معروف شاعرہ عنبرین صلاح الدین سے ناز بٹ کا مکالمہ


٭ناز بٹ،کرا چی

مدیر الشرق سنڈے وائس میگزین

معروف شاعرہ ، ادیبہ اور ماہر ِ تعلیم عنبرین صلاح الدین ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ، آپ پروفیسر محمد منورمرزا (ستارہ امتیاز) کی نواسی، معروف مصنف اور کالم نگار صلاح الدین ایوبی کی صاحبزادی اورمعروف شاعر سجاد بلوچ کی شریک ِ حیات ہیں ۔۔۔۔۔ محبت ، سنہرے خوابوں ، سچے اور کومل جذبات کی یہ باجمال اورحساس شاعرہ نظم اور غزل دونوں پر یکساں دسترس رکھتی ہیں ۔۔۔ عنبرین سے گزشتہ دنوں ہوا مکالمہ قارئین کی نذر :

ناز بٹ : اپنے ادبی اور سوانحی پس منظرسے آگاہی دیجئے۔

عنبرین : ادبی پس منظر کی بات کی جائے تو ایسا ہے کہ میں نےاپنے گھر میں شروع سے ہی علمی اور ادبی ماحول دیکھا۔ میرے نانا پروفیسر محمد منور مرزا، جنہیں ہم سب ابا جان کہتے تھے، ایک بڑے مصنف، محقق اور استاد تھے، اور میرے والدبھی دینی و ملی موضوعات پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ میرے دادابھی عالم تھے اور ان تینوں احباب کی مشترکہ کتب کا ذخیرہ کوئی دس، بارہ ہزار کتابوں پر مشتمل تھا۔ مجھے یاد نہیں کب ایسا ہوا، مگر گھر کی لائبریری میری پسندیدہ جگہ بن گئی۔ مجھے پیلی کتابوں، باریک لکھائی، کتابوں کی بوسیدہ خوشبو ہر وقت لائبریری میں کھینچتی تھی۔ یہاں میں نے مجلسِ ترقی ادب کا شائع شدہ اساتذہ کا کلام بھی پڑھا ، اورکس کس کتاب کا ذکر ہو، اوریانا فلیچی کا انٹرویو وِد ہسٹری،ہیلن کیلر کی مائی رلیجن، انگریزی ادب کی بڑی بڑی اینتھولوجیز۔۔۔ پھر بہت سی کتابیں ابو نے خود مجھے دیں جن میں الزبیتھ جیننگز، ایزرا پاؤنڈ اور ڈینس لورٹوکی شاعری کے ساتھ ساتھ روسی اور فرانسیسی ادب کے انگریزی تراجم شامل تھے اور ہاں میری کوریلی سے تو مجھے شدید محبت ہو گئی تھی۔ وہ ناول میں جیسی فضا بناتی تھی، وہ اسی کا خاصا تھا۔ اس دور میں کرائم اینڈ پنشمینٹ، نوزیا، مدر،سوروز آف سیٹین، اے پیئر آف بلیو آئز۔۔۔ میری پسندیدہ کتابیں بن گئیں۔ بیشتر کو بارہا پڑھا اور اب سوچتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعی سچ ہے کہ اب وقت بہت تیزی سے گزرجاتا ہے۔ ایک کتاب مکمل پڑھنا مشکل ہو گیا ہے۔ تو یہ وہ سب پس منظر تھا کہ جہاں کتابوں تک ہمہ وقت رسائی تھی اور میں نے کفرانِ نعمت نہیں کیا۔ اور ایک اہم بات یہ کہ میری نانی کو پنجابی کے بڑے شاعروں کا بہت سا کلام یاد بھی تھا اور ان کے پاس بہت سی کتابیں بھی تھیں، سو اس خزانے سے بھی استفادہ کیا ۔ یہ سچ ہے کہ شاعری کے لئےقدرتی طور پر ایک ردھم اپنے اندر ہونا بھی ضروری تو ہوتا ہے، مگر نانو جی کے بار بار پڑھنے سے جو ردھم اور وزن کی تربیت ہوئی، اس کا یقینا کچھ نہ کچھ کردار توضرور ہے میری شاعری میں۔
باقی یہ کہ میں نے ایم اے فلسفہ اور ایم اے تاریخ کیا اور پھر صنفی مطالعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی۔ صنفی مطالعات میں یہ پہلی پاکستانی پی ایچ ڈی ہے۔میری والدہ گھریلو عورت ہیں مگر یہ ضرور کہنا چاہئے کہ یہ جو ہم پانچ بہن بھائیوں نے خوب پڑھا لکھا اور اپنے کاموں میں مصروف ہیں، اس میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔2015میں غزل کے اہم شاعرسجاد بلوچ، میرے جیون ساتھی بنے اور ماشاء اللہ میری خوب صورت زندگی اور بھی حسین ہو گئی!

ناز بٹ : عملی زندگی کا آغاز کب اور کہاں سے کیا؟

عنبرین : ایم اے فلسفہ کے بعد، 2004میں لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوئی۔2008 میں یو نیوسٹی آف مینجمینٹ اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوئی اور فی الوقت اسی یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اور صدر شعبہء صنفی مطالعات فرائض سرانجام دے رہی ہوں۔اس کے علاوہ آن لائن کام کرتی رہی، ایک سوفٹ ویئر ہاوس کے لئے بھی لکھا، وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر کچھ اور جامعات میں بھی پڑھایا۔ بہت مصروف رہی ہوں میں!
عنبرین ایک ہے، بکھیڑے سَو، اور گزر بھی گیا ہے آدھا دِن!

ناز بٹ : ادب سے شوق کی ابتداء؟

عنبرین : پہلے سوال کے جواب میں کچھ پس منظر آپ کو بتایا ہے۔ باقاعدہ لکھنے کا آغاز،چھٹی ، ساتویں جماعت سے انگریزی میں نظمیں لکھنے سے کیا۔ پھر کالج کے زمانے میں بین الکلیاتی مشاعروںمیں بھرپور حصہ لیا اور لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی سےco-curricular roll of honourملا۔پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ میگزین، محور کی ایڈیٹر رہی۔ایم اے کے فورا بعد ادبی مجلوں میں شاعری بھیجنے کی ٹھانی اور خوش قسمتی تھی کہ محترم احمد ندیم قاسمی نے فنون اور ڈاکٹر وزیر آغا نے اوراق میں شاعری شامل کی۔ بس پھر سلسلہ چل نکلا۔

ناز بٹ : اپنی تصانیف کے بارے میں بتائیں؟

عنبرین : اردو شاعری کی پہلی کتاب سرِ دشتِ گماں2004میں شائع ہوئی اور اسے، پین پاکستان، کی جانب سے بیسٹ فرسٹ بک ایوارڈ بھی دیا گیا۔شاعری کی دوسری کتاب صدیوں جیسے پَل، 2014میں شائع ہوئی۔ ایک ریسرچ کی کتاب، Feminism in modern Urdu poetessesسن2005میں شائع ہوئی۔ فرہنگ ِصنفی مطالعات، غالبا صنفی مطالعات کی اردو میں پہلی جامع فرہنگ، اسی ماہ اور ایک دو اور کتابیں زیرِ طبع ہیں جو اسی سال سامنے آئیں گی۔

ناز بٹ : آپ کے نزدیک شاعری کیا ہے ؟؟

عنبرین : شاعری جذبہ ہے، احساس ہے۔ مشاہدہ بھی ہے، تجربہ بھی۔ بہت سی باتیں کی جا سکتی ہیں۔ مگر میں تخلیق کار کی حیثیت سے جب دیکھتی ہوں تو ان سب کے ساتھ، کچھ ایسا عنصر ہے شاعری کا جو الفاظ کی گرفت میں نہیں آتا بلکہ ایک تخلیق کار کی حسیت کی کسی ناقابلِ گرفت سطح پر کہیں موجود ہوتا ہے۔ یہ اصل عنصر ہے جو تخلیق کی وجہ بنتا ہے۔ کوئی احساس، کوئی بات، کوئی خوشبو جو یاد آ کر بھی نہ یاد آئے۔ کچھ ایسا۔۔جہاں یہ اضافی عنصر نہیں ہوتا، بس سمجھ جائیں یہ وہی شعر ہیں جو گھڑے جاتے ہیں اور قاری کو بالکل اپنی گرفت میں نہیں لیتے۔

ناز بٹ : وہ کون سے چند نام تھے جن سے آپ تخلیقی سفر کے آغاز میں متاثر ہوئیں؟

عنبرین : بہت نام ہیں، کچھ کا ذکر پہلے بھی ہوا۔ اردو شاعری میں میر وغالب ، اقبال اور مجید امجد سے شروع سے متاثر تھی، اب تک متاثر ہوں۔ پنجابی کلاسیکی شاعری بہت پسند ہے؛ میاں محمد بخش، وارث شاہ،غلام رسول عالمپوری۔۔بہت شروع سے انگریزی ادب وشاعری بشمول عالمی ادب کے انگریزی تراجم کو زیادہ پڑھا اور اس کا اثر بھی ساتھ ساتھ رہا۔ان شاعروں اور فکشن نگاروں میں میری کوریلی،ہارڈی، دوستووسکی ، سارتر، الزبیتھ جیننگز، ڈینس لیورٹو، اور پھر کچھ عرصہ بعد کنڈیرا، گارشیا ماکیز، امبرٹو ایکو، گنتر گراس، ایزرا پاؤنڈاور بہت سے نام میرے سفر میں بہت اہم ہیں۔ان میں اکثر مصنفین سے میں نے اپنے ارد گرد کو کسی اور طرح جاننے، سمجھنے اور خود میں جذب کر کے نئے سرے سے ، اپنے انداز میں تخلیق کرنے کا ہنر سیکھا۔

ناز بٹ : فروغ ِ ادب کے لیے تنقید کہاں تک کارآمد ہو سکتی ہے اور آج کل کے تنقیدی رویے پر کیا کہنا چاہتی ہیں ؟

عنبرین : تنقید اہم ہے۔ کسی تخلیق کار کو اچھا نقاد ملنا بھی نعمت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری تنقید میں تخلیق کار کے کام کو دیکھنے کا سلسلہ ابھی اس سطح پر شروع ہی نہیں ہوا۔ مغربی تھیوری کی تشریح اور اس پر بحث کی بجائے اس کو تخلیق سے جوڑ کر دیکھا جانا ضروری تھا۔ اور جنہیں اعتراض ہو کہ یہ ہماری تھیوری نہیں، وہ اپنی ادبی اور سماجی تھیوری ضرور بنائیں۔ مگر جب تک نہیں بن رہی، جو موجود ہے، اس کا اطلاق تو کر دیکھیں۔

ناز بٹ : آپ کی شاعری کے بنیادی امتیازات ؟ جن پر آپ سمجھتی ہیں کہ ابھی تک اہل ِ فن کی نظر نہیں گئی ؟
عنبرہن : یہ بات تو آپ کو ناقدین ہی بتا سکتے ہیں۔

ناز بٹ : مشاعروں پر جو زوال آیا ہے آخر اس کا ذمہ دار کون ہے۔ آج کل شاعری کے نام پر مشاعروں میں جو کچھ پیش کیا جارہا ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟

عنبرین : مشاعرہ اب سنجیدہ شاعری کا پلیٹ فارم نہیں رہا۔ بہت کم لوگ ہیں جو جانتے بوجھتے اپنی سنجیدہ تخلیقات پیش کرتے ہیں۔ بیشتر نے مشاعراتی شاعری کہہ رکھی ہے۔ اور زیادہ بڑی تعداد ان کی ہے جو اپنی کتابوں میں بھی صرف مشاعراتی شاعری ہی پیش کریں گے کیوں کہ مشاعرے نے ان کے لئے یہ تمیز ختم کر دی ہے۔ مشاعرے میں اب صدرِ مجلس ہی تعداد میں ایک رہ گئے ہیں ورنہ اگر تین درجن شاعر ہوں تو ایک درجن مہمانانِ خصوصی اور ایک درجن مہمانانِ اعزاز ہوتے ہیں۔ سنجیدگی کی آپ کیا بات کرتی ہیں!

ناز بٹ : ذاتی تجربات و مشاہدات ایک فن کار کی تخلیقات پر کہاں تک اثر انداز ہوتے ہیں؟
عنبرین : تخلیق کار اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات ہی کو تو اپنے احساس اور ہنر مندی سے فن کا روپ دیتا ہے۔

ناز بٹ : کیا وجہ ہے کہ خواتین لکھاریوں کو شعبہ ء ادب میں مشکل سے تسلیم کیا جاتا ہے ؟

عنبرین : اس ملک کے ادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کچھ عورتوں کو تو کافی مقبولیت ملی ۔ویسے میں مردوں اور عورتوں کے الگ خانے بنانے کی قائل تو نہیں، مگر ایک بات کرنا چاہوں گی کہ میں نے عورتوں کے لکھےہوئے فکشن پر کام کیا ہے۔ اور ارادہ ہے کہ وہ بھی جلد شائع کروں۔ کیوں کہ اس کام کو کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ جنہیں گلوریفائی کیا گیا، وہ تخلیق کی وجہ سے نہیں کیا گیا۔ اور جو ناقدین یا مصنفین کے حوالے سے قبولیت کے اس درجے پر نہیں آ سکیں، ان کی تخلیق اتنی کمزور نہیں تھی کہ ان پر بات ہی نہ کی جاتی۔
اصل بات یہ ہے کہ عورت تخلیق کار جب سامنے آتی ہے ، مردوں کی ایک بڑی تعداد ادھر ادھر دیکھنے میں مصروف ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے کون ہے جو اس کو شاعر، افسانہ نگار یا کالم نویس بنا رہا ہے۔ یا ہم میں سے کون اسے لے پالک بنا سکتا ہے۔میں اس بات سے انکار نہیں کرتی کہ اچانک تخلیق کار، خاص طور پر شاعر بننے والی عورتوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، مگر ایسےاچانک سامنے آنے والے مرد شاعر بہرحال تعداد میں زیادہ ہی ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ عورتوں کے بارے آئے روز سوشل میڈیا پر ہی ، زیادہ تر تیسرے درجے کے مرد تخلیق کاروں کی جانب سے سوال کیا جاتا ہے کہ فلاں عورت شاعرجینوئن ہے کہ نہیں۔ یا عورت شاعروں میں سے خوب صورت کون ہے اور کون نہیں۔شعر اچھے ہیں تو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ خود لکھے ہوں۔ تو یہ سب دیکھ کر دل بہت اداس ہوتا ہے۔ یہاں کے مردوں کی بڑی تعداد ،عورت کو تخلیق کار نہیں، صرف ایک عورت کے طور پراور وہ بھی ایک آبجیکٹ کے طور پرہی دیکھ سکتی ہے۔

ناز بٹ : آپ کو بطور ِ خاتون لکھاری میدان ِ ادب میں کسی قسم کی مشکلات درپیش آئیں ؟ اگر ایسا ہے تو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟

عنبرین : عورت تخلیق کار! ابھی یہی تو بات کی میں نے کہ مجھے لگتا ہے کہ تخلیق کار کی پخ نہ بھی لگائیں تو عورت ہونا ہی مسئلہ ہے ۔اگر عورت تخلیق کار ہے تو مسئلہ مزید بڑا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے ذہن سے سوچتی بھی ہے اور اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔ اور اگر بہت کمٹڈ ہے تو جو سوچتی اور کہتی ہے، ویسا کرتی بھی ہے۔سو اس سے راستے ذرا مشکل ہو جاتے ہیں۔ بطور عورت تخلیق کار، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بڑا مسئلہ مجھے پیش آیا۔ یا شاید گھر کا ماحول اور پھر ابو کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں یہ بات کہہ سکتی ہوں۔ ہاں ذہنی طور پر کچھ ایسی رکاوٹیں ضرور محسوس کرتی ہوں کہ عورت کو تخلیق کار نہیں، عورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔بات کرنے، کسی بحث میں حصہ لینے وغیرہ سے لے کر کسی ادبی محفل میں موجودگی تک کے بارے میں تھوڑا سوچنا پڑتا ہے جب کہ مرد تخلیق کار کے لئے ایسی کوئی رکاوٹ نہیں۔

ناز بٹ : نظم یا غزل دونوں میں سے آپ سہولت کہاں محسوس کرتی ہیں اور اس سہولت کی وجہ ؟

جواب: میں نے کہیں پہلے بھی کہا تھا کہ خیال اپنی ساخت ساتھ لاتا ہے سو میں کبھی نظم کہتی ہوں، کبھی غزل کا شعر ہو جاتا ہے۔ ہاں میں نے انگریزی میں تو فری ورس میں لکھا، اردو میں نہیں۔

16۔ادبی افق پر خواتین میں فیض ، مجید امجد ، ن میم راشد ، فراز ، منیر نیازی , ظفر اقبال اور دیگر بڑے شاعروں جیسے بڑے نام کیوں نہیں ھیں ؟؟
جواب: دیکھیں اس پر میں نے ایک تفصیلی مضمون بھی لکھا ہے۔ بات اتنی آسان نہیں ہے۔ مختصرا یہ کہ پہلی بات،عورت تخلیق کار کو، مرد کی ڈکٹیشن کی بجائے خود مشاہدہ کرنے، اپنےذہن سے سوچنے، خود نتائج نکالنے جیسے عمل کرتے ہوئے وقت ہی کتنا ہوا ہے۔ دوسری بات یہ کہ عورت اگر ایسا لکھے جو مرد کے متعین کردہ معیار کے مطابق ہو تو ٹھیک ہے، مردانہ وار لکھنا اچھا ہے، ہاں اپنی زبان میں بات کرے تو یہ تو عورت کی زبان اور لہجہ ہے جو کہ معیار نہیں ہو سکتا۔ آخر عورت ، بقول ہیلین سیکوس، اپنا آپ اپنی تحریر میں کیوں نہیں لا سکتی۔ اسے مرد کی زبان اور اس کے متعین کردہ معیار کے مطابق ہی کیوں خود کو پیش کرنا ہے۔ جیسے عورت کے وجود کو مرد کے معیار کے، اس کی نظر کے مطابق ہونا چاہئے، ویسے ہی تحریر کا معاملہ بھی ہے۔
ہسٹری تو his story ہے۔ یہ ہزاروں سال کی تاریخ تو ہے ہی مردوں کی تاریخ۔ پہلے یہ دیکھیں کہ عورتوں کو ابھی عالمی سطح پر ہی وِچ برننگ اور چینی پا بستگی جیسی تشدد کی صورتوں سےنکلے وقت ہی کتنا گزرا ہے؟پھر بھی الزبیتھ جینگز، ڈینس لیورٹو، ایملی ڈکنسن، الزبیتھ بیرٹ براؤننگ، فروغ فرخ زاد،سیفو، کرسٹینا روزیٹی ، ورجینیا وولف، شارلٹ برونٹے،ایلس منرو، ڈورس لیسنگ ، سمون دی بووائروغیرہ جیسے نام موجود ہیں ۔ ہمارے معاشرتی، ثقافتی، تہذیبی پس منظر کو دیکھیں، جہاں عورت ستی، سوارہ، ونی، کاروکاری، بچپن کی شادی اور تیزاب گردی جیسے مسائل سے الجھتی رہی اور الجھ رہی ہے، باقی وقت گھر، بچے، سسرال، شوہر ، معاشرےکے لئے ہے، تو تخلیق کاوقت کہاں سے ملے گا؟پھر بھی اس خطے نے امرتا پریتم، ادا جعفری، پروین شاکر، قراہ العین حیدر،خالدہ حسین کو تو دیکھا ہے۔

ناز بٹ : نئی نسل کی شاعرات میں کوئی پوٹینشل نظر آتا ھے ؟

عنبرین : اگرمیرے ہم عصروں کے بعد کی بات ہو رہی ہے تو میں کہوں گی کہ مجھے تو بہت اچھے شعر نظر آتے رہتے ہیں۔ دل خوش ہوتا ہے دیکھ کر۔خاص طور پر اس خطے میں جہاں چند دہائیاں پہلے شاعر عورتوں نے بہت مشکل وقت دیکھا، اب بہت سی لڑکیاں جب لکھتے ہوئے، اپنی بات کہتے ہوئے نظر آتی ہیں تو اچھا لگتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ ان میں سےہر شاعر کی کوئی دو چار تخلیقات سے زیادہ چیزیں اب تک نظر نہیں آئیں اوربیشتر کی کتابیں بھی ابھی نہیں آئیں اور ایک آدھ شعر یا نظم کی کسی لائین کو دیکھ کر کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہوتا ہے۔

18۔ عنبرین بحیثیت بہن، بیٹی اور بیوی؟

جواب: ویسے اس کا جواب تو میرے اماں، ابا، بہن بھائی اور سجاد ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ میں کیسی ہوں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ گھر کا ماحول علمی اور ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ دوستانہ بھی تھا۔ میرا خیال ہے دنیا کی کوئی بات ایسی نہیں کہ جو ہم بہن بھائی آپس میں یا امی ابو کے ساتھ شئیر نہیں کر سکتے تھے۔۔۔کھیلنا، سیر کرنا، ٹیلی وژن دیکھنا، موسیقی سننا۔ہم بہن بھائیوں میں ذہانت اور تخلیقی سپارک بچپن سے بہت زیادہ تھا۔ ہمارے بہت عزیز گھریلو ملازم، بابا جی،ہم سب کے بارے میں کہا کرتے تھےکہ یہ کوئی بچے ہیں، یہ تو افلاطون کے بچے ہیں۔سو اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ ہم اپنے والدین کے لئے اچھے خاصے مشکل بچے تھے۔ میری شاعری کے پہلے قاری ابو تھے اور اب ابو اور سجاد دونوں ہیں۔ میری دونوں بہنوں کو بھی میری شاعری سننے کےمشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا اور ان کو داد دینا بنتا ہے کیوں کہ انہوں نے میرا مطبوعہ اورغیر مطبوعہ کلام اور ہر دور کا کلام سنا اور پڑھا۔ بھائی بھی ماشاءاللہ بہت پڑھے لکھے اور ساتھ دینے والے ہیں۔سب بہن بھائی سیاسی و سماجی شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کی مختلف شکلوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ شادی ہوئی تو اللہ تعالی نے بہت کرم کیا کہ سجاد بلوچ جیسے ساتھی سے ملایا۔ ہم بہت گہرے دوست ہیں۔ اپنی شاعری، دوسروں کی شاعری، فکشن، نان فکشن، موسیقی، مصوری، میڈیا، فلم،سیاست، سائینس۔۔ سب پر گھنٹوں باتیں ہوتی ہیں، خوب بحث ہوتی ہے۔دونوں کا تخلیق کار ہونایوں بھی فائدہ مند ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے کام کو، کام کرنے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ مگر آپس میں اتنے اچھے تعلق کے ساتھ کام کے لئے وقت نکالنا تھوڑا سا مشکل ضرور ہوتا ہے۔سو جو وقت ہمیں ایک دِن میں ایک دوسرے سے دور گزارنا پڑتا ہے، اس دوران ہم کافی کام کر لیتے ہیں۔ کتابیں پڑھ لیتے ہیں۔ ویسے کچھ کتابیں، جیسے شاعری، مِل کر بھی پڑھتے ہیں۔

ناز بٹ : کیا کھویا؟ کیا پایا ؟ زندگی سے مطمئن ھیں؟

عنبرین : زندگی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے، بہت سے لوگوں کو کھونا پڑتا ہے۔ مجھے اپنے نانا، نانو، دادا اور دادی کے ساتھ ایک ہی گھر میں گزرا بچپن بہت یاد آتا ہے۔ سو سوال یہ کہ کیا کھویا، تو انہی ہستیوں کو کھونے کا بہت ملال ہے۔زندگی سے مطمئن ہوں، خوش ہوں اور اللہ تعالی نے بہت کچھ عطا کیا۔ جو ملااور جو اطمینان میسر ہے، وہ سب یقینا اللہ کی دین ہے۔

ناز بٹ : کوئی حسرت؟ کوئی آرزو ؟

عنبرین : شکر الحمد للہ۔۔ اللہ کی بہت مہربانی ہے ، اس نے بہت کچھ دیا

ناز بٹ : کوئی بے حد آسودہ وقت ؟ تخلیقی سطح پر بھی اور زندگی کی سطح پر بھی ؟
عنبرین : میرا خیال ہے کہ جتنا وقت اب تک گزرا، آسودگی میں گزرا۔ اور مجھے انشاءاللہ یقین ہے کہ آنے والا وقت بھی بہت اچھا ہے۔

ہماری بھی یہی دعا ہے کہ عنبرین کا یقین ہمیشہ سلامت رہے آمین

Leave a Comment