھے۔ ان کے نام غالبؔ کے ارسال کردہ خطوط اگر ضائع ہوجاتے تو وہ بہت سی باتیں سامنے نہیں آسکتی تھیں، جو ان کی دریافت واشاعت کے بعد ادبی دنیاکے علم میں آئیں ۔ غالبؔ نے مرزا یوسف کی صحت وری اورخود ان کے ہاتھ کے لکھے خط سے اپنی خوشی میں محمدعلی کومثل عزیزوں کے شریک کیا اور تفصیل سے اس کے بارے میں لکھ کر اپنی شادمانی کااظہار کیا۔ خلیق انجم کی کتاب ’’غالبؔ کے سفر کلکتہ‘‘ میں ۴۰ جگہ دیوان محمدعلی کا ضمنی ذکر آیا ہے۔
باندہ میں بعض دوسرے اصحاب کے علاوہ میر کرم علی نام کے ایک صاحب بھی غالبؔ کے دوست بن گئے تھے۔ باندہ سے یہ غالبؔ کے تعلق خاص ہی کی بات تھی کہ کلکتہ سے دہلی واپسی پر بھی انھوں نے باندہ کا سفر اختیارکیا۔ جب کہ باندہ دہلی کے راستہ میں نہیں، سمت مخالف میں واقع تھا۔
باندہ سے براہ الٰہ آباد وبنارس، کلکتہ کے سفر کی پہلی منزل مودھا تھی۔ مودھا کو ڈاکٹر شہناز نبی اور بعض دیگر نے مونڈہ لکھا ہے۔ مودھا، باندہ کا ایک مسلم آبادی والا قصبہ ہے۔ یہاں میں اپنے قلم کو اس اظہار سے روک نہیں پارہا ہوں کہ شعبہ علم الادویہ ، اجمل خاں طبیبہ کالج ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میرے ایک ساتھی حکیم رفیق الدین مرحوم کا تعلق اسی قصبہ سے تھا۔ ان سے مودھا کاتذکرہ اس کے نام کی وجہ سے کچھ تفریح وتفنن کے طور پر رہتا تھا۔ میں انھیں چھیڑتا تھا کہ غالبؔ کی وجہ سے مودھا جیسا قصبہ معتبر بن کر اردو ادب کی تاریخ میں محفوظ ہوگیا ہے۔ وہ تجارہ کاکہتے کہ غالبؔ کے خط میں مہاراجہ الور کی ایک مشایعت کے حوالہ سے تجارہ کا نام صفحۂ قرطاس پر آیا ہے۔
محمدعلی کے نام غالبؔ کے خطوط سے باندہ سے کلکتہ کے سفر اور راستہ کے احوال وکوائف ہی نہیں معلوم ہوتے، قیام کلکتہ میں وہاں کے مشاعروں میں غالبؔ کی شرکت، ان پر کیے جانے والے اعتراضات اور مخالفتوں ورقابتوں کی بھی اطلاع ملتی ہے۔ سفر کلکتہ کے تعلق سے یہ غالبؔ کی اطلاعات کا ایک بڑاذریعہ ہیں۔ غالبؔ میں دشنام طرازی کا جو مادہ تھا، وہ کلکتہ میں قتیلؔ اور اس کے ہمنواؤں کے سلسلہ میںکھل کر سامنے آیا ہے۔ انھوں نے الٰہ آباد کے خرابہ پر بھی لعنت بھیجی ہے اور اس شہر کو برباد اورصحن جہنم اور شہریوں کو روسیاہ لکھا ہے۔ وہاں انھیںایک دن ٹھہرنا بھی مشکل ہوا، جب کہ بنارس میں وہ ایک مہینہ رہے۔ بنارس کی بادہ جانفزا ، سبزہ وگل، پری چہرہ حسینوں کی جلوہ طرازیوں سے اُنھیں تاب وتوانائی ملی۔ ایک خط میں اس کو بہارستان اور بہشت کاہم پلہ، شاہد رنگین قبا اور جلوہ گاہ حسن کہا ہے۔
کلکتہ کا سفر غالبؔ کے تذکرہ میں ایک بہت اہم عنوان ہے۔ تین ہزار کلومیٹر کے اس پورے سفر میں باندہ کی آسائشوں کے علاوہ بنارس کے فرحت بخش منظر اور اس کی رومان پرور فضا، یاکلکتہ کی بتان خود آرا کے دیدار کے سوا، غالبؔ کو بیماری، صعوبت اور صبر آزما کرب ناکیوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ بعض لوگوں کے اس خیال سے مجھے اتفاق نہیں ہے کہ کلکتہ کے سفرنے غالبؔ کے فکروفن ، تخیل وشعور اور پرواز ذہن پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں کیا ہے۔
خلیق انجم کی کتاب ’’غالبؔ کا سفر کلکتہ اور کلکتہ کا ادبی معرکہ‘‘ اس سلسلہ کی ایک اہم کتاب ہے۔ اس میں الٰہ آباد اور بنارس کے ساتھ باندہ کے تعلق سے بھی کچھ باتیںدرج ہیں۔ میں نے اس کتاب پر ایک بہت تفصیلی تبصرہ کیا تھا۔ اس کا اقتباس اس کتابچہ میں شامل ہے جو اس کتاب پر ’’اردو دانشوروں کی رائے‘‘ (تبصروں کے اقتباسات) کے نام سے غالبؔ انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی سے ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر شہناز نبی کی کتاب غالبؔ اورکلکتہ ۱۹۹۹ء اور شاہد ماہلی کی کتاب غالبؔ اورکلکتہ (۲۰۱۰ء) میں بھی اس سلسلہ کے مضامین شامل ہیں۔
غالبؔ کے کلکتہ کے اس پورے سفر میں صغیر کی تحقیق کی بدولت دیوان محمدعلی کاکردار بہت خاص اہمیت کاحامل ہے۔ اب وہ ایک ایسی اہم شخصیت کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آتے ہیں جنھوں نے نہ صرف قیام باندہ میں غالبؔ کو ممکنہ سہولتیں بہم پہنچائیں، بلکہ کلکتہ میں بھی ان کا دست عطا غالبؔ کاسہارا بنا۔اِس باندہ کے تعلق سے سب سے پہلے سید اکبر علی ترمذی کی دریافت (Persian Letters of Ghalib 1969)’’نامہ ہائے فارسی غالبؔ ‘‘اورپھر لطیف الزماں خاں، پرتوروہیلہ، جمیل جالبی اور خلیق انجم نے ڈیڑھ سو برس پُرانے بند دروازہ کوکھولا ہے۔ لیکن لکھنؤ سے باندہ کے سفر،پھر باندہ میں قیام اور غالبؔ کے مخلص دیوان محمدعلی کے حوالہ سے معلومات فراہم نہیںکی گئی تھیں۔ صغیر افراہیم نے اس کتاب (غالبؔ،باندہ اور دیوان محمد علی) میں ان کو موضوع بناکر، ان کے تعلق سے اہم معلومات پیش کی ہیں۔
صغیر افراہیم نے مذکورہ کتاب کے پہلے باب میں باندہ کی تاریخ اور جغرافیہ پر مدلّل لکھاہے، دوسرے اور تیسرے باب میں سفر کلکتہ کے اسباب وعلل، آمدہ باندہ اور انتخاب راہ پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اس کے لیے صالحہ بیگم کی تالیف سے مواد کے حصول کا اپنے پیش لفظ میں اعتراف ضرور کیا ہے لیکن کچھ وضاحتوں اور شواہد کے ساتھ جن کا اعتراف خود مصنفہ نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں کیا ہے۔
۱۹۹۰ء میں باندہ میں صغیر افراہیم کی شادی کے بعد اُنھیں اس سلسلہ کی اور زیادہ معلومات حاصل ہوئیں۔ پیش نظر کتاب کااصل حصہ دیوان محمدعلی کے احوال وکوائف سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے حالات سے جیسا کہ صغیر افراہیم نے لکھا ہے اور مجھے اس سے اتفاق ہے کہ شناسانِ غالبؔ کما حقہٗ واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ اس کتاب کے ذریعہ صغیر افراہیم نے اس خلا کو پُر کیا ہے اور اُن مکتوبات کا معروضی مطالعہ پیش کیا ہے جو غالبؔ نے دیوان محمدعلی کو لکھے ہیں۔ اس اہم مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیوان محمدعلی، غالبؔ کے ایک ایسے ممدوح اور مکتوب الیہ ہیں جنھیں غالبؔ نے محض تین ساڑھے تین برس کی قلیل مدت میں ۳۷؍خط لکھے ہیں۔
دیوان محمدعلی کولکھے گئے مکتوبات کے معروضی مطالعہ اور احوال وافکار کے علاوہ صغیرافراہیم نے ایک اچھا کام یہ بھی کیا ہے کہ باندہ کے تعلق سے غالبؔ کا شعری سرمایہ ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ اس میں فارسی اشعار زیادہ ہیں لیکن اردو غزلیں بھی شامل ہیں۔ ان میں غالبؔ کی وہ غزل بھی ہے جس کا پہلا شعر ہے ؎
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو، تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کومیں
اس غزل کے تین اور مشہور شعر ہیں ؎
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش ! جانتا نہ تری رہ گزر کو میں
لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’’یہ بے ننگ ونام ہے‘‘
یہ جانتا اگر، تو لٹاتا نہ گھر کو میں
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
کتاب کا ایک دلچسپ اور نہایت مؤثرباب ’’یادوں کی بازیافت: باندہ، غالبؔ اور متعلقین‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کے شروع میں صغیر افراہیم نے بزرگ خواتین کی کہانیاں سُنانے کا ذکر کیاہے۔ یہ تہذیب اُس زمانہ کے شرفاء کے گھروں میں عام تھی۔ بھوپال میں میری نانی صفیہ بیگم جن کا۹۲؍برس کی عمرمیں ۱۹۷۰ء میں انتقال ہوا، ہم بچوں کو اسی طرح کی کہانیاں سناتی تھیں اور سب بچے ان کی مسہری اور پاس کی مسہریوں میںلیٹے لیٹے کہانیاں سنتے سنتے سوجاتے تھے۔ صغیر افراہیم لکھتے ہیں :
’’گھر میں قصہ کہانی سُننے سُنانے کا ماحول تھا۔ اردو کے اخبار ورسائل پابندی سے آتے تھے جو سُنے اور سُنائے جاتے تھے۔ اس ماحول میں، میں نے غالبؔؔ کے تعلق سے بھی کہانیاں سُنیں، جن کا مرکز ومحور باندہ ہوا کرتا تھا۔ ایسا اس لیے کہ تقسیمِ ہند سے قبل میرے ایک بُزرگ سید محمدافراہیم شاہ مویشیوں کے ڈاکٹر (Veterinary doctor) کی حیثیت سے باندہ میں تعینات تھے۔ دادی صاحبہ (زوجۂ ڈاکٹر سید محمدافراہیم شاہ) جن کا میکا فتح پور ہسوا تھا، وہ اناؤ (سسرال) سے باندہ کے سفر کو بڑے دلچسپ واقعات کے ساتھ بیان کرتیں۔ خاص طور سے موضع چلّہ تارہ کے پاس دریائے جمنا اور دریائے کین کے اتصال پر بنے پیپے/ناؤ کے پُل سے گُزرنے کا ذکر وہ ہر بار کچھ اس حیران کُن انداز میں کرتیں کہ سند بادی کہانیاں یاد آجاتیں۔ جب کبھی ہم اُن سے دریافت کرتے کہ سمندر جیسے پاٹ کو جہاں چاروں طرف پانی ہی پانی ہو، آپ پیپے یا ناؤ سے بنے پُل سے گزرتے ہوئے گھبراتی نہیں تھیں؟ تو دادی صاحبہ فرماتیں سو چو غالبؔؔ نے سو سوا سو سال پہلے اس کو کس طرح پار کیا ہوگا؟‘‘۔
کتاب میں ایک اہتمام یہ بھی ہے کہ ہر باب کے آخر میں حواشی کا ذکرکیاگیا ہے۔ اس سے نیز فہرستِ کتابیات سے مصنف کی کاوش اور مواد کے حصول میں ان کی تگ ودو کا اندازہ ہوتاہے۔مجھے قوی اُمید ہے کہ صغیر افراہیم کی اِس تحقیقی کتاب (غالبؔ، باندہ اور دیوان محمدعلی) کی ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوگی۔