مطالعہ سرسید میں ایک اضافہ

سر سید احمد خان کی یوم پیدائش پرخصوصی پیش کش


\"\"
٭عبدالرحیم قدوائی

ڈائریکٹر مرکز برائے علوم القرآن
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ-۲

\"\"
کہنہ مشق مصنف، دیدہ ور مبصر اور ممتاز ادبی شخصیت پروفیسر صغیر افراہیم کی ’عصر حاضر میں علی گڑھ تحریک کی اہمیت اور معنویت‘ ایک فکر انگیز اور متاثر کن تصنیف ہے۔ سرسیدـؒ اور علی گڑھ تحریک سے متعلق تحریریں بالعموم جذباتیت، ماضی کی باز آفرینی اور تعمیمات سے عبارت ہوتی ہیں۔ ان میں تحلیل وتجزیہ اور عصر حاضر سے فکر سرسید کی مطابقت کے بارے میں نکتہ آفرینی کا فقدان پایا جاتاہے۔ اس پس منظر میں زیر نظر تصنیف تازہ، صحت بخش بادِ نسیم کے مثل ہے جس پر حیات معنوی اور فکری کا دارو مدار ہے۔ کتاب کا سرنامہ پورے منظر نامے کو اس لحاظ سے محیط ہے کہ اِس ابتدائی باب سے برطانوی تسلط سے ماقبل ملک وملّت کی صورتِ حال، توسیع پسند غیر ملکی جارحیت کے خلاف مزاحمت اوراس میں علماء کرام کا جرأت بلکہ تہوُّر سے عبارت کردار پر رواں اور پُر مغز تبصرہ قارئین کی فکری اور ذہنی تربیت کا دشوار مگر اہم فریضہ بخوبی انجام دیتاہے۔

فاضل مصنف عرصے تک سرسیدؒ کے تاریخی رسالے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے مدیر رہے ہیں اس نسبت سے وہ ان کے معنوی جانشین اور فکری وارث ہیں۔ اہم تر نکتہ یہ ہے کہ ناخلفی کے اس دور میں انھوں نے سعادت مندی کاثبوت دیاہے۔
یہ تصنیف منطقی حسنِ ترتیب کا مرقّع ہے کہ سرسیدؒ کی منتخب تصانیف کی روشنی میں حالات سے مفاہمت اور مصالحت کی رہبری ملتی ہے۔ یہ مصنف کی بالغ النظری اور سلیم الطبعی کی عکاس ہے کہ دورِ حاضر میں مقبول ہمہ وقتی مزاحمت بلکہ حالتِ جنگ کی تباہ کن ذہنیت کی اصلاح کی تعمیری کوشش ہے۔ یہاں نوحہ محض اغیار کے حملوں اور سازشوں اور داستان اپنی مصیبت اور مظلومیت کی نہیں بلکہ مسائل سے مردانہ وار نبرد آزما ہونے کا مثبت پیغام ہے۔ یہ مصنف کی دیدہ وری کا کمال ہے کہ اس ضمن میں انھوں نے استدلال سرسیدؒ کی تصانیف بالخصوص ’’تہذیب الاخلاق‘‘ سے کیاہے۔ ایک فراموش شدہ روشن مثال کی تجدید اور تجسیم کی کیسی خوش کن شکل!
سرسیدــؒ کے پیغام کے پہلو بہ پہلوفاضل مصنف نے رفقائے سرسید کے افکار اور تصانیف اور علی گڑھ تحریک کے مدارج کا ایسا بصیرت افروز محاکمہ کیا ہے کہ ان کی عصری معنویت منقح ہوگئی ہے۔
اس گراں قدر تصنیف کے بعض امتیازی مضامین یہ ہیں: ’’سرسید تحریک کے نقیب: دو پاکستانی جرائد‘‘، ’’سرسید کے معتقد وشاگرد معنوی: علامہ اقبال‘‘ اور ’’پریم چند کا مفروضہ‘‘۔ یہ مقالات محض تشریح اور تعبیر پر مشتمل نہیں بلکہ تحقیق اور ابتکاری فکر کے آئینہ دار ہیں۔ ’’مکاتیب سرسید‘‘ پر فاضل مصنف کے مشاہدات وقیع اور چشم کشا ہیں۔
یہ بصیرت افروز تصنیف تیئس ابواب کو محیط ہے ان میں قدرِ مشترک ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی اور فلاح وبہبود ہے اس ضمن میں علماء کرام، سرسیدؒ بالخصوص ان کے حیات بخش پیغام کے علمبردار رسالے تہذیب الاخلاق اور اسی نوع کے دو دیگر پاکستانی جرائد، خواجہ الطاف حسین حالی، علی گڑھ تحریک، رفقائے سرسید، بالخصوص محمدحسین آزاد، شبلی اور نذیر احمد، اور دیگر عوامل کا ذکر ناگزیر سا ہے ۔ فاضل مصنف نے ان پہلوؤں کا کما حقہ احاطہ کیا ہے۔ سرسیدؒ کی منتخب تصانیف مثلاً سرکشی ضلع بجنور ، اسباب بغاوت ہند اور مکاتیب کے حوالے سے سرسیدؒ کی فکرودانش کو محققانہ انداز میں نمایاں کیاہے۔ ان تصانیف کے برمحل اقتباسات اور ان کے تجزیے نے اس تصنیف میں عالمانہ شان پیدا کردی ہے۔ یہ محاکمے سرسیدشناسی، مسلمانان ہند کی فکری تاریخ، سیاسی عزائم اور اس دور کے منظر نامے کی تفہیم میں ممد ثابت ہوتے ہیں اور قارئین کو غوروفکر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں متن سے بصیرت انگیز سروکار فاضل مصنف کے کئی عشروں کو محیط تدریسی اور تصنیفی تجربے اور حقیقت شناسی اور استنباط اور استدلال کے ملکے کے غماز ہیں۔
مصنف کا ایک قابل قدر کارنامہ مکاتیب سرسید کے امتیازات کو منظر عام پر لاناہے۔ سرسید کی ہمہ جہتی شخصیت اور درخشاں کارناموں کے تذکرے میں بالعموم ان کے مکاتیب پس پشت رہے ہیں جب کہ کسی مصنف اور اس کے عہد کے مطالعے اور تحلیل وتفہیم میں مکاتیب کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا شمار بنیادی مصادر میں ہوتا ہے کہ خطوط آراء، ردعمل اور اظہار ذات کا اہم وسیلہ ہوتے ہیں۔ فاضل مصنف نے مکاتیب سرسید کے مختلف مجموعوں اور ایڈیشنوں کا تعارف شرح وبسط کے ساتھ پیش کیاہے جو کہ تحقیق کے نئے باب وا کرنے میں معین ہوگا۔ البتہ اس باب کا اہم تر پہلو مکاتیب کی روشنی میں سرسید کی شخصیت اور افکار کی توضیح اور تنقید ہے۔ یہاں معروضیت، تحقیق کے اعلیٰ معیار کی پاسداری، عبارت کے بغائر اور نتیجہ خیز مطالعے، تشریح میں وسیع ترتناظر کا اہتمام اور فکرسرسیدـؒ سے کما حقہ واقفیت کے خیرہ کن جلوے فاضل مصنف کے کمالات کے آئینہ دار ہیں۔ ان مکاتیب کے حوالے سے سرسیدؒکی شخصیت ایک حساس، باخبر اور ہوش مند اور جامع صفات کے حامل فرد کے طور پر سامنے آتی ہے جو اپنے اہل وعیال کے دکھ سکھ میں اپنے تمام قلبی جذبات اور فرط تعلق کے ساتھ شریک ہے۔ ملک وملت کے معاملات میں بھی یہی فکر مندی، اپنی ذمہ داری کی مسئولیت، صورت حال کو بہتر بنانے کا عزم او رزندگی کے تئیں صحت مند، تعمیری جذبے ملتے ہیں جو کہ سرسیدؒ کی عظمت کے شاہد ہیں۔ فاضل مصنف نے اس ضمن میں اس بنیادی نکتے کو متعین کیا ہے کہ مکاتیب بھی سرسید کے اصلاحی پیغام کے آئینہ دار ہیں اور ان میں قدرِ مشترک بطور مصلح سرسید کی حیات اور افکار ہیں۔ اس بامعنی اور گراں قدر تجزیے کے لیے فاضل مصنف داد وتحسین کے مستحق ہیں۔ صرف اسی باب کا کیا مذکور، پوری تصنیف سرسید شناسی، ملّی اور فکری تاریخ پر مبصرانہ نقدونظر اور پیش کش کے دلکش پیرائے سے عبارت ہے۔
بحیثیت مجموعی یہ تصنیف مطالعات سرسید میں امتیازی شان کی حامل ہے کہ یہاں روایتی خراج تحسین کے بجائے سروکار سرسید کے افکار کی تشریحِ نو سے ہے جو قارئین کے لیے ایک اہم علمی تحفہ ہے یہ ان کے قلب وذہن کو منور کرنے میں ممد ہوگی۔ فاضل مصنف اس فکر انگیز تصنیف کے لیے قابل ستائش ہیں۔
عبدالرحیم قدوائی
ڈائریکٹر مرکز برائے علوم القرآن
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ-۲

Leave a Comment